استفتاء : ۔کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کسی شخص نے رمی نہ کی ، کیا اس پر اس واجب کے ترک کے علاوہ اور کوئی دم لازم ہو گا جیسے ترکِ ترتیب وغیرہ؟
(السائل : سلیم، کراچی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صدر الشریعہ محمدامجد علی اعظمی حنفی متوفی 1319ھ لکھتے ہیں : کسی دن بھی رمی نہیں کی یا ایک دن کی بالکل یااکثرترک کردی مثلاً دسویں کو تین کنکریاں ماریں یاگیارہویں وغیرہ کو دس کنکریاں تک یا کسی دن بالکل یااکثر اسی دوسرے دن کی توان سب صورتوں میں دم ہے ۔(75) اور مفتی محمدوقار الدین حنفی ترک رمی کے دم کے بارے میں لکھتے ہیں : لہٰذا اگر کوئی ایسا عذر ہو جس کی وجہ سے رمی نہیں کر سکتا ہے تو تیسرے دن دم دے گا، اور یہ دم زمین حرم پر دینا ضروری ہے ۔ (76) فقہاء کرام نے ایک دن کی رمی ترک ہو جانے پر بھی ایام رمی گزر جانے کے بعد ترکِ رمی کا دَم دینے کا حکم کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک دن کی رمی ترک ہوئی اور اس نے دَم دے دیا پھر خدانخواستہ دوسرے یا تیسرے دن کی رمی بھی ترک ہو گئی تو دوسرا دَم دینا پڑے گا، اسی طرح اگر ایک دن کی رمی ترک ہو جانے پر دَم دے دیا اور دوسرے دن پھر رمی نہ کر سکا تو اس نے اس دن کا دَم دے دیا پھر اگر تیسرے دن بھی رمی نہ کی تو تیسرا دَم پھر دینا ہو گا۔ اور اگر رمی ایک دن کی یا دونوں کی یا تینوں دنوں کی ترک ہوئی اور ایام رمی گزرنے کے بعد اس نے دَم دیا تو ایک ہی دَم کافی ہو گا رمی چاہے ایک دن کی ترک ہوئی ہو یا تینوں دنوں کی۔ چنانچہ مفتی محمد وقار الدین حنفی لکھتے ہیں : رمی ایک دن کی چھوٹ جائے یا تینوں دنوں کی، ایک قربانی واجب ہو گی، او ریہ قربانی زمینِ حرم پر کرنا واجب ہو گی۔ ملخصاً(77) اورعلامہ عبداللہ بن محمود موصلی حنفی متوفی 683ھ لکھتے ہیں :
و لو ترک رمی الجمار کلّہا أو یوم واحد أو جمرۃ العقبۃ یوم النحر فعلیہ شاۃ (78)
یعنی، اگر تمام جمرات کی رمی ترک کی یا ایک دن کی یا یومِ نحر میں جمرہ عقبہ کی (تمام صورتوں میں ) اس پر بکری (دم کے طور پر ذبح کرنا) لازم ہے ۔ اوراس کی شرح میں لکھتے ہیں :
معناہ : أنہ ترکہا حتی غربت الشمس من آخر أیام التشریق، لأنہ ترک واجباً من جنس واحدٍ، و إن لم تغرب الشمس یرمیہا علی الترتیب، لکن یجب الدم لتأخیرھا عندہ … و ترک رمی یوم واحد عبادۃ مقصودۃ، وکذا جمرۃ العقبۃ یوم النحر فتحب شاۃ (79)
یعنی، اس کا معنی یہ ہے ا س نے رمی کو ترک کر دیا یہاں تک کہ ایام تشریق کے آخری یوم کا سورج غروب ہو گیا، کیونکہ اس نے ایک ہی جنس کا واجب ترک کیا اور اگر سورج غروب نہ ہوا تو ترتیب کے ساتھ رمی کرے گا، لیکن (اس صورت میں ) رمی میں تاخیر کی وجہ سے امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک دم واجب ہے بر خلاف صاحبین کے اور ایک دن کی رمی کا ترک عبادتِ مقصودہ (کا ترک ) ہے ، اس طرح یوم نحر میں جمرۂ عقبہ کی رمی (عبادتِ مقصودہ ہے اور اس کے ترک عبادتِ مقصود ہ کا ترک ہے ) تو (بطور دم) بکری (کا ذبح کرنا) واجب ہے ۔ اور تمام صورتوں میں ایک ہی دم لازم آنے کی وجہ یہ ہے کہ جنایات ایک ہی جنس کی ہیں ، چنانچہ امام کرمانی لکھتے ہیں :
