بکریوں کی زکوۃ کے متعلق مسائل
صحیح بخاری شریف میں انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب انہیں بحرین بھیجا تو فرائض صدقہ جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے لکھ کر دیئے ان میں بکری کی نصاب کا بھی بیان ہے اور یہ کہ زکوۃ میں نہ بوڑھی بکری دی جائے نہ عیب والی نہ بکرا۔ ہاں اگر مصدق (صدقہ وصول کرنے والا) چاہے تو لے سکتا ہے اور زکوۃ کے خوف سے نہ متفرق کو جمع کریں نہ مجتمع کو متفرق کریں ۔
مسئلہ۱: چالیس (۴۰) سے کم بکریاں ہوں تو زکوۃ واجب نہیں اور چالیس (۴۰) ہوں تو ایک بکری اور یہی حکم ایک سو بیس (۱۲۰) تک ہے یعنی ان میں بھی وہی ایک بکری ہے اور ایک سو اکیس (۱۲۱) میں دو اور دو سو ایک (۲۰۱) میں تین (۳) اور چار سو (۴۰۰) میں چار (۴) پھر ہر سو میں ایک اور جو دو نصابوں کے درمیان میں ہے معاف ہے۔ (عامہ کتب، درمختار ج ۲ ص ۲۵)
مسئلہ۲: زکوۃ میں اختیار ہے کہ بکری دے یا بکرا جو کچھ ہو یہ ضرور ہے کہ سال بھر سے کم کا نہ ہو اگر کم کا ہو تو قیمت کے حساب سے دیا جا سکتا ہے۔ (درمختار ج ۲ ص ۲۵)
مسئلہ۳: بھیڑ دنبہ بکری میں داخل ہیں کہ ایک سے نصاب پوری نہ ہوتی ہو تو دوسری کو ملا کر پوری کریں اور زکوۃ میں بھی اس کو دے سکتے ہیں مگر سال سے کم کے نہ ہوں ۔ (درمختار ج ۲ ص ۲۵)
مسئلہ۴: جانوروں میں نسب ماں سے ہوتا ہے تو اگر ہرن اور بکری سے بچہ پیدا ہوا تو بکریوں میں شمار ہو گا اورنصاب میں اگر ایک کی کمی ہے تو اسے ملا کر پوری کریں گے بکرے اور ہرن سے ہے تو نہیں ۔ یونہی نیل گائے اور بیل سے ہے تو گائے نہیں اور نیل گائے نر اور گائے سے ہے تو گائے ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۷۸)
مسئلہ۵: جن جانوروں کی زکوۃ واجب ہے وہ کم سے کم سال بھر کے ہوں اگر سب ایک سال سے کم کے بچے ہوں تو زکوۃ واجب نہیں اور اگر ایک بھی ان میں سال بھر کا ہو تو سب اسی کے تابع ہیں زکوۃ واجب ہو جائے گی یعنی مثلاً بکری کے چالیس (۴۰) بچے سال بھر سے کم کے خریدے تو وقت خریداری سے ایک سال پر زکوۃ واجب نہیں کہ اس وقت قابل نصاب نہ تھے بلکہ اس وقت سے سال لیا جائے گا کہ ان میں کا کوئی سال بھر کا ہو گیا۔ یونہی اگر اس کے پاس بقدر نصب بکریاں تھیں اور چھ مہینے گزرنے کے بعد ان کے چالیس (۴۰) بچے ہوئے پھر بکریاں جاتی رہیں بچے باقی رہ گئے تو اب سال تمام پر یہ بچے قابل نصاب نہیں لہذا زکوۃ واجب نہیں ۔ (جوہرہ)
مسئلہ۶: اگر اس کے پاس اونٹ، گائیں ، بکریاں سب ہیں مگر نصاب سے سب کم ہیں یا بعض تو نصاب پوری کرنے کے لئے خلط نہ کریں گے اور زکوۃ واجب نہ ہو گی۔ (درمختار ج ۲ ص ۴۶ وغیرہ)
مسئلہ۷: زکوۃ میں متوسط درجہ کا جانور لیا جائے گا چن کر عمدہ نہ لیں ہاں اس کے پاس سب اچھے ہی ہوں تو وہی لیں اور گابھن اوروہ جانور نہ لیں جسے کھانے کے لئے فربہ کیا ہو نہ وہ مادہ لیں جو اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے نہ بکرا لیا جائے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۷۷، ردالمحتار ج ۲ ص ۳۰)
مسئلہ۸: جس عمر کا جانور دیناواجب آیاوہ اس کے پاس نہیں اوراس سے بڑھ کر موجودہے تو وہ دے دے اور جوزیادتی ہو وہ واپس لے مگر صدقہ وصول کرنے والے پر لے لینا واجب نہیں اگرنہ لے اور اس جانور کو طلب کرے جو واجب آیا یا اس کی قیمت تو اسے اس کا اختیار ہے جس کا جانور واجب ہوا وہ نہیں ہے اور اس سے کم عمر کا ہے تووہی دیدے اور جو کمی پڑے اس کی قیمت دے یا واجب کی قیمت دیدے دونوں طرح کر سکتا ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۷۷)
