بہار شریعت

تخارج کے متعلق مسائل

تخارج کے متعلق مسائل

اس سے مراد یہ ہے کہ وارثوں میں کوئی یا قرض خواہوں میں سے کوئی تقسیم ترکہ سے پہلے میت کے مال میں سے کسی معین چیز کو لیناچا ہے اور اس کے عوض اپنے حق سے دستبردار ہو جائے خواہ وہ حق اس چیز سے زائد ہو یا کم اور اس پر تمام ورثہ یا قرض خواہ متفق ہو جائیں تو اس کا نام فقہ کی اصطلاح میں تخارج یا تصالح ہے۔ اس صورت میں طریق تقسیم یہ ہے کہ اس شخص کے حصہ کو تصحیح سے خارج کر کے باقی مال تقسیم کر دیا جائے۔ (شریفیہ ص ۸۵ ، درمختار ج ۵ ص ۵۶۵)

مثلاً۔ ایک شخص نے ورثہ میں شوہر، ماں ، اور چچا چھوڑ ے۔ اب شوہر نے کہا میں اپنا حصہ مہر کے بدلہ چھوڑتا ہوں اس پر باقی ورثہ راضی ہو گئے تو مال اس طرح تقسیم ہو گا۔

متعلقہ مضامین

توضیح : اب اصل مسئلہ شوہر کے ہوتے ہوئے ۶ تھا جس میں سے ۳ شوہر کو ملنا تھے اور تہائی ۔۲ ماں کو ملنا تھے جب کہ ۱ چچا کا تھا اس لئے شوہر کا حصہ مہر کے عوض ساقط ہو گیا اور باقی وارثوں کے حصے حسب سابق رہے۔ خلاصہ یہ کہ وارثوں کو وہی حصے ملیں گے جو تخارج سے قبل خارج ہونے والے وارث کی موجودگی میں ملتے تھے۔ (درمختار ج ۵ ص ۵۶۵)

رد کے متعلق مسائل

مسئلہ ۱: رد عول کی ضد ہے کیونکہ عول میں حصے مخرج سے زائد ہو جاتے ہیں اور مخرج مسئلہ میں اضافہ کرناپڑتا ہے جب کہ رد میں حصے گھٹ جاتے ہیں اور مخرج مسئلہ میں کمی کرنا پڑتی ہے، اب اگر یہ صورت واقع ہو کہ مخرج سے اصحاب فرائض کو انکے مقررہ حصوں کے دینے کے بعد بھی کچھ بچ جائے اور کوئی عصبہ بھی موجود نہ ہو تو باقی ماندہ کو اصحاب فرائض پر ان کے حصوں کی نسبت سے دوبارہ تقسیم کیا جائے گا۔ (شریفیہ ص ۸۶، عالمگیری ج ۶ ص ۴۶۹، درمختار ص ۵ ص ۵۴۷ ، تبیین الحقائق ج ۶ ص ۲۴۷)

مسئلہ ۲: شوہر اور بیوی پر رد نہیں کیا جائے گا جمہور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کا یہی قول ہے۔ (شریفیہ ص ۸۶ و محیط سر خسی بحوالہ عالمگیری ج ۶ ص ۴۶۹، درمختار ج ۵ ص ۵۴۷، تبیین الحقائق ج ۶ ص ۲۴۷)

اس زمانے میں بیت المال کا نظام نہیں ہے اس لئے زوجین پر رد کر دیاجائے گا جب کہ اور کوئی وارث نہ ہو۔ (شامی و درمختار ج ۵ ص ۶۸۹)

مسئلہ ۳: رد کے مسائل چار اقسام پر مشتمل ہیں ۔ پہلی قسم یہ ہے کہ مسئلہ میں ان وارثوں میں سے جن پر رد ہوتا ہے صرف ایک قسم ہو اور جن پر رد نہیں ہوتا ہے یعنی (زوجین )میں سے کوئی نہ ہو اس صورت میں مسئلہ انکے عدد رئوس سے کیا جائے گا کیونکہ مال سب کا سب انہی کو دینا ہے اور چونکہ رئوس و مخرج میں تماثل ہے اس لئے مزید کسی عمل کی ضرورت نہیں ۔ (عالمگیری ج ۶ ص ۴۶۹ ، تبیین الحقائق ج ۶ ص ۲۴۷)

