بیع صرف کے متعلق مسائل
احادیث:
حدیث۱: صحیحین میں ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی رسول اللہ ﷺنے فرمایا سونے کو سونے کے بدلے میں نہ بیچومگر برابربرابر اور بعض کو بعض پر زیادہ نہ کرو اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں نہ بیچو مگر برابر برابراوربعض کو بعض پر زیادہ نہ کرواور ان میں اودھار کونقد کے ساتھ نہ بیچو اور ایک روایت میں ہے کہ سونے کو سونے کے بدلے میں اور چاندی کو بدلے میں نہ بیچو مگر وزن کے ساتھ برابر کرکے ۔
حدیث۲: صحیح مسلم شریف میں ہے فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں نے خیبر کے دن بارہ دینا رکا ایک ہار خریداتھا جس میں سونا تھا اور پوت میں نے دونوں چیزیں جدا کیں تو بارہ دینار سے زیادہ سونا نکلا اس کو میں نے نبی کریم ﷺ سے ذکر کیاارشاد فرمایا جب تک جدا نہ کرلیا جائے بیچا نہ جائے ۔
حدیث۳: امام مالک و ابو داؤد وترمذی وغیرہم ابی الحدثان سے روای کہتے ہیں کہ میں سو اشرفیاں توڑانا چاہتا تھا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے بلایا اورہم دونوں کی رضا مندی ہوگئی اور بیع صرف ہوگئی انھوں نے سونا مجھ سے لے لیا اور الٹ پلٹ کردیکھا اور کہا اس کے روپے اس وقت ملیں گے جب میرا خازن فابہ سے آجائے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سن رہے تھے انھوں نے فرمایا اس سے جدا نہ ہونا جب تک روپیہ وصول نہ کرلینا پھر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے سونا چاندی کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب کہ دست بدست ہو۔
مسائل فقہیہ:
مسئلہ۱: صرف کے معنی ہم پہلے بتا چکے ہیں یعنی ثمن سے بیچنا ۔ صرف میں کبھی جنس کا تبادلہ جنس سے ہوتا ہے جیسے روپیہ سے چاندی خریدنا یا چاندی کی ریزگاریاں خریدنا ۔ سونے کو اشرفی سے خریدنا ۔اور کبھی غیر جنس سے تبادلہ ہوتا ہے جیسے روپے سے سونا یا اشرفی خریدنا۔
مسئلہ ۲: ثمن سے مراد عام ہے کہ وہ ثمن خلقی ہو یعنی اسی لئے پیدا کیا گیا ہوچاہے اس میں انسانی صنعت بھی داخل ہو یا نہ ہو چاندی سونا اور ان کے سکے اور زیورات یہ سب ثمن خلقی میں داخل ہیں دوسری قسم غیرخلقی جس کو ثمن اصطلاحی بھی کہتے ہیں یہ وہ چیزیں ہیں کہ ثمنیت کے لئے مخلوق نہیں ہیں مگر لوگ ان سے ثمن کا کام لیتے ہیں ثمن کی جگہ پر استعمال کرتے ہیں ۔ جیسے پیسہ،نوٹ،نکل کی ریزگاریاں کہ یہ سب اصطلاحی ثمن ہیں روپے کے پیسے بھنائے جائیں یا ریزگاری خریدی جائے یہ صرف میں داخل ہے۔
مسئلہ۳: چاندی کی چاندی سے یا سونے کی سونے سے بیع ہوئی یعنی دونوں طرف ایک ہی جنس ہے تو شرط یہ ہے کہ دونوں وزن میں برابر ہوں اور اسی مجلس میں دست بہ دست قبضہ ہویعنی ہر ایک دوسرے کی چیز اپنے فعل سے قبضہ میں لائے اگر عاقدین نے ہاتھ سے قبضہ نہ کیا بلکہ فرض کرو عقد کے بعد وہاں اپنی چیز رکھدی اور اس کی چیز لے کر چلا آیا یہ کافی نہیں ہے اور اس طرح کرنے سے بیع ناجائز ہوگئی بلکہ سود ہوا اور دوسرے مواقع میں تخلیہ قبضہ قرار پاتا ہے اور کافی ہوتا ہے وزن برابر ہونے کے یہ معنی کہ کانٹے یا ترازو کے دونوں پلے میں دونوں برابر ہوں اگر چہ یہ معلوم نہ ہو کہ دونوں کا وزن کیا ہے۔(عالمگیری۔در مختار۔ رد المختار) برابری سے مراد یہ ہے کہ عاقدین کے علم میں دونوں چیزیں برابر ہوں یہ مطلب نہیں کہ حقیقت میں برابرہونا چاہئے ان کو برابر ہونا معلوم ہو یا نہ ہو لہذا اگر دونوں جانب کی چیزیں برابر تھیں مگر ان کے علم میں یہ بات نہ تھی بیع ناجائز ہے ہاں اگر اسی مجلس میں دونوں پر یہ بات ظاہر ہو جائے کہ برابر ہیں تو جائز ہوجائے گی۔ (فتح القدیر)
مسئلہ ۴: اتحاد جنس کی صورت میں کھرے کھوٹے ہونے کا کچھ لحاظ نہ ہوگا یعنی یہ نہیں ہوسکتاکی جدھر کھرا مال ہے ادھر کم ہو اور جدھر کھوٹا ہوزیادہ ہوکہ اس صورت میں بھی کمی بیشی سود ہے۔
