ARTICLES

جرم اختیاری میں دم لازم انے پراس کابدل کافی ہوگا؟

الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علماءدین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں اگرکوئی شخص کسی مجبوری کے بغیرسلے ہوئے کپڑے مکمل ایک دن تک پہنے رکھے ،اوروہ دم دینے پرقدرت بھی نہ رکھتاہو،توایسی صورت میں کیاوہ دم دینے کے بجائے روزے رکھ لے یااس کے لئے فقط توبہ کرلیناکافی ہے ؟

جواب

متعلقہ مضامین

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں اس پرتوبہ کرنے کے ساتھ دم دینالازم ہوگا،اوردم کے بجائے ’’ روزہ‘‘وغیرہ کوئی چیزاس کابدل نہ ہوگی،کیونکہ محرم جب بلاعذرمکمل ایک دن لباس پہنے رکھے تواس پرمعین ولازمی طورپردم لازم ہوتاہے اوراس کے علاوہ کوئی چیزاس کابدل اصلانہیں ہوسکتی ۔ چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ اورملاعلی قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں :

(اذا)۔۔۔لبس یوما۔۔۔(فان کان بغیر عذرٍ فعلیہ الدم عینا)ای حتما معینا وجزما مبینا (لا یجوز عنہ غیرہ) ای بدلا اصلا۔()

یعنی،محرم جب بلاعذرایک دن لباس پہنے تواس پرمعین اورلازمی طورپر دم لازم ہوگا،اس کے علاوہ کوئی چیزاس کابدل اصلانہیں ہوسکتی ہے ۔ اوریہاں دم کے بدلے ’’روزے ‘‘وغیرہ کافی نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ محرم کامجبوری کے بغیرسلے ہوئے کپڑے پہنے رکھنااختیاری جرم ہے ،اورجرم اختیاری کے مرتکب پرجہاں دم واجب ہو،وہاں دم دیناہی لازم ہوتاہے ۔ چنانچہ ملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں :

(حیث وجب الدم عینا لا یجوز عنہ) ای بدلہ (غیرہ من الصدقۃ والصوم والقیمۃ) ای لا قیمۃ الھدی ولا قیمۃ الصدقۃ۔()

یعنی،جہاں معین طورپردم واجب ہو،وہاں دم کے علاوہ اس کابدل صدقہ دینایاروزہ رکھنا،یاقیمت دیناجائزنہیں یعنی ہدی اورصدقہ کی قیمت دینا۔ اورعلامہ سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں :

عدم القدرة على الكفارة فليست باعذارٍ في حق التخيير ولو ارتكب المحظور بغير عذرٍ فواجبه الدم عينًا، او الصدقة فلا يجوز عن الدم طعام ولا صيام، ولا عن الصدقة صيام؛ فان تعذر عليه ذلك بقي في ذمته۔()

یعنی،کفارے پرقدرت نہ ہونااختیارہونے کے حق میں عذرنہیں ہے اور اگربلاعذرممنوع فعل کاارتکاب کیاجائے پس اس پرمعین طورپردم یاصدقہ واجب ہوگاپس دم کے بدلے کھلانایاروزے رکھناجائزنہ ہوگااورنہ ہی صدقہ کے بدلے روزہ رکھنا،پس اگردم یاصدقہ اس پرمتعذرہوجائے تواس کے ذمہ میں باقی رہے گا۔ لہٰذا دلائل کی روسے ثابت ہوگیاکہ بلاعذر سلے ہوئے کپڑے پہننے والے محرم پردم دیناہی لازم ہوگااوراس کے بدلے روزے رکھنایامحض توبہ کرلینا کافی نہ ہوگا،البتہ دم کی ادائیگی چونکہ فی الفورلازم نہیں ہے ،اس لئے اگروہ تاخیرسے کفارہ اداکرے گا،تووہ گنہگارنہ ہوگا،لیکن کفارے کی ادائیگی میں جلدی کرنا’’افضل‘‘ہے ۔ چنانچہ امام علاء الدين ابو بكر بن
مسعودكاسانی حنفی متوفى587ھ لکھتے ہیں :

