شرعی سوالات

بیع کی تعریف ،شرائط، اور آن لائن خرید وفروخت سے متعلق ایک تفصیلی فتوی

سوال:

انٹرنیٹ پر خریداری کے متعلق آپ سے شرعی رہنمائی درکار ہے۔

جواب:

شریعت مطہرہ نے انسان کی معاشی ضروریات و حاجات کے پیش نظر بیع و شرا ( خرید و فروخت) کے معاملات کو جائز قرار دیا ہے ، مگر چونکہ انسان محض اپنی عقل اور ذاتی فہم و دانش کی بنیاد پر اپنی مصلحت اور حقیقی سود و زیاں کا صحیح ادراک نہیں کر سکتا، اس لئے شریعت نے با ہم معاملات طے کرنے کے لئے ضابطے اور اصول مقرر کئے ہیں جن کا لحاظ رکھنا لازمی اور ضروری ہے ۔ ان کی پاس داری سے تجارت و معاملات میں توازن برقرار رہتا ہے، جس کے مثبت اثرات معاشرہ کے ہر طبقہ پر مرتب ہوتے ہیں ۔

باہمی رضامندی سے مال کے بدلے میں مال کے لین دین کو بیع کہتے ہیں۔  ان میں سے ایک مبیع ( برائے  فروخت چیز ) اور دوسرا ثمن کہلا تا ہے ۔ اسلام نے کسب معاش کی جدو جہد میں انسان کو مطلق آزاد اور بے لگام نہیں چھوڑا ،تجارت ، شرکت و مضاربت اور صنعت و حرفت کے قواعد و ضوابط بیان فرمائے ہیں ۔ بیع کے صحیح طور پر منعقد ہونے کے لیے چند شرائط ہیں1) بائع ومشتری کا عاقل ہونا ، بلوغ شرط نہیں، ( ۲ ) عاقد کا متعدد نہ ہونا یعنی ایک ہی شخص بائع اور مشتری نہیں ہو سکتا،  (۳) ایجاب و قبول میں موافقت ہونا یعنی یہ نہ ہو کہ ایجاب (Proposal) ایک چیز کا ہو اور قبول (Acceptance) دوسری چیز کا (۴) ایجاب و قبول کا ایک مجلس میں ہونا ، ( ۵ ) ہر ایک کا دوسرے کے کلام کو سننا ، (6 ) مبیع کا موجود ہونا، مقدور التسلیم ہونا، یعنی ” بیع مکمل ہونے کے بعد بائع مبیع کو مشتری کے حوالے کرنے پر قدرت رکھتا ہو ۔ ( ۷ ) بیع موقت نہ ہو یعنی یہ کہے کہ اتنے دنوں کے لیے بچا تو یہ بیع صحیح نہیں ہے، (۸) مبیع و ثمن مجہول نہ ہوں معلوم اور متعین ہوں ، کیونکہ مجہول چیز کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے۔

خریدار کو اختیار حاصل ہے کہ کسی شے کو خریدنے سے پہلے وہ ا سے اچھی طرح دیکھ لے، فقہی اصطلاح میں اسے ”خیار رویت‘‘ کہتے ہیں ۔ خیار رویت کا بنیادی مقصد مبیع یعنی فروخت کی جانے والی چیز کے بارے میں علم مقصودی کا حاصل ہونا ہے، پس جہاں مبیع کے بارے میں مقصودی علم حاصل ہو، وہاں خریدار کو خیار رویت حاصل نہیں ہوتا ۔انٹرنیٹ پر فروخت کے لیے پیش کی جانے والی اشیا کی تصاویر یا تفصیل سے مقصودی علم حاصل ہوتا ہو اور وہ شے واقعی ایسی ہی ہو تو مشتری کو خیار رویت حاصل نہیں لیکن دھوکے کی صورت میں مشتری بیع کو فسخ کر سکتا ہے۔

کیونکہ سارے مبیع کا دیکھنا دشوار ہونے کی وجہ سے شرط نہیں ، پس ایسی رویت جو مقصود کے بارے میں مطلوبہ آگاہی دیدے ،کافی ہے  مثلاً دس یا بیس یا پچاس من گندم یا چاول کا سودا کیا جار ہا ہے، تو ہر ہر دانے کا ٹول ٹول کر دیکھنا دشوار ہے ، دو چار جگہ سے ہی الٹ پلٹ کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔

انٹرنیٹ پر خریداری کے مختلف طریقے ہیں : عام اور مشہور طریقہ یہ ہے کہ بائع ( فروخت کرنے والا اپنی مصنوعات کی تصاویر اور تمام تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر یا اپنے پیج پر ظاہر کر دیتا ہے ۔ ویب سائٹ یا پیج دیکھنے والا اشیا کو دیکھ کر اپنی مطلوبہ شے پر کلک کر کے اس شے کی خریداری کا ارادہ ظاہر کرتا ہے ۔ قیمت ادا کرنے کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں کبھی ادائیگی ڈیلیوری پر کی جاتی ہے ، یعنی جب بائع مبیع (بیچی جانے والی چیز ) مقررہ جگہ پر پہنچا دیتا ہے تو خریدار رقم ادا کرتا ہے اور بعض دفعہ ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے، بائع مشتری کا کریڈٹ کارڈ نمبر حاصل کر کے بینک کو بھیجتا ہے اور وہاں سے اپنی رقم وصول کر لیتا ہے ۔ مبیع کی سپردگی ( Delivery) بعض اوقات کسی کورئیر سروس کے ذریعے کی جاتی ہے اور بعض اوقات کمپنی اپنے کارندوں کے ذریعے یہ کام کرتی ہے ۔ ضروری نہیں کہ مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو، بلکہ وہ  آرڈر ملنے پر اشیا کا انتظام کرتا ہے اور مشتری کے پتے پر یہ اشیا ارسال کرتا ہے ۔ اس طریقے پر خریداری کے لیے چند عمومی باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:

(۱) انٹرنیٹ پر سونا چاندی یا کرنسی کی خرید و فروخت ہو تو بیع صرف کے احکام کی رعایت لازم ہو گی یعنی کم از کم ایک طرف سے فوری ادائیگی اور دوسری طرف سے اس پر قبضہ ضروری ہو گا خواہ  قبضہ حقیقی ہو یا حکمی ۔

 (۲) پروڈکٹ اور قیمت سے متعلقہ تمام امور کی وضاحت ہو، کیونکہ جہالت بعد کو نزاع کا باعث بنتی ہے ۔

 (۳) کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو۔

 (۴) صرف تصویر دیکھنے سے خیار رویت ( دیکھنے کا اختیار ساقط نہ ہو گا ، لہذا اگر مبیع تصویر کے مطابق نہ ہو تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار ہو گا۔

 (۵) کوئی ایسی شے فروخت نہ کی جائے جو بوقت معاہدہ فروخت کنندہ کے قبضے میں نہ ہو۔

 (۲) اگر ویب سائٹ والے آرڈر ملنے پر کسی اور جگہ سے چیز مہیا کر تے ہوں تو صارف کو اس وقت تک نہ بیچیں ، جب تک چیز ان کے قبضے میں نہ آ جائے، البتہ وہ خریدار کا وکیل یا ایجنٹ بن کر یہ کام کر سکتے ہیں ۔

 (۷) ویب سائٹ پر اشیا بیچنے والے کو چاہیے کہ ادائیگی کے لیے کریڈٹ کارڈ کے آپشن کے بجائے صرف ڈیبٹ کارڈ یا ڈیلیوری پر ادائیگی کا آپشن دے، تا کہ کریڈٹ کارڈ کے بارے میں علما کے اختلاف کی رعایت ہو جائے ، کیونکہ علما کی ایک جماعت کے نزدیک کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں ہے ۔ یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ اگر وقت مقررہ کے اندر ادائیگی کر دی جائے تو عملاً سود میں مبتلا ہونے سے بچ جائے گا ۔