مسئلہ ۵: اس کا لحاظ نہیں ہوگا کہ ایک میں صنعت ہے اور دوسرا چاندی کا ڈھیلا ہے یاایک سکہ ہے دوسرا ویساہی ہے اگر ان اختلافات کی وجہ سے کم و بیش کیا تو حرام وسود ہے مثلًا ایک روپیہ کی ڈیڑھ دو روپے بھر اس زمانے میں چاندی بکتی ہے اور عام طور پرلوگ روپیہ ہی سے خریدتے ہیں اور اس میں اپنی ناواقفی کی وجہ سے کچھ حرج نہیں جانتے حالانکہ یہ سود ہے اور بلاجماع حرام ہے اس لئے فقہا یہ فرماتے ہیں کہ اگر سونے چاندی کا زیور کسی نے غصب کیا اور غاصب نے اسے ہلاک کر ڈالاتو اس کا تاوان غیرجنس سے دلایا جائے یعنی سونے کی چیز ہے تو چاندی سے دلایا جائے اور چاندی کی ہے تو سونے سے کیونکہ اسی جنس سے دلانے میں مالک کا نقصان ہے اور بنوائی وغیرہ کا لحاظ کر کے کچھ زیادہ دلایا جائے تو سود ہے یہ دینی نقصان ہے۔ (ہدایہ۔فتح القدیر۔ رد المختار)
مسئلہ ۶: اگر دونوں جانب ایک جنس نہ ہو بلکہ مختلف جنسیں ہوں تو کمی بیشی میں کوئی حرج نہیں مگر تقابض بدلین ضروری ہے اگر تقابض بدلین سے قبل مجلس بدل گئی تو بیع باطل ہوگئی۔ لہذا سونے کو چاندی سے یا چاندی کو سونے سے خریدنے میں دونوں جانب کو وزن کر نے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ وزن تو اس لئے کرنا ضروری تھا کہ دونوں کا برابر ہونا معلوم ہوجائے اور جب برابری شرط نہیں تو وزن بھی ضروری نہ رہا صرف مجلس میں قبضہ کرنا ضروری ہے۔اگر چاندی خریدنی ہو اور سود سے بچنا ہو تو روپیہ سے مت خریدو گنی یانوٹ یا پیسوں سے خریدو۔ دین و دنیا دونوں کے نقصان سے بچوگے۔ یہ حکم ثمن خلقی یعنی سونے چاندی کا ہے اگر پیسوں سے چاندی خریدی تو مجلس میں ایک کا قبضہ ضروری ہے دونوں جانب سے قبضہ ضروری نہیں کیونکہ ان کی ثمنیت منصوص نہیں جس کا لحاظ ضروری ہو عاقدین اگر چاہیں تو ان کی ثمنیت کو باطل کرکے جیسے دوسری چیزیں غیرثمن ہیں ان کو بھی غیرثمن قرار دے سکتے ہیں (در مختار۔ ردالمحتار) مجلس بدلنے کے یہاں یہ معنی ہیں کہ دونوں جدا ہو جائیں ایک اس طرف چلا جائے اور دوسرا اس طرف یا ایک وہاں سے چلا جائے اور دوسرا وہیں رہے اور اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو مجلس نہیں بدلی اگر چہ کتنی ہی طویل مجلس ہو اگر چہ دونوں وہیں سوجائیں یا بے ہوش ہوجائیں بلکہ اگر چہ دونوں وہاں سے چل دیں مگر ساتھ ساتھ جائیں غرض یہ کہ جب تک دونوں میں جدائی نہ ہو قبضہ ہو سکتا ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ۷: ایک نے دوسرے کے پاس کہلا بھیجا کہ میں نے تم سے اتنے روپے کی چاندی یا سونا خریدا دوسرے نے قبول کیا یہ عقد درست نہیں کہ تقابض بدلین مجلس واحد میں یہاں نہیں ہوسکتا۔ ( عالمگیری) خط وکتابت کے ذریعے بھی بیع صرف نہیں ہوسکتی ۔
مسئلہ۸: بیع صرف اگر صحیح ہو تو اس کے دونوں عوض معین کرنے سے بھی معین نہیں ہوتے فرض کرو ایک شخص نے دوسرے کے ہاتھ ایک روپیہ ایک روپیہ کے بدلے میں بیع کیا اور ان دونوں کے پاس روپیہ نہ تھا مگر اسی مجلس میں دونوں نے کسی اور سے قرض لے کر تفابض بدلین کیا تو عقد صحیح رہا یا مثلاً اشارہ کرکے کہا کہ میں نے اس روپیہ کو اس روپیہ کے بدلے میں بیچا اور جس کی طرف اشارہ کیا اسے اپنے پاس رکھ لیا دوسرا اس کی جگہ دیا جب بھی صحیح ہے ۔(د رمختار) یہ اس وقت ہے کہ سونا یا چاندی یا سکے ہوں اوربنی ہوئی چیز ہے مثلاً برتن زیوران میں تعین ہوتا ہے ۔
مسئلہ۹: بیع صرف خیار شرط سے فاسد ہوجاتی ہے یونہی اگر کسی جانب سے ادا کرنے کی کوئی مدت مقرر ہوئی مثلاًچاندی آج لی اور روپیہ کل دینے کو کہا یہ عقد فاسد ہے ہاں اگر اسی مجلس میں خیار شرط اور مدت کو ساقط کردیا تو عقد صحیح ہو جائے گا۔(درمختار)
مسئلہ۱۰: سونے چاندی کی بیع میں اگر کسی طرف ادھار ہوتو بیع فاسد ہے اگر چہ ادھار والے نے جدا ہونے سے پہلے اسی مجلس میں کچھ ادا کردیا جب بھی کل کی بیع فاسد ہے مثلاًپندرہ روپے کی گنی خریدی اور روپیہ دس دن کے بعددینے کو کہا مگر اسی مجلس میں دس روپے دیدیئے جب بھی پوری ہی بیع فاسد ہے یہ نہیں کہ جتنا دیا اس کی مقدار میں جائز ہو جائے ہاں اگر وہیں کل روپے دیدئے تو پوری بیع صحیح ہے ۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۱: سونے چاندی کی کوئی چیز برتن زیور وغیرہ خریدی تو خیار عیب‘ خیار رویت حاصل ہوگا۔ روپے اشرفی میں خیار رویت تو نہیں مگر خیار عیب ہے ۔( درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ۱۲: عقد ہو جانے کے بعد اگر کوئی شرط فاسد پائی گئی تو اس کو اصل عقد سے ملحق کریں گے یعنی اس کی وجہ سے وہ عقد جو صحیح ہوا تھا فاسد ہوگیامثلاً روپے سے چاندی خریدی اور دونوں طرف وزن بھی برابر ہے اور اسی مجلس میں تقابض بدلین بھی ہوگیا پھرایک نے کچھ زیادہ کر دیا یا کم کردیا مثلاًروپیہ کا سوار وپیہ یا بارہ آنے کردیئے اور دوسرے نے قبول کرلیا وہ پہلا عقد فاسد ہوگیا۔( درمختار)
