سوال :
عرض ہے کہ ایک شبہ کا ازالہ فرما دیں کرم ہوگا وہ یہ کہ بہار شریعت حصہ یاز دہم صفحہ 175 پر بیع سلم کے سلسلہ میں مر قوم ہے کہ مسلم فیہ وقت عقد سے ختم میعاد تک برابر دستیاب ہوتا رہے الخ اور صفحہ 177 پر ہے کہ نئے گیہوں میں سلم کیا اور ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ہیں، یہ ناجائز ہے ۔ یہی اردو عالمگیری صفحہ 11 میں لکھا ہے قانون شریعت میں بھی یہی تحریر ہے اور ہدایہ جلد دوم باب سلم میں جو حدیث شریف مروی ہے نیز صاحب ہدایہ کی تعلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ بیع سلم اس نئے دھان میں جائز نہ ہونا چاہیے جو ابھی موجود نہ ہوئے ہیں قدوری وغیرہ میں بیع سلم کے جواز سے متعلق جو شرائط مذکور ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اطراف میں ایک اگہن آنے سے ایک دو ماہ قبل نئے دھان پر روپیہ دیتے ہیں وہ جائز نہ ہو کیونکہ مسلم فیہ وقت عقد موجود نہیں ہے نہ بازار میں نہ گھر میں بلکہ کھیت میں پودا کی صورت میں ہے اور بہار شریعت نیز عالمگیری ، ہدایہ، قدوری وغیرہ کی عبارت سے ظاہر ہے کہ جائز نہ ہو اور آپ نے اپنی کتاب انوارالحدیث میں یہ عبارت تحریر فرمائی ہے مثلا زید نے فصل تیار ہونے سے پہلے بکر سے کہا کہ آپ سو روپے ہمیں دیجئے الخ۔ بخاری اور مسلم کی جن حدیثوں کو آپ نے پیش کیا ہے ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بیع سلم نئے دھان اور نئے گیہوں وغیرہ میں جو ابھی پیدا نہ ہوئے ہیں جن کی فصل تیار نہ ہوئی ہے جائز ہے لہذا رفع اشکال کی کیا صورت ہوگی تحریر فرمائیں۔
جواب:
بے شک بیع سلم کی صحت کے شرائط میں سے ہے کہ مسلم فیہ وقت عقد سے ختم میعاد تک برابر دستیاب ہوتی رہے اس لئے کہ پوری میعاد میں مسلم فیہ کے تسلیم پر بائع کا قادر ہونا ضروری ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ پیدا ہونے سے پہلے نئے گیہوں اور دھان میں بیع سلم ناجائز ہے مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ گیہوں یادھان جب تک کہ قابل انتفاع نہ ہوں ان کی بیع سلم جائز نہیں اور جب قابل انتفاع ہو گئے تو جائز ہے اگرچہ وہ ابھی کھیت سے نہ کاٹے گئے ہو اس لئے کہ بائع مسلم فیہ کے تسلیم پر قادر ہے حدیث شریف میں ہے کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لا تسلفوا فی الثمار حتی یبدو صلاحھا یعنی پھلوں کی درستگی ظاہر ہونے سے پہلے ان کی بیع سلم مت کرو ثابت ہوا کہ جب پھلوں کی درستگی ظاہر ہوجائے یعنی وہ قابل انتفاع ہو جائیں تو ان کی بیع سلم جائز ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس حالت میں ہلاک نادرہو لان النادر کا لمعدوماور اگر قابل انتفاع ہونے کے بعد بھی اکثر ہلاک ہو جاتا ہو جیسے کہ بعض نشیبی علاقوں میں دھان وغیرہ سیلاب سے اکثر ہلاک ہوجاتے ہیں تو اگر اس صورت میں بازاروں میں دھان نہ ملتے ہوں تو جب تک کھیت سے کاٹ کر محفوظ نہ کر لئے جائیں ان کی بیع سلم ناجائز ہے لہٰذا آپ کے اطراف میں اگر قابل انتفاع ہونے سے پہلے نئے دھان کی بیع سلم کرتے ہیں اور اس وقت نئے دھان بازاروں میں نہیں پائے جاتے تو اس طرح بیع سلم کرنا ناجائز ہے اس لیے کہ اس صورت میں بائع نئے دھان کے تسلیم کرنے پر قادر نہیں ہاں اگر نئے دھان کی قید نہ ہو بلکہ متعاقدین میں یہ طے ہو کہ بائع دھان دے گا خواہ نیا دے یا پرانا مشتری کو اعتراض نہ ہوگا تو اس صورت میں اگہن سے ایک دو ماہ پہلے دھان کی بیع سلم جائز ہے بشرطیکہ دھان اس علاقہ کے بازاروں میں اس وقت مل سکتا ہو اور انوار الحدیث میں جو لکھا ہے کہ زید نے غسل تیار ہونے سے پہلے الخ، تو اس سے مراد یہ ہے کہ قابل انتفاع ہونے کے بعد اور کٹنے سے پہلے الخ۔ اور بخاری و مسلم کی جو حدیث شریف کتاب میں لکھی ہے اگرچہ بظاہر اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ جو چیز ابھی پیدا نہ ہوئی ہو اس کی بیع سلم جائز ہے مگر دوسری حدیثوں میں پیدا ہونے سے پہلے بیع سلم کرنے کو صراحۃً منع کیا گیا ہے جیسا کہ وہ حدیث جو اوپر مذکور ہوئیں ۔
(فتاوی فیض الرسول،کتاب الربا،جلد2،صفحہ407-409،شبیر برادرز لاہور)