جب اللہ تعالی جہت و رنگ سے پاک ہے تو ان کے بغیر اللہ تعالی کا دیدار کیسے ہو گا؟
جواب:
اولاً: عقل مخلوق و حادث ہے اور اللہ تعالی خالق و قدیم ،تو عقلی خیالات و قیاسات سے اللہ تعالی کی ذات و صفات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، لہذا یہ سوال ہی درست نہیں ۔
ثانیاً: بغیر جہت کے اللہ تعالی کے دیدار کی کیفیت کو بیان کرنا غائب (اللہ تعالی) کو شاہد پر قیاس کرنا ہے اور ایسا قیاس کرنا ہی عقلاً درست نہیں ہے۔
ثالثاً: جب یہ بات ثابت ہے کہ عقلی وہم و خیالات اللہ تعالی کی ذات و صفات کے بعض معاملات (مثلاً بغیر جہت کے کلام اللہ کا ممکن ہونا وغیرہ) میں عاجز و غیر معتبر ہیں تو اس جیسے باقی معاملات میں عقلی دلائل و قیاسات کس دلیل کی بنیاد پر قبول کئے جائیں؟
رابعاً: کسی ذات کی رؤیت (دیدار) کے لئے اس کا جہت یا رنگ والا ہونا ضروری نہیں ہے لہذا قرآن و حدیث اور عقل کی روشنی میں یہ بات تو ثابت ہے کہ اللہ تعالی کا دیدار سر کی آنکھوں سے ہو گا۔ تشبیہ، تمثیل، صورت، جہت، کیفیت ، کمیت ، ہئیت منظورہ، مسافت یعنی قریب، بعید، اتصال، انفصال، حلول، اتحاد، اوپر، نیچے، دائیں، بائیں، آگے، پیچھے، ان سب باتوں سے بالکلیہ پاک ہو گا۔ رہی یہ بات کہ ان سب باتوں کے بغیر اللہ تعالی کا دیدار کیسے ہو گا تو ابھی عقل کی اس تک رسائی نہیں ہے جب رؤیت ہو گی اس وقت معلوم ہو جائے گا۔
جسم و رنگ کے بغیر اللہ تعالی کا دیدار ہونے کے متعلق حوالہ جات:
اربعین فی اصول الدین میں ہے: ”ان حکم الوھم و الخیال فی معرفۃ اللہ تعالی لم یکن مقبولاً وان لم يكن مقبولا ، لم يكن حكم الوهم بأن ما كان منزها عن الجهة ، كان غير مرئى : واجب القبول . لأن الوهم والخيال لما صار كل واحد منهما مردود الحكم فى بعض الأحكام ، لم يبق الاعتماد عليهما في شيء من المواضع “ ملتقطاً ترجمہ: (اصولی بات یہ ہے کہ ) اللہ تبارک و تعالی کی معرفت کے متعلق وہم اور عقلی خیال مقبول نہیں ہیں، تو جب وہم اور خیال مقبول ہی نہیں ہیں تو عقلی وہم کی بنیاد پر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ بات ماننا لازم ہے کہ ”جو جہت سے منزہ ہو اسے دیکھا نہیں جا سکتا؟“ کیونکہ جب بعض احکام میں وہم اور خیال کا حکم قابل قبول نہیں ہے (جیسے بغیر جہت کے کلام اللہ کا ممکن ہونا) تو باقی احکام میں بھی ان پر اعتماد باقی نہیں رہا۔([1])
شرح عقائد نسفیہ میں امام سعد الدین تفتازانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”فیری لا فی مکان ولا علی جھۃ ۔۔۔ وقیاس الغائب علی الشاھد فاسد “ ترجمہ: اللہ تعالی کو مکان اور جہت کے بغیر دیکھا جائے گااور شاہد پر غائب کو قیاس کرنا فاسد ہے۔([2])