مسئلہ۱۳: پندرہ روپے کی اشرفی خریدی اور روپے دیدیئے اشرفی پر قبضہ کرلیا ان میں ایک روپیہ خراب تھا اگر مجلس نہیں بدلی ہے وہ روپیہ پھیر دے دوسرا لے لے اور جدا ہونے کے بعد اسے معلوم ہواکہ ایک روپیہ خراب ہے اس نے وہ روپیہ پھیر دیا تو اس ایک روپیہ کے مقابل میں بیع صرف جاتی رہی اب یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ اس کے بدلے میں دوسرا روپیہ لے بلکہ اس اشرفی میں ایک روپیہ کی مقدار کا یہ شریک ہے ۔( ردالمحتار)
مسئلہ۱۴: بدل صرف پر جب تک قبضہ نہ کیا ہواس میں تصرف نہیں کرسکتا اگر اس نے اس چیز کوہبہ کردیا یا صدقہ کردیا یا معاف کردیا اور دوسرے نے قبول کرلیا بیع صرف باطل ہوگئی اور اگر روپے سے اشرفی خریدی اور ابھی اشرفی پر قبضہ بھی نہیں کیا اور اسی اشرفی کی کوئی چیز خریدی یہ بیع فاسد ہے اور بیع صرف بدستور صحیح ہے یعنی اب بھی اگر اشرفی پر قبضہ کرلیا تو صحیح ہے ۔( درمختار)
مسئلہ۱۵: ایک کنیز جس کی قیمت ایک ہزار ہے اور اس کے گلے میں ایک ہزار کا طوق پڑا ہے دونوں کو دوہزار میں خریدا اور ایک ہزار اسی وقت دیدیا اور ایک ہزارباقی رکھا تو یہ جو ادا کردیا طوق کا ثمن قرار دیا جائے گا اگرچہ اس کی تصریح نہ کی ہو یا یہ کہہ دیا ہو کہ دونوں کے ثمن میں یہ ایک ہزار لو یونہی اگر بیع میں ایک ہزار نقد دینا قرار پایا ہے اورایک ہزار ادھار توجو نقد دینا ٹھہرا ہے طوق کا ثمن ہے ۔یونہی اگر سوروپے میں تلوار خریدی جس میں پچاس کا چاندی کا سامان لگا ہے اور اسی مجلس میں پچاس دیدیئے تو یہ اس سامان کا ثمن قرار پائے گا یاعقد ہی میں پچاس روپے نقد اور پچاس ادھار دینا قرار پایا تو یہ پچاس چاندی کے ہیں اگرچہ تصریح نہ کی ہو یا کہہ دیا ہو کہ دونوں کے ثمن میں سے پچاس لے لو بلکہ کہہ دیا ہو کہ تلوار کے ثمن میں سے پچاس روپے وصول کرو کیونکہ وہ آرائش کی چیزیں تلوار کے تابع ہیں تلوار بول کر وہ سب ہی کچھ مراد لیتے ہیں نہ کہ محض لوہے کا پھل البتہ اگریہ کہہ دیا کہ یہ خاص تلوار کا ثمن ہے تو بیع فاسد ہوجائے گی ۔ اور اگر اس مجلس میں طوق اور تلوارکی آرائش کا ثمن بھی ادا نہیں کیا گیا اور دونوں متفرق ہوگئے تو طوق و آرائش کی بیع باطل ہوگئی لونڈی کی صحیح ہے اور تلوار کی آرائش بلا ضرر اس سے علیحدہ ہوسکتی ہے تو تلوار کی صحیح ہے ورنہ اس کی بھی باطل۔( ہدایہ )
مسئلہ ۱۶: تلوار میں جو چاندی ہے اس کو ثمن کی چاندی سے کم ہونا ضروری ہے اگر دونوں برابر ہیں یاتلوار والی ثمن سے زیادہ ہو یا معلوم نہ ہو کہ کون زیادہ ہے کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ کہتا ہے تو ان صورتوں میں بیع درست ہی نہیں پہلی دونوں صورتوں میں یقینا سود ہے اور تیسری صورت میں سود کا احتمال ہے اور یہ بھی حرام ہے اس کا قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جب ایسی چیز جس میں سونا چاندی کے تار یا پتر لگے ہوں اس کو اسی جنس سے بیع کیا جائے تو ثمن کی جانب اس سے زیادہ سونا یا چاندی ہونا چاہیئے جتنا اس چیز میں ہے تاکہ دونوں طرف کی چاندی یاسونا برابر کرنے کے بعد ثمن کی جانب میں کچھ بچے جو اس کے مقابل میں ہواگر ایسا نہ ہوتو سود اور حرام ہے اور اگر غیر جنس سے بیع ہو مثلاًاس میں سونا ہے اور ثمن روپے ہیں تو فقط تقابض بدلین شرط ہے ۔(درمختار، فتح القدیر)
مسئلہ۱۷: لچکا۔ گوٹا اگرچہ ریشم سے بنا جاتا ہے مگر مقصود اس میں ریشم نہیں ہوتا اور وزن سے ہی بکتا بھی ہے لہذا دونوں جانب وزن برابر ہونا ضروری ہے لیس۔ پیمک وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے ۔
مسئلہ۱۸: بعض کپڑوں میں چاندی کے بادلے بنے جاتے ہیں ۔ آنچل اور کنارے ہوتے ہیں جیسے بنارسی عمامہ اوربعض میں درمیان میں پھول ہوتے ہیں جیسے گلبدن اس میں زری کے کام کو تابع قرار دیں گے کیونکہ شرع مطہر نے اس کے استعمال کو جائز کیا ہے اس کی بیع میں ثمن کی چاندی زیادہ ہونا شرط نہیں ۔
