ثلث مال کی وصیت کے متعلق مسائل
"وصیت ثلث مال کی یا زیادہ یا کم کی، ورثہ نے اس کی اجازت دی یا نہ دی یا بعض نے اجازت دی، بعض نے نہ دی، بٹیی یا بیٹے کے حصہ کے برابر کی وصیت وغیرہ”۔
مسئلہ۱: مرنے والے نے کسی آدمی کے حق میں اپنے چوتھائی مال کی وصیت کی اور ایک دوسرے آدمی کے حق میں اپنے نصف مال کی، اگر ورثہ نے اس وصیت کو جائز رکھا تو نصف مال اس کو ملے گا جس کے حق میں نصف مال کی وصیت ہے اور چوتھائی مال اسے دیا جائے گا جس کے لئے چوتھائی مال کی وصیت کی اور باقی مال وارثوں کے درمیان مقررہ حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا اور اگر وارثوں نے اس کی وصیت کو جائز نہ رکھاتو اس صورت میں مرنے والے موصی کی وصیت اس کے ثلث مال میں صحیح ہوگی اور اس کا ثلث مال سات حصوں میں منقسم ہوکر چار حصے نصف مال کی وصیت والے کو اور تین حصے چوتھائی مال کی وصیت والے کو ملیں گے(خزانتہ المفتیین،ازعالمگیری ج۶ ص۹۷)
مسئلہ۲: ایک شخص کے حق میں اپنے ثلث مال(تہائی مال)کی وصیت کی اور دوسرے کے حق میں اپنے سد س ما ل کی(چھٹے حصے کی)تو اس صورت میں اس کے ثلث کے تین حصے کئے جائیں گے اس میں سے دو ثلث مال کی وصیت والے کے لئے ااور ایک حصہ اسے جس کے حق میں سدس مال کی وصیت کی(ہدایہ از عالمگیری ج ۶ ص۹۷)
مسئلہ۳: ایک شخص نے وصیت کی کہ میر اکل مال فلاں شخص کو دیدیا جائے اور ایک دوسرے شخص کے لئے وصیت کی کہ اسے میرے مال کا تہائی حصہ دیا جائے تو اگر اس کے وارث نہیں ہیں یا ہیں مگر انھوں نے اس وصیت کوجائز کردیا تو اس کا مال دونوں (موصی لھما)کے درمیان بطریق منازعت تقسیم ہوگا اور اس کی صورت یہ ہے کہ ثلث مال نکال کر بقیہ کل اس کو دیدیا جائے گا جس کے حق میں کل مال کی وصیت ہے رہا ثلث مال تو وہ دونوں کے مابین نصف نصف تقسیم کردیا جائے گا(عالمگیری ج ۶ ص۹۸)
مسئلہ۴: موصی نے ایک شخص کے لئے اپنے ثلث مال کی وصیت کی اور دوسرے شخص کے لئے بھی اپنے ثلث مال کی وصیت کردی ا ور ورثہ اس کے لئے راضی نہ ہوئے تو اسکا ثلث مال دونوں کے مابین تقسیم ہوگا(کافی از عالمگیری ج ۶ ص۹۸)
مسئلہ۵: کسی نے وصیت کی کہ میرے مال کا ایک حصہ یا میرا کچھ مال فلاں شخص کو دیدیا جائے تو اسکی تشریح کا حق موصی کو ہے اگر وہ زندہ ہے اور اسکی موت کے بعد اس کی تشریح کا حق ورثہ کو ہے(شرح الطحاوی از عالمگیری ج ۶ ص۹۸)
مسئلہ۶: کسی نے اپنے مال کے ایک جزو کی وصیت کی تو ورثہ سے کہا جائے گا کہ تم جتنا چاہو موصی لہ کو دیدو(عالمگیری ج ۶ ص۹۸)
مسئلہ۷: اپنے مال کے ایک حصہ کی وصیت پھر اس کا انتقال ہوگیا اور اس کا کوئی وارث بھی نہیں ہیں تو موصی لہ کو نصف ملے گا اور نصف بیت المال میں جمع ہوگا(محیط السرخسی از عالمگیری ج ۶ ص۹۹)
مسئلہ۸: ایک شخص کا انتقال ہوا اس نے وارثوں میں ایک ماں اور ایک بیٹا چھوڑا اور وصیت کرگیا کہ فلاں کو میرے مال سے بیٹی کا حضہ ہے(اگر بیٹی ہوتی اور اسے حصہ ملتا)تو وصیت جائز ہے اور اس کا مال سترہ حصوں میں منقسم ہوکر موصی لہ کو پانچ(۵) حصہ ملیں گے دو (۲)حصے کو ماں کو اور دس حصے بیٹے کو ملیں گے(عالمگیری ج ۶ ص۹۹)
مسئلہ۹: اگر میت نے اپنے ورثہ میں ایک بیوی اور ایک بیٹا چھوڑا اور دوسرے بیٹے کے برابر حصہ کی وصیت کسی کے لئے کی(اگر دوسرا بیٹا ہوتا)اور وارثوں نے اس کی وصیت کو جائز رکھا تو اس کا ترکہ پندرہ حصوں میں منقسم ہوگا، موصی لہ(جس کے حق میں وصیت کی)کو سات حصے، بیوہ بیوی کو ایک حصہ اور بیٹے کو سات حصے دیئے جائیں گے۔(عالمگیری ج ۶ ص ۹۹)
مسئلہ۱۰: ایک شخص کا انتقال ہوا اس نے وارثوں میں ایک لڑکی اور ایک بھائی چھوڑا اور کسی شخص کے لئے بقدر حصہ بیٹے کی وصیت کی(اگر ہوتا)اور وارثوں نے اس وصیت کو جائز رکھاتو اس صورت میں موصی لہ کو اس کے مال کے دو ثلث (دو تہائی)حصہ ملیں گے اور ایک ثلث بھائی اور بیٹی کے درمیان نصف نصف تقسیم ہوگا اور اگر وارثوں نے اس کی وصیت کو جائز نہ رکھا تو اس صور ت میں موصی لہ کو ایک ثلث ملے گا اور دو ثلث بھائی اور بیٹی میں نصف نصف تقسیم ہوں گے(عالمگیری ج ۶ ص۱۰۰)
