استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اِس مسئلہ میں کہ کسی شخص نے تینوں دنوں کی رمی ترک کر دی یا اس سے کسی وجہ سے ترک ہو گئی اِس صورت میں اُس پر کتنے دَم لازم ہوں گے ؟
(السائل : ایک حاجی، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں اس شخص پر ایک دم لازم ہو گا چنانچہ علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی متوفی 593ھ لکھتے ہیں :
من تَرَکَ رَمی الجِمَارِ فی الأَیّامِ کُلِّہَا فعلیہِ دمٌ لتحقُّقِ تَرکِ الوَاجبِ و یَکفِیہِ دمٌ واحدٌ، لأَنَّ الجِنْسَ مُتّحدٌ (72)
یعنی، جس نے تمام دنوں کی رمی ترک کر دی تو اس پر ترکِ واجب متحقّق ہونے کی وجہ سے دَم لازم ہے اور اُسے ایک دَم کافی ہو گا کیونکہ جنس متحد ہے ۔ اور علامہ عبد اللہ بن محمود موصلی حنفی متوفی 683ھ لکھتے ہیں :
و لو تَرَک رَمی الجِمارِ کُلِّہا أو یومٍ واحدٍ أو جمرۃِ العَقَبۃِ یومَ النَّحرِ فعلیہ شاۃٌ (73)
یعنی، اگر تمام جمرات کی رمی ترک کی یا ایک دن کی یا یوم نحر میں جمرۂ عَقَبہ کی (تمام صورتوں میں ) اُس پر (دَم کے طور پر) بکری (ذبح کرنا) لازم ہے ۔ یاد رہے کہ رمی واجبات حج سے ہے اور واجب کا بلا عُذر قصداً ترک گُناہ ہے اور دَم دینے سے ترکِ واجب کی وجہ سے حج میں لازم آنے والا نقصان تو پورا ہو جاتا ہے لیکن اُس سے لازم آنے والا گُناہ تو اس کے لئے سچی توبہ کرنی ہو گی، خصوصاً رمی کہ جس کے معاملے میں بہت لوگ غیر محتاط ہیں ، کچھ تو رمی ترک کرنے کی جسارت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم دَم دے دیں گے ، اور کچھ اپنی خواتین اور دوسرے افراد کی رمی خود کر کے آ جاتے ہیں ، نیابت کس صورت میں جائز ہے وہ اُس سے بے خبر ہوتے ہیں ، دوسروں کے واجب ترک کرواتے ہیں اور ترک واجب گُناہ ہے ، اس طرح وہ گُناہ میں دوسروں کے معاون بنتے ہیں ، قرآن کریم میں ہے :
{وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ} (74)
ترجمہ : اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گُناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الخمیس، 13ذو الحجۃ 1429ھ، 11دیسمبر 2008 م 491-F
حوالہ جات
72۔ الہدایۃ، کتاب الحج، باب الجنایات، 1۔2/200، 201
73۔ المُختار الفَتوی، کتاب الحج، باب الجنایات، ص211
74۔ المائدۃ : 5/2
Leave a Reply