الكفارات كلها واجبة على التراخي هو الصحيح من مذهب اصحابنا في الامر المطلق عن الوقت حتى لا ياثم بالتاخير عن اول اوقات الامكان ويكون مؤديًا لا قاضيًا۔()

یعنی،تمام کفارے فی الفورواجب نہیں ہوتے ،مطلق عن الوقت حکم میں ہمارے اصحاب کامذہب ہی صحیح ہے حتی کہ اول وقت سے قادرہونے کے باوجودبھی تاخیرکے سبب وہ گنہگارنہیں ہوگااوروہ اداکرنے والاہی ہوگانہ کہ قضاکرنے والا۔ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی اورملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں :

(اعلم ان الكفارات كلها واجبة على التراخي)وانما الفور بالمسارعة الی الطاعة والمسابقة الی اسقاط الکفارة افضل۔۔۔(فلا یاثم بالتاخیر) ای بتاخیر اداء الکفارة (عن اول وقت الامکان) ای ابتداء زمان القدرة علیها (ویکون) ای المکفر (مؤدیا لا قاضیا فی ای وقت ادی وانما یتضیق علیه الوجوب فی اخر عمره فی وقتٍ یغلب علی ظنه انه لم یؤده لفات) ای وقته او اداؤه (فان لم یؤد فیه) فی ذلک الوقت (فمات اثم ویجب علیه الوصیة بالاداء)۔۔۔ (والافضل تعجیل اداء الکفارات)۔ ()

یعنی،توجان لے بے شک تمام کفارے فی الفورواجب نہیں ہوتے ہیں ،اور فوری طورپرطاعت کی طرف جلدی کرنااورکفارہ کوساقط کرنے کی طرف سبقت کرناافضل ہے ،پس وہ اول وقت سے یعنی کفارہ اداکرنے پرقادرہونے کے زمانے کی ابتداء سے مؤخرکرنے کے سبب گنہگارنہیں ہوگایعنی کفارہ کی ادائیگی میں تاخیر کے سبب،اورکفارہ دینے والاجس وقت میں کفارہ اداکرے گاتووہ اداکرنے والاہوگا،نہ کہ قضاءکرنے والا،اورعمرکے اخری حصے میں جب اسے غالب گمان ہوجائے کہ وہ کفارہ ادانہ کرے گاتوفوت ہوجائے گایعنی کفارے کاوقت یاکفارے کوادا کرنا ، پھر اگرایسے وقت میں ادانہ کیااوروہ فوت ہوگیاتووہ گنہگارہوا،اوراس پرکفارہ ادا کرنے کی وصیت کرناواجب ہے اورکفاروں کی ادائیگی میں جلدی کرناافضل ہے ۔ اورعلامہ شامی حنفی’’شرح نقایہ‘‘کے حوالے سے لکھتے ہیں :

في شرح النقاية للقاري : ثم الكفارات كلها واجبة على التراخي، فيكون مؤديًا في اي وقتٍ، وانما يتضيق عليه الوجوب في اخر عمره في وقتٍ يغلب على ظنه انه لو لم يؤده لفات، فان لم يؤد فيه حتى مات اثم وعليه الوصية به۔ ()

یعنی،ملاعلی قاری کی’’شرح نقایہ‘‘() میں ہے : پھرتمام قسم کے کفارے فی الفورواجب نہیں ہوتے ہیں ،پس وہ کسی بھی وقت میں اداکرنے والا ہوگا، اور عمر کے اخری حصے میں جب اسے غالب گمان ہوجائے کہ وہ کفارہ ادانہ کرے گاتوفوت ہوجائے گا، پھر اگراس نے ایسے وقت میں ادانہ کیایہاں تک کہ وہ فوت ہوگیاتووہ گنہگارہوا،اوراس پرکفارہ اداکرنے کی وصیت کرنالازم ہے ۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب جمعرات،8ذوالحجۃالحرام،1441ھ۔29جولائی2020م

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button