مسئلہ۱۱: ـ ایک شخص کا انتقال ہوا اس نے ورثہ میں ایک بھائی اور ایک بہن چھوڑے اور یہ وصیت کی کہ فلاں کو میرے مال سے بقدربیٹے کے حصے کے دینا(اگر بیٹا ہوتا) اور وارثوں نے اس کی اجازت دیدی تو اس صور ت میں کل مال موصی لہ کو ملے گا اور بھائی اور بہن کو اس کے مال سے کچھ حصہ نہ ملے گا اور اگر یہ وصیت کی کہ فلاں کو بیٹے کے حصے کے مثل دینا تو اس صورت میں موصی لہ کو اس کے مال کا نصف ملے گا او رباقی نصف میں بھائی بہن شریک ہوں گے بھائی کو دو حصے اور بہن کا ایک حصہ(عالمگیری ج ۶ ص۱۰۰)
مسئلہ۱۲: وصیت کرنے والے نے وصیت کی کہ میرے مال سے فلاں کو بقدر بیٹی کے حصے کے دیا جائے اور وارثوں میں اس نے ایک بیٹی، ایک بہن چھوڑی تو اس صورت میں موصی لہ کو اس کا تہائی مال ملے گا ورثاء اجازت دیں یا نہ دیں (عالمگیری ج ۶ ص۱۰۰)
مسئلہ۱۳: ایک شخص کا انتقال ہوا اس نے اپنے وارثوں میں ایک بیٹا اور باپ چھوڑے اور وصیت کی کہ فلاں شخص کو میرے بیٹے کے حصہ کے مثل حصہ دیا جائے تو اگر وارثوں نے اس کی وصیت کو جائز رکھا تو اس کا مال گیارہ حصوں میں تقسیم ہوکر موصہ لہ کو پانچ(۵) حصے باپ کو ایک حصہ اور بیٹے کو پانچ حصے ملیں گے اور اگر وارثوں نے اس کی وصیت کو جائز نہ رکھا تو موصی لہ کو اس کے مال کا تہائی حصہ ملے گا اور باقی باپ اور بیٹے کے درمیان حصہ رسدی تقسیم ہوگا باپ کو ایک حصہ، بیٹے کو پانچ، یعنی کل مال کے نو حصے کئے جائیں گے، تین حصے موصی لہ، کو ایک حصہ باپکو اور پانچ حصے بیٹے کو دیئے جائیں گے (عالمگیری ج ۶ ص۱۰۰)مذکورہ بالا صورتوں میں میت کے وارثوں میں سے اگر ایک نے میت کی وصیت کو جائز نہ کیا اور ایک نے جائز کردیا تو جائز کرنے والے وارث کے حصے میں موصی لہ کو حصہ ملے گا اور جائز نہ کرنے والے وار کے حصے میں سے نہیں ملے گا بلکہ اس کا پورا پورا حصہ ملے گا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اگر ایک وارث نے وصیت کو جائز کیا اور دوسرے وارث نے جائز نہ کیا تو دیکھا جائے گا کہ دونوں وارثوں کے اجازت دینے کی صورت میں مسئلہ کا حساب گیارہ حصوں سے ہوا تھا اور اجازت نہ دینے کی صورت میں مسئلہ کا حساب نو سے ہوا تھا، ان دونوں کے باہم ضرب کیا جائے۹x۱۱=۹۹ہوئے، اب دونوں کے وصیت کو جائز نہ کرنے کی صورت میں نناوے(۹۹) میں سے ایک ثلث یعنی ۳۳ حصے موصی لہ کو ملیں گے اور بقیہ۶۶ حصوں میں سے ایک سدس (چھٹا حصہ)یعنی گیارہ باپ کوملیں گے اور بقیہ پانچ سدس یعنی ۵۵ حصے بیٹے کو ملیں گے کل میزان ۹۹۔ اور وارثوں کے اس وصیت کو جائز کرنے کی صورت میں موصی لہ کو گیارہ میں سے ۵x۹=۴۵، باپ کو گیارہ میں سے۱x۹=۹ ، اور بیٹے کو بقیہ ۵x۹=۴۵ حصے ملیں گے (کل میزان ۹۹)۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ان دونوں حالتوں کے درمیان موصی لہ کو بارہ حصے زیادہ ملے جن میں سے دو حصے باپ کے حق میں اور دس حصے بیٹے کے حق میں سے ،کیونکہ اجازت نہ دینے کی صورت میں باپ کو گیارہ حصے ملے اور اجازت دینے کی صورت میں نو، فر ق دو حصوں کا ہوا اور بیٹے کو اجازت دینے کی صورت میں ۴۵ حصے ملے اور اجازت نہ دینے کی صورت میں ۵۵، فرق دس حصوں کا ہوا۔ اس طرح دس اور دو بار ہ حصے موصی لہ کو زیادہ ملتے ہیں ۔اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موصی لہ کو باپ کے حق میں سے دو حصے اور بیٹے کے حق میں سے دس حصے ملے لہذا اگر باپ نے وصیت کو جائز رکھا اور بیٹے نے نہیں تو باپ کے حق میں سے دو حصے موصی لہ کو مل جائیں گے اور بیٹ کو اس کا پورا حق ملے گا۔ اس طرح نناوے میں سے۳۳+۲=۳۵ حصے موصی لہ کو، نو حصے باپ کو اور ۵۵ حصے بیٹے کو ملیں گے، کل میزان ہوا ۹۹۔اور اگر بیٹے نے وصیت کو جائز رکھا اورباپ نہیں تو بیٹے کے حق میں سے دس حصے موصی لہ کو مل جائیں گے باپ کو اس کا پورا حق ملے گا۔ یعنی ننانوے میں سے۳۳+۱۰=۴۳ حصے موصی لہ کو گیارہ حصے باپ کو اور ۴۵ حصے بیٹے کو ملیں گے کل میزان ۹۹ ہوا (عالمگیری ج ۶ ص۱۰۰)