مسئلہ۱۹: جس چیز میں سونے چاندی کا ملمع ہو اس کے ثمن کا ملمع کی چاندی سے زیادہ ہونا شرط نہیں اور اسی مجلس میں اتنی چاندی پر قبضہ کرنا بھی شرط نہیں مثلاًبرتن پر چاندی کاملمع ہے اس کو ملمع کی چاندی سے کم قیمت پر بیع کیا یا اسی مجلس میں ثمن پر قبضہ نہ کیا جائز ہے ۔(ردالمحتار)
مسئلہ۲۰: ملمع میں بہت زیادہ چاندی ہے کہ آگ پر پگھلا کر اتنی نکال سکتے ہیں جو تولنے میں آئے یہ قابل اعتبار ہے ۔(ردالمحتار)
مسئلہ۲۱: چاندی کے برتن کو روپے یا اشرفی کے عوض میں بیع کیا تھوڑے سے دام مجلس میں دے دیئے باقی باقی ہیں اور عاقدین میں افتراق ہوگیا تو جتنے دام دیئے ہیں اس کے مقابل میں بیع صحیح ہے اور باقی باطل اور برتن میں بائع ومشتری دونوں شریک ہیں اورمشتری کو عیب شرکت کی وجہ سے یہ اختیار نہیں کہ وہ حصہ بھی پھیر دے کیونکہ یہ عیب مشتری کے فعل و اختیار سے ہے اس نے پورا دام اسی مجلس میں کیوں نہیں دیا اور اگر اس برتن میں کوئی حقدار پیدا ہوگیا اس نے ایک جزاپنا ثابت کردیا تو مشتری کو اختیار ہے کہ باقی کولے یا نہ لے کیونکہ اس صورت میں عیب شرکت اس کے فعل سے نہیں ۔(ہدایہ ، فتح القدیر) پھر اگر مستحق نے عقد کو جائز کردیا تو جائز ہوجائے گا اور اتنے ثمن کا وہ مستحق ہے بائع مشتری سے لے کر اس کودے بشرطیکہ بائع ومشتری اجازت مستحق سے پہلے جدا نہ ہوئے ہوں خود مستحق کے جدا ہونے سے عقد باطل نہیں ہوگا کہ وہ عاقد نہیں ہے ۔ (درمختار،ردالمحتار)
مسئلہ ۲۲: چاندی یا سونے کا ٹکڑا خریدا اور اس کے کسی جز میں دوسرا حقدار پیدا ہوگیا تو جو باقی ہے وہ مشتری کا ہے اور ثمن بھی اتنے ہی کا مشتری کے ذمہ ہے اورمشتری کو یہ حق حاصل نہیں کہ باقی کو بھی نہ لے کیونکہ اس کے ٹکڑے کرنے میں کسی کا کوئی نقصان نہیں یہ اس صورت میں ہے کہ قبضہ کے بعد حقدار کا حق ثابت ہوااور اگر قبضہ سے پہلے اس نے اپنا حق ثابت کردیا تو مشتری کو یہاں بھی اختیار ہوگا کہ لے یا نہ لے روپے اور اشرفی کا بھی یہی حکم ہے کہ مشتری کو اختیار نہیں ملتا ۔(ہدایہ ، درمختار) مگر زمانۂ سابق میں یہ رواج تھا کہ روپے اور اشرفی کے ٹکڑے کرنے میں کوئی نقصان نہ تھا اس زمانہ میں ہندوستان کے اندر اگرروپیہ کے ٹکڑے کردیئے جائیں تو ویسا ہی بیکار تصور کیا جائے گا جیسا برتن ٹکڑے کردینے سے لہذا یہاں روپیہ کاوہی حکم ہونا چاہیئے جو برتن کا ہے
مسئلہ ۲۳: دو(۲)روپے اورایک اشرفی کو ایک روپیہ دو(۲) اشرفیوں سے بیچنا درست ہے روپے کے مقابل میں اشرفیاں تصور کریں اور اشرفی کے مقابل روپیہ یوں ہی دو من گیہوں اور ایک من جو کوایک من گیہوں اور دو من جو کے بدلے میں بیچنا بھی جائز ہے اور اگر گیارہ روپے کو دس روپے اورایک اشرفی کے بدلے میں بیع کیا ہے دس روپے کے مقابل میں دس روپے ہیں اور ایک روپیہ کے مقابل اشرفی یہ دونوں دو(۲) جنس ہیں ان میں کمی بیشی درست ہے اور اگر ایک روپیہ اور ایک تھان کو ایک روپیہ اور ایک تھان کے بدلے میں بیچا اور روپیہ پر طرفین نے قبضہ نہ کیا تو بیع صحیح نہ رہی۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲۴: سونے کو سونے سے چاندی کو چاندی سے بیع کیا ان میں ایک کم ہے ایک زیادہ مگر جو کم ہے اس کے ساتھ کوئی ایسی چیز شامل کرلی جس کی کچھ قیمت ہو تو بیع جائز ہے پھر اگر اس کی قیمت اتنی ہے جو زائد کے برابر ہے تو کراہت بھی نہیں ورنہ کراہت ہے اور اگر اس کی قیمت ہی نہ ہو جیسے مٹی کا ڈھیلاتو بیع جائز ہی نہیں (ہدایہ) روپے سے چاندی خریدنا چاہتے ہوں اور چاندی سستی ہو اگر برابر لیتے ہیں نقصان ہوتا ہے زیادہ لیتے ہیں سود ہوتا ہے تو روپے کے ساتھ پیسے شامل کرلیں بیع جائز ہوجائے گی۔
مسئلہ ۲۵: سونار کے یہاں کی راکھ خریدی اگر چاندی کی راکھ ہے اور چاندی سے خریدی یا سونے کی ہے اور سونے سے خریدی تو ناجائز کیونکہ معلوم نہیں راکھ میں کتنا سونا یا چاندی ہے اوراگر عکس کیا یعنی چاندی کی راکھ کو سونے سے اور سونے کی چاندی سے خریدا تو دو صورتیں ہیں اگر اس میں سونا چاندی ظاہرہے تو جائز ہے ورنہ نا جائز اور جس صورت میں بیع جائز ہے مشتری کو دیکھنے کے بعد اختیار حاصل ہوگا(فتح القدیر)
