ثبوت نسب کا بیان
حدیث میں فر مایا بچہ اس کے لیئے ہے جس کا فراش ہے ۔( یعنی عورت جس کی منکوحہ یا کنیزہو)اور زانی کے لیئے پتھر ہے ۔
سائل فقہیہ
مسئلہ ۱: حمل کی مدت کم سے کم چھ مہینے ہے اور زیادہ سے زیادہ دوسال لہذا جو عورت طلاق رجعی کی عدت میں ہے اور عدت پوری ہونے کا عورت نے اقرار نہ کیا ہو اور بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت ہے اور اگر عدت پوری ہونے کا اقرار کیا اور وہ مدت اتنی ہے کہ اس میں عدت پوری ہوسکتی ہے اور وقت اقرار سے چھ مہینے کے اندر بچہ پیدا ہوا جب بھی نسب ثابت ہے کہ بچہ پیدا ہونے سے معلوم ہو کہ عورت کا اقرار غلط تھااور ان دونوں صورتوں میں ولادت سے ثابت ہوا کہ شوہر نے رجعت کرلی ہے جبکہ وقت طلاق سے پورے دو(۲) برس یا زیادہ میں بچہ پیدا ہوا اور دو برس سے کم میں پیدا ہوا تو رجعت ثابت نہ ہوئی ممکن ہے کہ طلاق دینے سے پہلے کا حمل ہو اور اگر وقت اقرار سے چھ مہینے پر بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت نہیں یونہی طلاق بائن یا موت کی عدت پوری ہونے کا عورت نے اقرارکیا اور وقت اقرار سے چھ مہینے سے کم میں بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت ہے ورنہ نہیں ۔( درمختار وغیرہ عامہ کتب)
مسئلہ۲: جس عورت کو بائن طلاق دی اور وقت طلاق سے دو (۲) برس کے اندر بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت ہے اور دو برس کے بعد پیدا ہوا تو نہیں مگر جبکہ شوہر اس بچہ کی نسبت کہے کہ یہ میرا ہے یا ایک بچہ دو(۲) برس کے بعد پیدا ہوا دوسرا بعد میں تو دونوں کا نسب ثابت ہو جائیگا ۔( درمختار)
مسئلہ۳: وقت نکاح سے چھ مہینے کے اندر بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت نہیں اور چھ مہینے یا زیادہ پر ہوا تو ثابت ہے جبکہ شوہر اقرار کرے یا سکوت اور اگر کہتاہے کہ بچہ پیدا ہی نہ ہوا تو ایک عورت کی گواہی سے ولادت ثابت ہو جائیگی ۔اور اگر شوہر نے کہا تھا کی جب تو جنے تو تجھ کو طلاق اور عورت بچہ پیدا ہونا بیان کرتی ہے اور شوہر انکار کرتا ہے تو دومرد یا ایک مر د اور دو(۲) عورتوں کی گواہی سے طلاق ثابت ہوگی تنہا جنائی کی شہادت ناکافی ہے۔ یونہی اگر شوہر نے حمل کا اقرار کیا تھا یا حمل ظاہر تھا جب بھی طلاق ثابت ہے۔ اور نسب ثابت ہونے کے لئے فقط جنائی کا قول کافی ہے ۔( جوہرہ) اور اگر دو بچے پیدا ہوئے ایک چھ مہینے کے اندر دوسرا چھ مہینے پر یا چھ مہینے کے بعد تو دونوں میں کسی کا نسب ثا بت نہیں ۔( عالمگیری)
مسئلہ۴: نکاح میں جہاں نسب ثابت ہونا کہا جاتا ہے وہاں کچھ یہ ضرور نہیں کہ شوہر دعوے کرے تو نسب ہوگا بلکہ سکوت سے بھی نسب ثابت ہوگا اور اگر انکار کرے تو نفی نہ ہوگی جب تک لعان نہ ہو او ر اگر کسی وجہ سے لعان نہ ہوسکے جب بھی ثابت ہوگا۔( عالمگیری)