مسئلہ۹: گھوڑے گدھے خچر اگرچہ چرائی پر ہوں ان کی زکوۃ نہیں ہاں اگر تجارت کے لئے ہوں تو ان کی قیمت لگا کر اس کا چالیسواں (۴۰) حصہ زکوۃ میں دیں ۔ (درمختارج ۲ ص ۲۶،۲۵ وغیرہ)
مسئلہ۱۰: دو نصابوں کے دمیان جو عفو ہے اس کی زکوۃ نہیں ہوتی یعنی بعد سال تمام اگر وہ عفو ہلاک ہو جائے تو زکوۃ میں کوئی کمی نہ ہو گی اور واجب ہونے کے بعد نصاب ہلاک ہو گئی تو اس کی زکوۃ بھی ساقط ہو گئی اور ہلاک پہلے عفو کی طرف پھیریں گے اس سے بچے تو اس کے متصل جو نصاب ہے اس کی طرف پھر بھی بچے تو اسکے بعد وعلی ہذا القیاس مثلاً اسی (۸۰) بکریاں تھیں چالیس (۴۰) مر گئیں تو اب بھی ایک بکری واجب رہی کہ چالیس کے بعد دوسرا چالیس عفو ہے اور چالیس اونٹ میں سے پندرہ مر گئے تو بنت مخاض واجب ہے کہ چالیس میں چار عفو ہیں وہ نکالے اس کے بعد چھتیس (۳۶) کی نصاب ہے وہ بھی کافی نہیں لہذا گیارہ نکالے پچیس رہے ان میں بنت مخاض کا حکم ہے بس یہی دیں گے۔ (درمختار، ردالمحتار ج۲ ص ۲۷ وغیرہ)
مسئلہ۱۱: دو بکریاں زکوۃ میں واجب ہوئیں اور ایک فربہ بکری دی جو قیمت میں دو کی برابر ہے زکوۃ ادا ہو گئی۔ (جوہرہ)
مسئلہ۱۲: سال تمام کے بعد مالک نصاب نے نصاب خود ہلاک کر دی زکوۃ ساقط نہ ہو گی مثلاً جانور کو چارا پانی نہ دیا گیا کہ مر گیا زکوۃ دینی ہو گی یونہی اگر اس کا کسی پر قرض تھا اور وہ مقروض مالدار ہے سال تمام کے بعد اس نے معاف کر دیا تو یہ ہلاک کرنا ہے لہذا زکوۃ دے اور اگر وہ نادار تھا اور اس نے معاف کردیا تو ساقط ہو گئی۔ (درمختار ج ۲ ص ۵۰،۲۸)
مسئلہ۱۳: مالک نصاب نے سال تمام کے بعد قرض دے دیا یا عاریت دی یا مال تجارت کو تجارت کے بدلے بیچا اور جس کو دیا تھا اس نے انکار کر دیا اور اس کے پاس ثبوت نہیں یا وہ مر گیا اور ترکہ نہ چھوڑا تو یہ ہلاک کرنا نہیں لہذا زکوۃ ساقط ہو گئی اور اگر سال تمام کے بعد مال تجارت کو غیر مال تجارت کے عوض بیچ ڈالا یعنی اس کے بدلے میں جوچیز لی اس سے تجارت مقصود نہیں مثلاً خدمت کے لئے غلام یاپہننے کے لئے کپڑے خریدے یا سائمہ کو سائمہ کے بدلے بیچا اور جس کے ہاتھ بیچا اس نے انکار کر دیا اور اس کے پا س گواہ نہیں یا وہ مر گیا اور ترکہ نہ چھوڑا تو یہ ہلاک نہیں بلکہ ہلاک کرنا ہے لہذا زکوۃ واجب ہے سال تمام کے بعد مال تجارت کو عورت کے مہر میں دے دیا یا عورت نے اپنی نصاب کے بدلے شوہر سے خلع لیا تو زکوۃ دینی ہو گی۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۲ ص ۲۹،۲۸)
مسئلہ۱۴: اس کے پاس روپے اشرفیاں تھیں جن پر سال گزرا مگر ابھی زکوۃ نہیں دی ان کے بدلے تجارت کے لئے کوئی چیز خریدی اور یہ چیز ہلاک ہو گئی تو زکوۃ ساقط ہو گئی مگر جب اتنی گراں خریدی کہ اتنے نقصان کے ساتھ لوگ نہ خریدتے ہوں تو اس کی اصل قیمت پر جو کچھ زیادہ دیا ہے اس کی زکوۃ ساقط نہ ہو گی کہ وہ ہلاک کرنا ہے اوراگر تجارت کے لئے نہ ہوں مثلاً خدمت کیلئے غلام خریدا اور وہ مر گیا تو اس روپے کی زکوۃ ساقط نہ ہو گی۔ (ردالمحتار ج ۲ ص ۲۸)
مسئلہ۱۵: بادشاہ اسلام نے اگرچہ ظالم یاباغی ہو سائمہ کی زکوۃ لے لی یا عشر وصول کر لیا اور انہیں محل پر صرف کیا تو اعادہ کی حاجت نہیں اور محل پر صرف نہ کیا تو اعادہ کیا جائے اور خراج لے لیا تو مطلقاً اعادہ کی حاجت نہیں ۔ (درمختار ج ۲ ص ۳۲)