مسئلہ ۲۶: ایک شخص کے دوسرے پر پندرہ روپے ہیں مدیون نے دائن کے ساتھ ایک اشرفی پندرہ روپے میں بیچی اور اشرفی دیدی اور اس کے ثمن و دین میں مقاصہ کرلیا یعنی ادلا بدلا کرلیا کہ یہ پندرہ ثمن کے ان پندرہ کے مقابل میں ہوگئے جو میرے ذمہ باقی تھے ایسا کرنا صحیح ہے اور اگر عقد ہی میں یہ کہا کہ اشرفی ان روپوں کے بدلے میں بیچتا ہوں جو میرے ذمہ تمہارے ہیں تو مقاصہ کی بھی ضرورت نہیں یہ اس صورت میں ہے کہ دین پہلے کا ہو اور اگر اشرفی بیچنے کے بعد کا دین ہو مثلًا پندرہ میں اشرفی بیچی پھر اسی مجلس میں اس سے پندرہ روپے کے کپڑے خریدے اور اشرفی اور دے دی اشرفی اور کپڑے کے ثمن میں مقاصہ کرلیا یہ بھی درست ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲۷: چاندی سونے میں میل ہو مگر سونا چاندی غالب ہے تو سونا چاندی ہی قرار پائیں کے جیسے روپیہ اور اشرفی کہ خالص چاندی سونا نہیں میں میل ضررور ہے مگر کم ہے اس وجہ سے اب بھی انھیں چاندی سونا ہی سمجھیں گے اور ان کی جنس سے بیع ہو تو وزن کے ساتھ برابر کرنا ضروری ہے اور قرض لینے میں بھی ان کے وزن کا اعتبار ہوگا۔ ان میں کھوٹ خود ملایا ہو جیسے روپے اشرفی میں ڈھلنے کے وقت کھوٹ ملاتے ہیں یا ملایا نہیں ہے بلکہ پیدائشی ہے کان سے جب نکالے گئے اسی وقت اس میں آمیزش تھی دونوں کا ایک حکم ہے۔ (ہدایہ۔ عالمگیری)
مسئلہ ۲۸: سونے چاندی میں اتنی آمیزش ہے کہ کھوٹ غالب ہے تو خالص کے حکم میں نہیں اور ان کا حکم یہ ہے کہ اگر خالص سونے چاندی سے انکی بیع کریں تو یہ چاندی اس سے زیادہ ہونی چاہئے جتنی چاندی اس کھوٹی چاندی میں ہے تاکہ چاندی کے مقابلہ میں چاندی ہو جائے اور زیادتی کھوٹ کے مقابل میں ہو اور تقابض شرط ہے کیونکہ دونوں طرف چاندی ہے اور اگر خالص چاندی ا س کے مقابل میں اتنی ہی ہے جتنی اس میں ہے یا اس سے بھی کم ہے یا معلوم نہیں کم ہے یا زیادہ تو بیع جائز نہیں کہ پہلی دو صورتوں میں کھلا ہوا سود ہے اور تیسری میں سود کا احتمال ہے۔(ہدایہ)
مسئلہ ۲۹: جس میں کھوٹ غالب ہے اس کی بیع اس کے جنس کے ساتھ ہو یعنی دونوں طرف اسی طرح کی کھوٹی چاندی ہو تو کمی بیشی بھی درست ہے کیونکہ دونوں جانب دو قسم کی چیزیں ہیں چاندی بھی ہے اور کانسہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر ایک کو خلاف جنس کے مقابل میں کریں مگر جدا ہونے سے پہلے دونوں کا قبضہ ہوجانا ضروری ہے اور اس میں کمی بیشی اگرچہ سود نہیں مگر اس قسم کے جہاں سکے چلتے ہوں ان میں مشائخ کرام کمی بیشی کا فتوی نہیں دیتے کیونکہ اس سے سود خوری کا دروازہ کھلتا ہے کہ ان میں کمی بیشی کی جب عادت پڑجائے گی تو وہاں بھی کمی بیشی کریں گے جہاں سود ہے۔(ہدایہ)
مسئلہ ۳۰: ایسے روپے جن میں کھوٹ غالب ہے ان میں بیع و قرض وزن کے اعتبار سے بھی درست اور گنتی کے لحاظ سے بھی اگر رواج وزن کا ہے تو وزن سے اور عدد کا ہے تو عدد سے اور دونوں کا ہے تو دونوں طرح کیونکہ یہ ان میں نہیں ہیں جن کا وزن منصوص ہے ۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۳۱: ایسے روپے جن میں کھوٹ غالب ہے جب تک ان کا چلن ہے ثمن ہیں متعین کرنے سے بھی متعین نہیں ہوتے مثلًا اشارہ کرکے کہااس روپیہ کی یہ چیز دے دو تو یہ ضرور ی نہیں کہ وہی روپیہ دے اس کی جگہ دوسرا بھی دے سکتا ہے اور اگر ان کا چلن جاتارہا تو ثمن نہیں بلکہ جس طرح اور چیزیں ہیں یہ بھی ایک متاع ہے اور اس وقت معین ہیں اگر اس کے عوض میں کوئی چیز خریدی ہے تو جس کی طرف اشارہ کیا ہے اسی کو دینا ضروری ہے اس کے بدلے میں دوسرا نہیں دے سکتا یہ اس وقت ہے جب بائع و مشتری دونوں کو معلوم ہے کہ اس کا چلن نہیں ہے اور ہر ایک یہ بھی جانتا ہو کہ دوسرے کو بھی اس کاحال معلوم ہے اور اگر دونوں کو یہ بات معلوم نہیں یا ایک کو معلوم نہیں یادونوں کو معلوم ہے مگر یہ نہیں معلوم کہ دوسرا بھی جانتا ہے تو بیع کا تعلق اس کھوٹے روپے سے نہیں جس کی طرف اشارہ ہے بلکہ اچھے روپے سے ہے اچھا روپیہ دینا ہوگا ۔اور گر اس کا چلن بالکل بند نہیں ہوا ہے بعض طبقہ میں چلتا ہے اور بعض میں نہیں اور ا ن سے کوئی چیز خریدی تو دو صورتیں ہیں بائع کو یہ بات معلوم ہے یا نہیں کہ کہیں چلتا ہے اور کہیں نہیں اگر معلوم ہے تو یہی روپیہ دینا ضرور نہیں اسی طرح کا دوسرا بھی دے سکتا ہے اور اگر معلوم نہیں تو کھرا روپیہ دینا پڑے گا ۔( درمختار،ردالمحتار)
