جماعت کا بیان
حدیث ۱: بخاری و مسلم و مالک و ترمذی و نسائی ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی ہیںکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں نماز جماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس (۲۷) درجہ بڑھ کر ہے۔
حدیث ۲: مسلم و ابو دائود و نسائی و ابن ماجہ نے روایت کی کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ہم نے اپنے کو اس حالت میں دیکھا کہ نماز سے پیچھے نہیں رہتا مگر کھلا منافق یا بیمار اور بیمار کی یہ حالت ہوئی کہ دو شخصوں کے درمیان چلا کر نماز کو لاتے اور فرماتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو سنن الہُدیٰ کی تعلیم فرمائی اور جس مسجد میں اذان ہوتی ہے اس میں نماز پڑھنا سنن الہُدیٰ ہے اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جسے یہ اچھا معلوم ہو کہ کل خدا سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملے تو پانچوںہی نمازوں پر محافظت کرے جب ان کی اذان کہی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لئے سنن الہُدیٰ مشروع فرمائی اور یہ سنن الہُدیٰ سے ہے اور اگر تم نے اپنے گھروں میں پڑھ لی جیسے یہ پیچھے رہ جانے والا اپنے گھروں میں پڑھ لیا کرتا ہے تو تم نے اپنے نبی کی سُنت چھوڑ دی اور اپنے نبی کی سُنت کو چھوڑو گے تو گمراہ ہو جائو گے اور ابو دائود کی روایت میں ہے کافر ہو جائو گے اور جو شخص اچھی طرح طہارت کرے پھرمسجد کو جائے تو جو قدم چلتا ہے ہر قدم کے بدلے اللہ تعالیٰ نیکی لکھتا ہے اور درجہ بلند کرتا ہے اور گناہ مٹا دیتا ہے ۔
حدیث ۳: نسائی و ابن خزیمہ اپنی صحیح میں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جس نے کامل وضو کیا پھر نماز فرض کے لئے چلا اور امام کے ساتھ پڑھی اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
حدیث ۴: طبرانی ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں اگر یہ نماز جماعت سے پیچھے رہ جانے والا جانتا کہ اس رہ جانے والے کے لئے کیا ہے تو گھسٹتا ہوا حاضر ہوتا۔
حدیث ۵،۶: ترمذی انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جو اللہ کے لئے چالیس (۴۰) دن جماعت پڑھے اور تکبیر اُولیٰ پائے اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی ایک نار سے دوسری نفاق سے ابن ماجہ کی روایت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے کہ فرماتے ہیں جو شخص چالیس راتیں مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھے کہ عشاء کی تکبیر اُولیٰ فوت نہ ہو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دے گا۔
حدیث ۷: ترمذی ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی فرماتے ہیں ﷺ رات میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور ایک روایت میں ہے میں نے اپنے رب کو نہایت جمال کے ساتھ تجلّی فرماتے ہوئے دیکھا اس نے فرمایا اے محمد میں نے عرض کی لَبَّیْکَ وَسَعْدَیکَ اس نے فرمایا تجھے معلوم ہے ملاء اعلی (یعنی ملائکہ مقر بیں) کس امر میں بحث کرتے ہیں میں نے عرض کی نہیں جانتا اس نے اپنا دستِ قدرت میرے شانوں کے درمیاں رکھا یہاں تک کہ اس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں پائی تو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے میں نے جان لیا اور ایک روایت میںہے جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے جان لیا فرمایا اے محمد جانتے ہو ملاء اعلیٰ کس چیز میں بحث کرتے ہیں میں نے عرض کی ہاں درجات و کفارات اور جماعتوں کی طرف چلنے اور سخت سردی میں پورا وضو کرنے اور نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں۔ اور جس نے ان پر محافظت کی خیر کے ساتھ زندہ رہے گا اور خیر کے ساتھ مرے گا اور اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو گیا جیسے اس دن کہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا اس نے فرمایا اے محمد میں نے عرض کی لَبَّیْکَ وَسَعْدَیکَ فرمایا جب نماز پڑھو تو یہ کہہ لو۔
اَللَّھُمَّ اِنِّی اَسْئَالُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَ تَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ فَاِذَا اَرَدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاَقْبِضْنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ ط
(اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اچھے کام کروں اور بُری باتوں سے باز رہوں اور مساکین سے محبت رکھوں اور جب تو اپنے بندوں پر فتنہ کرنا چاہے تو مجھے اس کے قبل اُٹھا لے)
فرمایا اور درجات یہ ہیں سلام عام کرنا اور کھانا کھلانا اور رات میں نماز میں پڑھنا جب لوگ سوتے ہیں۔
