سوال:
فتاوی عالمگیری مطبع کلکتہ کے کتاب الا جارہ میں ہے’’ و اختلفوا في الاستيجار على قرأة القرآن على القبر مدة معلومة قال بعضهم يجوز هو المختار“اس عبارت کا حاصل مطلب کیا ہے ؟
جواب:
سائل کی پیش کر دہ عبارت فتاوی عالمگیری کی پوری عبارت مطبوعہ مجیدی کانپور میں یہ ہے: و اختلفوا في الاستيجار على قرأة القرآن على القبر مدة معلومة قال بعضهم لا یجوز وقال بعضھم يجوز هو المختار (كذا في السراج الو هاج)
اقول اولا: ظاہر ہے کہ اس عبارت میں ھو المختار کو یجوز کی تاکید مانا جائیگا کہ اتصال بھی اسی کا مقتضی ہے تو اس صورت میں پھر دعوی اختلاف کس طرح صحیح قرار پائے گا۔
علامہ خلوتی نے حاشیہ منتہی میں شیخ الاسلام تقی الدین کا قول نقل کیا: ولا یصح علی القرأة و اهدائها الى الميت لا نه لم ينقل عن احد من الأئمة الاذن في ذلك وقد قال العلماء ان القارى اذا قرء لا جل المال فلا ثواب له فای شئ یھدیہ الى الميت وانما يصل الى الميت العمل الصالح والاستئجار على مجرد التلاوة لم يقل به احدمن الائمة وانما تناز عوا في الاستئجار على التعليم (رد المحتار) لہذا جب مجرد تلاوت پر استیجار کا کوئی قائل ہی نہیں اور اس پر ائمہ کا اختلاف و تنازع ہی ثابت نہیں تو عالمگیری کا اختلفوا‘ کہنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے۔
ثانیاً: حکم جواز کا ثبوت اذن ائمہ پر موقوف ہے اور اسی عبارت شیخ الاسلام میں گزرا کہ قرات پر اجرت لینا اور اس کا ثواب میت کو پہنچانا صحیح نہیں کہ ائمہ میں سے کسی کی اجازت منقول نہیں تو پھر حکم جواز کس طرح ثابت ہو گا ۔
ثالثاً: اصل مذہب تو عدم جواز استیجار ہے اور جواز بر بنائے ضرورت ہے اور قراۃ علی القبر کیلئے کوئی ضرورت شرع داعی نہیں۔ چنانچہ علامہ خیر الدین رملی حاشیہ بحر میں تتارخانیہ سے ناقل ہیں:
وقد ذکرنا مسئلۃ تعلیم القرآن على استحسان یعنى الضرورة ولا ضرورة في الاستجار على القرآن على القبر ۔ علامہ شامی’’ رحمتی“ سے ناقل ہیں:
ما اجازوه انما اجا زوه في محل الضرورة كاستئجار تعليم القرآن والفقه والاذان والامامة خشية التعطيل لقلة رغبة الناس في الخير ولا ضرورة في استئجار شخص يقرء علی القبر وغیرہ ۔ لہذا قرات علی القبر کے لئے جب ضرورت ہی متحقق نہیں ہوئی تو جواز استیجار کا قول کس بنا پر صحیح ہو گا۔
رابعاً: علامہ ابن عابد ین نے مجوز ین استیجار علی القبر کا رد فرمایا۔ رد المحتار میں ہے:لقد اخطاءفي هذء المسئلة جماعة ظنا منهم أن المفتى به عند المتاخرين حواز الاستئجار على جميع ا الطاعات مع ان الذي افتى به المتاخرون انما هو التعليم والاذان والامامة وصرح المصنف في المنح في كتاب الاجارات وصاحب الهداية وعامة الشراح واصحاب الفتاوى بتعليل ذلك بالضرورة وخشية الضياع كما مر و لو جا ز على كل طاعة لـجاز على الصوم والصلوة والحج مع انه با طل با لا جماع وقد اوضحت ذلك في رسالة حافلة۔ لہذا علامہ شامی نے جواز استیجار تلاوت علی القبر کے قول کو مذہب متاخرین کے خلاف قرار دیکر جماعت مجوزین کو خاطی ٹھہرایا۔
خامساً: فتاوی عالمگیری نے اس قول کوسراج الوہاج سے نقل کیا اور یہ حضرت علامہ ابوبکر حداد یمنی کی کتاب ہے اور مختصر قدوری کی شرح ہے ۔ رد المحتار میں ہے: السراج هو شرح مختصر القدوري للحدادي صاحب الجوھرۃ
اور کشف الظنون میں ہے: السراح الوها ج عده المولى المعروف ببر كلى من جملۃ الـكـتـب الـمتـداولة الضعيفة غير المعتبرة قال چلپى ثم اختصر هذا الشرح وسماه الجوھرۃ النیرۃ۔ لہذا جب یہ کتب ضعیفہ غیر معتبرہ سے ہے تو صرف اسی کے قول کوکس طرح معتبر قرار دیا جائے ۔