فائدہ: اس سلسلہ میں ضابطہ یہ ہے کہ مسئلہ کی تصحیح ایک بار کی جائے۔ اس صورت میں کہ سب وارثوں نے اجازت دیدی اور دوسری بار مسئلہ کی تصحیح کی جائے اس صورت میں کہ کسی وارث نے اجازت نہیں دی پھر دونوں تصحیحوں کو ایک مبلغ سے کردیا جائے(یعنی دونوں تصحیحوں کو باہم ضرب دیدی جائے) پھر اس صورت میں کہ ایک وارث نے اس وصیت کو جائز کردیا اور دوسرے نے جائز نہ کیا یا اس کی اجازت معتبر نہ ہو جیسے بچہ اور پاگل کی اجازت معتبر نہیں ، تو جائز کرنے والے وارثوں کے سہام کو مسئلہ اجازت سے لیا جائے اور باقی دوسروں کے سہام کو مسئلہ عدم اجازت سے لیا جائے وہ ہر وارث کا حصہ ہوگا اور جو باقی بچے گا وہ موصی لہ کے لئے ثلث پر زیادہ ہوگا(یعنی موصی لہ کے ثلث میں بڑھا دیا جائے گا)۔( جد المختار حاشیہ رد المختا از افادات اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان ص ۶۳۹) اس کی مثال یہ ہے کہ موصی نے باپ اور بیٹے کو چھوڑا او رموصی لہ کے لئے بیٹے کے مثل حصہ کی وصیت کی۔
ورثہ کے اجازت دینے کی صورت میں مسئلہ گیا رہ (۱۱)سے ہوگا
۱ب ابن موصی لہ
۱ ۵ ۳
۱۱ ۵۵ ۳۳
ورثہ کے اجازت نہ دینے کی صورت میں مسئلہ ۹(نو) سے ہوگا
اب ابن موصی لہ
۱ ۵ ۵
۹ ۴۵ ۴۵
ضابطہ کے مطابق دونوں تصحیحوں کا مبلغ واحد کیا۱۱x۹=۹۹ مبلغ واحدہوا
مجیز اگرباپ ہو تو اجازت کی صورت میں باپ کا حصہ ۹ سہام ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت میں باقی دوسروں کا حصہ ۸۸ سہام ہے دونوں کو جمع کیا ۹+۸۸=۹۷، فرق ۹۹-۹۷=۲ سہام لہذا موصی لہ کو دو سہام زائد علی الثلث ملیں گے یعنی ۳۳+۲=۳۵ سہام او رمجیز اگر بیٹا ہو تو اجازت کی صورت میں اس کا حصہ ۴۵ سہام ہے اور اجازت نہ دینے کی صورت میں باقی دوسروں کا حصہ۴۴ سہام ہے، دونوں کو جمع کیا ۴۵+۴۴=۸۹ فرق ۹۹-۸۹=۱۰ لہذا موصی لہ کو دس سہام زائد علی الثلث ملیں گے، ۳۳+۱۰=۴۳ سہام۔
مسئلہ ۱۴: مرنے والے نے دو بیٹے چھوڑے اور ایک شخص کے لئے اپنے ثلث مال (تہائی مال) کی وصیت کی اور ایک دوسرے شخص کے لئے مثل ایک بیٹے کے حصے کی وصیت کی اور دونوں وارث بیٹوں نے مرنے والے باپ کی دونوں وصیتوں کا جائز رکھا تو اس صورت میں جس کے لئے تہائی مال کی وصیت کی اسے میت کے مال کا تہائی حصہ ملے گا اور بقیہ دو ثلث دونوں بیٹوں اور اس شخص کے درمیان جس کے لئے بیٹے کے مثل حصہ کی وصیت کی تہائی تہائی تقسیم ہوگا۔ حساب اس کا اس طرح ہوگا کہ کل مال نو(۹) حصوں میں منقسم ہوگا اس میں سے تین(۳) حصے اسے ملیں گے جس کے لئے ثلث مال(تہائی مال) کی وصیت ہے باقی رہے چھ(۶) حصے تو دو (۲)دو(۲) حصے دونوں بیٹوں کے درمیان اور دو(۲) حصے اس کے جس کے لئے بیٹے کے حصے کے مثل وصیت کی ہے۔ (عالمگیری ج ۶ ص۱۰۰)۔ اور اگر(۲) دونوں بیٹوں نے باپ کی وصیت کو جائز نہ کیا تو ایک تہائی مال ان دونوں موصی لہ کو دیا جائے گا جن کے حق میں وصیت ہے اور بقیہ دو ثلث(دو تہائی)دونوں بیٹوں کو مل جائے گا۔(عالمگیری ج ۶ ص۱۰۰) ۔اور اگر دونوں بیٹوں نے ثلث مال کی وصیت کو جائز نہ رکھا اور اس وصیت کو جائز جو اس نے دوسرے شخص کے لئے مثل ایک بیٹے کے حصے کے کی تھی تو اس صورت میں صاحب ثلث یعنی ثلث مال کی وصیت والے کو نصف ثلث یعنی سدس (چھٹا حصہ) ملے گا اور صاحب مثل جس شخص کے حق میں مثل حصہ بیٹے کے وصیت کی اسے بقیہ مال کاایک ثلث ملے گا۔اس صورت میں حساب ایسے عدد سے ہوگا جس میں سے اگر سدس(چھٹا حصہ) نکالا جائے تو بقیہ مال ایک ایک تہائی کے حساب سے تقسیم ہوجائے اور ایسا چھوٹے سے چھوٹا عدد اٹھارہ(۱۸) ہے لہذا کل مال وصیت اٹھارہ حصوں میں تقسیم ہوگا، چھٹا حصہ یعنی تین (۳)حصے ثلث مال کی وصیت والے کو، باقی(۱۵) پندرہ حصوں میں ایک ثلث یعنی پانچ (۵)حصے اس شخص کو جس کے لئے مثل بیٹے کے حصے کی وصیت کی بقیہ ایک ثلث یعنی پانچ پانچ حصے دونوں بیٹوں کو۔