سوال:
پرائز بانڈ کے انعام کا کیا حکم ہے؟ اور بینک کو سود کا اڈہ کہنا کیسا؟ ملخصا
جواب:
گیارہ روپے والے پرائز بانڈ کے علاوہ جو بانڈز ہیں ، ان کا خریدنا اور قرعہ اندازی کے ذریعہ ان سے ملنے والے انعام کو حاصل کرنا جائز ہے۔ بینک کی ملازمت ، جس میں سود کے کاغذات وغیرہ لکھنا نہیں پڑتے ہیں، وہ جائز ہے۔ مثلا دربان اور ڈرائیور وغیرہ۔ بینکوں میں سب روپیہ سود کا ہی نہیں ہوتا۔ جب بینک شروع کیا جاتا ہے تو حصہ دار اپنے روپے سے فنڈ اکھٹا کر کے بینک کی ابتداء کرتے ہیں، اس کے بعد جو لوگ کرنٹ اکاؤنٹ میں روپے جمع کرتے ہیں ، ان کا سود سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لوگ ایل سی کھولتے ہیں۔ اگر اس میں کل روپیہ جمع کرتے ہیں تو اس کا سود سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس میں بھی سود کا نام نہیں ہے۔ نیز جب بینک پارٹیوں کو قرض دیتے ہیں تو ان سے سود لیتے ہیں ۔ جو لوگ سیونگ اکاؤنٹ میں روپیہ جمع کرتے ہیں ، ان کو بینک سود دیتے ہیں تو یہ سودی کاروبار ہے۔ لہذا بینکوں میں حرام و حلال روپیہ ملا ہوا ہے۔ مخلوط آمدنی سے قرض لینا ، ملازمت کر کے تنخواہ لینا یا کوئی چیز فروخت کر کے قیمت لینا ناجائز ہے۔ آج شاید چند ہی آدمی ایسے ملیں گے، جن کی آمدنی میں ایک پیسہ بھی ناجائز ملا ہوا نہ ہو۔
لہذا سب سے خرید و فروخت اور ملازمت اور سارے معاملات کو ناجائز نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ حرام کمانا ناجائز، خرچ کرنا ناجائز اور اپنے مال میں ملانا ناجائز۔ مگر دوسرے لوگ جو ان خلط کرنے والوں سے خرید و فروخت اور معاملات کریں وہ ناجائز نہیں ۔ ملک کا سارا مالی نظام اسٹیٹ بینک چلاتا ہے، اسٹیٹ بینک میں انکم ٹیکس اور ہر قسم کی ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس جمع ہوتے ہیں ، وہی بینک کا اصل سرمایہ ہے، اسی کو ملک کی ضروریات میں خرچ کیا جاتا ہے، ترقیاتی منصوبوں اور دفاعی ضروریات اور کارخانوں کیلئے ، دیگر ممالک سے قرض لیا جاتا ہے، قرض لینے کی صورت میں سود دیتے ہیں۔ لہذا اس قرض میں جو دیگر ممالک سے لیا ہے سود شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(وقار الفتاوی، جلد 3، صفحہ 292، بزم وقار الدین، کراچی)