حدیث ۸،۹: امام احمد و ترمذی نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یوں روایت کی ہے کہ ایک دن صبح کی نماز کو تشریف لانے میں دیر ہوئی یہاں تک کہ قریب تھا کہ ہم آفتاب کو دیکھیں کہ جلدی کرتے ہوئے تشریف لائے اقامت ہوئی اور مختصر نماز پڑھی سلام پھیر کر بلند آواز سے فرمایا سب اپنی جگہ رہو میں تمہیں خبر دوں گا کہ کس چیز نے صبح کی نماز میں آنے سے روکا میں رات میں اٹھا وضو کیا اور جو مقدر تھا نماز پڑھی پھر میں نماز میں اونگھا ( اس کے بعد اُسی کے مثل واقعات بیان فرمائے اور اس روایت میں یہ ہے) اس کے دستِ قدرت رکھنے سے ان کی خنکی میں نے اپنے سینہ میں پائی تو مجھ پر ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے پہچان لی اور اس روایت میں یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا کفارات کیا ہیں میں نے عرض کی جماعت کی طرف چلنا اور مسجدوں میں نمازوں کے بعد بیٹھنا اور سختیوں کے وقت کامل وضو کرنا اس کے آخر میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ حق ہے اسے پڑھو اور سیکھو ترمذی نے کہا یہ حدیث صحیح ہے اور میں نے محمد بن اسماعیل یعنی بخاری سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا تو جواب دیا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اسی کے مثل دارمی و ترمذی نے عبدالرحمن عائش رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی۔
حدیث۱۰: ابودائود و نسائی و حاکم ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جو اچھی طرح وضو کر کے مسجد کو جائے اورلوگوں کو اس حالت میں پائے کہ نماز پڑھ چکے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی جماعت سے پڑھنے والوں کی مثل ثواب دے گا اور ان کے ثواب سے کچھ کم نہ ہو گا حاکم نے کہا یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
حدیث۱۱: امام احمد و ابودائود و نسائی و حاکم اور ابن خزیمہ و ابن حبان اپنی صحیح میں ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ ایک دن صبح کی نماز پڑھ کر ﷺ نے ارشاد فرمایا آیا فلاں حاضر ہے لوگوں نے عرض کی نہیں فرمایا فلاں حاضر ہے لوگوں نے عرض کی نہیں فرمایا یہ دونوں نمازیں منافقین پر بہت گراں ہے اگر جانتے کہ ان میں کیا (ثواب) ہے تو گھٹنوں کے بل گِھسٹتے آتے اور بے شک پہلی صف فرشتوں کی صف کے مثل ہے اور اگر تم جانتے کہ اس کی فضیلت کیا ہے تو اس طرف سبقت کرتے مرد کی ایک مرد کے ساتھ نماز بہ نسبت تنہا کے زیادہ پاکیزہ ہے اور دو کے ساتھ بہ نسبت ایک کے زیادہ اچھی اور جتنے زیادہ ہوں اللہ عزوجل کے نزدیک زیادہ محبوب ہیں۔ یحییٰ بن معین اور ذہلی کہتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے۔
حدیث۱۲: صحیح مسلم میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ فرماتے ہیں ﷺ جس نے باجماعت عشاء کی نماز پڑھی گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی گویا پوری رات قیام کیا اسی کے مثل ابو دائود و ترمذی و ابن خزیمہ نے روایت کی۔
حدیث۱۳: بخاری و مسلم ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی فرماتے ہیں ﷺ منافقین پر سب سے زیادہ گراں نماز عشاء و فجر ہے اور جانتے کہ اس میں کیا ہے تو گھسٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں نے قصد کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو امر فرمائوں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں اس کے پاس لے کر جائوں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلادوں امام احمد نے انہیں سے روایت کی کہ فرماتے ہیں اگر گھروں میں عورتوں اور بچے نہ ہوتے تو نماز عشاء قائم کرتا اور جوانوں کو حکم دیتا کہ جو کچھ گھروں میں ہے آگ سے جلا دیں۔
حدیث۱۴: امام مالک نے ابو بکر سلیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ امیر المومنین فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صبح کی نماز میں سلیمان بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں دیکھا بازار تشریف لے گئے راستہ میں سلیمان کا گھر تھا ان کی ماںشفاء کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ صبح کی نماز میں نے سلیمان کو نہیں پایا انہوں کے کہا رات میں نماز پڑھتے رہے پھر نیند آگئی اور فرمایا کہ صبح کی نماز جماعت سے پڑھوں یہ میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ رات میں قیام کروں۔
حدیث۱۵: ابو دائود و ابن ماجہ و ابن حبان ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ جس نے اذان سُنی اور حاضر نہ ہوا اور آنے سے کوئی عذر مانع نہیں اس کی وہ نماز مقبول نہیں لوگوں نے عرض کی عذر کیا ہے فرمایا خوف یا مرض اور ایک روایت ابن حبان و حاکم کی انہیں سے ہے جو اذان سُنے اور بلا عذر حاضر نہ ہو اس کی نماز ہی نہیں حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔
حدیث۱۶: احمد و ابودائود و نسائی و ابن خزیمہ و ابن حبان و حاکم ابودردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ کسی گائوں یا بادیہ میں تین شخص ہوں اور نماز قائم نہ کی گئی مگر ان پر شیطان مسلّط ہو گیا تو جماعت کو لازم جانو کہ بھیڑیا اس ہی بکری کو کھاتا ہے جو ریوڑ سے دور ہو۔
حدیث۱۷تا۲۰ ابودائود و نسائی نے روایت کی کہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ مدینہ میں موذی جانور بکثرت ہیں اور میں نابینا ہوں تو کیا مجھے رخصت ہے کہ گھر پر پڑھ لُوں فرمایا حیّ علی الصلوٰۃ حیّ علی الفلاح سُنتے ہو عرض کی ہاں فرمایا تو حاضر ہو اسی کے مثل مسلم نے ابوہریرہ سے اور طبرانی نے کبیر میں ابو امامہ سے اور احمد و ابو یعلی اور طبرانی نے اوسط میں اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت کی۔
