بیع میں تعلیق جائز نہیں ہے
فلاں مدت تک رہن نہ چھوڑا سکے تو بیع تصور ہوگی
سوال:
زید نے ایک دکان عمرو کے پاس بعوض 5روپیہ کے دخلی رہن کی ،یہ شرط قرار پائی کہ زید اس دکان کو اگر دو سال کے اندر واگذاشت کرالے گا تو کرا سکتا ہے ورنہ وہ بعد انقضائے میعاد بمنزلہ بیع متصور ہوگی اور عمرو بعد گزرنے کے روپیہ زر رہن کے اور دیگا مگر زید بعد انقضائے میعاد تک اسے رہن نہیں کرایا لہذا حسب شرط عمرو پر بقیہ زر قیمت واجب ہوتا ہے یا نہیں ؟دو امور دریافت طلب ہیں()دخلی رہن جبکہ مرتہن اس کے کرایہ سے مفاد حاصل کرے لے جائز ہے یا نہیں؟()متذکرہ بالا صورت میں بیع نافذ ہوگی یا نہیں؟
جواب:
()دخلی رہن ناجائز وحرام ہے اور مرتہن جو کرایہ لے گاوہ سود ہوگا۔
()اولاً تو وہ بیع نہیں بلکہ رہن ہے اور دو برس گزرنے پر اس رہن کو بیع بلکہ بمنزلہ بیع متصور ہونے کو کہتا ہے جو کسی طرح عقد بیع نہیں ہوسکتا اور بیع ہونا لکھنا جب بھی صحیح نہیں ہوتی کہ بیع کی تعلیق ناجائز ہے۔
(فتاوی امجدیہ،کتاب الرہن،جلد3،صفحہ 343،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)