(عالمگیری ج ۶ ص۱۰۰)اور اگر یہ صورت ہے کہ ایک بیٹے نے صاحب مثل کے حق میں وصیت کو جائز رکھا اور صاحب ثلث کے حق میں وصیت کو رد کردیا اور دوسرے بیٹے نے دونوں وصیتوں کو رد کردیا تو مسئلہ اس طرح ہوگا کہ کہ صاحب مثل کو چارحصے اور صاحب ثلث کو تین حصے اور جس بیٹے نے ایک وصیت کو جائز کیا اس کو پانچ (۵)حصے اور جس بیٹے نے دونوں وصیتوں کو رد کردیا اس کو چھ(۶) حصے، کل میزان اٹھارہ(۱۸) حصے، اس طرح صاحب مثل کے حق میں وصیت جائز رکھنے والے بیٹے کا ایک حصہ صاحب مثل کو ملا اور اس کا حصہ بجائے تین کے چار ہوگیا اور اس بیٹے کے چھ کے بجائے پانچ حصے رہ گئے(محیط از عالمگیری ج ۶ ص۱۰۰)
مسئلہ۱۵: ایک شخص کے پانچ بیٹے ہیں اس نے وصیت کی کہ فلاں شخص کو میرے ثلث مال میں میرے ایک بیٹے کے حصے کے مثل دینا اور ثلث مال میں سے یہ حصہ نکال کر بقیہ کا ثلث ایک دوسرے شخص کو دیا جائے،تو اس وصیت کرنے والے کا کل مال اکیاون (۵۱)حصوں میں تقسیم ہوکر ان میں سے آٹھ (۸)حصے اس موصی لہ کو ملیں گے جس کے حق میں بیٹے کے حصہ کے مثل کی وصیت کی اور تین(۳) حصے دوسرے موصی لہ کو ملیں گے جس کے حق میں ثلث ما بقی من الثلث کی وصیت کی (یعنی جس کے حق میں باقی ماندہ ثلث مال سے ایک ثلث وصیت کی) ( عالمگیری ج۶ص۱۰۰)۔اور ہر بیٹے کو آٹھ آٹھ حصہ ملیں گے(مؤلف)
مسئلہ۱۶: ایک شخص کے پانچ بیٹے ہیں اس نے وصیت کی کہ فلاں شخص کو میرے ثلث مال سے میرے ایک بیٹے کے حصے کے مثل دیا جائے اور اس ثلث مال سے یہ حصہ نکال کر جو باقی بچے اس کا ثلث(یعنی تہائی) ایک دوسرے شخص کو دیا جائے تو اس صورت میں اس وصیت کرنے والے کا مال اکیاون (۵۱)حصوں میں تقسیم ہوکر جس کے لئے بیٹے کے حصے کے مثل کی وصیت کی ہے اسے آٹھ(۸) حصے ملیں گے، اور اسکے ثلث مال میں سے یہ آٹھ نکال کر جو باقی بچے گا اس کا ایک ثلث یعنی تین حصے اس کو ملیں گے ، جس کے لئے ثلث مابقی من الثلث(یعنی اس کے تہائی مال سے آٹھ حصے نکال کر جو باقی بچا اس کا تہائی حصہ)کی وصیت کی تھی اور پانچ بیٹوں میں سے ہر ایک کو آٹھ آٹھ حصے ملیں گے۔ مسئلہ کی تخریج اس طرح ہوگی کہ پانچ بیٹوں کو بحساب فی کس ایک حصہ=پانچ حصے اور ایک حصہ اس میں صاحب مثل کا بڑھایا(یعنی اس کا جس کے لئے بیٹے کے حصے کے مثل کی وصیت کی) اس طرح کل چھ حصے ہوئے چھ کو تین میں ضرب دیا جائے۶x۳=۱۸ ہوئے، اٹھارہ (۱۸)میں ایک کم کیا جو زیادہ کیا گیا تھا تو سترہ (۱۷)رہ گئے یہ سترہ (۱۷) اس کے کل مال کا ایک ثلث ہے اس کے دو ثلث چونتیس(۳۴) ہوئے، اس طرح کل حصے اکیاون(۵۱) ہوئے، جب یہ معلوم ہوگیا ثلث مال(تہائی مال)سترہ حصے ہیں تو اس میں سے صاحب مثل کا حصہ(یعنی جس کے لئے ایک بیٹے کے حصہ کی مثل کی وصیت کی)معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اصل حصہ کی طرف دیکھا جائے وہ پانچ بیٹوں کے پانچ اور صاحب مثل کا ایک تھا، اس ایک کو تین سے ضرب کیا تو تین ہوئے پھر تین کو تین سے ضرب کیا تو نو (۹) ہوئے، نو (۹)میں سے ایک جو بڑھایا تھا کم کیا تو آٹھ باقی رہے، یہ حصہ ہوا صاحب مثل کا، پھر اس آٹھ کو سترہ میں سے گھٹایا تو نو باقی رہے اس کا ایک تہائی یعنی تین حصے دوسرے شخص کے جس کے حق میں ثلث ما بقی الثلث کی(بقیہ تہائی مال کے تہائی کی)وصیت کی تھی، نو میں سے تین نکال کر چھ (۶)بچے، ان چھ(۶) کو دو تہائی مال یعنی چونتیس (۳۴) حصوں میں جمع کیا تو چالیس (۴۰)ہوگئے اور یہ چالیس پانچ بیٹوں میں برابر برابر بحساب فی کس آٹھ حصے تقسیم ہوں گے یہ کل ملا کر اکیاون ہوئے یعنی موصی لہ نمبر۲ ایک کو آٹھ، موصی لہ نمبر کو تین اور پانچ بیٹوں کو چالیس=کل اکیاون(عالمگیری ج ۶ ص۱۰۱)