سادسا: سراج الوہاج کا خلاصہ جو ہرہ نیرہ ہے اور یہ ہر دوا یک ہی مصنف علامہ ابوبکر حدادی یمنی کی ہیں اور علامہ شامی نے اس عبارت منقولہ فی السوال کو جو ہر ہ نیرہ سے نقل کر کے اس طرح رد کیا:
والصواب ان یقال علی تعليم القرآن فان الخلاف فيه كما علمت لا في القرأةالمجردۃ فانه لا ضرورة فيها فان كان ما في الجوهرة سبق قلم فلا كلام وان كان عن عمد فهو مخالف لكلامهم قاطبة فلا تقبل۔ لہذا فتاوی عالمگیری کی عبارت جو سراج الوہاج اور جو ہرہ نیرو سے منقول ہے یا تو سبقت قلم سے غلط لکھی گی ورنہ غیر مقبول ہے اور مخالف اقوال فقہا ء کرام ہے ۔
سابعاً: صاحب’تبیین المحارم‘‘ نے تو اس عبارت مسئولہ کا نہایت مبسوط ردبلیغ کیا: وقد اطنب في رده صاحب تبيين المحارم مستندا الى الاقوال الصريحة فمن جملة کلا مـه قـال تاج الشريعة في شرح الهداية ان القرآن بالاجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولاللـقـارى قـال الـعـيـنـي فـي شـرح الهـداية يمنع القارى للدنيا والآخذ والمعطى اثمان فالـحـاصـل ان مـا شـاع فـي زمـاننـا مـن قـرأة الاجـزاء بالاجرة لا يجوز لان فيه الامر بالـقـرآة واعـطـاء الثـواب لـلآمر والقرأة لاجل المال فاذا لم يكن للقاري ثواب لعدم النية الصحيحة فاين يصل الثواب الى المستاجر ولولا الاجرة ما قرء احد لاحد في هذا الزمان جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة الى جمع الدنيا(رد المحتار)
ثامناً: علامہ خیر الد ین رملی نے اس کا اس طرح رد فر مایا: قد رده الشيخ خير الدين الرملي في حاشية البحر في كتاب الوقف حيث قال: أقول المفتى به جواز الأخذ استحسانا على تعليم القرآن لا على القراءة المجردة كما صرح به في التتارخانية حيث قال: لا معنى لهذه الوصية ولصلة القارئ بقراءته؛ لأن هذا بمنزلة الأجرة والإجارة في ذلك باطلة وهي بدعة ولم يفعلها أحد من الخلفاء، ۔ ( رد المحتار)
لہذا جب یہ اجارہ باطلہ اور بدعت قرار پایا تو عالمگیری کی عبارت میں اس اجارہ کو جائز مان کر کس طرح مفتی بہ قول قرار د یا جائے ۔
تاسعاً: اور اگر عبارت عالمگیری میں ھو المختار کولا یجوزکابیان قراردیا جائے اگرچہ یہ احتمال بعید ہے تو پھر تمام تصریحات کے موافق بھی ہو جائے اور سارے اعتراضات بھی دفع ہو جائیں۔
عاشراً: اوپر کے بیان سے یہ تو ظاہر ہو چکا کہ عبارت عالمگیری کی منقول عنہ سراج الوہاج ہے اور سراج الوہاج کا خلاصہ جو ہرہ نیرہ ہے ، اور میرے پاس جو جو ہرہ نیرہ ہے وہ طبع مجتبائی کا مطبوعہ ہے اس میں یہ عبا رت اس طرح ہے۔ واخـتـلـفـوا فـي الاستئجار على قرأة القرآن على القبر مدة معلومة قال بعضهم لا یجوز وهو المختار
اگر یہ نسخہ صحیح ہے تو سراج الوہاج میں بھی یہی عبارت ہونی چاہئے کہ جو ہرہ نیرہ اس کا خلاصہ و مختصر ہی تو ہے، اور قال بعضهم بقول شامی سبقت قلم سے غلط لکھا گیا ، ورنہ مصنف ایک ہی تو ہے ایسا تناقض کس طرح ہو سکتا ہے ۔ علاوہ بریں جو ہرہ نیرہ معتبر و مستند کتاب ہے ، اس کی تصریح خود سراج الوہاج کے تقابل میں حجت بلکہ فتاوی عالمگیری پر بھی حجت ہے کہ شروح کو فتادی پر تقدم حاصل ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اس تفصیل کے بعد عبارت فتاوی عالمگیری کو سند بنانا اور اس پر اعتماد کرنا خلاف تحقیق ہے ۔
(فتاوی اجملیہ، جلد3، صفحہ 268،شبیر برادرز، لاہور)
(فتاوی اجملیہ، جلد3، صفحہ 277،شبیر برادرز، لاہور)