مسئلہ۱۶: مصدق (زکوۃ وصول کرنے والا) کے سائمہ بیچ ڈالا تو مصدق کو اختیار ہے چاہے بقدر زکوۃ اس میں سے قیمت لے لے اور اس صورت میں بیع تمام ہو گئی اور چاہے جو جانور واجب ہو وہ لے لے اور اس وقت جو لیا اس کے حق میں بیع باطل ہو گی اور اگر مصدق وہاں موجود نہ ہو بلکہ اس وقت آیا کہ مجلس عقد سے وہ دونوں جدا ہو گئے تو اب جانور نہیں لے سکتا۔ جو جانور واجب ہو اس کی قیمت لے لے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۸۱)
مسئلہ۱۷: جس غلہ پر عشر واجب ہوا اسے بیچ ڈالا تو مصدق کو اختیار ہے چاہے بائع سے اس کی قیمت لے یا مشتری سے اتنا غلہ واپس لے بیع اس کے سامنے ہوئی یا دونوں کے جدا ہونے کے بعد مصدق آیا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۸۱)
مسئلہ۱۸: اسی (۸۰) بکریاں ہیں تو ایک بکری زکوۃ کی ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ چالیس چالیس کے دو گروہ کر کے دو زکوۃ میں لیں اور دو شخصوں کی چالیس چالیس بکریاں ہیں تو یہ نہیں کر سکتے کہ انہیں جمع کر کے ایک گروہ کر دیں کہ ایک ہی بکری زکوۃ میں دینی پڑے بلکہ ہر ایک سے ایک ایک لی جائے گی یونہی اگر ایک کی انتالیس ہیں اور ایک کی چالیس تو انتالیس والے سے کچھ نہ لیں گے غرض نہ مجتمع کو متفرق کریں نہ متفرق کو مجتمع۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۸۱)
مسئلہ۱۹: مویشی میں شرکت سے زکوۃ پرکچھ اثر نہیں پڑتا خواہ وہ کسی قسم کی ہو۔ اگر ہر ایک کا حصہ بقدر نصاب ہے تو دونوں پر پوری پوری زکوۃ واجب اور ایک کا حصہ بقدر نصاب ہے دوسرے کا نہیں تو اس پر واجب ہے اس پرنہیں مثلاً ایک کی چالیس بکریاں ہیں دوسرے کی تیس تو چالیس والے پر ایک بکری تیس والے پر کچھ نہیں اور کسی کی بقدر نصاب نہ ہوں گی مگر مجموعہ بقدر نصاب ہے تو کسی پر کچھ نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۸۱ وغیرہ)
مسئلہ۲۰: اسی (۸۰) بکریوں میں اکاسی (۸۱) شریک ہیں یوں کہ ایک شخص ہر بکری میں نصف کا مالک ہے اور ہر بکری کے دوسرے نصف کا ان میں ایک ایک شخص مالک ہے تو اس کے سب حصوں کامجموعہ چالیس (۴۰) کے برابر ہوا اور یہ سب صرف آدھی آدھی بکری کے حصہ دار ہوئے مگر زکوۃ کسی پر نہیں ۔ (درمختار ج ۲ ص ۴۷)
مسئلہ۲۱: شرکت کی مویشی میں زکوۃ دی گئی تو ہر ایک پر اس کے حصہ کی قدر ہے جو کچھ حصہ سے زائد گیا وہ شریک سے واپس لے مثلاً ایک کی اکتالیس (۴۱) بکریاں ہیں دوسرے کی بیاسی (۸۲) کل ایک سو تیئس (۱۲۳) ہوئیں اور دو زکوۃ میں لی گئیں ہر ایک سے ایک ایک مگرچونکہ ایک تہائی کا شریک ہے اور دوسرا دو کا لہذا ہر بکری میں دو تہائی والے کی دو تہائیاں گئیں جن کا مجموعہ ایک تہائی اور ایک بکری ہے اور ایک تہائی والے کی ہر بکری میں ایک تہائی گئی کہ مجموعہ دو تہائیاں ہوا اور اس پر واجب ایک بکری ہے لہذا دو تہائیاں والا ایک تہائی والے سے تہائی لینے کا مستحق ہے اور اگر کل اسی (۸۰) بکریاں ہیں ایک دو تہائی کا شریک ہے دوسرا ایک تہائی کا اور زکوۃ میں ایک بکری لی گئی تو تہائی کا حصہ دار اپنے شریک سے تہائی بکری کی قیمت لے کہ اس پر زکوۃ واجب نہیں ۔(ردالمحتار ج ۲ ص ۴۷)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