مسئلہ۱۷: کسی شخص نے وصیت کی کہ”میرے مال کا چھٹا حصہ فلاں شخص کے لئے ہے”پھر اسی مجلس میں یا دوسری مجلس میں کہا کہ اسی کے لئے میرے مال کا تہائی حصہ ہے اور وارثوں نے اسے جائز کردیا تو اسے تہائی مال ملے گا اور چھٹا حصہ اسی میں داخل ہوجائے گا(ہدایہ ج ۴ عالمگیری ج ۶ص۱۰۴)
مسئلہ ۱۸: کسی نے وصیت کی کہ فلاں شخص کے لئے ایک ہزار روپیہ ہے اور اس کا کچھ مال نقد ہے اور کچھ دوسروں کے ذمہ ادھار ہے ، تو اگر یہ ایک ہزار روپیہ اس کے نقد مال سے نکالا جاسکتا ہے تو یہ ایک ہزار روپیہ موصی لہ کو ادا کردیا جائے گا اور اگر یہ روپیہ اس کے نقد مال سے نہیں نکالا جاسکتا تو نقد مال کا ایک تہائی جس قدر رہتا ہے وہ فی الوقت ادا کردیا جائے گا اور ادھار میں پڑا ہوا روپیہ جیسے جیسے اور جتنا جتنا وصول ہوتا جائے گا وصول شدہ روپیہ کا ایک تہائی موصی لہ کو دیا جاتا رہے گا تا آنکہ اس کی ایک ہزار کی رقم پوری ہوجائے جو کہ مرنے والے نے اس کے لئے وصیت کی تھی(ہدایہ ج ۴، عالمگیری ج ۶ ص۱۰۵)
مسئلہ۱۹: زید نے وصیت کی کہ اس کا ایک تہائی مال عمرو اور بکر کے لئے ہے او ربکر کا انتقال ہوچکا ہے خواہ اس کا علم موصی یعنی وصیت کرنے والے کو ہو یا نہ ہو، یا یہ وصیت کی کہ میرا تہائی مال عمرو اور بکر کے لئے ہے اگر بکر زندہ ہو حالانکہ وہ انتقال کرچکا ہے یہ وصیت کی کہ میرا تہائی مال عمرو کے لئے اور اس شخص کے لئے ہے جو اس گھر میں ہو اور اس گھر میں کوئی نہیں ہے یا یہ وصیت کی کہ میرا تہائی مال عمرو کے لئے اور اس کے بعد ہونے والے بیٹے کے لئے، یا یہ کہا کہ میرا تہائی مال عمرو کے لئے اور بکر کے بیٹے کے لئے اور بکر کا بیٹا وصیت کرنے والے سے پہلے مرگیا تو ان تمام صورتوں میں اس کا تہائی مال پورا پورا صرف اکیلے عمرو کو ملے گا(عالمگیری ج ۶ ص۱۰۵)
مسئلہ۲۰: کسی نے وصیت کی کہ میرا تہائی مال زید اور بکر کے مابین تقسیم کردیا جائے اور بکر کا اس وقت انتقال ہوچکا ہو، یا یہ کہا کہ میر اتہائی مال زید اور بکر کے درمیان تقسیم کیا جائے اگر وہ میرے بعد زندہ ہو، یا یہ کہا کہ میرا تہائی مال زید اور فقیر کے مابین تقسیم ہو اگر بکر گھر میں ہو اور وہ گھر میں نہیں ہے، یا یہ کہا کہ میرا تہائی مال زید اور بکر کے لڑکے کے درمیان تقسیم ہو اور بکر کے یہاں لڑکا پیدا ہوا یا لڑکا موجود تھا پھر مرگیا اور دوسرا لڑکا پیدا ہوگیا، یا یہ کہا کہ میر اتہائی مال زید اور فلاں کے لڑکے کے مابین تقسیم ہو اگر وہ لڑکا فقیر ہو اور وہ لڑکا فقیر و محتاج نہ ہوا تھا یہاں تک موصی کا انتقال ہوگیا، یا یہ وصیت کی کہ میرا تہائی مال زیداور اس کے وارث کے لئے ہے ، یا زید اور اس کے دو بیٹوں کے لئے ہے اور اس کے بیٹا صرف ایک ہے تو ان تمام صورتوں میں زید کو نصف ثلث یعنی اس کے مال کا چھٹا حصہ ملے گا( عالمگیری ج۶ص۱۰۵)
مسئلہ۲۱: موصی(وصیت کرنے والا) نے زید اور عمرو کے لئے اپنے ثلث مال(تہائی مال) کی وصیت کی ، یا یہ کہا کہ میرا ثلث مال زید اور عمرو کے مابین تقسیم کیا جائے پھر موصی کا انتقال ہوگیا اس کے بعد زید اور عمرو دونوں میں سے کسی ایک کا انتقال ہوگیا تو جو زندہ رہا اس کو ثلث مال(تہائی مال) کا آدھا ملے گا اور آدھا مرنے والے کے وارثوں کو ملے گا یہی حکم اس وقت ہے جب موصی کے انتقال کے بعد موصی لہما یعنی زید اور عمرو میں کسی کے وصیت قبول کرنے سے پہلے ایک کا انتقال ہوجائے اور دوسرا جو زندہ رہا اس نے وصیت کو قبول کرلیا تو دونوں وصیت کے مال کے مالک ہوں گے آدھا زندہ کو اورآدھا مرنے والے کے وارثوں کو ملے گا، اور اگر ان دونوں میں سے ایک وصیت کرنے والے سے پہلے انتقال کرگیا تو اس کا حصہ موصی کو واپس ہوجائے گا(محیط السرخسی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۵)