مسئلہ۵: نا بالغہ کو اس کے شوہر نے بعد دخول طلاق رجعی دی اور اس نے حاملہ ہونا ظاہر کیا تو اگر ستائیس مہینے کے اندر بچہ پیدا ہوا تو ثابت النسب ہے ۔اور طلاق بائن میں دو برس کے اندر ہوگاتو ثابت ورنہ نہیں ۔اور اگر اس نے عدت پوری ہونیکا اقرار کیا ہے تو وقت اقرار سے چھ مہینے کے اندر ہوگا تو ثابت ہے ورنہ نہیں ۔ اور اگر نہ حاملہ ہونا ظاہر کیا نہ عدت پوری ہونے کا اقرار کیا بلکہ سکوت کیا تو سکوت کا وہی حکم ہے جو عدت پوری ہونے کے اقرار کا ہے ۔( عالمگیری)
مسئلہ۶: شوہر کے مرنے کے وقت سے دوبرس کے اندر بچہ پیدا ہوگا تونسب ثابت ہے ورنہ نہیں یہی حکم صغیرہ کا ہے جبکہ حمل کا اقرار کرتی ہو اور اگر عورت صغیرہ ہے جس نے نہ حمل کا اقرار کیا نہ عدت پوری ہونے کا اور دس مہینے دس دن سے کم ہوا تو ثابت ہے ورنہ نہیں اور اگر عدت پوری ہونے کا اقرار کیا اور وقت اقرار یعنی چارمہینے دس دن کے بعد اگر چھ مہینے کے اندر پیدا ہوا تو ثابت ہے ورنہ نہیں ۔( درمختار)
مسلہ۷: عورت نے عدت وفات میں پہلے یہ کہا مجھے حمل نہیں پھر دوسرے دن کہا حمل ہے تو اس کا قول مان لیا جائیگا اور اگر چار مہینے دس دن پورے ہونے پر کہا کہ حمل نہیں ہے پھر حمل ظاہر کیا تو اس کا قول نہیں مانا جائیگا مگر جبکہ شوہر کی موت سے چھ مہینے کے اندر بچہ پیدا ہوتو اس کا وہ اقرار کہ عدت پوری ہوگئی باطل سمجھا جائیگا ۔ ( خانیہ)
مسئلہ۸ : طلاق یا موت کے بعد دو(۲) برس کے اندر بچہ پیدا ہوااور شوہر یا اس کے ورثہ بچہ پیداہونے سے انکار کرتے ہیں اور عورت دعوی کرتی ہے تو اگر حمل ظاہر تھا یا شوہر نے حمل کا اقرار کیا تھا تو ولادت ثابت ہے اگر چہ جنائی بھی شہادت نہ دے اور وہ ثابت النسب ہے اور اگر نہ حمل ظاہر تھا نہ شوہر نے حمل کا اقرار کیا تھا تو اس وقت ثابت ہوگا کہ دو مرد یا ایک مرد‘ دو عورت گواہی دیں ۔ اور مرد کس طرح گواہی دیں گے اس کی صورت یہ ہے کہ عورت تنہا مکان میں گئی اور اس مکان میں کوئی ایسا بچہ نہ تھا اور بچہ لئے ہوئے باہر آئی یا مرد کی نگاہ اچانک پڑگئی دیکھا کہ اس کے بچہ پیدا ہورہا ہے اور قصد اً نگاہ کی تو فاسق ہے اور اس کی گواہی مردود۔ (درمختار‘ ردالمحتار)
مسئلہ۹: شوہر بچہ پیدا ہونے کااقرار کرتا ہے مگر کہتا ہے کہ یہ بچہ نہیں ہے تو اس کے ثبوت کے لیئے جنائی کی شہادت کافی ہے ۔(درمختار)
مسئلہ۱۰: عدت وفات میں بچہ پیدا ہوااور بعض ورثہ نے تصدیق کی تو اس کے حق میں نسب ثابت ہوگیا پھر اگر یہ عادل ہے اور اسکے ساتھ کسی اور وارث قابل شہادت نے بھی تصدیق کی یا کسی اجنبی نے شہادت دی تو ورثہ اور غیر سب کے حق میں نسب ثابت ہو گیا یعنی مثلاً اگر اس لڑکے نے دعوی کیا کہ میرے باپ کے فلاں شخص پر اتنے روپے دین ہیں تو دعوی سننے کے لیئے اسکی حاجت نہیں کہ وہ اپنا نسب ثابت کرے اور اگر تنہا ایک وارث تصدیق کرتا ہے یا چند ہوں مگر عادل نہ ہوں تو فقط ان کے حق میں ثابت ہے اوروں کے حق میں ثابت نہیں یعنی مثلاً اگر دیگر ورثہ اس صورت میں انکار کرتے ہوں تو اولاد ہونے کی وجہ سے ان کے حصوں میں کوئی کمی نہ ہوگی اور وارث اگر تصدیق کریں تو ان کے لیئے اقرار کرنے میں لفظ شہادت اور مجلس قاضی وغیرہ کچھ شرط نہیں مگر اوروں کے حق میں ان کا اقرار اس وقت مانا جائیگا جب عادل ہوں ہاں اگر اس وارث کے ساتھ کوئی غیر وارث ہے تو اس کا فقط یہ کہ دینا کافی نہ ہو گا کہ یہ فلاں کا لڑکا ہے بلکہ لفظ شہادت اور مجلس حکم وغیرہ و ہ سب امور جوشہادت میں شرط ہیں اس کے لئے شرط ہیں ۔( درمختار‘ ردالمحتار)
