استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ احرام میں کبھی کبھار بھولے سے سر پر احرام کی چادر آ جاتی ہے اور کبھی دوسرے اپنی چادر درست کرتے ہیں تو کسی مُحرِم کے منہ پر لگ جاتی ہے تو اس صورت میں کیا مُحرِم پر کچھ لازم ہو گا یا نہیں ؟اسی طرح چہرے کا معاملہ ہے تو اس کا کیا حکم ہو گا؟
(السائل : محمد اشفاق قادری، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : سر اور چہرے کا چُھپانا مُحرّماتِ احرام میں سے ہے اس لئے جائز نہیں چنانچہ علّامہ رحمت اللہ سندھی متوفی 993ھ اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
(و تغطیۃ الرأس) أی کلّہ أو بعضہ لکنہ فی حق الرجل (165)
یعنی، محرّماتِ احرام میں سے پورے سر یا اس کے کچھ حصے کو ڈھانکنا ہے لیکن یہ حکم مرد کے لئے ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
جائز نیست مُحرِم را اگر مرد باشد پوشیدن تمام سر یا بعض آن
یعنی، جائز نہیں مرد مُحرِم کو پورے یا بعض سر کا ڈھکنا۔ اور لکھتے ہیں :
حرمت پوشیدن سر در حق مرد مُحرِم نیز وقتی باشد کہ بپوشد آن را بچیزے کہ پوشیدہ شود بآن سر را بطریق عادت چنانچہ جامہ و مانند آن باطین یا حناء کوفتہ (166)
یعنی، مُحرِم مرد کے لئے سر چُھپانے کی حُرمت اس صورت میں ہے جب کسی ایسی چیز سے سر چُھپائے جس سے عام طور پر عادتاً سر چُھپایا جاتا ہو جیسے کپڑا (رومال وغیرہ) یا گیلی مٹی، یا کوٹی ہوئی مہندی۔ اور چہرہ چُھپانا مرد و عورت دونوں کو ناجائز ہے چنانچہ علّامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ اور ملا علی قاری لکھتے ہیں :
(و الوجہ) أی للرجل و المرأۃ (167)
یعنی، محرّماتِ احرام میں سے ہے مرد اور عورت کا چہرہ کا چُھپانا۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :
جائز نیست مُحرِم را پوشیدن تمام روی یا بعض آن اگرچہ مُحرِم مرد باشد یازن (168)
یعنی، مُحرِم عورت ہو یا مرد اسے پورا چہرہ یا کچھ حصہ ڈھانکنا جائز نہیں ۔ اور ممنوعاتِ احرام کے ارتکاب پر جزاؤں کے لزوم میں سہو، نسیان اور عمد تینوں برابر ہوتے ہیں اور اس میں بھی کوئی فرق نہیں کہ ممنوع کا ارتکاب اپنے فعل سے ہو یا دوسرے کسی کے فعل سے ہو، بہر حال جزا لازم ہو جائے گی ، صرف دوسرے کے فعل سے ہونے کی صورت میں گناہ نہیں ہو گا۔ صورت مذکورہ میں مرد کا پورا سر ڈھک جائے یا چوتھائی اس پر صدقہ لازم ہو گا اسی طرح چہرہ کی ٹکلی پوری ڈھکے یا چوتھائی تو صدقہ ہے چوتھائی سے کم میں کچھ نہیں ، چنانچہ امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان الکرمانی لکھتے ہیں :
و لو غطّی ربع رأسہ ما عرف، و ان کان أقل من ذلک فعلیہ صدقۃ لخفۃ الجنایۃ (169)
یعنی، اگر چوتھائی سر یا اس سے زائد کو ایک کامل دن تک ڈھکے رکھا تو اس پر دم لازم ہے ، کیونکہ چوتھائی کُل کے قائم مقام ہے اور اگر اس سے کم ہو تو جنایت کے خفیف ہونے کی وجہ سے صدقہ لازم ہو گا۔ اور اگر چوتھائی سر یا چہرے کے ڈھکنے کی مدت چار پہر ہو جاتی تو دَم لازم آتا چنانچہ لکھتے ہیں :
و عندنا مقدرۃ، ما لم یکن یوماً أو لیلۃً لا یلزمہ دم، و إن کان أقل من ذلک لزمہ صدقۃ، و إنما قدرنا بیوم کامل أو لیلۃ، لأن کمال الترفۃ لا یحصل إلا بیوم کامل فتوجب کمال الدم، و إن کان أقل من یوم تجب صدقہ، نصف صاع من برّ کما فی صدقۃ الفطر (170)
یعنی، اور ہمارے نزدیک اس کا اندازہ مقرر ہے جب تک ایک دن یا ایک رات نہ ہو تو اس پر دم لازم نہ ہو گا اور اگر اس سے کم ہو تو اُسے صدقہ لازم ہو گا، کیونکہ کمال نفع ایک دن یا ایک رات کے بغیر حاصل نہیں ہوتا تو کامل دم لازم ہو گا او راگر (کامل) دن (چار پہر) سے کم ہو تو نصف صاع گندم صدقہ واجب ہے جیسا کہ صدقۂ فطر میں ۔ (یعنی، تقریباً دو کلو پیتالیس گرام گندم یا ا س کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہو گا) او رچہرے کا وہی حکم ہے جو سر کا حکم ہے یعنی چوتھائی چہرہ کُل چہرے کے قائم مقام ہے اور اس میں بھی دم کے وجوب کے لئے ایک دن یا ایک رات ڈھکا ہونا، ضروری ہے اور اس مقدار سے کم میں صدقہ واجب ہے ، چنانچہ امام کرمانی لکھتے ہیں :