مسئلہ۲۲: یہ وصیت کی کہ میر اثلث مال (تہائی مال)زید کے لئے ہے اور اس کے لئے جو عبد اللہ کے بیٹوں میں سے محتاج و فقیر ہو پھر موصی (وصیت کرنے والے)کا انتقال ہوگیا اور عبد اللہ کے سب بیٹے اس وقت غنی اور مالدار ہیں تو اس کا ثلث مال سب کا سب زید کو مل جائے گا، اور اگر موصی کی موت سے قبل عبد اللہ کے کچھ بیٹے (یعنی سب نہیں )غریب و فقیر ہوگئے تو اس کا ثلث مال زید اور عبد اللہ کے غریب بیٹوں کے درمیان بحصہ مساوی ان کی تعداد کے مطابق تقسیم ہوگا اور اگر عبد اللہ کے سب ہی بیٹے غریب و فقیر ہیں تو ان کو کچھ حصہ نہ ملے گا وصیت کا کل مال زید کو مل جائے گا(عالمگیری ج ۶ ص۱۰۵)
مسئلہ۲۳: ایک عورت کا انتقال ہوا اس نے اپنے وارثوں میں صرف اپنا شوہرچھوڑا اور اپنے نصف مال کی وصیت کردی کسی اجنبی شخص کے لئے تو یہ وصیت جائز ہے اس صورت میں شوہر کو ثلث مال ملے گا، اجنبی کو نصف، بچا سدس (چھٹا حصہ)وہ بیت المال جمع ہوگا، تقسیم اس طرح ہوگی کہ پہلے متوفیہ کے مال سے بقدر ثلث مال کے نکال لیا جائے گا کیونکہ وصیت وراثت پر مقد م ہے، تہائی مال نکالنے کے بعد دو تہائی مال باقی بچا اس میں سے نصف شوہر کو وراثت میں دیا جائے گا جو کہ کل کے ایک ثلث کے برابر ہے اب باقی رہا ایک ثلث اس کا کوئی وارث ہے ہی نہیں لہذا متوفیہ کی باقی وصیت اس میں جاری ہوگی اور موصی لہ جس کو ثلث ملا تھا اس کا نصف پورا کرنے کے لئے اس بقیہ ثلث میں سے ایک حصہ دے کر اس کا نصف پورا کردیا جائے گا، ا ب باقی بچا ایک سدس(چھٹا حصہ) وہ بیت المال میں جمع ہوگا کیونکہ اس کا کوئی وارث نہیں ہے(عالمگیری ج ۶ ص۱۰۵)
مسئلہ۲۴: شوہر کا انتقال ہوا،وارثوں میں اس نے ایک بیوی چھوڑی اور اپنے کل مال کی کسی اجنبی کے لئے وصیت کردی لیکن اس کی زوجہ نے اس وصیت کو جائز نہ کیا تو اس کا کل مال چھ حصوں میں تقسیم ہوکر ایک حصہ زوجہ کو اور پانچ حصے اجنبی کو ملیں گے جس کے حق میں کل مال کی وصیت کی تھی، مال ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل مال کے چھ حصے کرکے پہلے اس میں سے ایک ثلث یعنی دو حصے اجنبی کو ملیں گے کیونکہ وصیت وراثت پر مقدم ہے بقیہ چار حصوں میں سے ایک ربع یعنی ایک حصہ بیوی کو ملے گا باقی رہے تین حصے، یہ بھی اجنبی کو مل جائیں گے کیونکہ وصیت بیت المال پر بھی مقدم ہے(محیط السرخسی از عالمگیری ج ۶ ص۱۰۵)
مسئلہ۲۵: یہ وصیت کی کہ میرا ثلث مال فلاں کے بیٹوں کے لئے ہے اور بوقت وصیت فلاں کے بیٹے نہیں تھے بعد میں پیدا ہوئے اس کے بعد موصی(وصیت کرنے والے)کا انتقال ہوا تو اس کا تہائی مال اس فلاں کے بیٹوں میں تقسیم ہوگا اور اگر بوقت وصیت فلاں کے بیٹے موجود تھے لیکن وصیت کرنے والے نے نہ ان بیٹوں کے نام لئے نہ ان کی طرف اشارہ کیا (یعنی اس طرح کہنا کہ ان بیٹوں کے لئے)تو یہ وصیت ان بیٹوں کے حق میں نافذ ہوگی جو موصی لہ کی موت کے وقت موجود ہوں گے خواہ یہ بیٹے وہی ہوں جو بوقت وصیت موجود تھے یا وہ بیٹے مرگئے ہوں اور دوسرے پیدا ہوئے ار اگر بوقت وصیت فلاں کے بیٹوں میں سے ہر ایک کا نام لیا تھا یا ان کی طرف اشارہ کردیا تھا تو یہ وصیت خاص انہی کے حق میں ہوگی، اگر ان کا انتقال موصی کی موت سے پہلے ہوگیا تو وصیت باطل ٹھہرے گی(عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۵)
مسئلہ ۲۶: یہ وصیت کی کہ میرا ثلث مال عبد اللہ اور زید اور عمرو کے لئے ہے اور عمرو کو اس میں سے سو روپے دیں اور اس کا تہائی مال کل سو ہی روپے ہے تو کل عمرو کو ملے گا اور اگر اس کا تہائی مال ایک سو پچاس روپے ہے تو اس صورت میں سو روپے عمرو کو اور باقی پچاس میں آدھے آدھے عبد اللہ اور زید کو ملیں گے(محیط السرخسی از عالمگیری ج۶ ص۱۰۵)
مسئلہ۲۷: کسی کے لئے ثلث مال کی وصیت کردی اور وصیت کرنے والے کی ملکیت میں بوقت وصیت کوئی مال ہی نہ تھا بعد میں اس نے کما لیا تو بوقت موت وہ جتنے مال کا مالک ہے اس کا ثلث موصی لہ(جس کے حق میں وصیت کی)کو ملے گا جب کہ موصی بہ شئے معین اور نوع معین نہ ہو(عالمگیری ج ۶ ص۱۰۶)