حدیث۲۱: ابودائود و ترمذی ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ ایک صاحب مسجد میں حاضر ہوئے اس وقت کہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ چکے تھے فرمایا ہے کوئی اس پر صدقہ کرے (یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھ لے کہ اسے جماعت کا ثواب مل جائے) ایک صاحب (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔
حدیث۲۲: ابن ماجہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں دو (۲) اور دو (۲) سے زیادہ جماعت ہے۔
حدیث۲۳: بخاری و مسلم ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں اگر لوگ جانتے کہ اذان اور صفِ اوّل میں کیا ہے پھر بغیر قرعہ ڈالے نہ پاتے تو اس پر قرعہ اندازی کرتے۔
حدیث۲۴: امام احمد و طبرانی ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں کہ اللہ اور اس کے فرشتے صفِ اوّل پر درود بھیجتے ہیں لوگوںنے عرض کی اور دوسری صف پر فرمایا اللہ اور اس کے فرشتے صفِ اوّل پر درود بھیجتے ہیں لوگوں نے عرض کی فرمایا اور دوسری پر اور فرمایا صفوں کو برابر کرو اور مونڈیوں کو مقابل کرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جائو اور کشادیوں کو بند کرو کہ شیطان بھیڑ کے بچے کی طرح تمہارے درمیان داخل ہو جاتا ہے۔
حدیث۲۵: بخاری کے علاوہ دیگر صحاح ستّہ میں مروی نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفیں تیر کی طرح سیدھی کرتے یہاں تک کہ خیال فرمایا کہ اب ہم سمجھ لئے پھر ایک دن تشریف لائے اور کھڑئے ہوئے اور قریب تھا کہ تکبیر کہیں کہ ایک شخص کا سینہ جماعت سے نکلا دیکھا فرمایا اے اللہ کے بندو صفیں برابر کرو یا تمہارے اندر اللہ تعالیٰ اختلاف ڈال دے گا بخاری نے بھی اس حدیث کے جزاخیر کو روایت کیا۔
حدیث۲۶: بخاری و مسلم و ابن ماجہ وغیرہم انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی فرماتے ہیں صفیں برابر کرو کہ صفیں برابر کرنا اتمام نماز سے ہے۔
حدیث۲۷: امام احمد و ابو دائود و نسائی و ابن خزیمہ و حاکم ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں جو صف کو ملائے گا اللہ تعالیٰ اسے ملائے گا اور جو صف کو قطع کرے گا اللہ تعالیٰ اسے قطع کرے گا حاکم نے کہا برشرط مسلم یہ حدیث صحیح ہے۔
حدیث۲۸: مسلم و ابو دائود و نسائی و ابن ماجہ جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں کیوں نہیں اس طرح صف باندھتے ہو جیسے ملائکہ اپنے ربّ کے حضور باندھتے ہیں عرض کی یا رسول اللہ کس طرح ملائکہ اپنے ربّ کے حضور صف باندھتے ہیں فرمایا اگلی صفیں پوری کرتے ہیں اور صف میں مِل کر کھڑے ہوتے ہیں۔
حدیث۲۹: امام احمد و ابن ماجہ و ابن خزیمہ و ابن حبان و حاکم ام المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے راوی حضور فرماتے ہیں اللہ اور اس کے فرشتے ان لوگوں پر درود بھیجتے ہیں جو صفیں باندھتے ہیں حاکم نے کہا یہ حدیث بشرط مُسلم صحیح ہے۔
حدیث۳۰: ابن ماجہ ام المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے راوی کہ فرماتے ہیں جو کشادگی کو بند کرے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک گھر بنائے گا۔
حدیث۳۱: سنن ابودائود و نسائی و صحیح ابن خزیمہ میں براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صف کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جاتے اور ہماے مونڈھے یا سینے پر ہاتھ پھیرتے اور فرماتے مختلف کھڑے نہ ہو کہ تمہارے دل مختلف ہو جائیں گے۔
حدیث۳۲تا۳۴:طبرانی ابن عمر سے اور ابودائود براء بن عاذب رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے راوی کہ فرماتے ہیں اس قدم سے بڑھ کر کسی کا قدم ثواب نہیں جو ا س لئے چلا کہ صف میں کشادگی کو بند کر دے بزاز باسناد حسن ابو حجیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ جو صف کی کشادگی بند کرے اس کی مغفرت ہو جائے گی۔
حدیث۳۵: ابو دائود و ابن ماجہ باسناد حسن ام المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے راوی کہ فرماتے ہیں اللہ اور اس کے فرشے صف کے داہنے والوں پر دُرود بھیجتے ہیں۔
حدیث۳۶: طبرانی کبیر میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں جو مسجد کی بائیں جانب کو اس لئے آباد کرے کہ اُدھر لوگ کم ہیں اسے دُونا ثواب ہے۔
حدیث۳۷: مسلم و ابودائود و ترمذی و نسائی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ مردوں کی سب صفوں میں بہتر پہلی صف ہے اور سب میں کم تر پچھلی اور عورتوں کی سب صفوں میں بہتر پچھلی ہے اور کم تر پہلی۔
حدیث۳۸،۳۹ ابو دائود و ابن ماجہ و ابن حبان ام المؤمنین صدیقہ سے اور مسلم و ابو دائود و نسائی و ابن ماجہ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ ہمیشہ صف اوّل سے لوگ پیچھے ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے مؤخر کرکے نار میں ڈال دیگا۔
حدیث۴۰: ابو دائود انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی فرماتے ہیں صف مقدم کو پورا کرو پھر اس کو جو اس کے بعد ہو اگر کچھ کمی ہو تو پچھلی میں ہو۔
حدیث۴۱: ابودائود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ عورت کا دالان میں نماز پڑھنا صحن میں پڑھنے سے بہتر ہے اور کوٹھری میں دالان سے بہتر ہے۔