منح الروض الازھر میں ملا علی القاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” (واللہ یری في الآخرۃ)أي: یوم القیامۃ، (ویراہ المؤمنون وھم في الجنۃ بأعین رؤوسہم) و ھو قول اکثر اھل السلف ( بلا تشبیہ) أي: رؤیۃ مقرونۃ بتنزیہ لا مکنونۃ بتشبیہ (ولا کیفیۃ) أي: في الصورۃ (ولا کمیۃ) أي: في الہیئۃ المنظورۃ (ولا یکون بینہ وبین خلقہ مسافۃ) أي: لا في غایۃ من القرب ولا في نہایۃ من البعد، ولا یوصف بالاتصال ولا بنعت الانفصال ولا بالحلول والاتحاد کما یقولہ الوجودیۃ المائلون إلی الاتحاد، فذات رؤیتہ ثابت بالکتاب والسنۃ إلاّ أنّہا متشابہۃ من حیث الجہۃ والکمیۃ والکیفیۃ، فنثبت ما أثبتہ النقل و ننفي عنہ ما نزّھہ العقل“ ترجمہ: اللہ تعالی کو آخرت یعنی قیامت کے دن دیکھا جا سکے گا اور مومنین جنت میں اپنے سر کی آنکھوں سے بلا تشبیہ اس ذات با برکت کو دیکھیں گے یعنی وہ رؤیت ایسی ہو گی جو تنزیہ کی صفت سے متصف ہو گی نہ کہ تشبیہ کی صفت سے۔ اور (وہ رؤیت) بلا کیفیتِ صورت اور بلا کمیتِ ہیئتِ منظورہ ہو گی اور نہ ہی اللہ تعالی اور مخلوق کے درمیان مسافت کا کوئی مسئلہ ہو گا یعنی نہ ہی قرب کی کوئی حد ہو گی ، نہ ہی بعد کی، اور نہ ہی وہ رؤیت اتصال، انفصال اور حلول و اتحاد کی صفت سے متصف ہو گی جیسا کہ بعض وجودیہ کا موقف ہے جو کہ اتحاد کی طرف مائل ہیں۔ (خلاصہ کلام یہ کہ )اللہ تعالی کی رؤیت قرآن و سنت سے ثابت ہے لیکن جہت، کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے مشتبہ ہے تو جتنی بات نقلاً ثابت ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور عقل جس چیز کی اللہ تعالی کی ذات سے نفی کرتی ہے اس چیز کو نہیں مانتے۔([3])
فتاوی رضویہ میں ہے: ’’ربِّ عزوجل فاعل مختار ہے اس کے ارادے کے سوا عالم میں کوئی شے مؤثر نہیں، رؤیت شے نہ اجتماع شرائط عادیہ سے واجب نہ ان کے انتفاء سے محال، وہ چاہے تو سب شرطیں جمع ہوں اور دن کو سامنے کا پہاڑ نظر نہ آئے اور چاہے تو بلا شرط رؤیت ہوجائے جیسے بحمدہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کا دیدار کہ کیفیت وجہت ولون ووقوع ضوومحاذات وقُرب و بعد و مسافت وغیرہا جملہ شرائطِ عادیہ سے پاک و منزہ ہے۔ ‘‘([4])
بہار شریعت میں ہے: ” اس کا دیدار بلا کیف ہے، یعنی دیکھیں گے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ کیسے دیکھیں گے، جس چیز کو دیکھتے ہیں اس سے کچھ فاصلہ مسافت کا ہوتا ہے، نزدیک یا دور، وہ دیکھنے والے سے کسی جہت میں ہوتی ہے، اوپر یا نیچے، دہنے یا بائیں، آگے یا پیچھے، اس کا دیکھنا ان سب باتوں سے پاک ہو گا۔ پھر رہا یہ کہ کیونکر ہو گا؟ یہی تو کہا جاتا ہے کہ کیونکر کو یہاں دخل نہیں، اِن شاء اﷲ تعالیٰ جب دیکھیں گے اس وقت بتا دیں گے۔ اس کی سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک عقل پہنچتی ہے، وہ خدا نہیں اور جو خدا ہے، اس تک عقل رسا نہیں ۔“([5])
حوالہ جات:
[1]…۔ اربعین فی اصول الدین، جلد1، صفحۃ267، مکتبۃ الکلیات الازھریہ، مصر
[2]…۔ شرح عقائد النسفیہ، صفحہ 272، مکتبۃ البشری، کراچی
[3]…۔ منح الروض الازھر، صفحہ 149، مکتبۃ المدینہ، کراچی
[4]…۔ فتاوی رضویہ،جلد27،صفحہ536-537،رضافاؤنڈیشن،لاہور
[5]…۔ بہار شریعت، جلد1، صفحۃ 21-22، مکتبۃ المدینہ، کراچی