مسئلہ ۴: اگر مسئلہ میں ایک سے زائد اجناس ان وارثوں کی ہیں جن پر رد ہوتا ہے اور جن پر رد نہیں ہوتا ہے وہ نہیں ہیں تو مسئلہ ان کے سہام سے کیا جائے گا۔ (عالمگیری ج ۶ ص ۴۶۹، درمختا رج ۵ ص ۵۴۷، تبیین الحقائق ج ۶ ص ۲۴۷)

توضیح : اس مسئلہ میں دادی کا حصہ چھٹا ہے اور ماں شریک بہن کا بھی یہی ہے مسئلہ اگر ۶ سے کیا جاتا ہے تو ہر ایک کو ایک ایک ملتا اور ۴ بچتے۔ اس لئے مسئلہ انکے سہام سے یعنی ۲ سے کر دیا گیا۔

توضیح : چونکہ ماں شریک بہنیں دو ہیں اس لئے انکا مقررہ حصہ ثلث ۱/۳ ہے جب کہ ماں کا حصہ چھٹا ہے۔ اب اگر مسئلہ۶ سے کیا جائے تو بہنوں کو چھ میں سے ۲ ملتے ہیں اور ماں کو ایک ۔ لہذا ان کے مجموعی سہام ۳ ہوئے پس بجائے اس کے کہ ۶ سے مسئلہ کریں ۳ ہی سے کر دیا۔ اس طرح فرض حصہ دینے کے بعد جو کچھ بچا وہ بھی انہی کی طرف رد ہو گیا۔

توضیح : اصل مسئلہ ۶ سے تھا جن میں سے نصف (یعنی ۳) بیٹی کا ہے اور چھٹا یعنی ایک پوتی کا ہے تو کل حصے ۴ ہوئے انہی سے مسئلہ کر دیا گیا۔

توضیح : چونکہ بیٹیاں ۲ ہیں ان کو چھ کا دو تہائی یعنی ۴ ملنا ہے جب کہ ماں کو ایک ملے گا اس طرح مجموعی سہام ۵ بنتے ہیں اور انہی سے مسئلہ کر دیا گیا۔

مسئلہ ۵: اگر من یرد علیہ کی ایک جنس ہو اور من لایردعلیہ بھی ہوں تو من لا یرد علیہ کا حصہ پہلے اس کے اقل مخارج سے دیا جائے گا اور اس مخرج سے جو بچے گا اس کو من یرد علیہ کے رئوس پر تقسیم کر دیا جائے گا اب اگر یہ باقی انکے رئوس پر پورا تقسیم ہو جائے تب تو ضرب وغیرہ کی ضرورت نہیں جیسا کہ آگے آئے گا۔ (عالمگیری ج ۶ ص ۴۷۰، درمختار ج ۵ ص ۵۴۷، تبیین الحقائق ج ۶ ص ۳۴۷)

توضیح: جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں اس مسئلہ میں شوہر من لا یرد علیہ میں سے ہے جب کہ بیٹیاں من یرد علیہ میں سے ہیں ۔ اب شوہر کے لئے دو مخرج تھے ایک نصف اور دوسرا ربع، ربع اقل مخارج ہے۔ پس ہم نے ۴ سے مسئلہ کیا اور شوہر کا حصہ دے دیا۔ اب ۳ بچے تو انکے من یرد علیہ یعنی بیٹیوں کے عد د رئوس ۳ پر تقسیم کر دیا گیا جو پورا تقسیم ہو گیا لہذا مزید کسی عمل کی ضرورت نہیں ۔

مسئلہ ۶: اگر من لا یرد علیہ کو انکے اقل مخارج سے دینے کے بعد باقیماندہ من یرد علیہ کے رئوس پر پورا تقسیم نہ ہو بلکہ اس میں اور انکے اعداد رئوس میں نسبت توافق ہو تو انکے عدد رئوس کے وفق کو من لا یرد علیہ کے مخرج مسئلہ میں ضرب دی جائے گی اور حاصل کومخرج مسئلہ قرار دیا جائے گا۔