إنما قلنا إنہ یکفیہ دم واحد لأن الزمان کلّہ من جنس واحد صورۃً و معنیً، فصار کأنہ ترک عبادۃً واحدۃً عن وقتہا، فیکفیہ دم واحد (80)
یعنی، ہم نے کہا اُسے ایک دم کافی ہے کیونکہ (رمی کا) کل زمانہ صورۃً اور معنیً ایک جنس ہے ، تو یہ ایسے ہو گیا گویا اس نے ایک عبادت کو اپنے وقت سے ترک کیا تو اُسے ایک دم کافی ہے ۔ اور فقیہ ابو الفتح ظہیر الدین الولوالجی متوفی 540ھ لکھتے ہیں :
و الرمیات جنس واحد صورۃً و معنیً، إذا اجتمعت صارت کجنایۃ واحدۃ فیکفیہ دم واحد (81)
یعنی، رمیاں صورۃً اور معنیً ایک جنس ہیں ، جب جمع ہو گئیں تو ایک جنایت کی مثل ہو گئیں تو ایک دم کافی ہے ۔ اور علامہ سراج الدین عمر بن ابراہیم ابن نجیم متوفی 1005ھ لکھتے ہیں :
إنما اکتفی بدم واحد بترک کل الرمی لإتحاد الجنس کما فی الحلق (82)
یعنی، کل رمی کو ترک کرنے پر ایک ہی دم کافی ہے کیونکہ جنس متحد ہے جیساکہ حلق میں ۔ لہٰذا ایسا حاجی جس نے رمی نہ کی ہو اُسے چاہئے کہ ایام رمی گزرنے کے بعد حرم میں دم دے چنانچہ امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :
و علیہ دم واحد فی قول أصحابنا جمیعاً (83)
یعنی، اگر ایامِ تشریق کے آخری دن کا سورج غروب ہو گیا ا س سے رمی ساقط ہو گئی اور ہمارے جمیع اصحاب (احناف) کے قول میں اس پر ایک دم لازم ہو گیا۔ اور احناف کے نزدیک یہ قارن اور متمتع کے لئے رمی ،قربانی اور حلق میں ترتیب واجب ہے ۔فقہاء کرام نے ترکِ رمی کا حکم اپنی اپنی کُتُب میں ذکر کیا ہے جیساکہ مندرجہ بالا سطور میں ذکرکیاگیا مگردس تاریخ کو رمی ترک کرنے والے کے لئے ترکِ ترتیب کی وجہ سے کفارے کا تذکرہ نہیں کیا۔اس سے معلوم ہوا کہ ترک رمی کی وجہ سے جو کفارہ لازم آیا قارن اور متمتع پر رمی لازم ہے اس کے ساتھ ترکِ ترتیب کا کفارہ لازم نہیں ہے ۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ رمی واجب ہے اور واجب کا بلا عذر ترک کرنا گناہ ہے تو بلا عذر ترکِ رمی کی بنا پر جو گناہ لازم آیا وہ دَم دینے سے معاف نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے سچی توبہ بھی کرنا ضروری ہے اور پھر ہر دن بلکہ ہر جمرہ کی رمی کا ترک ایک الگ گناہ ہے ۔ کسی شخص سے ایک دن کی رمی بلا عذر ترک ہوئی جس سے وہ گنہگار ہوا تو اس نے اس گناہ کی معافی کے لئے توبہ کی اور توبہ کی شرط ہے کہ وہ اس گناہ کے دوبارہ نہ کرنے کا سچا ارادہ رکھتا ہو اور دوبارہ وہ گناہ نہ کرنے کے پختہ عزم کے ساتھ توبہ کرے اور یہ شخص جب توبہ کرے گا تو یہی کہے گا یا اللہ اس دن کی رمی میں نے چھوڑ کر گناہ کیا تو مجھے معاف فرما دے اور اس کا عزم مصمّم یہ ہونا چاہئے کہ آئندہ یہ گناہ نہیں کروں گا جب وہ اس طرح توبہ کرے گا تو دوسرے اور تیسرے روز کی رمی کو کبھی بھی بلاعذر نہیں چھوڑے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے حدودِ حرم میں وعدہ کر چکا ہے اور ایک مسلمان عزت و حُرمت والے دنوں میں عظمت والے مقام پر بڑی شان والے ربّ سے کیا ہوا وعدہ ایک ہی دن بعد یا دو دن بعد توڑنے کی جسارت نہیں کرے گا۔ اور علماء کرام خصوصاً حج کی تربیت کرنے والوں اور حج و عمرہ کے بابت میں مسائل بتانے والوں کو چاہئے کہ لوگوں میں خصوصاً مالداروں میں جو سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ واجب ہی تو ہے دَم دے دیں گے اس طرح وہ اس واجب کو ترک کر دیتے ہیں ۔ اس غلط اور فاسد سوچ کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں ورنہ ایک دن ایسا آئے گا کہ یہ لوگ حج کے صرف دو رُکن ادا کریں گے باقی تمام واجبات کے تارک ہو جائیں گے اُن کو بتائیں کہ تم دَم دے کر ترکِ واجب کا تدارک تو کر لو گے مگر عمداً قصداً بلا عذر ترک پر جو اللہ واحد القہار ناراض ہوا اور تم گنہگار ہوئے اس کا کیا کرو گے جس مال پر تم اِتراتے ہوئے برملا ترکِ واجب کا ارتکاب کر رہے ہو اور اس پر دلیر ہو رہے ہو وہ مال اللہ تعالیٰ ہی کا دیا ہوا ہے کہ جس کی تم نافرمانی کرتے ہو، جسے تم ناراض کرتے ہو، اس نے اگر تمہیں مالدار سے مفلس کر دیا اور تم کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے تو کیا کرو گے ۔ اس لئے تم اپنی اس منفی سوچ کو ترک کر دو۔ اور پھر ترکِ واجب پر لازم آنے والے گناہ کا ایک ہی حل ہے کہ تم سچی توبہ کرو اور سچی توبہ یہی ہے کہ تم آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر گڑ گڑا کر التجا کرو اپنے گناہ کی معافی مانگو۔ اس طرح ان کی تربیت کی جائے انہیں سمجھایا جائے تو امید ہے کہ یہ منفی سوچ ختم ہو جائے اور ہمارے یہاں کے عام لوگ وہاں دوسروں کو دیکھ کر بہت جلد ان کا اثر لیتے ہیں ۔ ان میں کچھ اُمور تو اچھے ہوتے ہیں مگر اکثر غیر مستحسن جیسے غیر احرام میں ننگے سر نماز، احرام میں سلائی والے کپڑے وغیرہا تواس بارے میں بھی عازمینِ حج و عمرہ کی اصلاح ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الأربعاء، 7ذی القعدۃ1427ھ، 29نوفمبر 2006 م (266-F)
حوالہ جات
75۔ بہارِ شریعت ، حج کابیان، جرم اور ان کے کفارے کا بیان، رمی کی غلطیاں ، ا(ب )/6/1178
76۔ وقار الفتاویٰ : کتاب المناسک، رمی کا بیان، رمی میں نائب بنانے کی شرعی حیثیت،2/461
77۔ وقار الفتاویٰ : کتاب المناسک، رمی کا بیان، رمی میں نائب بنانے کی شرعی حیثیت،2/461
78۔ المختار الفتوی،کتاب الحج، باب الجنایات،89
79۔ کتاب الاختیار لتعلیل المختار،کتاب الحج، باب الجنایات1/211
80۔ المسالک فی المناسک، فصل فی جنایات عرفۃ و مزدلفۃ ومنی،2/780
81۔ الفتاوی الولوالجیۃ، کتاب الحج، الفصل الرابع، ذکر أیام رمی الجمار، 1/295
82۔ النہر الفائق،کتاب الحج، باب الجنایات،2/129
83۔ المسالک فی المناسک، فصل فی جنایات عرفۃ و مزدلفۃ ومنی،2/780