اس آرٹکل کو لکھنے کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ شراء ما باع باقل مما باع قبل نقد الثمن (یعنی ادھار چیز بیچ کر قیمت وصول کرنے سے پہلے ہی نقد میں کم داموں واپس خریدنے) کی صورت سے متعلق اور” بیع عینہ“ کی صورت کے متعلق فقہ حنفی کا صحیح موقف و تشریح سامنے لائی جائے کیونکہ معاصرین یا ماضی قریب کے کچھ اہل علم حضرات دانستہ یا نادانستہ طور پر بیع عینہ اور چیز ادھار بیچ کر واپس خریدنے میں فرق اور ان کے احکام میں خلط مبحث کا شکار نظر آتے ہیں جس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ اول الذکر صورت وہ ہے جس کے متعلق مجتہدہ صحابیہ ام المؤمنین، صدیقہ بنت صدیق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہما کاصریح اور واضح فرمان منقول ہوا ہے جس میں آپ نے اس سے ممانعت فرمائی اور فقہ حنفی میں بھی اس صورت کو اسی اثر و فرمان اور ربح ما لم یضمن(کسی چیز کو ضمان میں لئے بغیر نفع حاصل کرنا) کی علت کے پیش نظر متفقہ طور پر ممنوع قرار دیا گیا ، لیکن ہمارے فقہاء احناف عموما اس صورت کو بیع عینہ کا نام نہیں دیتے اور نہ بیع عینہ کی بحث میں اس صورت کو ذکر کرتے ہیں بلکہ” اپنی چیز بیچ کر واپس خریدنے کی صورتیں “جہاں ذکر کرتے ہیں وہیں اس ممنوعہ صورت کی ممانعت ائمہ ثلاثہ (امام اعظم ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمھم اللہ) سے متفقہ طور پر نقل کرتے ہیں اور دلیل کے طور پر باقاعدہ حدیث عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا حوالہ بیان کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف بیع عینہ کا جہاں تذکرہ کرتے ہیں تو وہاں انداز فقہاء بالکل مختلف ہوتا ہے یعنی وہاں ایک تو بیع عینہ کی مختلف صورتوں وطریقوں کا تذکرہ ہوتا ہے ۔اور دوسرا یہ کہ امام اعظم اور امام ابو یوسف رضی اللہ تعالی عنہما سے بیع عینہ کا جائز ہونا اور امام محمد رحمہ اللہ کا اسے مکروہ و ناپسند کرنا بیان کیا جاتا ہے۔ اور یہاں ممانعت یا کراہت کو ثابت کرنے کے لئے فقہاء احناف کبھی بھی وہ حدیث و روایت بیان نہیں کرتے جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ممانعت فرمائی تھی، بلکہ زیادہ سے زیادہ امام محمد کی ناپسندیدگی کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ یہاں قرض حسن دینے والی نیکی سے اعراض پایا جاتا ہے ۔ نیز فقہاء کرام بیع عینہ کو بطور حیلہ وہاں بھی بیان کرتے ہیں جہاں سود سے بچنے کے دیگر حیلے بیان کرتے ہیں ۔ بیع عینہ اور چیز ادھار بیچ کر واپس خریدنے میں کیا فرق ہے؟ حدیث عائشہ میں بیان کردہ ممنوع صورت اور بیع عینہ کے حوالے سے یہ عامہ کتب احناف کا انداز ہے۔عقل سلیم رکھنے والا شخص بآسانی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ فقہاء کی باتوں میں تضاد (contradiction) نہیں ہو سکتا یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک مخصوص صورت کو فقہاء علی الاعلان ائمہ ثلاثہ کے حوالے سے ناجائز بتائیں اور دوسری جگہ اسی صورت کو بیع عینہ کا نام دے کر جائز بھی کہہ دیں اور نہ صرف جائز کہیں بلکہ سود سے بچنے کا حیلہ بنا کر پیش کریں۔ حاشا !یہ تو ایک پرلے درجے کی جہالت ہے اورفقہاء کرام کا مرتبہ اس طرح کی جہالت سے بہت بلندو بالا ہے ۔ لیکن یہاں معاصر یا ماضی قریب کے بعض اہل علم حضرات کو یہی شبہہ لاحق ہوگیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ فقہاء احناف نے بیع عینہ کے تحت اس صورت کو بھی جائز قرار دے دیا ہے جس کو حدیث عائشہ میں منع فرمایا گیا تھا اور دیگر بعض حضرات سمجھتے ہیں کہ فقہاء احناف کے نزدیک بیع عینہ ناجائز ہی ہےحالانکہ حقیقت یہ ہے کہ حدیث عائشہ میں بیان کردہ صورت کو فقہاء احناف بھی ناجائز ہی کہتے ہیں اور بیع عینہ کے عنوان سے جن صورتوں کو فقہاء احناف جائز کہتے ہیں وہ اس ممنوعہ صورت سے جدا دوسری صورتیں ہیں جن کی ممانعت پر کوئی دلیل شرعی قائم نہیں ہے۔ یہاں ایک اور اہم بات واضح رہے کہ ”بیع عینہ “ ایک حیلہ شرعیہ کی صورت ہے اور ضرورت کے مواقع پر علماء و فقہاء کرام نے اگرچہ حیلے کو جائز قرار دیا ہے اور اس کے ثبوت میں قرآن وحدیث سے کئی دلائل پیش کیے ہیں مگر اس کتاب کا مقصد فقط یہ ہے کہ حنفی فقہ کی روشنی میں اس عقد کے شرعی حیثیت واضح کی جائے ۔ یہ مقصد نہیں کہ کسی سسٹم کے اندر اس کو رائج و نافذ بھی کر دیا جائے اور بڑی سطح پر لوگوں کو اس کی ترغیب دی جائے کیونکہ مقاصدِ شرع کا لحاظ رکھتے ہوئے اور ممکنہ مفاسد ( خرابیوں) کا سدِ باب کرنے کی خاطرکسی خاص جائز معاملے سے روک دینا بھی درست ہوتا ہے لیکن چونکہ ایسی رکاوٹ ایک خارجی پہلو کی وجہ سے ہوتی ہے ، اصل عقد کی ذاتی حیثیت سے نہیں آ تی ، اس لئے اصل عقد کوسرے سے ہی ناجائز و حرام قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ فقہاء کرام نے جہاں بھی شرعی حیلوں کو جائز قرار دیا ہے اور اس کی صورتیں بیان کی ہیں وہاں بھی مقصد یہی ہوتا ہے کہ خاص ضرورت پیش آجائے تو حرام سے بچتے ہوئے جائز حل کی صورت اختیار کر لی جائے، یہ مقصد نہیں ہوتا کہ بلا ضرورت بندہ حیلوں کے پیچھے ہی لگا رہے ۔