مسئلہ۳۲: روپیہ میں چاندی اور کھوٹ دونوں برابر ہیں بعض باتوں میں ایسے روپے کا حکم اس کا ہے جس میں چاندی غالب ہے اور بعض باتوں میں اس کی طرح ہے جس میں کھوٹ غالب ہے بیع وقرض میں اس کا حکم اس کی طرح ہے جس میں چاندی غالب ہے کہ وہ وزنی ہیں اور بیع صرف میں اس کی طرح ہیں جس میں کھوٹ غالب ہے کہ اس کی بیع اگر اسی قسم کے روپے سے ہو یا خالص چاندی سے ہو تو وہ تمام باتیں لحاـظ کی جائیں گی جو مذکور ہوئیں مگر اس کی بیع اسی قسم کے روپے سے ہوتو اکثر فقہا کمی بیشی کو ناجائز کہتے ہیں اور مقتضائے احتیاط بھی یہی ہے ۔( درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ۳۳: ایسے روپے جن میں چاندی سے زیادہ میل ہے ان سے یا پیسوں سے کوئی چیز خریدی اور ابھی بائع کو دیئے نہیں کہ ان کا چلن بند ہوگیا لوگوں نے ان سے لین دین چھوڑ دیا امام اعظم فرماتے ہیں کہ بیع باطل ہوگئی مگر فتوی صاحبین کے قول پر ہے کہ ان روپوں یا پیسوں کی جو قیمت تھی وہ دی جائے ۔( درمختار)
مسئلہ۳۴: پیسوں یا روپیہ کا چلن بند نہیں ہوا مگرقیمت کم ہوگئی تو بیع بدستور باقی ہے اور بائع کو یہ اختیار نہیں کہ بیع کو فسخ کردے یونہی اگر قیمت زیادہ ہوگئی جب بھی بیع بدستور ہے اور مشتری کو فسخ کرنے کا اختیار نہیں اور یہی روپے دونوں صورتوں میں اداکیئے جائیں گے ۔(درمختار)
مسئلہ۳۵: پیسے چلتے ہوں تو ان سے خریدنا درست ہے اورمعین کرنے سے معین نہیں ہوتے مثلاًاشارہ کرکے کہا اس پیسہ کی یہ چیز دو تو وہی پیسہ دینا واجب نہیں دوسرا بھی دے سکتا ہے ہاں اگر دونوں یہ کہتے ہوں کہ ہمارا مقصود معین ہی تھا تو معین ہے ۔ اور ایک پیسہ سے دو معین پیسے خریدے تو عقد کا تعلق معین سے ہے اگرچہ وہ دونوں اس کی تصریح نہ کریں کہ ہمارا مقصود یہی تھا ۔(درمختار، ردالمحتار) اس صورت میں اگر کوئی بھی ہلاک ہوجائے بیع باطل ہوجائے گی اور اگر دونوں میں کوئی یہ چاہے کہ اس کے بدلے کا دوسرا پیسہ دیدے یہ نہیں کرسکتا وہی دینا ہوگا۔(عالمگیری)
مسئلہ۳۶: پیسوں کا چلن اٹھ گیا تو ان سے بیع درست نہیں جب تک معین نہ ہوں کہ اب یہ ثمن نہیں ہیں مبیع ہیں (درمختار)
مسئلہ۳۷: ایک روپے کے پیسے خریدے اور ابھی قبضہ نہیں کیا تھا کہ ان کا چلن جاتا رہا بیع باطل ہوگئی اور اگر آدھے روپے کے پیسوں پر قبضہ کیا تھا اور آدھے پر نہیں کہ چلن بند ہوگیا تو اس نصف کی بیع باطل ہوگئی ۔( فتح القدیر)
مسئلہ۳۸: پیسے قرض لئے تھے اور ابھی ادانہیں کئے تھے کہ ان کا چلن جاتا رہا اب قرض میں ان پیسوں کے دینے کا حکم دیا جائے تو دائن کا سخت نقصان ہوگا جتنا دیا تھا اس کا چہارم بھی نہیں وصول ہوسکتا لہذا چلن اٹھنے کے دن ان پیسوں کی جو قیمت تھی وہ اداکی جائے ۔( درمختار)
مسئلہ ۳۹: روپیہ دو(۲)روپے اٹھنی چونی کے پیسوں کی چیز خریدی اور یہ نہیں ظاہر کیا کہ یہ پیسے کتنے ہونگے بیع صحیح ہے کیونکہ یہ بات معلوم ہے کہ روپیہ کے اتنے پیسے ہیں ۔( ہدایہ )
مسئلہ۴۰: صراف کو روپیہ دیکر کہا کہ آدھے روپیہ کے پیسے دو اور آدھے کا اٹھنی سے کم چاندی کا سکہ دو یہ بیع ناجائز ہے آدھے کے پیسے خریدنے اس میں کچھ حرج نہ تھا مگر آدھے کا سکہ جو خریدااس میں کمی بیشی ہے اس کی وجہ سے پوری ہی بیع فاسد ہوگی اور اگر یوں کہتا کہ اس روپیہ کے اتنے پیسے اور اٹھنی سے کم والا سکہ دو تو کوئی حرج نہ تھا کیونکہ یہاں تفصیل نہیں ہے پیسوں اور سکہ سب کے مقابل میں روپیہ ہے ۔(درمختار، ہدایہ )
مسئلہ ۴۱: ہم نے کئی جگہ ضمنًا یہ بات ذکر کردی ہے کہ نوٹ بھی ثمن اصطلاحی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آج تمام لوگ اس سے چیزیں خریدتے بیچتے ہیں دیون ودیگر مطالبات میں بے تکلف دیتے لیتے ہیں یہاں تک کہ دس روپے کی چیز خریدتے ہیں اور نوٹ دے دیتے ہیں دس روپے قرض لیتے ہیں اور دس روپیہ کا نوٹ دے دیتے ہیں نہ لینے والا سمجھتا ہے کہ حق سے کم یا زیادہ ملا ہے نہ دینے والا جس طرح اٹھنی چونی دوآنی کی کوئی چیز خریدی اور پیسے دے دیئے یا چیزیں قرض لی تھیں اور پیسوں سے قرض ادا کیا اس میں کوئی تفاوت نہیں سمجھتا بعینہ اسی طرح نوٹ میں بھی فرق نہیں سمجھا جاتا حالانکہ یہ ایک کا غذ کا ٹکڑا ہے جس کی قیمت ہزار پانچ سو تو کیا پیسہ دو پیسہ بھی نہیں ہوسکتی صرف اصطلاح نے اسے اس رتبہ تک پہنچا یا کہ ہزاروں میں بکتا ہے اور آج اصطلاح ختم ہوجائے تو کوڑی کو بھی کون پوچھے ۔ اس بیان کے بعد یہ سمجھناچاہیئے کہ کھوٹے روپے اور پیسوں کا جو حکم ہے وہی ان کا ہے کہ ان سے چیز خریدسکتے ہیں اور معین کرنے سے بھی معین نہیں ہوں گے خود نوٹ کو نوٹ کے بدلے میں بیچنا بھی جائز ہے اور اگر دونوں معین کرلیں تو ایک نوٹ کے بدلے میں دو نوٹ بھی خریدسکتے ہیں جس طرح ایک پیسہ سے معین دو پیسوں کو خریدسکتے ہیں روپوں سے اس کو خریدا یا بیچا جائے تو جدا ہونے سے پہلے ایک پر قبضہ ہونا ضروری ہے جو رقم اس پرلکھی ہوتی ہے اس سے کم وبیش بر بھی نوٹ کا بیچنا جائز ہے دس کا نوٹ پانچ میں بارہ میں بیع کرنا درست ہے جس طرح ایک روپیہ کے ۶۴ کی جگہ سو ۱۰۰ پیسے یا ۵۰ پیسے بیچے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں بعض لوگ جو کمی بیشی ناجائز جانتے ہیں اسے چاندی تصور کرتے ہیں ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ یہ چاندی نہیں ہے بلکہ کاغذ ہے اور اگر چاندی ہوتی تو اس کی بیع میں وزن کااعتبار ضرور کرنا ہوتا دس روپے سے دس کا نوٹ لینا اس وقت درست ہوتا کہ ایک پلہ میں دس روپے رکھیں دوسرے میں نوٹ اور دونوں کا وزن برابر کریں یہ البتہ کہا جاسکتا ہے کہ بعض باتوں میں چاندی کے حکم میں ہے مثلاًدس روپے قرض لئے تھے یا کسی چیز کا ثمن تھا اور روپے کی جگہ نوٹ دے دیئے یہ درست ہے جس طرح پندرہ روپیہ کی جگہ ایک گنی دینادرست ہے مگر اس سے یہ نہیں ہوسکتا کہ گنی کو چاندی کہا جائے کہ پندرہ کی گنی کو پندرہ سے کم وبیش میں بیچنا ہی ناجائز ہو۔
مسئلہ۴۲: ہندوستان کے اکثر شہروں میں پہلے کوڑیوں کا رواج تھااور اب بھی بعض جگہ چل رہی ہیں یہ بھی ثمن اصطلاحی ہیں اور ان کا وہی حکم ہے جو پیسوں کا ہے۔
مسئلہ ۴۳: بیع تلجئہ یہ ہے کہ دو شخص اور لوگوں کے سامنے بظاہر کسی چیز کو بیچنا خریدنا چاہتے ہیں مگر ان کا ارادہ اس چیز کے بیچنے خریدنے کا نہیں ہے اس کی ضرورت یوں پیش آتی ہے کہ جانتا ہے فلاں شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ چیز میری ہے تو زبردستی چھین لے گا میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس میں یہ ضروری ہے کہ مشتری سے کہہ دے کہ میں بظاہر تم سے بیع کروں گااور حقیقۃً بیع نہیں ہوگی اور اس امر پر لوگوں کو گواہ بھی کرے محض دل میں یہ خیال کرکے بیع کی اور زبان سے اس کو ظاہر نہیں کیاہے یہ تلجئہ نہیں ۔ تلجئہ کا حکم ہزل کا ہے کہ صورت بیع کی ہے اور حقیقت میں بیع نہیں (در مختار۔ردالمختار) آج کل جس کو فرضی بیع کہا کرتے ہیں وہ اسی تلجۂ میں داخل ہوسکتی ہے جبکہ اس کے شرائط پائے جائیں ۔
مسئلہ ۴۴: تلجۂ کی تین صورتیں ہیں نفس عقد میں تلجۂ ہو یا مقدار ثمن میں یا جنس ثمن میں ۔ نفس عقد میں تلجۂ کی وہی صورت ہے جو مذکور ہوئی کہ بائع نے مشتری سے کچھ خاص لوگوں کے سامنے یہ کہہ دیا کہ میں لوگوں کے سامنے ظاہر کرو ں گا کہ اپنا مکان تمھارے ہاتھ بیچا اور تم قبول کرنا اور یہ بیع وشرأمحض دکھاوے میں ہوگا حقیقت میں نہیں ہوگا چنانچہ اسی طور پر بیع ہوئی ۔ ثمن کی مقدار میں تلجۂ کی صورت یہ ہے کہ آپس میں ثمن ایک ہزارطے ہوا ہے مگر یہ طے ہو کہ ظاہر دوہزار کیا جائے گا اس صورت میں ثمن وہ ہوگا جو خفیہ طے ہوا ہے جیسا کہ آج کل اکثر شفعہ سے بچانے کے لئے دستاویز میں بڑھا کر ثمن لکھتے ہیں تاکہ اولاً تو ثمن کی کثرت دیکھ کر شفعہ ہی نہ کرے گا اور کرے بھی تو وہ رقم دے گا جو ہم نے دستاویز میں لکھائی ہے( یہ حرام اور فریب اور حق تلفی ہے) تیسری صورت کہ خفیہ روپے ثمن قرار پائے اور ظاہر میں اشرفیوں کو ثمن قرار دیا ( عالمگیری)
مسئلہ۴۵: بیع تلجۂ کا یہ حکم ہے کہ یہ بیع موقوف ہے جائز کردے تو جائز ہوگی رد کرے تو باطل ہوگی (عالمگیری) یعنی جبکہ نفس عقد میں تلجۂ ہو۔
مسئلہ ۴۶: دو شخصوں نے آپس میں اس بات پر اتفاق کیا کہ لوگوں کے سامنے ہم فلاں چیز کی بیع کا اقرار کردیں ایک کہے فلاں تاریخ کو میں نے یہ چیز اس کے ہاتھ اتنے میں بیچی ہے دوسرا اقرار کرے میں نے خریدی ہے حالانکہ حقیقت میں ان دونوں کے مابین بیع نہیں ہوئی ہے تو ایسے غلط اقرار سے بیع موقوف بھی ثابت نہیں ہوگی اگر دونوں اس کو جائز کرنا بھی چاہیں تو جائز نہیں ہوگی۔ (عا لمگیری)