حدیث۴۲: ترمذی ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں ﷺ ہر آنکھ زنا کرنے والی ہے (یعنی جو اجنبی کی طرف نظر کرے) اور بے شک عورت عطر لگا کر مجلس میں جائے تو ایسی اور ایسی ہے، یعنی زانیہ ہے ابودائود و نسائی میں بھی اسی کی مثل ہے۔
حدیث۴۳: صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعور رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ حضور فرماتے ہیں تم میں سے عقل مند لوگ میرے قریب ہوں پھر وہ جوان کے قریب ہوں (اسے تین بار فرمایا) اور بازاروں کی چیخ پکار سے بچو۔
احکام فقہیہ
مسئلہ۱: عاقل و بالغ، حر، قادر پر جماعت واجب ہے بلاعذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار اور مستحق سزا ہے اور کئی بار ترک کرے تو فاسق مردود الشہادت اور اس کو سخت سزا دی جائے گی اگر پڑوسیوں نے سکوت کیا تو وہ بھی گنہگار ہوئے۔ (درمختار ردالمحتار ج ۱ ص ۵۱۸ تا ۵۱۵ غنیہ)
مسئلہ۲: جمعہ و عیدین میں جماعت شرط ہے اور تراویح میں سُنت کفایہ کہ محلہ کے سب لوگوں نے ترک کی سب نے بُرا کیا اور کچھ لوگوں نے قائم کر لی تو باقیوں کے سر سے جماعت ساقط ہو گئی اور رمضان کے وتر میں مستحب ہے نوافل اور علاوہ رمضان کے وتر میں اگر تداعی کے طور پر ہو تو مکروہ ہے۔ تداعی کے یہ معنی ہیں کہ تین سے زیادہ مقتدی ہو۔ سورج گہن میں جماعت سنت ہے اور چاند گہن میں تداعی کے ساتھ مکروہ ہے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۱۶ تا ۵۱۵، عالمگیری )
مسئلہ۳: جماعت میں مشغول ہونا کہ اس کی کوئی رکعت فوت نہ ہو وضو میں تین تین بار اعضاء دھونے سے بہتر ہے اور تین تین بار اعضاء دھونا تکبیرۂ اُولیٰ پانے سے بہتر یعنی اگر وضو میں تین تین بار اعضاء دھوتا ہے تو رکعت جاتے رہے گی تو افضل یہ ہے کہ تین تین بار نہ دھوئے اور رکعت نہ جانے دے اور اگر جانتا ہے کہ رکعت تو مِل جائے کی مگر تکبیرۂ اُولیٰ نہ ملے گی تو تین تین بار دھوئے۔ (صغیری)
مسئلہ۴: مسجد محلہ میں جس کے لئے امام مقرر ہو امام محلہ نے اذان و اقامت کے ساتھ بطریق مسنون جماعت پڑھ لی ہو تو اذان و اقامت کے ساتھ ۂیات اُولی پر دوبارہ جماعت قائم کرنا مکروہ ہے اور اگر بے اذان جماعتِ ثانیہ ہوئی تو حرج نہیں جب کہ محراب سے ہٹ کر ہو اور اگر پہلی جماعت بغیر اذان ہوئی یا آہستہ اذان ہوئی یا غیروں نے جماعت قائم کی تو پھر جماعت قائم کی جائے اور یہ جماعت جماعتِ ثانیہ نہ ہو گی۔ ۂیات بدلنے کے لئے امام کا محراب سے داہنے یا بائیں ہٹ کر کھڑا ہونا کافی ہے شارع عام کی مسجد جس میں لوگ جوق جوق آتے اور پڑھ کر چلے جاتے ہیں یعنی اس کے نمازی مقرر نہ ہوں اس میں اگرچہ اذان و اقامت کے ساتھ جماعتِ ثانیہ قائم کی جائے کوئی حرج نہیں بلکہ یہی افضل ہے کہ جو گروہ آئے نئی اذان و اقامت سے جماعت کرے یوہیں اسٹیشن و سرائے کی مسجدیں۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۱۶ وغیرہا)
مسئلہ۵: جس کی جماعت جاتی رہی اس پر یہ واجب نہیں کہ دوسری مسجد میں جماعت تلاش کرکے وہاں پڑھے ہاں مستحب ہے البتہ جس کی مسجد حرم شریف یا مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کی جماعت فوت ہوئی اس پر مستحب بھی نہیں کہ دوسری جگہ تلاش کرے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۱۸)
مسئلہ۶: (۱) مریض جسے مسجد تک جانے میں مُشقّت ہو (۲) اپاہج جس کا (۳) پائوں کٹ گیا ہو (۴) جس پر فالج گرا ہو ا (۵) اتنا بوڑھا کہ مسجد تک جانے سے عاجز ہو (۶) اندھا اگرچہ اندھے کے لئے کوئی ایسا ہو جو ہاتھ پکڑ کر مسجد تک پہنچا دے (۷) سخت بارش اور (۸) شدید کیچڑ کا حائل ہونا (۹) سخت سردی (۱۰) سخت تاریکی (۱۱) آندھی (۱۲) مال یا کھانے کے تلف ہونے کا اندیشہ ہے (۱۳) قرض خواہ کا خوف ہے اور یہ تنگ دست ہے (۱۴) ظالم کا خوف (۱۵) پاخانہ (۱۶) پیشاب (۱۷) ریاح کی حاجت شدید ہے (۱۸) کھانا حاضر ہے اور نفس کو اس کی خواہش ہو (۱۹) قافلے چلے جانے کا اندیشہ ہے (۲۰) مریض کی تیمارداری کہ جماعت کے لئے جانے سے اس کو تکلیف ہو گی اور گھبرائے گا یہ سب ترک جماعت کے لئے عذر ہیں۔ (درمختارج ۱ ص ۵۲۰ تا ۵۱۹)
مسئلہ۷: عورتوں کو کسی نماز میں جماعت کی حاضری جائز نہیں دن کی نماز ہو یا رات کی جمعہ ہو یا عیدین خواہ وہ جوان ہوں یا بڑھیاں یوہیں وعظ کی مجالس میں بھی جانا نا جائز ہے۔(درمختار ج ۱ ص ۵۲۹)
مسئلہ۸: جس گھر میں عورتیں ہی عورتیں ہوں اس میں مرد کو ان کی امامت ناجائز ہے ہاں اگر ان عورتوں میں اس کی نسبی محارم ہوں یا بی بی یا وہاں کوئی مرد بھی ہو تو ناجائز نہیں۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۲۹)
مسئلہ۹: اکیلا مقتدی مرد اگرچہ لڑکا امام کے برابر داہنی جانب کھڑا ہو، بائیں طرف یا پیچھے کھڑا ہونا مکروہ ہے دو مقتدی ہوں تو پیچھے کھڑے ہوں برابر کھڑا ہونا مکروہ تنزیہی ہے دو سے زائد کا امام کے برابر کھڑا ہونا مکروہ تحریمی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۲۹ تا ۵۳۱)
مسئلہ۱۰: دو(۲) مقتدی ہیں ایک مرد اور ایک لڑکا تو دونوں پیچھے کھڑے ہوں اگر اکیلی عورت مقتدی ہے تو پیچھے کھڑی ہو زیادہ عورتیں ہوں جب بھی یہی حکم ہے دو (۲) مقتدی ہوں ایک مرد ایک عورت تو مرد برابر کھڑا ہو اور عورت پیچھے دو (۲) مرد ہوں ایک عورت تو مرد امام کے پیچھے کھڑے ہوں اور عورت ان کے پیچھے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۸۸ بحر)
