سوال:
بکر نے اپنے خرچ سے کتاب چھپوا کر ساٹھ فیصد کمیشن وضع کرکے ساری کتابیں زید کے ہاتھ بیچ دیں اور دونوں میں یہ طے پایا کہ کتابیں فروخت ہونے پر اصل خرچ نکال کر نفع آدھا آدھا بانٹ لیں گے تو یہ جائز ہے یانہیں اگر نہیں تو جواز کی کیا صورت ہے؟
جواب:
جب بکر نے کتابیں زید کے ہاتھ بیچ دیں تو وہ اس کا مالک ہو گیا اس پر واجب ہے کہ بکر کو پوری قیمت ادا کرے وہ اس میں سے کچھ نہیں لے سکتا۔ لہذا مذکورہ صورت میں جو زید نے اس شرط پر کتابیں خریدی ہیں کہ جو ثمن طے ہوا ہے اس میں سے بھی ہم نفع لیں گےیہ ایسی شرط ہے جس میں احد المتعاقدین یعنی مشتری کا فائدہ ہے اس لئے یہ بیع فاسد ہے۔ لہذا زید و بکر کا اس طرح معاملہ کرنا ہرگز درست نہیں۔
البتہ جواز کی ایک صورت ہے کہ بکر نے کتاب چھپوائی وغیرہ میں مثلا کل دو ہزار روپے خرچ کئے تو اسے زید کے ہاتھ تین یا چار ہزار روپے میں نقد یا ادھار جس طرح چاہے بیچ دے اور اس سے اپنا ثمن وصول کر لے۔ اب زید کو اختیار ہے کہ وہ پانچ ہزار یا چھ ہزار جتنے میں چاہے فروخت کرے۔ اس صورت میں زید و بکر دونوں کو فائدہ حاصل ہو جائے گا۔
(فتاوی فقیہ ملت، جلد 2، صفحہ 197، شبیر برادرز لاہور)