جزیہ کے متعلق مسائل
اللہ عزوجل فرماتاہے:۔
وماافائ اللہ علی رسولہٖ منھم فمااو جفتم علیہ من خیلٍ ولا رکابٍ ولکن اللہ یسلط رسلہٗ علی من یشائ واللہ علی کل شیئٍ قدیر o ما افائ اللہ علی رسولہٖ من اھل القری فللہ وللرسول ولذی القربی والیتمے والمسکین وابن السبیل کی لایکون دولۃً م بین الاغنیائ منکم ط ومااتکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا ج واتقوااللہ ط ان اللہ شدیدالعقاب
( اللہ نے کافروں سے جو کچھ اپنے رسول کو دلایا اس پر نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ ولیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے مسلط فرما دیتا ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو بستیوں والوں سے دلایا وہ اللہ ورسول کے لیے ہے اور قرابت والے اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کیلئے (یہ اس لیے بیان کیا گیا کہ )تم میں کے مالدار لوگ لینے دینے نہ لگیں اور جو کچھ رسول تم کودیں اسے لو اور جس چیزسے منع کریں اس سے بازر ہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب والا ہے )
احادیث
حدیث۱: ابوداود معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جب ان کو یمن(کاحاکم بناکر) بھیجا تو یہ فرما دیا کہ ہر بالغ سے ایک دینار وصول کریں یا اس قیمت کا معافری یہ ایک کپڑا ہے جو یمن میں ہوتا ہے۔
حدیث۲: امام احمد و ترمذی وابوداود نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا ایک زمین میں دو قبلے درست نہیں اور مسلمان پر جزیہ نہیں ۔
حدیث۳: ترمذی نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہتے ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ ہم کافروں کے ملک میں جاتے ہیں وہ نہ ہماری مہمانی کرتے ہیں نہ ہمارے حقوق ادا کرتے ہیں اور ہم خود جبرا لینا اچھا نہیں سمجھتے (اور اس کی وجہ سے ہم کو بہت ضرر ہوتا ہے ) ارشاد فرمایا کہ اگر تمھارے حقوق خوشی سے نہ دیں جو جبراً وصول کرو۔
حدیث۴: امام مالک اسلم سے راوی کہ امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ جزیہ مقرر کیا سونے والوں پر چار دینار اور چاندی والوں پر چالیس درہم اور اس کے علاوہ مسلمانوں کی خوراک اور تین دن کی مہمانی ان کے ذمہ تھی ۔
مسائل فقہیہ
سلطنت اسلامیہ کی جانب سے ذمی کفار پر جو مقرر کیا جاتا ہے اسے جزیہ کہتے ہیں ۔ جزیہ کی دو قسمیں ہیں ایک وہ کہ ان سے کسی مقدار معین پر صلح ہوئی کہ سالانہ وہ ہمیں اتنا دیں گے اس میں کمی بیشی کچھ نہیں ہو سکتی نہ شرع نے اس کی کوئی خاص مقدار مقرر کی بلکہ جتنے پر صلح ہو جائے۔ وہ ہے دوسری یہ کہ ملک کو فتح کیا اور کافروں کے املاک بدستور چھوڑ دئیے گئے ان پر سلطنت کی جانب سے حسب حال کچھ مقرر کیا جائیگا اس میں ان کی خوشی یا نا خوشی کا اعتبار نہیں اس کی مقدار یہ ہے کہ مالداروں پر اڑتالیس درہم سالانہ ہر مہینے میں چار درہم۔ متوسط شخص پر چوبیس سالانہ ہر مہینے میں دو درہم ۔ فقیر کمانے والے پر بارہ درہم سالانہ ہر ماہ میں ایک درہم۔ اب اختیار ہے کہ شروع سال میں سال بھر کالے لیں یا ماہ بماہ وصول کریں دوسری صورت میں آسانی ہے۔ مالدار اور فقیر اور متوسط کس کو کہتے ہیں یہ وہاں کے عرف اور بادشاہ کی رائے پر ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ جو شخص نادار ہو یا دوسو درہم سے کم کا مالک ہو فقیر ہے اور دو سو سے دس ہزار سے کم تک کا مالک ہو تو متوسط ہے اور دس ہزار یا زیادہ کا مالک ہو تو مالدار ہے (درمختا ، ردالمحتار ، عالمگیری )
مسئلہ۱ : فقیر کمانے والے سے مراد وہ ہے کہ کمانے پر قادر ہو یعنی اعضا سالم ہوں نصف سال یا اکثر میں بیمار نہ رہتا ہو ایسا بھی نہ ہو کہ اسے کوئی کام کرنا آتا نہ ہو نہ اتنا بیوقوف ہو کہ کچھ کام نہ کر سکے (ردالمحتار )
مسئلہ۲ : سال کے اکثر حصہ میں مالدار ہے تو مالداروں کا جزیہ لیا جائے گا اور فقیر ہے تو فقیروں کا اور چھ مہینے میں مالدار رہا اور چھ مہینے میں فقیر تو متوسط۔ ابتدائے سال میں جب مقرر کیا جائیگا اس وقت کی حالت دیکھ کر مقرر کریں گے اور اگر اس وقت کوئی عذر ہو تو اس کا لحاظ کیا جائے گا پھر اگر وہ عذر اثنا ئے سال میں جاتا رہا اور سال کا اکثر حصہ باقی ہے تو مقرر کر دیں گے (عالمگیری ، ردالمحتار )
مسئلہ۳ : مرتد سے جزیہ نہ لیا جائے اسلام لائے فبہا ورنہ قتل کر دیا جائے (درمختار)
مسئلہ۴ : بچہ اور عورت اور غلام و مکاتب و مدبر، پاگل، بوہرے، لنجھے، بیدست و پا، اپاہج، فالج کی بیماری والے، بوڑھے عاجز، اندھے، فقیر ناکارہ، پوجاری جو لوگوں سے ملتا جلتا نہیں اور کام پر قادر نہ ہو ان سب سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اگرچہ اپاہچ وغیرہ مالدار ہوں (درمختار، عالمگیری)
مسئلہ۵ : جو کچھ کماتا ہے سب صرف ہوجاتا ہے بچتا نہیں تو اس سے جزیہ نہ لیں گے (عالمگیری)
مسئلہ۶ : شروع سال میں جزیہ مقرر کرنے سے پہلے بالغ ہوگیا تو اس پر بھی جزیہ مقرر کیا جائے گا اور اگر اس وقت نابالغ تھا، مقرر ہوجانے کے بعد بالغ ہوا تو نہیں (عالمگیری)
مسئلہ۷ : اثنائے سال میں یا سال تمام کے بعد مسلمان ہوگیا تو جزیہ نہیں لیا جائے گا اگرچہ کئی برس کا اس کے ذمہ باقی ہو اور اگر دو برس کا پیشگی لے لیا ہو تو سال آئندہ کا جو لیا ہے واپس کریں اور اگر جزیہ نہ لیا اور دوسرا سال شروع ہوگیا تو سال گذشتہ کا ساقط ہوگیا۔ یونہی مرجانے، اندھے ہونے، اپاہچ ہوجانے، فقیر ہوجانے ، لنجھے ہوجانے سے کہ کام پر قادر نہ ہوں جزیہ ساقط ہوجاتا ہے(درمختار)
مسئلہ۸ : نوکر یا غلام یا کسی اور کے ہاتھ جزیہ بھیج نہیں سکتا بلکہ خود لے کر حاضر ہو اور کھڑا ہوکر ادب کے ساتھ پیش کرے یعنی دونوں ہاتھ میں رکھ کر جیسے نذریں دیا کرتے ہیں اور لینے والا اس کے ہاتھ سے وہ رقم اٹھالے یہ نہیں ہوگا کہ یہ خود اس کے ہاتھ میں دیدے جیسے فقیر کو دیا کرتے ہیں (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ۹ : جزیہ و خراج مصالح عامہ ٔمسلمین میں صرف کئے جائیں مثلاً سرحد پر جو فوج رہتی ہے اس