مسئلہ۱۱: ایک شخص امام کے برابر کھڑا ہو اور پیچھے صف ہے تو مکروہ ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۳۱)
مسئلہ۱۲: امام کی برابر کھڑے ہونے کے یہ معنی ہیں کہ مقتدی کا قدم امام سے آگے نہ ہو یعنی اس کے پائوں کا گِٹا اُس کے گِٹے سے آگے نہ ہو سر کے آگے پیچھے ہونے کا کچھ اعتبار نہیں تو اگر امام کے برابر کھڑا ہوا اور چونکہ مقتدی امام سے دراز قد ہے لہٰذا سجدے میں مقتدی کا سر امام سے آگے ہوتا ہے مگر پائوں کا گِٹا گِٹے سے آگے نہ ہو تو حرج نہیں یوہیں اگر مقتدی کے پائوں بڑے ہوں کہ اُنگلیاں امام سے آگے ہیں جب بھی حرج نہیں جب کہ گِٹا آگے نہ ہو۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۳۰)
مسئلہ۱۳: اشارے سے نماز پڑھتا ہو تو قدم کی محاذات معتبر نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ اس کا سر امام کے سر سے آگے نہ ہو اگرچہ مقتدی کا قدم امام کے قدم سے آگے ہو خواہ امام رکوع و سجود سے پڑھتا ہو یا اشارے سے بیٹھ کر یا لیٹ کر قبلہ کی طرف پائوں پھیلا کر اور اگر امام کروٹ پر لیٹ کر اشارے سے پڑھتا ہو تو سر کے محاذات نہیں لی جائے گی بلکہ شرط یہ ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے لیٹا ہو۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۳۰)
مسئلہ۱۴: مقتدی اگر ایک قدم پر کھڑا ہے تو محاذات میں اسی قدم کا اعتبار ہے اور دونوں پر کھڑا ہو اگر ایک برابر ہے اور ایک پیچھے تو صحیح ہے اور ایک برابر ہے اور ایک آگے تو نماز صحیح نہ ہونا چاہیے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۳۰)
مسئلہ۱۵: ایک شخص امام کے برابر کھڑا تھا پھر ایک اور آیا تو امام آگے بڑھ جائے اور وہ آنے والا اس مقتدی کے برابر کھڑا ہو جائے یا وہ مقتدی پیچھے ہٹ جائے خود یا آنے والے نے اس کو کھینچا خواہ تکبیر کے بعد یا پہلے یہ سب صورتیں جائز ہیں جو ہو سکے کرے اور سب ممکن ہے تو اختیار ہے مگر مقتدی جبکہ ایک ہو تو اس کا پیچھے ہٹنا افضل ہے اور دو ہوں تو امام کا آگے بڑھنا اگر مقتدی کے کہنے سے امام آگے بڑھا یا مقتدی پیچھے ہٹا اس نیت سے کہ یہ کہتا ہے اس کی مانو تو نماز فاسد ہو جائے گی اور حکم شرع بجالانے کے لئے ہو تو کچھ حرج نہیں۔ (ردالمحتار ج۱ ص ۵۳۱ وغیرہ)
مسئلہ۱۶: مرد اور بچے اور خنثیٰ اور عورتیں جمع ہوں تو صفوں کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے مردوں کی صف ہو پھر بچوں کی پھر خنثیٰ کی پھر عورتوں کی اور بچہ تنہا ہو تو مردوں کی صف میں داخل ہو جائے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۳۴ تا ۵۳۱)
مسئلہ۱۷: صفیں مل کر کھڑی ہوں کہ بیچ میں کشادگی نہ رہ جائے اور سب کے مونڈھے برابر ہوں۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۳۱)
مسئلہ۱۸: امام کو چاہیے کہ وسط میں کھڑا ہو اگر داہنی یا بائیں جانب کھڑا ہوا تو خلافِ سنت کیا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۹)
مسئلہ۱۹: مردوں کی صف کہ امام سے قریب ہے دوسری سے افضل ہے اور دوسری تیسری سے وعلیٰ ہذا لقیاس۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۹) مقتدی کے لئے افضل جگہ یہ ہے کہ امام سے قریب ہو اور دونوں طرف برابر ہوں تو داہنی طرف افضل ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۸۹)
مسئلہ۲۰: صف مقدم کا افضل ہونا غیر جنازہ میں ہے اور جنازہ میں آخر صف افضل ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ۲۱: امام کو ستونوں کے درمیان کھڑا ہونا مکروہ ہے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۳۱)
مسئلہ۲۲: پہلی صف میں جگہ ہو اور پچھلی صف بھر گئی ہو تو اس کو چیر کر جائے اور خالی جگہ میں کھڑا ہو اس کے لئے حدیث میں فرمایا کہ جو صف میں کشادگی دیکھ کر اسے بند کر دے اس کی مغفرت ہو جائے گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۹) اور یہ وہاں ہے جہاں فتنہ فساد کا احتمال نہ ہو۔
مسئلہ۲۳: صحن میں جگہ ہوتے ہوئے صف کے پیچھے کھڑا ہونا ممنوع ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۳۳)
مسئلہ۲۴: عورت اگر مرد کے محاذی ہو تو مرد کی نماز جاتی رہے گی۔ اس کیلئے چند شرطیں ہیں:۔
(۱) عورت مشتہاۃ ہو یعنی اس قابل ہو کہ اس سے جماع ہو سکے اگرچہ نابالغہ ہو اور مشتہات میں سن کا اعتبار نہیں نو برس کی ہو یا اس سے کچھ کم کی جب کہ اُس کا جُثہ اس قابل ہو اور اگر اس قابل نہیں تو نماز فاسد نہ ہو گی اگرچہ نماز پڑھنا جانتی ہو۔ بڑھیا بھی اس مسئلے میں مشتہاۃ ہے وہ عورت اگر اس کی زوجہ ہو یا محارم میں ہو جب بھی نماز فاسد ہو جائے گی(۲) کوئی چیز اُنگلی برابر موٹی اور ایک ہاتھ اونچی حائل نہ ہو نہ دونوں کے درمیان اتنی جگہ خالی ہو کہ ایک مرد کھڑا ہوسکے نہ عورت اتنی بلندی پر ہو کہ مرد کا کوئی عضو اس کے کسی عضو سے محاذی ہو (۳) رکوع و سجود والی نماز میں یہ محاذات واقع ہو اگر نماز جنازہ میں محاذات ہوئی تو نماز فاسد نہ ہو گی (۴) وہ نماز دونوں میں تحریمۃً مشترک ہو یعنی عورت نے اس کی اقتداء کی ہو یا دونوں نے کسی امام کی اگرچہ شروع سے شرکت نہ ہو تو اگر دونوں اپنی اپنی پڑھتے ہوں تو فاسد نہ ہو گی مکروہ ہو گی (۵) ادا میں مشترک ہو کہ اس میں مرد اس کا امام ہو یا ان دونوں کا کوئی دوسرا امام ہو جس کے پیچھے ادا کر رہے ہیں حقیقۃً یا حکماً مثلاً دونوں لاحق ہوں کہ بعد فراغ امام اگرچہ امام کے پیچھے نہیں مگر حکماً امام کے پیچھے ہی ہیں اور مسبوق امام کے پیچھے نہ حقیقۃً ہے نہ حکماً بلکہ وہ منفرد ہیں (۶) دونوں ایک ہی جہت کو متوجہ ہوں اگر جہت بدل جائے جیسے تاریک شب میں کہ پتہ نہ چلتا ہو ایک طرف امام کا منہ ہے اور دوسری طرف مقتدی کا یا کعبہ معظمہ میں پڑھی اور جہت بدلی ہو تو نماز ہو جائے گی (۷) عورت عاقلہ ہو مجنونہ کی محاذات میں نماز فاسد نہ ہو گی (۸) امام نے امامت زناں کی نیّت کر لی ہو اگرچہ شروع کرتے وقت عورتیں شریک نہ ہوں اور اگر امامت کی نیت نہ ہو تو عورت ہی کی فاسد ہو گی مرد کی نہیں (۹) اتنی دیر تک محاذات رہے کہ ایک کامل رکن ادا ہوجائے یعنی بقدر تین تسبیح کے (۱۰) دونوں نماز پڑھنا جانتے ہوں (۱۱) مرد عاقل و بالغ ہو۔
(درمختار ردالمحتار ج ۱ ص ۵۳۶ تا ۵۳۴، عالمگیری ج ۱ ص ۸۹ وغیرہا)
مسئلہ۲۵: مرد کے لئے شروع کرنے کے بعد عورت آکر برابر کھڑی ہو گئی اور اس نے امامت عورت کی نیت بھی کر لی مگر شریک ہوتے ہی پیچھے ہٹنے کو اشارہ کیا مگر نہ ہٹی تو عورت کی نماز جاتی رہے گی مرد کی نہیں یوہیں اگر مقتدی کے برابر کھڑی اور اشارہ کر دیا اور نہ ہٹی تو عورت ہی کی نماز فاسد ہو گی۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۳۸)
مسئلہ۲۶: خنثیٰ مشکل کی محاذات مفسد نماز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۰)
مسئلہ۲۷: مرد خوبصورت مشتہی کا مرد کے برابر کھڑا ہونا مفسد نماز نہیں۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۳۹)
مسئلہ۲۸: مقتدی کی چار قسمیں ہیں:۔
(۱) مدرک (۲) لاحق (۳) مسبوق (۴) لاحق مسبوق
مدرک اسے کہتے ہیں جس نے اوّل رکعت سے تشہد تک امام کے ساتھ پڑھی اگرچہ پہلی رکعت میں امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہوا ہو۔
لاحق وہ کہ امام کے ساتھ پہلی رکعت میں اقتداء کی مگر بعد اقتداء اس کی کل رکعتیں یا بعض فوت ہو گئیں خواہ عذر سے فوت ہوں جیسے غفلت یا بھیڑ کی وجہ سے رکوع و سجود کرنے نہ پایا نماز میں اسے حدث ہو گیا یا مقیم نے مسافر کے پیچھے اقتداء کی یا نماز خوف میں پہلے گروہ کو جو رکعت امام کے ساتھ نہ ملی خواہ بلا عذر فوت ہوں جیسے امام سے پہلے رکوع و سجود کر لیا پھر اس کا اعادہ بھی نہ کیا تو امام کی دوسری رکعت اس کی پہلی رکعت ہو گی اور تیسری دوسری اور چوتھی تیسری اور آخر میں ایک رکعت پڑھنی ہو گی۔
مسبوق وہ ہے کہ امام کی بعض رکعتیں پڑھنے کے بعد شامل ہوا اور آخر تک شامل رہا۔
لاحق مسبوق وہ ہے جس کی رکعتیں شروع کی نہ ملیں پھر شامل ہونے کے بعد لاحق ہو گیا۔
(شامی ج ۱ ص ۵۶۹ تا ۵۵۵)
مسئلہ۲۹: لاحق مدرک کے حکم میں ہے کہ جب اپنی فوت شدہ پڑھے گا تو اس میں نہ قرأت کرے گا نہ سہو سے سجدہ سہو کرے گا اور اگر مسافر تھا تو نماز میں نیتِ اقامت سے اس کا فرض متغیر نہ ہو گا کہ دو سے چار ہو جائے اور فوت شدہ کو پہلے پڑھے گا یہ نہ ہو گا کہ امام کے ساتھ پڑھے جب امام فارغ ہو جائے تو اپنی پڑھے مثلاً اس کو حدث ہوا اور وضو کرکے آیا تو امام قعدہ اخیر میں پایا تو یہ قعدہ میں شریک نہ ہو گا بلکہ جہاں سے باقی ہے وہاں سے پڑھنا شروع کرے اس کے بعد اگر مام کو پا لے تو ساتھ ہو جائے اور اگر ایسا نہ کیا بلکہ ساتھ ہو لیا پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد فوت شدہ پڑھی تو ہو گئی مگر گناہ گار ہوا ۔(درمختار ردالمحتار ج ۱ ص ۵۵۷)
مسئلہ۳۰: تیسر ی رکعت میں سو گیا اور چوتھی میں جاگا تو اسے حکم ہے کہ تیسری بلا قرأت پڑھے پھر اگر امام کو چوتھی میں پائے تو ساتھ ہو لے ورنہ اُسے بھی بلا قرأ ت تنہا پڑھے اور ایسا نہ کیا بلکہ چوتھی امام کے ساتھ پڑھ لی پھر بعد میں تیسری پڑھی تو ہو گئی اور گنہگار ہوا۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۵۷)
مسئلہ۳۱: مسبوق کے احکام ان امور میں لاحق کے خلاف ہیں کہ پہلے امام کے ساتھ ہو لے پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی فوت شدہ پڑھے اور اپنی فوت شدہ میں قرأت کرے گا اور اس میں سہو ہو تو سجدہ سہو کرے گا اورنیت اقامت سے فرض متغیر ہو گا۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۵۷)
مسئلہ۳۲: مسبوق اپنی فوت شدہ کی ادا میں منفرد ہے کہ پہلے ثنا نہ پڑھی تھی اس وجہ سے کہ امام بلند آواز سے قرأ ت کررہا تھا یا امام رکوع میں تھا اور ثنا پڑھتا تو اسے رکوع نہ ملتا یا امام قعدہ میں تھا غرض کسی وجہ سے پڑھی نہ تھی تو اب پڑھے اور قرأت سے پہلے تعوذ پڑھے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۱ ، ردالمحتار ص ۵۷۷)
مسئلہ۳۳: مسبوق نے اپنی فوت شدہ پڑھ کر امام کی متابعت کی تو نماز فاسد ہو گئی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۵۸)
مسئلہ۳۴: مسبوق نے امام کو قعدہ میں پایا تو تکبیر تحریمہ سیدھے کھڑے ہونے کی حالت میں کر لے پھر دوسری تکبیر کہتا ہوا قعدہ میں جائے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۱) رکوع و سجود میں پائے جب بھی یوہیں کرے اگر پہلی تکبیر کہتا ہوا جھکا اور حد رکوع تک پہنچ گیا تو سب صورتوں میں نماز نہ ہوگی۔