مسئلہ۱۱: بچہ پیدا ہوا عورت کہتی ہے کہ نکاح کو چھ مہینے یا زائد کا عرصہ گزرا اور مرد کہتا ہے کہ چھ مہینے نہیں ہوئے تو عورت کو قسم کھلائیں قسم کے ساتھ اس کا قول معتبر ہے اور شوہر یا اس کے ورثہ گواہ پیش کرنا چاہیں تو گواہ نہ سنے جائیں ۔ ( درمختار‘ ردالمحتار)
مسئلہ۱۲: کسی لڑکے کی نسبت کہا یہ میرا بیٹا ہے اور اس شخص کا انتقال ہو گیا اور اس لڑکے کی ماں جس کا حرہ و مسلمہ ہونا معلوم ہے یہ کہتی ہے کہ میں اس کی عورت ہوں اور یہ اسکا بیٹا تو دونوں وارث ہونگے اور اگر عورت کا آزاد ہونا مشہور نہ ہو یا پہلے وہ باندی تھی اور اب آزاد ہے اور یہ نہیں معلوم کہ علوق کے وقت آزاد تھی یا نہیں اور ورثہ کہتے ہیں تو اس کی ام ولد تھی تو وارث نہ ہوگی یونہی اگر ورثہ کہتے ہیں کہ تو اس کے مرنے کے وقت نصرانیہ تھی اور اس وقت اس عورت کو مسلمان ہونا مشہورنہیں ہے جب بھی وارث نہ ہوگی ۔(عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ۱۳: عورت کا بچہ خود عورت کے قبضہ میں ہے شوہر کے قبضہ میں نہیں اس کی نسبت عورت یہ کہتی ہے کہ یہ لڑکا میرے پہلے شوہر سے ہے اس کے پیدا ہونے کے بعد میں نے تجھ سے نکاح کیا اور شوہر کہتا ہے کہ میر ا ہے میرے نکاح میں پیدا ہوا تو شوہر کا قول معتبر ہے ۔(عالمگیری)
مسئلہ۱۴: کسی عورت سے زنا کیا پھر اس سے نکاح کیا اور چھ مہینے یا زائد میں بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت ہے اور کم میں ہو تو نہیں اگر چہ شوہر کہے کہ یہ زنا سے میر ا بیٹا ہے ۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۵: نسب کا ثبوت اشارہ سے بھی ہوسکتا ہے اگر چہ بولنے پر قادر ہو ۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۶: کسی نے اپنے نا بالغ لڑکے کا نکاح کسی عورت سے کر دیا اور لڑکا اتنا چھوٹا ہے کہ نہ جماع کر سکتا ہے نہ اس سے حمل ہو سکتا ہے اور عورت کے بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت نہیں اور اگر لڑکا مراہق ہے اور اس کی عورت کے بچہ پیدا ہوا تو نسب ثابت ہے ۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۷: اپنی کنیز سے وطی کرتا ہے اور بچہ پید ا ہوا تو اس کا نسب اس وقت ثابت ہوگا کہ یہ اقرار کرے کہ میرا بچہ ہے اور وہ لونڈی ام ولد ہوگئی اب اس کے بعد جو بچے پیدا ہونگے ان میں اقرار کی حاجت نہیں مگر یہ ضرور ہے کہ نفی کرنے سے منتفی ہوجائے گا مگر نفی سے اس وقت منتفی ہوگا کہ زیادہ زمانہ نہ گزرا ہو نہ قاضی نے اس کے نسب کا حکم دیدیا ہواور ان میں کوئی بات پائی گئی تو نفی نہیں ہو سکتی ۔اور مدبرہ کے بچہ کا نسب بھی اقرار سے ثابت ہوگا۔ منکوحہ کے بچہ کا نسب ثابت ہونے کیلئے اقرار کی حاجت نہیں بلکہ انکار کی صورت میں لعان کرنا ہوگا اور جہاں لعان نہیں وہاں انکار سے بھی کام نہ چلے گا ۔ ( عالمگیری‘ ردالمحتار)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