 بعض ادارے صرف کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی قبول کرتے ہیں ، جیسے آن لائن ویزے کی درخواست وصول کرنے والے بعض سفارت خانے صرف کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ویزا فیس وصول کرتے ہیں ۔ وہ کریڈٹ کارڈ جس کے ذریعے خریداری کر نے والا بروقت قیمت ادا کر دے ، وہ عملاً تو سودی لین دین میں ملوث نہیں ہوتا لیکن کسی بھی سبب سے بر وقت ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں وہ ربا پر مبنی معاہدے پر رضامندی کا اظہار کرتا ہے اور یہ شرعاً درست نہیں ہے، اس لیے کریڈٹ کارڈ کا استعمال صرف ناگزیر صورت میں کیا جائے ۔ جو آن لائن کاروبار کرنے والا کورئیر سروس یا اپنے کارندے کے ذریعے مشتری کے گھر یا اس کی دکان یا گودام پر ڈیلیوری کے وقت قیمت وصول کرتا ہو، اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے‘‘۔

اگر آن لائن ”برائے فروخت چیز‘‘ کی تصویر کمپیوٹر پر تمام ممکنہ زاویوں سے دکھادی جائے، اس کی ضروری خصوصیات بھی بیان کر دی جائیں ، تو اگر وہ چیز اس کے مطابق ہے تو حصول مقصد کے لیے یہ کافی ہے لیکن اگر ڈیلیوری کے وقت وہ چیز بیان کردہ خصوصیات کی حامل نہیں ہے ، تو مشتری خیار رویت استعمال کرتے ہوئے اسے رد کر سکتا ہے ۔ اگر عقد اور ڈیلیوری کی جگہ میں فاصلہ ہے تو اسے بیع سلم کے طور پر لیا جا سکتا ہے کہ ڈیبٹ کارڈ کے  ذریعے آن لائن ثمن ادا کر دیا جائے اور ڈیلیوری کا مقام ، دن اور تاریخ طے کر لی جائے تو یہ بیع درست ہو گی ۔آ ج کل درآمدات کے لیے کمرشل بینکوں کے ذریعے Credit Letter of کھولا جا تا ہے ، لیٹر آف کریڈٹ کو عربی میں ’’الاعتماد المستندی‘‘کہا جاتا ۔ ہے، یہ در حقیقت بینک کی طرف سے ایک تحریری عقد ہوتا ہے کہ وہ یہ رقم اپنے کلائنٹ (مشتری ) کی ہدایت پر بائع کو ادا کر دے گا ۔اس میں بینک ضمانت دیتا ہے کہ وہ مال  متعلقہ پورٹ پہنچنے کے بعد قیمت ادا کر دے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے اور جب بیرون ملک سے بائع مال کی شپمنٹ ( یعنی بحری یا ہوائی جہاز یا سڑک کے ذریعے ترسیل) کے بعد ملکیتی دستاویز خریدار کو کراچی ارسال کر دیتا ہے اور وہ اسے موصول ہو جاتی ہے، تو اسے قبضہ حکمی (Constructive Possession) کہا جاتا ہے اور اس کے بعد نظر (Risk) خریدار کو منتقل ہو جا تا ہے اور بینک بائع کو قیمت ادا کر دیتا ہے ۔ آج کل جاپان سے ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کے سودے اس طریقے کے مطابق ہوتے ہیں ، سوائے اس کے کہ کسی پارٹی کا اپنا نمائندہ  جاپان جا کر موجود گاڑی کو ہر زاویے سے دیکھے اور پھر موقع پر اس کا سودا کر کے شپمنٹ کا انتظام خود کر ے ۔ اگر فروخت کے لیے آن لائن پیش کی گئی چیز فروخت کنندہ کی ملک اور قبضے میں نہیں ہے، بلکہ اس نے کسی اور اسٹاکسٹ یا پروڈیوسر سے خرید کر اسے دیتی ہے، تو پھر یہ شخص مبیع کی تمام تفصیلات بتا کر اور خریدار کا وکیل (Agent) بن کر یہ کام کر سکتا ہے اور ان دونوں کے درمیان یہ وکالہ کا عقد (Agency Agreement) ہو گا ۔ مشتری کی طرف سے وعدہ خریداری ہو گا اور دونوں کی طرف سے وعدہ کی پاس داری لازم ہو گی اور وکیل پہلے سے طے شدہ ا پنی وکالہ فیس لے سکتا ہے ۔                                                (تفہیم المسائل، جلد12، صفحہ361،ضیا القران پبلی کیشنز، لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button