مسئلہ۳۵: مسبوق نے جب امام کے فارغ ہونے کے بعد جب اپنی شروع کی تو حق قرأت میں یہ رکعت اوّل قرار دی جائے گی اور حق تشہد میں پہلی نہیں بلکہ دوسری تیسری چوتھی جو شمار میں آئے مثلاً تین یا چار رکعت والی نماز میں ایک اسے ملی تو حق تشہد میں یہ جو اب پڑھتا ہے دوسری ہے لہٰذا ایک رکعت فاتحہ و سورت کے ساتھ پڑھے اور قعدہ کرے اور اگر واجب یعنی فاتحہ یا سورت ملانا ترک کیا تو اگر عمداً ہے اعادہ واجب ہے اور سہواً ہو تو سجدہ سہو پھر اس کے بعد والی میں بھی فاتحہ کے ساتھ سورت ملائے اور اس میں نہ بیٹھے پھر اس کے بعد والی میں فاتحہ پڑھ کر رکوع کر دے اور تشہد وغیرہ پڑھ کر ختم کر دے دو (۲) ملی ہیں دو (۲) جاتی رہیں تو ان دونوں میںقرأت کرے ایک میں بھی فرض قرأت ترک کیا نماز نہ ہوئی ۔(درمختار ج ۱ ص ۵۵۸ وغیرہ)
مسئلہ۳۶: چار باتوں میں مسبوق مقتدی کے حکم میں ہے (۱) اس کی اقتداء نہیں کی جاسکتی مگر امام اسے اپنا خلیفہ بنا سکتا ہے مگر خلیفہ ہونے کے بعد سلام نہ پھیرے گا اس کے لئے دوسرے کو خلیفہ بنائے گا (۲) بالاجماع تکبیرات تشریق کہے گا (۳) اگر نئے سرے سے نماز پڑھنے اور اس نماز کے قطع کرنے کی نیت سے تکبیر کہے تو نماز قطع ہو جائے گی بخلاف منفرد کے کہ اس کی نماز قطع نہ ہو گی (۴) اپنی فوت شدہ پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور امام کو سجدہ سہو کرنا ہے اگرچہ اس کی اقتداء کے پہلے ترک وا جب ہوا ہو تو اُسے حکم ہے کہ لوٹ آئے اگر اپنی رکعت کا سجدہ نہ کر چکا ہو اور نہ لوٹا تو آخر میں یہ دو سجدۂ سہو کرے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۵۹ تا ۵۵۸)
مسئلہ۳۷: مسبوق کو چاہیے کہ امام کے سلام پھیرتے ہی فوراً کھڑا نہ ہو جائے بلکہ اتنی دیر صبر کرے کہ معلوم ہو جائے کہ امام کو سجدہ سہو نہیں کرنا ہے مگر جب کہ وقت میں تنگی ہو ۔(درمختار ج ۱ ص ۵۵۹)
مسئلہ۳۸: امام کے سلام پھیرنے سے پہلے مسبوق کھڑا ہو گیا تو اگر امام کے بقدر تشہد بیٹھنے سے پہلے کھڑا ہو گیا تو یہ قرأت کافی نہیں اور نماز نہ ہوئی اور بعد میں بقدر ضرورت پڑھ لیا تو ہو جائے گی اور اگر امام کے بقدر تشہد بیٹھنے کے بعد اور سلام سے پہلے کھڑا ہو گیا تو جو ارکان ادا کر چکا ان کا اعتبار ہو گا مگر بغیر ضرورت سلام سے پہلے کھڑا ہونا مکروہ تحریمی ہے پھر اگر امام کے سلام سے پہلے فوت شدہ ادا کر لی اور سلام میں شریک ہو گیا تو بھی صحیح ہو جائے گی اور قعدہ اور تشہد میں متابعت کرے گا تو فاسد ہو جائے گا۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۵۹)
مسئلہ۳۹: امام کے سلام سے پہلے مسبوق کسی عذر کی وجہ سے کھڑا ہو گیا مثلاً سلام کے انتظار میں خوف حدث ہو یا فجر و جمعہ و عیدین کے وقت ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے یا وہ مسبوق معذور ہے اور وقت نماز ختم ہو جانے کا گمان ہے یا موزہ پر مسح کیا ہے اور مسح کی مدت پوری ہو جائے گی ان سب صورتوں میں کراہت نہیں۔(درمختار ج ۱ ص ۵۵۹)
مسئلہ۴۰: اگر امام سے نماز کا کو ئی سجدہ رہ گیا اور مسبوق کے کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا تو اس میں مسبوق کو امام کی متابعت فرض ہے اگر نہ لوٹا تو اس کی نماز ہی نہ ہوئی اور اگر اس صورت میں رکعت پوری کر کے مسبوق نے سجدہ بھی کر لیا ہے تو مطلقاً نما ز نہ ہو گی اگرچہ امام کی متابعت کرے امام کو سجدہ سہو یا تلاوت کرنا ہے اور اس نے اپنی رکعت کا سجدہ کر لیا تو اگر متابعت کرے گا فاسد ہو جائے گی ورنہ نہیں۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۶۰ تا ۵۵۹)
مسئلہ۴۱: مسبوق نے امام کے ساتھ قصداً سلام پھیرا یہ خیال کر کے کہ مجھے بھی امام کے ساتھ سلام پھیرنا چاہیے نماز فاسد ہو گئی اور بھول کر امام کے سلام کے بعد سلام پھیرا تو سجدہ سہو لازم ہے اور اگر بالکل ساتھ ساتھ پھیرا تو نہیں۔ (درمختار ردالمحتار ج ۱ ص ۵۶۰)
مسئلہ۴۲: بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیر دیا پھر گمان کر کے نماز فاسد ہو گئی نئے سرے سے پڑھنے کی نیت سے اللہ اکبر کہا تو فاسد ہو گئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۱)
مسئلہ۴۳: امام قعدہ اخیرہ کے بعد بُھول کر پانچویں رکعت کے لئے اُٹھا اگر مسبوق امام کی قصداً متابعت کرے نماز جاتی رہے گی اور اگر امام نے قعدہ اخیرہ نہ کیا تھا تو جب تک پانچویں رکعت کا سجدہ نہ کرے گا فاسد نہ ہوگی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۶۰)
مسئلہ۴۴: امام نے سجدہ سہو کیا مسبوق نے اس کی متابعت کی جیسا کہ اسے حکم ہے پھر معلوم ہوا کہ امام پر سسجدہ سہو نہ تھا مسبوق کی نماز فاسد ہو گئی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۶۰)
مسئلہ۴۵: دو مسبوقوں نے ایک ہی رکعت میں امام کی اقتداء کی پھر جب اپنی پڑھنے لگے تو ایک کو اپنی رکعتیں یاد نہ رہیں دوسرے کو دیکھ دیکھ کر جتنی اس نے پڑھی اس نے بھی پڑھی اگر اس کی اقتداء کی نیت نہ کی ہو گئی ۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۵۸)