پر خرچ ہوں اور پل اور مسجد و حوض و سرا بنانے میں خرچ ہوں اور مساجد کے امام و مؤذن پر خرچ کریں اور علماء و طلبہ اور قاضیوں اور ان کے ماتحت کام کرنے والوں کو دیں اور مجاہدین اور ان سب کے بال بچوں کے کھانے کے لئے دیں (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ۱۰ : دارالاسلام ہونے کے بعد ذمی اب نئے گرجے اور بت خانے اور آتش کدہ نہیں بناسکتے اور پہلے کے جو ہیں وہ باقی رکھے جائیں گے۔ اگر لڑ کر شہر کو فتح کیا ہے تو وہ رہنے کے مکان ہوں گے اور صلح کے ساتھ فتح ہوا تو بدستور عبادت خانے رہیں گے۔اگر ان کے عبادت خانے منہدم ہو گئے اور پھر بنانا چاہیں تو جیسے تھے ویسے ہی اسی جگہ بنا سکتے ہیں نہ بڑھا سکتے ہیں نہ دوسری جگہ ان کے بدلے میں بنا سکتے نہ پہلے دے زیادہ مستحکم بنا سکتے مثلاًپہلے کچا تھا تو اب بھی کچا ہی بنا سکیں گے اینٹ کا تھا تو پتھر کا نہیں بنا سکتے۔ اور بادشاہ اسلام یا مسلمانوں نے منہدم کر دیا ہے تو اسے دوبارہ نہیں بنا سکتے اور خود منہدم کیا ہو تو بنا سکتے ہیں اور پیشتر سے اب کچھ زیادہ کر دیا ہو تو ڈھا دینگے (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ۱۱: ذمی کافر مسلمانوں سے وضع قطع لباس وغیرہ ہر بات میں ممتاز رکھا جائیگا جس قسم کا لباس مسلمانوں کا ہو گا وہ ذمی نہ پہنے ۔ اس کی زین بھی اور طرح کی ہو گی ۔ ہتھیار بنانے کی اسے اجازت نہیں بلکہ اسے ہتھیار رکھنے بھی نہ دینگے ۔ زنار وغیرہ جو اس کی خاص علامت کی چیزیں ہیں انھیں ظاہر رکھے کہ مسلمان کو دھوکا نہ ہو۔ عمامہ نہ باندھے ۔ ریشم کی زنار نہ باندھے ۔ لباس فاخرہ جو علماء وغیرہ اہل شرف کے ساتھ خاص ہے نہ پہنے ۔ مسلمان کھڑا ہو تو وہ اس وقت نہ بیٹھے۔ ان کی عورتیں بھی مسلمان عورتوں کی طرح کپڑے وغیرہ نہ پہنیں ۔ ذمیوں کے مکانوں پر بھی کوئی علامت ایسی ہو جس سے پہچانے جائیں کہ کہیں سائل دروازوں پر کھڑا ہو کر مغفرت کی دعا نہ دے غرض اس کی ہر بات مسلمانوں سے جدا ہو (درمختار، عالمگیری وغیرہما)
اب چونکہ ہندستان میں اسلامی سلطنت نہیں لہذا مسلمانوں کو یہ اختیار نہ رہا کہ کفار کو کسی وضع وغیرہ کا پابند کریں البتہ مسلمانوں کے اختیار میں یہ ضرور ہے کہ خود ان کی وضع اختیار نہ کریں مگر بہت افسوس ہوتا ہے جبکہ کسی مسلمان کو کافروں کی صورت میں دیکھا جاتا ہے لباس و وضع قطع میں کفار سے امتیاز نہیں رکھتے بلکہ بعض مرتبہ ایسا اتفاق ہوا ہے کہ نام دریافت کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ مسلمان ہے۔ مسلمانوں کا ایک خاص امتیاز ڈاڑھی رکھنا تھا اس کو آج کل لوگوں نے بالکل فضول سمجھ رکھا ہے نصار ی کی تقلید میں ڈاڑھی کا صفایا اور سر پر بالوں کا گپھا مونچھیں بڑی بڑی یا بیچ میں ذراسی جو دیکھے سے مصنوعی معلوم ہوتی ہیں ۔ اگر رکھیں تو نصاری کی سی کم کریں تو نصاری کی طرح۔ اسلامی بات سب نا پسند، کپڑے جوتے ہوں تو نصرانیوں کے سے کھانا کھائیں تو ان کی طرح۔ اور اب کچھ دنوں سے جو نصاری کی طرف سے منحرف ہوئے تو گھر لوٹ کر نہ آئے بلکہ مشرکوں ہندؤں کی تقلید اختیار کی ٹوپی ہندو کے نام کی ہندو جو کہیں اس پر دل وجان سے حاضر اگرچہ اسلام کے احکام پس پشت ہوں اگر وہ کہے اور جب وہ کہے روزہ رکھنے کو تیار مگر رمضان میں پان کھا کر نکلنا نہ شرم نہ عار وہ کہے تو دن بھر بازار بند خرید وفروخت حرام اور خدا فرماتا ہے کہ جب جمعہ کی اذان ہو تو خریدو فروخت چھوڑو اس کی طرف اصلاً التفات نہیں غرض مسلمانوں کی جو ابتر حالت ہے اس کا کہاو تک رونا رویا جائے یہ حالت نہ ہوتی تو یہ دن کیوں دیکھنے پڑتے اور جب ان کی قوت منفعلہ اتنی قوی ہے اور قوت فاعلہ زائل ہو چکی تو اب کیا امید ہو سکتی ہے کہ یہ مسلمان کبھی ترقی کا زینہ طے کرینگے غلام بن کر اب بھی ہیں اور جب بھی رہیں گے والعیاذ باللہ تعالی ۔
مسئلہ۱۲: نصرانی نے مسلمان سے گرجے کا راستہ پوچھا یا ہندو نے مندر کا تو نہ بتائے کہ گناہ پر اعانت کرنا ہے۔ اگر کسی مسلمان کا باپ یا ماں کافر ہے اور کہے کہ تو مجھے بت خانہ پہنچا دے تو نہ لیجائے اور اگر وہاں سے آنا چاہتے ہیں تو لاسکتا ہے (عالمگیری )
مسئلہ۱۳: کافر کو سلام نہ کرے مگر بضرورت اور وہ آتا ہو تو اس کے لیے راستہ وسیع نہ کرے بلکہ اس کے لیے تنگ راستہ چھوڑے (عالمگیری )
مسئلہ۱۴: کافر سنکھ یا ناقوس بجانا چاہیں تو مسلمان نہ بجانے دیں اگرچہ اپنے گھروں میں بجائیں ۔ یونہی اگر اپنے معبودوں کے جلوس وغیرہ نکالیں تو روک دیں اور کفر وشرک کی بات علانیہ بکنے سے بھی روکے جائیں یہاں تک کہ یہودونصاری اگر یہ گڑھی ہوئی توریت وانجیل بلند آواز سے پڑھیں اور اس میں کوئی کفر کی بات ہو تو روک دئیے جائیں اور بازاروں میں پڑھنا چاہیں تو مطلقاً روکے جائیں اگر چہ کفر نہ بکیں (عالمگیری)جب توریت و انجیل کیلئے یہ احکام ہیں تو رامائن وید وغیرہا خرافات ہنود کہ مجموعہ شرک ہیں ان کے لیے اشد حکم ہوگا مگر یہ احکام تو اسلامی تھے جو سلطنت کے ساتھ متعلق تھے اور جب سلطنت نہ رہی تو ظاہر ہے کہ روکنے کی بھی طاقت نہ رہی مگر اب مسلمان اتنا تو کر سکتے ہیں کہ ایسی جگہوں سے دور بھاگیں نہ یہ کہ عیسائیوں اور آریوں کے لکچروں اور جلسوں میں شریک ہوں اور وہاں اپنی آنکھوں سے احکام اسلام کی بیحرمتی دیکھیں اور کانوں سے خدا و رسول کی شان میں گستاخیاں سنیں اور جانا نہ چھوڑیں مگر نہ علم رکھتے ہیں کہ جواب دیں نہ حیا رکھتے ہیں کہ باز آئیں ۔
مسئلہ۱۵: شہر میں شراب لانے سے منع کیا جائیگا اگر کوئی مسلمان شراب لایا اور گرفتار ہوا اور عذر یہ کرتا ہے کہ میری نہیں کسی اور کی ہے اور نام بھی نہیں بتاتا کہ کس کی ہے یا کہتا ہے سرکہ بنانے کے لیے لایا ہوں تو اگر وہ شخص دیندار ہے چھوڑ دینگے ورنہ شراب بہا دینگے اور اسے سزا دینگے اور قید کرینگے تا وقتیکہ توبہ نہ کرے اور اگر کافر لایا ہو اور گرفتار ہوا اور یہ نہ جانتا
ہو کہ لانا نہیں چاہیے تو اسے شہر سے نکالدیں اور کہہ دیا جائے کہ اگر پھر لایا تو سزادی جائے گی (عالمگیری)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