توضیح : یہاں من لا یرد علیہ میں سے شوہر ہے جس کا اقل مخرج ۴ ہے لہذا مسئلہ ۴ سے ہی کیا گیا اور شوہر کو ایک دے دیا اب ۳ ، چھ پر پوری طرح تقسیم نہیں ہوتے لہذا ہم نے ۳ اور ۶ میں نسبت دیکھی تو وہ تداخل کی ہے جو حکم توافق میں ہے ۔ اب بیٹیوں کے رئوس کا عدد وفق۲ ہے، ۲ کو شوہر کے مخرج مسئلہ ۴ سے ضرب دی تو حاصل ۸ آیا پھر اسی دو کو شوہر کے حصہ میں ضرب دی تو حاصل ۲ آیا اور دو بیٹیوں کے حصہ میں ضرب دی تو حاصل ۶ آیا اور ہر لڑکی کو ایک ایک ملا۔

مسئلہ ۷: اگر من لا یرد علیہ کے دینے کے بعد باقیماندہ میں اور من یرد علیہ کے رئوس میں نسبت تباین ہو تو کل عدد رئوس کو من لا یرد علیہ کے مخرج مسئلہ میں ضرب دی جائے گی اور حاصل ضرب مخرج مسئلہ ہو گا۔

توضیح : شوہر کا حصہ ادا کرنے کے بعد ۳ اور ۵ میں تباین ہے لہذا ۵ کو ۴ میں ضرب دیا تو حاصل بیس آیا جو مخرج مسئلہ بنایا گیا ہے پھر اس ۵ کو ہر فریق کے حصہ سے ضرب دے دی۔

مسئلہ ۸: مسائل رد میں چوتھی قسم یہ ہے کہ من لا یرد علیہ کے ساتھ من یرد علیہ کی دو جنسیں ہوں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ من لا یرد علیہ سے باقی ماندہ کو مسئلہ من یرد علیہ پر تقسیم کیا جائے اگر پورا تقسیم ہو جائے تو ضرب کی ضرورت نہیں اور اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ بیوی کو چوتھائی ملتا ہو اور باقی من یرد علیہ پر اثلاثا تقسیم ہو رہا ہو۔

توضیح : یہاں بیوی کو چوتھائی دیا گیا ہے اور مسئلہ ۴ سے کیا گیا ہے اور من یرد علیہ کا مسئلہ الگ کیا گیا ہے وہ اس طرح کہ اگر صرف دادیاں اور ماں شریک بہنیں ہوتیں تو مسئلہ بالرد ۳ ہوتا جن میں سے ۲ بہنوں کو ایک اور ایک دادی کو ملتا۔ اب من یرد علیہ کا مسئلہ ۳ سے ہے اور من لا یرد علیہ کا حصہ دے کر ۳ بچتے ہیں لہذا اب ضرب کی ضرورت نہیں لیکن دادیوں پر ایک پوراتقسیم نہیں ہوتا جبکہ بہنوں پر ۲ پورے تقسیم نہیں ہوتے۔دادیوں کے سہام اور اعداد رئوس میں تباین ہے لہذا ان کو اپنے حال پر رکھا گیا جب کہ بہنوں کے سہام اور اعداد رئوس میں توافق ہے لہذا بہنوں کا عدد وفق نکالا گیا جو ۳ ہے اب ہمارے پاس یہ اعداد رئوس ہیں ۔ ۱،۴،۳ جو سب متباین ہے۔ لہذا ہم نے بہنوں کے اعداد رئوس کے وفق کو دادیوں کے کل اعداد روئوس میں ضرب دیا تو حاصل ۱۲ آیا۔ پھر اس حاصل کو من لا یرد علیہ کے مسئلہ ۴ سے ضرب دی تو حاصل اڑتالیس ۴۸ آیا پھر اسی بارہ (۱۲) سے ہر فریق کے حصہ کو ضرب دی تو جو حاصل آیا وہ ہر ایک فریق کا حصہ ہے جیسا کہ آپ مثال میں دیکھ رہے ہیں ۔

مسئلہ ۹: اگر من لا یرد علیہ کا حصہ دینے کے بعد باقی ماندہ من یرد علیہ کے مخرج مسئلہ پر پورا تقسیم نہ ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ من یرد علیہ کے کل مسئلہ کو من لا یرد علیہ کے مسئلہ میں ضرب دیں اب جو حاصل ہو گا وہ دونوں فریقوں کا مخرج مسئلہ ہو گا۔