مسئلہ۲۸: اگر کسی نے اپنے مال میں سے کسی خاص قسم کے مال کے ثلث حصہ کی وصیت کی مثلاً کہا کہ میری بکریوں یا بھیڑوں کا تہائی حصہ فلاں کو دیا جائے اور یہ بکریاں یا بھیڑیں موصی کی موت سے پہلے ہلاک ہوجائیں تو یہ وصیت باطل ہوجائے گی حتی کہ اس نے ان کے ہلاک ہونے کے بعد دوسری بکریاں یا بھیڑیں خریدیں تو موصی لہ کا ان بکریوں یا بھیڑوں میں کوئی حصہ نہیں (عالمگیری ج۶ ص۱۰۶)
مسئلہ ۲۹: وصیت کرنے والے نے وصیت کی کہ فلاں کے لئے میرے مال سے ایک بکری ہے اور اس کے مال میں بکری موجود نہیں تو موصی لہ کو بکری کی قیمت دی جائے گی اور اگر یہ کہا تھا کہ فلاں کے لئے ایک بکری ہے یہ نہیں کہا تھا کہ "میرے مال سے”اور اس کی ملکیت میں بکری نہیں ہے تو بقول بعض وصیت صحیح نہیں اور بقول بعض وصیت صحیح ہے اور اگر یوں وصیت کی کہ فلاں کے لئے میری بکریوں میں سے ایک بکری ہے اور اس کی ملکیت میں بکری نہیں ہے تو وصیت باطل ٹھہرے گی اسی اصول پر گائے، بھینس اور اونٹ کے مسائل کا استخراج کیا جائے گا۔(عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۶)
مسئلہ۳۰ـ:ـ یہ وصیت کی کہ میرے مال کا تہائی حصہ صدقہ کردیا جائے اور کسی شخص نے وصی سے وہ مال غصب کرلیا اور ضائع کردیا اور وصی یہ چاہتا ہے کہ وصیت کے اس مال کو اس غاصب پر بھی صدقہ کردے اور غاصب اس مال کا اقراری ہے تو یہ جائز ہے(عالمگیری بحوالہ محیط السرخسی ج ۶ ص۱۰۶)
مسئلہ۳۱: وصیت کرنے والے نے کہا کہ میں نے تیرے لئے اپنے مال سے ایک بکری کی وصیت کی تو اس وصیت کا تعلق اس بکری سے نہ ہوگا جو وصیت کرنے کے دن اس کی ملکیت میں تھی بلکہ اس کا تعلق اس بکری سے ہوگا جو موصی کی موت کے دن اس کی ملکیت میں ہوگی اور جب یہ وصیت صحیح ہے تو موصی کی موت کے بعد اگر اس کے مال میں بکری ہے تو وارثوں کو اختیار ہے اگر وہ چاہیں تو موصی لہ کو بکری دیدیں یا چاہیں تو بکری کی قیمت دیدیں (محیط از عالمگیری ج ۶ ص۱۰۶)
مسئلہ۳۲: ایک شخص نے کہا کہ میرا سرخ رنگ کا عجمی النسل گھوڑا فلاں کے لئے وصیت ہے تو یہ وصیت اس میں جاری ہوگی جس کا وہ وصیت کے دن مالک تھا نہ کہ اس میں جو وہ بعد میں حاصل کر لے ہاں اگر اس نے یہ کہا کہ میرے گھوڑے فلاں کے لئے وصیت ہیں اور ان کی تعیین یا تخصیص نہ کی تو اس صورت میں وصیت بوقت وصیت موجود گھوڑوں اور بعد میں حاصل کئے جانے والے گھوڑوں دونوں کو شامل ہوگی (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۶)
مسئلہ ۳۳: اگر کسی نے اپنے ثلث مال کی فلاں شخص اور مساکین کے لئے وصیت کی تو اس ثلث مال کا نصف فلاں کو دیا جائے گا اور نصف مساکین کو (ہدایہ جلد ۴، از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۶)
مسئلہ ۳۴ : کسی نے اپنے ثلث مال کی وصیت ایک شخص کے لئے کی پھر دوسرے شخص سے کہا کہ میں نے تجھے اس وصیت میں اس کے ساتھ شریک کر دیا تو یہ ثلث ان دونوں کے لئے ہے اور اگر ایک کے لئے سو روپے کی وصیت کی اور دوسرے کے لئے سو کی پھر تیسرے شخص سے کہا کہ میں نے تجھے ان دونوں کے ساتھ شریک کیا تو اس تیسرے کے لئے ہر سو میں تہائی حصہ ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۶)
مسئلہ ۳۵ : کسی اجنبی شخص اور وارث کے لئے وصیت کی تو اجنبی کو وصیت کا نصف حصہ ملے گا اور وارث کے حق میں وصیت باطل ٹھہرے گی، اس طرح اپنے قاتل اور اجنبی کے حق میں وصیت کی تھی تو وصیت قاتل کے حق میں باطل اور اجنبی کو نصف حصہ ملے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۶) اس کے برخلاف اجنبی یا وارث کے لئے عین (نقد) یا دین کا اقرار کیا تو اجنبی کے لئے صحیح نہیں اور وارث کے لئے صحیح ہے (تبیین از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۶)
