سوال:
زید، عمر و ،بکر حقیقی بھائی ہیں ۔ والد مرحوم کے بعد ان کی وراثت تین حصوں میں تقسیم ہوئی، اس وقت والدہ سے ان کے حصے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے بخوشی و رضا مندی پنچائیت کے سامنے اپنا حصہ تینوں لڑکوں کو دے دیا۔ بعد میں بکر دوسرے کرایہ کے مکان میں جا کر رہنے لگا اور وہیں زمین خرید کر مکان بنایا، اب اپنے حصہ کا مکان دونوں بھائیوں سے کہا کہ خرید لو ۔پنچوں نے اس کے حصہ کی مالیت مبلغ چھ سو روپیہ بتایا، عمر نے اس کو نصف حصہ کا مبلغ تین سورو پیہ دیا مگر زید نے کہا ابھی میرے پاس رو پیہ نہیں ہے تقریباً اس واقعہ کو تین سال ہو گئے ، اب بکر کو پھر مکان بنوانا ہوا۔ زید سے کہا کہ مکان میں میرا جو نصف حصہ باقی ہے آپ لے لیں ،اس پر زید نے جواب دیا کہ ضرورت نہیں ہے اور بکر کو سخت سست کہ کر بھگا دیا۔ اس کے بعد بکر نے عمر سے بات کر کے اپنا پورا حصہ عمر کو بیع نامہ کر دیا۔
بکر کا حصہ عمر کے خریدنے کے بعد زید نے والدہ کو فریب دیکر اس کا شو ہری حصہ جو بھی تھا رجسٹری بیع نامہ کرا لیا۔ جبکہ والدہ نے بخوشی و رضامندی اپنا حصہ تینوں لڑکوں کے حق میں دے دیا تھا ، ایسی حالت میں صرف زید کے نام رجسٹری بیع نامہ والدہ کا کر دینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
ہبہ کی صحت کے لیے شی موہوب کا واہب کے قبضے میں اور دیگر حصوں سے ممتاز ہونا ضروری ہے۔ اور سوال کی عبارت سے ظاہر ہے کہ گھر میں تقسیم کے وقت والدہ کا حصہ الگ کر کے ان کو نہیں دیا تھا ، ان سے پوچھ البتہ لیا گیا تھا اس لیے ہبہ صحیح نہیں ہوا اور بعد میں جو اس نے اپنا حصہ زید کے ہاتھ بیچ دیا وہ صحیح ہو گیا۔
(فتاوی بحر العلوم، جلد5، صفحہ13، شبیر برادرز، لاہور)
(فتاوی بحر العلوم، جلد5، صفحہ16، شبیر برادرز، لاہور)
(فتاوی بحر العلوم، جلد5، صفحہ21، شبیر برادرز، لاہور)