توضیح : اصولی طور پر یہ مسئلہ ۲۴ سے ہونا تھا کیونکہ آٹھواں دو تہائی اور چھٹے کے ساتھ آرہاہے لیکن حصے بچتے تھے اس لئے مسئلہ رد کا ہو گیا تو پہلے بیویوں کو ان کے اقل مخارج ۸ سے حصہ دیا پھر من یرد علیہ کا مسئلہ الگ حل کر کے دیکھا تو وہ ۵ ہو رہا ہے جس میں سے ۴ بیٹیوں کے حصہ میں آرہے ہیں اور ایک دادی کے اب بیویوں کا حصہ نکالنے کے بعد ۷ بچے، جو ۵ پر پورے تقسیم نہیں ہوتے، اب من لا یرد علیہ کے باقیماندہ ۷ اور مسئلہ من یرد علیہ ۵ میں تباین ہونے کی وجہ سے مسئلہ من یرد علیہ ۵ کو کل مسئلہ من لا یرد علیہ میں ضرب دی تو حاصل چالیس (۴۰) آیا جو فریقین کا مخرج مسئلہ ہے۔ اب ان میں سے ہر فریق کا حصہ معلوم کرنا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ من لا یرد علیہ کے سہام کومسئلہ من لا یرد علیہ میں ضرب دیں جیسے یہاں ایک کو ۵ سے ضرب دی تو حاصل ۵ آیا یہ من لا یرد علیہ کا حصہ ہے اور من یرد علیہ میں سے ہر فریق کے حصہ کو مسئلہ من لا یرد علیہ کے باقی ماندہ سے ضرب دی جائے گی تو بیٹیوں کو ۴ ملے تھے انہیں جب ۷ میں ضرب دی گئی تو حاصل ۲۸ آیا جو بیٹیوں کامجموعی حصہ ہے اور دادیوں کے حصے کو جب سات میں ضرب دی تو ۷ آیا یہ دادیوں کا مجموعی حصہ ہے اب اگر ہر فریق یا بعض کے حصے انکے رئوس پر پوری طرح تقسیم نہ ہوتے ہوں تو وہی عمل دہرایا جائے گا جو تصحیح کے باب میں ہم بیان کر آئے ہیں مثلاً اسی مسئلہ میں بیویوں کی تعداد ۴ اور انکے حصے ۵ ہیں جن میں تباین ہے۔ اس لئے ان اعداد کو یونہی رکھا گیا۔ بیٹیاں ۹ ہیں اور ان کے حصے ۲۸ ان میں بھی تباین کی نسبت ہے لہذا یہ بھی اپنی جگہ رہے اور یہی حال دادیوں کا ہے اب صرف رئوس کے درمیان نسبت تلاش کی تو دادیاں ۶ اور بیویاں ۴ ہیں ۔ ان میں توافق بالنصف ہے لہذا ہم نے ۴ کے نصف ۲ کو ۶ میں ضرب دی تو حاصل ۱۲ آیا۔ اور یہ عدد بیٹیوں کی تعداد ۹ سے توافق بالثلث کی نسبت رکھتا ہے لہذا ۱۲ کے ثلث ۴ کو ۹ سے ضرب دی تو حاصل ۳۶ آیا اس کو ۴۰ میں ضرب دی تو حاصل ایک ہزار چار سو چالیس آیا۔ پھر اس مضروب سے ہر فریق کے حصوں کو ضرب دی بیویوں کے حصے ۵ کو ۳۶ سے ضرب دی تو حاصل ایک سو اسی آیا، جب اس کو ۴ پر تقسیم کیا تو ہر ایک کو ۴۵ ملا۔ بیٹیوں کے حصہ ۲۸ کو جب ۳۶ سے ضرب دی تو حاصل ایک ہزار آٹھ آیا۔ اس کو ۹ پر تقسیم کیاہر لڑکی کو ۱۱۲ ملا پھر دادیوں کے حصے ۷ کو ۳۶ سے ضرب دی تو حاصل دو سو باون آیا۔ اور اس کو ۶ پر تقسیم کیا تو ہر ایک کا حصہ بیالیس نکلا۔ (تبیین الحقائق ج ۶ ص ۲۴۸)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button