مسئلہ ۴۷: دونوں میں سے ایک کہتا ہے تلجئہ تھا دوسرا کہتا ہے نہیں تھا تو جو تلجئہ کا مدعی ہے اس کے ذمہ گواہ ہیں گواہ نہ لائے تو منکر کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہے۔(عالمگیری)
مسئلہ ۴۸: دونوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ محض دکھانے کے لئے عقد کیا جائے گا اگر وقت عقد اسی طے شدہ بات پر عقد کی بنا کریں تو عقد درست نہیں کہ بیع میں تبادلہ پر رضامندی درکار ہے اور یہاں وہ مفقود ہے یعنی اگر عقد کو جائز نہ کریں بلکہ رد کردیں تو باطل ہو جائے گا اور اگر وقت عقداس طے شدہ پر بنا نہ ہو یعنی دونوں عقد کے بعد بلاتفاق کہتے ہوں کہ ہم نے اس طے شدہ کے موافق عقد نہیں کیا تھا تو یہ بیع صحیح ہے اور اگر اس بات پر دونوں متفق ہیں کہ وقت عقد ہمارے دلوں میں کچھ نہ تھا نہ یہ کہ طے شدہ بات پر عقد ہے نہ یہ کہ اس پر نہیں ہے یا دونوں آپس میں اختلاف کرتے ہیں ایک کہتا ہے کہ طے شدہ بات پر عقد کیا تھا دوسرا کہتا ہے اس کے موافق میں نے عقد نہیں کیا تھا تو ان دونوں صورتوں میں بیع صحیح ہے یوں ہی اگر ثمن کی مقدار باہم ایک ہزار طے پائی تھی اور علانیہ دو ہزار ثمن قرار پایا اس میں بھی وہی صورتیں ہیں اگر دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ ثمن وہی طے شدہ ہے تو ثمن دو ہزار ہے اور اگر دونوں متفق ہیں کہ طے شدہ ثمن پر عقد نہیں ہوا ہے بلکہ دوہزار پر ہی ہوا ہے یا کہتے ہیں ہمارے خیال میں اس وقت کچھ نہ تھا کہ طے شدہ ثمن رہے گا یا نہیں یا دونوں میں باہم اختلاف ہے ان سب باتوں صورتوں میں بھی ثمن دوہزار ہے اور اگر جنس ثمن ایک چیز طے پائی اور عقد دوسری جنس پر ہوا تو ثمن وہ ہے جو وقت عقد ذکر ہوئی ۔(ردالمحتار)
مسئلہ۴۹: بیع الوفا اس کو بیع الامانتہ اور بیع الاطاعتہ اور بیع المعاملہ بھی کہتے ہیں اس کی صورت یہ ہے اس طور پر بیع کی جائے کہ بائع جب ثمن مشتری کو واپس دے گا تو مشتری مبیع کو واپس کردے گا یا یوں کہ مدیون نے دائن کے ہاتھ دین کے عوض میں کوئی چیز بیع کردی اوریہ طے ہوگیا کہ جب میں دین ادا کردوں گا تو اپنی چیز لے لو ں گا یا یوں کہ میں نے یہ چیز تمھارے ہاتھ اتنے میں بیع کردی اس طور پر کہ جب ثمن لاؤں گا تو تم میرے ہاتھ بیع کردینا۔آج کل جو بیع الوفا لوگوں میں جاری ہے اس میں مدت بھی ہوتی ہے کہ اگر اس مدت کے اندر یہ رقم میں نے ادا کردی تو چیز میری ورنہ تمھاری ۔
مسئلہ۵۰: بیع الوفا حقیقت میں رہن ہے لوگوں نے رہن کے منافع کھانے کی یہ ترکیب نکالی ہے کہ بیع کی صورت میں رہن رکھتے ہیں تاکہ مرتہن اس کے منافع سے مستفید ہو۔لہذا رہن کے تمام احکام اس میں جاری ہوں گے اور جو کچھ منافع حاصل ہوں گے سب واپس کرنے ہوں گے اور جو کچھ منافع اپنے صرف میں لاچکا ہے یا ہلاک کرچکا ہے سب کا تاوان دینا ہوگا اور اگر مبیع ہلاک ہوگئی تو دین کا روپیہ بھی ساقط ہو جائے گابشرطیکہ وہ دین کی رقم کے برابر ہواور اگر اس کے پڑوس میں کوئی مکان یا زمین فروخت ہوتو شفعہ بائع کا ہوگا کہ وہی مالک ہے مشتری کا نہیں کہ وہ مرتہن ہے ۔( ردالمحتار) بیع الوفا کا معاملہ نہایت پیچیدہ ہے فقہائے کرام کے اقوال اس کے متعلق بہت مختلف واقع ہوئے علامہ صاحب بحر نے دس قول ذکر کئے فقیر نے صرف اس قول کو ذکر کیا کہ یہ حقیقت میں رہن ہے کہ عاقدین کا مقصود اس کی تائید کرتا ہے اور اگر اس کو بیع بھی قرار دیاجائے جیسا کہ اس کا نام ظاہر کرتا ہے اور خود عاقدین بھی عموماًلفظ بیع ہی سے عقد کرتے ہیں تو یہ شرط کہ ثمن واپس کرنے پر مبیع کو واپس کرنا ہوگا طب بیہ شرط بائع کے لئے مفید ہے اور مقتضائے عقد کے خلاف ہے اور ایسی شرط بیع کو فاسد کرتی ہے جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے اس صورت میں بھی بائع ومشتری دونوں گنہگاربھی ہوں گے اور مبیع کے منافع مشتری کے لئے حلال نہ ہوں گے بلکہ جو منافع موجود ہوں انہیں واپس کرے اور جو خرچ کر ڈالے ہیں ان کا تاوان دے البتہ جو بغیر اس کے فعل کے ہلاک ہوگئے ہوں وہ ساقط لہذاایسی بیع سے اجتناب ہی کا حکم دیا جائے گا۔واللہ تعالی اعلم۔
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