سوال:
ایک ہندو کا باغ برائے فروخت تھا،اس نے چار سور وپے مانگے ،ایک شخص نے تین سو ،دوسرے نےسوا تین سو،چوتھے نےساڑھےتین سو لگائے ۔تین پچاس میں بات طے ہوگئی ،اس نے بیعانہ دے دیا اور بقیہ رقم پندرہ دن میں دینا قرار پایا۔جس نے سوا تین سولگائے تھے اس نے بعد میں وہ باغ پونے چار سو میں خرید لیا۔اب اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے کہ انھوں نے اپنے ہاتھ سے ہندو کا فائدہ اور مسلمان کا نقصان کرایا؟
جواب:
بیان سائل سے معلوم ہوا کہ باغ سے مراد اس کی بہار نہیں بلکہ اس کے درخت کٹوانے کے لیے خریدے تھے۔جب ساڑھے تین سوروپے میں خرید لیے اور بیعانہ بھی دیدیا ،جس کے معنی یہی ہوئے ہیں کہ عقد بیع ہوچکا ،صرف قانونی طورپر کاغذ لکھناباقی رہ گیاہے تو یہ درخت خریدار کے ہوچکے کہ عقد صحیح ہوجانے کے بعد مبیع مشتری کی ملک ہوگئی،بائع کو دوسرے کے ہاتھ بیچنا حرام ہوتا ہے اور جس کو یہ بات معلوم ہواس کے لیے خریدنا بھی حرام ہے ۔جس نے جان بوجھ کر خریدا وہ اس کا مالک نہیں ہوا ور جو کچھ اس سے نفع اٹھائے گا وہ بھی حرام ہوگا۔
(فتاوی امجدیہ،کتاب البیوع،جلد3،صفحہ 192،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)