و کذا الحکم فی الوجہ : عندنا لا یجوز تغطیتہ، و لو غطاہ تجب الفدیۃ کما فی الرأس (171)
یعنی، چہرے میں حکم اسی طرح ہے ہمارے نزدیک چہرے کو ڈھکنا جائز نہیں اور اگر چہرے کو ڈھک دیا تو فدیہ واجب ہے جیسا کہ سر کے ڈھکنے میں ۔ امام شمس الدین ابو بکر محمد سرخسی لکھتے ہیں ، ہماری دلیل اعرابی کی حدیث ہے جب کہ انہیں اونٹنی نے گرایا اور اس سے ان کا انتقال ہو گیا اور وہ حالتِ احرام میں تھے تو نبی ا نے ارشاد فرمایا :
’’لَا تُخَمِّرُوْا رَأْسَہُ وَ وَجْہَہُ‘‘ و فی ہذا تنصیص علی أن المحرم لا یغطی رأسہ ووجہہ (172)
یعنی، ’’اس کے سر اور چہرے کو (کفن سے ) نہ ڈھکو‘‘، یہ اس بات میں نصّ ہے کہ مُحرِم اپنے سر اورچہرے کو نہ ڈھکے ۔ اور لکھتے ہیں :
و رحّض رسول اللہ ﷺ لعثمان رضی اللہ عنہ حین اشتکت عینہ فی حال الإحرام أن یغطی وجہہ، فتخصیصہ حالۃ الضرورۃ بالرخصۃ دلیل علی أن المحرم منہی عن تغطیۃ الوجہ (173)
یعنی،رسول اللہ ا نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو چہرہ ڈھکنے کی اجازت دی جب کہ حالتِ احرام میں ان کی آنکھ میں تکلیف ہوئی، تو حالتِ ضرورت کے ساتھ رخصت کی تخصیص اس بات کی دلیل ہے کہ مُحرِم کو چہرے کا ڈھکنا ممنوع ہے ۔ اسی طرح ’’بہار شریعت میں بحوالہ عالمگیری‘‘ ہے ۔ (174) لہٰذا ثابت ہوا کہ دم کے لزوم کے لئے کم از کم چوتھائی چہرے کا ڈھکنا اور اس حالت پر چار پہر گزرنا ضروری ہے ۔ اور اگر چہرہ تو چوتھائی یا اس سے زیادہ ڈھکا مگر وقت چار پہر سے کم گزرا تو صدقہ لازم ہو گا۔ اور اگر چہرہ چوتھائی سے کم ڈھکا اور اس پر چار پہر گزر گئے تو بھی صدقہ لازم ہو گا۔ اور اگر چہرہ چوتھائی سے کم ڈھکا اور اس پر وقت کے چار پہر بھی نہ گزرے تو اس پر کچھ نہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ جب کسی نے چادر درست کی اور دوسرے کے چہرے یا سر پر لگ گئی تو غالب یہی ہے کہ کم از کم چوتھائی سر یا چہرہ پر لگ ہی جائے گی اور جب اتنا سر یا چہرہ کپڑے سے چُھپ گیا اگرچہ دوسرے کے فعل سے ہو یا اپنے فعل سے یا بھول کر ہو اگرچہ قلیل وقت کے لئے ہو صدقہ واجب ہو جائے گا۔ ہاں اگر چوتھائی سر یا منہ سے کم ہو تو کچھ لازم نہ ہو گا۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الإثنین،27 ذی القعدۃ1427ھ، 18دیسمبر 2006 م (297-F)
حوالہ جات
165۔ لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط،باب الإحرام، فصل فی محرّمات الإحرام، ص167
166۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اول ، فصل ششم در بیان محرمات احرام، ص87
167۔ لباب المناسک وشرحہالمسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب الإحرام، فصل فی محرمات الإحرام، ص167
168۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اول، فصل ششم دربیان محرمات احرام، ص87
169۔ المسالک فی المناسک، باب الجنایات، فصل فی تغطیۃ الرأس، 2/707
170۔ المسالک فی المناسک،باب الجنایات، فصل فی تغطیۃ الرأس، 2/ 708
171۔ المسالک فی المناسک، باب الجنایات، فصل فی تغطیۃ الرأس، 2/708
172۔ اس حدیث شریف کو امام مسلم نے اپنی ’’صحیح‘‘ کے کتاب الحج ، باب یفعل بالمحرم اذا مات، برقم : 2867/98۔(1206)میں اور امام نسائی نے اپنی ’’سنن‘‘ کے کتاب مناسک الحج، باب فی کم یکفّن المحرم اذا مات، برقم : 2854 میں روایت کیا ہے ۔
173۔ کتاب المبسوط، کتاب المناسک، 2/8
174۔ بہارِ شریعت، حج کا بیان، جرم اور اُن کے کفارے ،1/1169