مسئلہ۴۶: لاحق مسبوق کا یہ حکم ہے کہ جن رکعتوں میں لاحق ہے ان کو امام کی ترتیب سے پڑھے اور ان میں لاحق کے احکام جاری ہوں گے ان کے بعد امام کے فارغ ہونے کے بعد جن میں مسبوق ہے وہ پڑھے اور ان میں مسبوق کے احکام جاری ہوں گے مثلاً چار رکعت والی نماز کی دوسری رکعت میں ملا پھر دو (۲) رکعتوں میں سوتا رہ گیا تو پہلے یہ رکعتیں جن میں سوتا رہا بغیر قرأت ادا کرے صرف اتنی دیر خاموش رہے جتنی دیر میں سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے پھر امام کے ساتھ جو کچھ مل جائے اس میں متابعت کرے پھر وہ فوت شدہ مع قرأت پڑھے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۵۷ ، ردالمحتار)
مسئلہ۴۷: دو رکعتوں میں سوتا رہا اور ایک میں شک ہے کہ امام کے ساتھ پڑھی ہے یا نہیں تو اس کو آخر نماز میں پڑھے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۲)
مسئلہ۴۸: قعدہ اُولیٰ میں امام تشہد پڑھ کر کھڑا ہو گیا اور بعض مقتدی تشہد پڑھنا بھول گئے وہ بھی امام کے ساتھ کھڑے ہو گئے تو جس نے تشہد نہیں پڑھا تھا وہ بیٹھ جائے اور تشہد پڑھ کر امام کی متابعت کرے اگرچہ رکعت فوت ہو جائے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۰)
مسئلہ۴۹: رکوع یا سجدے سے امام کے پہلے مقتدی نے سر اُٹھا لیا تو اسے لوٹنا واجب ہے اور یہ دو رکوع دو سجدے نہیں ہوں گے بلکہ ایک بنے گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۰)
مسئلہ۵۰: امام نے طویل سجدہ کیا مقتدی نے سر اُٹھایا اور یہ خیال کیا کہ ا مام دوسرے سجدہ میں ہے اس نے بھی اس کے ساتھ سجدہ کیا توا گر سجدہ اُولیٰ کی نیت کی یا کچھ نیت نہ کی یا ثانیہ اور متابعت کی نیت کی تو اُولیٰ ہوا اور اگر صرف ثانیہ کی نیت کی تو ثانیہ ہوا پھر اگر وہ اسی سجدے میں تھا کہ امام نے بھی سجدہ کیا اور مشارکت ہو گئی تو جائز ہے اور امام کے دوسرا سجدہ کرنے سے پہلے اگر اس نے سر اُٹھالیا تو جائز نہ ہوا اور اس پر اس سجدہ کا اعادہ ضروری ہے اگر اعادہ نہ کرے گا نماز فاسد ہو جائے گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۰)
مسئلہ۵۱: مقتدی نے سجدہ میں طُول کیا یہاں تک کہ امام پہلے سجدہ سے سر اُٹھا کر دوسرے میں گیا اب مقتدی نے سر اٹھایا اور یہ گمان کیا کہ امام ابھی پہلے ہی سجدے میں ہے اور سجدہ کیا تو یہ دوسرا سجدہ ہو گا اگرچہ صرف پہلے ہی سجدہ کی نیت کی ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۰)
مسئلہ۵۲: پانچ چیزیں وہ ہیں کہ امام چھوڑ دے تو مقتدی بھی نہ کرے اور امام کا ساتھ دے۔ (۱) تکبیرات عیدین (۲) قعدہ اُولیٰ (۳) سجدہ تلاوت (۴) سجدہ سہو (۵) قنوت جب کہ رکوع فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو ورنہ قنوت پڑھ کر رکوع کرے ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۹۰ ، صغیری) مگر قعدہ اُولیٰ نہ کیا اور ابھی سیدھا کھڑا نہ ہُوا تو مقتدی ابھی اس کے ترک میں متابعت امام کی نہ کرے بلکہ اسے بتائے تاکہ وہ واپس آئے اگر واپس آگیا فبہا اور اگر سیدھا کھڑا ہو گیا تو اب نہ بتائے کہ نماز جاتی رہے گی بلکہ خود بھی قعدہ چھوڑ دے اور کھڑا ہو جائے۔
مسئلہ۵۳: چار چیزیں وہ ہیں کہ امام کرے تو مقتدی اس کا ساتھ نہ دے ۔(۱) نماز میں کوئی زائد سجدہ کیا (۲) تکبیرات عیدین میں اقوال صحابہ پر زیادتی کی (۳) جنازہ میں پانچ تکبیریں کہیں (۴) پانچویں رکعت کے لئے بھول کر کھڑا ہو گیا پھر اگر اس صورت میں اگر قعدہ اخیر ہ کر چکا ہے تو اس کا انتظار کرے اگر پانچویں کے سجدہ سے پہلے لوٹ آیا تو مقتدی بھی اس کا ساتھ دے اس کے ساتھ سلام پھیرے اور اس کے ساتھ سجدہ سہو کرے اور اگر پانچویں کا سجدہ کر لیا تو مقتدی تنہا سلام پھیر دے اور اگر قعدہ اخیرہ نہیں کیا تھا اور پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو سب کی نماز فاسد ہو گئی اگرچہ مقتدی نے تشہد پڑھ کر سلام پھیر لیا ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۰)
مسئلہ۵۴: نو چیزیں ہیں کہ امام اگر نہ کرے تو مقتدی اس کی پیروی نہ کرے بلکہ بجا لائے (۱) تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اُٹھانا (۲) ثناء پڑھنا جبکہ امام فاتحہ میں ہو اور آہستہ پڑھتا ہو (۳،۴) رکوع، سجود کی تکبیرات و (۵) تسبیحات (۶) تسمیع (۷) تشہد پڑھنا (۸) سلام پھیرنا (۹) تکبیرات تشریق۔ (عالمگیری صغیری ج ۱ ص ۹۰)
مسئلہ۵۵: مقتدی نے سب رکعتوں میں امام سے پہلے رکوع سجود کر لیا تو ایک رکعت بعد کو بغیر قرأت پڑھے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۰)
مسئلہ۵۶: امام سے پہلے سجدہ کیا مگر اس کے سر اٹھانے سے پہلے امام بھی سجدہ میں پہنچ گیا تو سجدہ ہو گیا مگر مقتدی کو ایسا کرنا حرام ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۰)
مسئلہ۵۷: امام اور مقتدیوں میں اختلاف ہوا، مقتدی کہتے ہیں تین پڑھیں امام کہتا ہے چار پڑھیں تو اگر امام کی یقین ہو اعادہ نہ کرے ورنہ کرے اور اگر مقتدیوں میں باہم اختلاف ہوا تو امام جس طرف ہے اس کا قول لیا جائے گا۔ ایک شخص کو تین رکعتوں کا یقین ہے اور ایک کو چار کا باقی مقتدیوں اور امام کو شک ہے، تو ان لوگوں پر کچھ نہیں اور جسے کمی کا یقین ہے اعادہ کرے اور امام کو تین رکعتوں کا یقین ہے اور ایک شخص کو پوری ہونے کا یقین ہے تو امام و قوم اعادہ کریں اور اس یقین کرنے والے پر اعادہ نہیں۔ ایک شخص کو کمی کا یقین ہے اور امام و جماعت کو شک ہے تو اگر وقت باقی ہے اعادہ کریں ورنہ ان کے ذمہ کچھ نہیں۔ ہاں اگر دو عادل یقین کے ساتھ کہتے ہوں تو بہرحال اعادہ ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۳)