سوال :
زید ہند و کسانوں کو دھان ہونے کے قبل ایک روپیہ فی من دھان کے حساب سے رو پیہ دیتا ہے اور فصل پر یعنی دھان تیار ہونے پر ان سے دھان ایک روپیہ فی من کے حساب سے وصول کر تا ہے۔ اس شرط کے ساتھ کسانوں کورو پیہ دینا جائز ہے یا ناجائز ؟
جواب:
یہ صورت بیع سلم کی ہے اور اس کے پندرہ شرائط ہیں ۔
(۱)راس المال یعنی جو ثمن ہے اس کی جنس کا بیان کہ روپیہ ہے یا اشرفی یا نوٹ
(۲) اس کی نوع کا بیان اگر وہاں مختلف قسم کے سکے رائج ہوں ۔
(۳) اس کے وصف کا بیان کہ کھر ا ہے یا کھوٹا۔
(۴) راس المال کی مقدار کا بیان کہ کس قدر ہے۔
(۵) راس المال کا نقد ہونا۔
(6) اس مجلس عقد میں راس المال پر مسلم الیہ (یعنی بائع جورو پیہ لے گا) کا قابض ہو جانا۔
(۷) مسلم فیہ یعنی مبیع کی جنس کا بیان کہ گیہوں ہیں یا جو یا دھان۔
(۸) اس کی نوع کا بیان مثلاً یہ گیہوں یا دھان فلاں قسم کے ہیں ۔
(۹) اس کی صفت کا بیان کہ اعلی درجہ کے ہیں یا اوسط درجہ کے یا ادنی درجہ کے ۔
(۱۰) اس کی مقدار کا بیان کہ یہ وزن میں اس قدر ہوں گے۔
(11) اس بیع کے ادا کر نے کی کوئی معلوم میعاد مقر ر کرنا۔
(۱۳)وہ مسلم فیہ عقد سلم کے وقت سے ختم میعاد تک بازار میں برابر دستیاب ہوتا ہے کسی وقت میں ناپید نہ ہو۔
(۱۳) مسلم فیہ ایسی شی ہو کہ معین کر لینے پر معین ہو جائے رو پیہ اشرفی میں اسی لئے سلم جائز نہیں کہ معین کرنے سے معین نہیں ہوتے تو رو پیہ اشرفی مسلم فیہ نہیں ہو سکتے ہیں۔
(۱۴) اگر مسلم فیہ ایسی چیز ہو جس کی مزدوری و بار برداری دینی پڑے تو وہ جگہ معین کر دی جائے جہاں ان کو ادا کرے۔
(۱۵) رب السلم یعنی رو پیہ دینے والے اور مسلم الیہ یعنی روپیہ لینے والے اگر قطعی طور پر سلم نہ کر میں بلکہ یہ شر ط کر دیں کہ اگر منظور نہ ہوا تو سلم باقی نہ ر ہے کی یہ خیار شرط ہے لہذا عقد سلم میں کوئی ایسی خیار شرط کا حق حاصل نہیں ہے یعنی یہ عقد خیار شرط کو قبول ہی نہیں کرتا۔
الحاصل: اگر بیع سلم میں یہ پند رہ شرائط پائی جائیں تو پھر وہ بلاشبہ جائز ہے ۔ اس کو سود کہنا غلطی ہے ۔لہذا ان شرائط میں سے اگر کوئی شرط رہ گئی تو ضرور سود و حرام ہے ۔ بازار کے نرخ کے حساب سے انہیں کچھ تعلق نہیں ۔ اگر بازار میں دھان فی رو پیہ من بکتا ہے اور انہوں نے اس بیع سلم کے طریقہ پر فی رو پیہ دس من طے کیا تو انہیں فی رو پیہ دس من لینا جائز ہے ۔ یہ سود ہرگز نہیں ۔ ہاں اس ایک بات کا لحاظ ضروری ہے کہ یہ سارا معاملہ برضامندی فریقین ہو اور اگر جبرا لینا ہو تو حرام ہے کہ جبریہ لینا عقد سلم نہیں۔
(فتاوی اجملیہ، جلد3، صفحہ 263،شبیر برادرز، لاہور)