مسئلہ ۳۶ : متعدد کمروں پر مشتمل ایک مکان دو آدمیوں کے درمیان مشترک ہے ان میں سے ایک نے کسی کے لئے ایک معین کمرے کی وصیت کر دی تو مکان تقسیم کیا جائے گا پس اگر وہ معین کمرہ موصی کے حصہ میں آگیا تو وہ موصی لہ کو دے دیا جائے گا اور اگر وہ معین کمرہ دوسرے شریک کے حصہ میں آیا تو موصی لہ کو بقدر کمرے کے زمین ملے گی (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۷، درمختار، ردالمحتار ج ۵ ص ۴۷۳)
مسئلہ ۳۷ : وارث نے اقرار کیا کہ اس کے باپ نے فلاں کے لئے ثلث مال کی وصیت کی اور کچھ گواہوں نے گواہی دی کہ اس کے باپ نے کسی دوسرے کے لئے ثلث مال کی وصیت کی تو فیصلہ گواہوں کی گواہی کے مطابق ہوگا اور وارث نے جس کے لئے اقرار کیا اسے کچھ نہ ملے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۷)
مسئلہ ۳۸ : اگر کسی وارث نے اقرار کیا کہ اس کے باپ نے اپنے ثلث مال کی وصیت فلاں کے لئے کی پھر اس کے بعد کہا کہ بللکہ اس کی وصیت فلاں کے لئے کی، تو اس صورت میں جس کے لئے پہلے اقرار کیا اس کو ملے گا اور دوسرے کے لئے کچھ نہیں (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۷) اور اگر اس نے دونوں کے لئے متصلاً بلافصل اقرار کیاتو نصف مال دونوں کے مابین نصف نصف کر دیا جائے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۷)
مسئلہ ۳۹ : وارث تین ہیں اور مال تین ہزار ہے ہر وارث نے ایک ہزار پایا پھر ان میں سے ایک نے اقرار کیا کہ اس کے باپ نے فلاں کے لئے ثلث مال کی وصیت کی تھی اور باقی دو وارثوں نے انکار کیا تو اقرار کرنے والا اپنے حصے میں سے ایک تہائی اس کو دے گا جس کے لئے اس نے اقرار کیا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۷)
مسئلہ ۴۰ : اگر دو بیٹوں میں سے ایک نے تقسیم ترکہ کے بعد اقرار کیا کہ مرحوم باپ نے ثلث مال کی وصیت فلاں کے لئے کی تھی تو اس کا اقرار صحیح ہے اور اس اقرار کرنے والے ہی کے حصے کے ثلث میں نافذ ہوگی (درمختار) اور یہی حکم اس صورت میں ہے کہ اس کے کئی بیٹوں میں سے ایک نے اقرار کیا ہو تو اقرار کرنے والے کے حصہ کے ثلث میں وصیت نافذ ہوگی (مجمع و ردالمحتار ج ۵ ص ۴۷۳)
مسئلہ ۴۱: وارث دو ہیں اور مال ایک ہزار نقد ہے اور ایک ہزار ان میں سے ایک پر ادھار ہے پھر اس وارث نے جس پر ادھار نہیں ہے اقرار کیا کہ اس کے باپ نے کسی کے حق میں ایک ثلث کی وصیت کی تھی تو اس ایک ہزار نقد میں سے تہائی حصہ لے کر موصی لہ کو دیا جائے گا اور اقرار کرنے والے کو باقی دو تہائی ملے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۷)
تنبیہہ : موصی بہ سے پیدا ہونے والی کوئی بھی زیادتی جیسے بچہ، یا غلہ وغیرہ اگر موصی کی موت کے بعد اور موصی لہ کی قبول وصیت سے پہلے ہو تو وہ زیادتی اور اضافہ موصی بہ میں شمار ہوگا اور ثلث مال میں شامل ہوگا لیکن اگر یہ اضافہ اور زیادتی موصی لہ کے قبول وصیت کے بعد مگر مال تقسیم ہونے سے پہلے ہو تب بھی وہ موصی بہ میں شامل ہوگی (عالمگیری بحوالہ محیط السرخسی ج ۶ ص ۱۰۷) مثال کے طور پر ایک شخص کے پاس چھ سو درہم اور ایک لونڈی قیمتی تین سو درہم کی ہیں اس نے کسی آدمی کے لئے لونڈی کی وصیت کی اور مر گیا پھر لونڈی نے ایک بچہ جنا جس کی قیمت تین سو درہم کے برابر ہے پس یہ ولادت اگر تقسیم مال اور قبول وصیت سے پہلے ہوئی تو موصی لہ کو وصیت میں وہ لونڈی ملے گی اور اس بچہ کا تہائی حصہ، اور اگر موصی لہ کے وصیت قبول کرنے کے بعد اور مال تقسیم ہو جانے کے بعد ولادت ہوئی تو بلا اختلاف موصی لہ کی ملکیت ہے اور اگر موصی لہ نے وصیت قبول کر لی تھی اور مال ابھی تقسیم نہ ہوا تھا کہ لونڈی کے بچہ پیدا ہوگیا تب بھی وہ موصی بہ میں شامل ہوگا جیسا کہ قبول وصیت سے قبل کی صورت میں وہ موصی بہ میں شامل کیا گیا تھا، اور اگر لونڈی نے موصی کی مو ت سے پہلے بچہ جنا تو وہ وصیت میں داخل نہ ہوگا (کافی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۰۸)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