شرعی سوالات

بنانا(DUPLICATE)۔رجسٹرڈ کمپنی کی نقل

رجسٹرڈ کمپنی کی نقل بنانا

(DUPLICATED)نقلی اشیاء کو سستا بیچنا۔

 

(1) ہمارے ملک کی رجسٹرڈ کمپنیز کے آئٹمز کی نقول بنانا یا بنوانا جائز ہے یا نہیں؟ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ہمارے ہاں مختلف برانڈز کمپنیاں جیسے لیور برادرز’PNG اور بہت سی کمپنیاں کاسمیٹکس کے آئٹمز بناتی ہیں جیسے فیئر اینڈ لولی کریم،  تبت کریم وغیرہ اور شیمپو جیسے ہیڈ اینڈ شولڈر، سن سلک ، پینٹین وغیرہ۔ میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ ان آئٹمز کی نقول بنوانا یا بنانا جائز ہے یا نہیں؟ جب کہ اس سے ان کمپنیز کی شہرت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

(2) کراچی میں کاسمیٹکس کی ہول سیل مارکیٹ میرٹ روڈ بولٹن مارکیٹ ہے۔ لا ہور سے ان آئٹمز کی نقول کی خرید و فروخت کی جاتی ہے لیکن یہاں یہ بات مد نظر ر ہے کہ ان آئٹمز کے ریٹ ( نرخ) اور کمپنیز کے آئٹمز کے ریٹ میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ مثلاً  فیئر اینڈ لولی ( جار ) کی قیمت =/60 روپے ہے لیکن نقلی فیئر اینڈ لولی کی قیمت ہول سیل میں =/12 روپے اور =/20 روپے بھی ہے ۔ ہول سیلر ان آئٹمز کو انتہائی کم منافع پر ریٹیلر کو فروخت کر دیتے ہیں اور انہیں یہ بتا دیتے ہیں کہ یہ آئٹمز نقلی ہیں اور خریدار اس بات کو بخوبی جانتا ہے ۔ اس تفصیل کی روشنی میں بتائیے کہ ہول سیلر کا ان آئٹمز کی خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں؟

(3) تیسرا سوال ریٹیلر کے حوالے سے ہے اور وہ یہ کہ ریٹیلر دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ (۱) دوکان دار ( ۲ )لاٹ والے ۔ ( جو بازاروں میں ہر مال ایک ہی دام میں بیچتے ہیں۔) ریٹیلر دوکان دار ان ہی نقلی آئٹم کو اوریجنل کہہ کر اسی قیمت میں فروخت کرتا ہے جو کہ اوریجنل قیمت کی ہوتی ہے۔ آیا ان کا اس طرح جھوٹ بول کر ان آیٹمز کو بیچنا جائز ہے یا نہیں؟ جب کہ لاٹ والا ہر = 12 والی نقلی کر یم =/15 روپے میں اور ہر =20 والی /25 روپے میں بیچتا ہے اور کسٹمر پر یہ بات واضح ہے کہ لاٹ میں اوریجنل آئٹمر کم ہی ملتے ہیں ۔ ان کا اس طرح مال بیچنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:

سوال مذکور میں سائل نے جو صورتحال بیان کی ہے اگر درست ہے تو شرعی نقطہ نظر سے اس طرح کا لین دین اور خرید و فروخت جائز نہیں ہے ۔ کیونکہ اسلامی تجارت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ دھوکہ دہی،  غلط بیانی اور نقصان سے پاک ہو۔ شریعت مطہرہ ہر اس تجارت کو ناجائز قرار دیتی ہے جس میں جھوٹ، فراڈ اور ضرر رسانی کا سہارا لیا جائے ۔ قرآن حکیم میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: (النساء:۲۹) اے ایمان والو ! تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقہ سے نہ کھاؤ۔ اس آیت میں’’ باطل‘‘ کی تفسیر کر تے ہوئے تمام مفسرین کرام نے اپنی تفاسیر میں لکھا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ طریقہ ہے جو شرعاً  ناجائز ہو ۔ جیسے جھوٹ، دھو کہ، بد دیانتی، ضرر رسانی وغیرہ۔ ان میں سے کوئی بھی طریقہ لین دین میں اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔

تجارت اور لین دین میں کوئی بھی ایسا طریقہ القیار کرنا جائز نہیں ہے جس میں خریدار کو دھوکہ دیا جائے یا نقصان پہنچایا جائے ۔ ملک کی رجسٹرڈ کمپنیر کے آیٹمز کی نقول بنانا یا بنوانا اوران کی خرید وفر وات کر نا در حقیقت اس کمپنیز کو نقصان پہنچاتا ہے اور ان کو Devalue کرنا ہے ۔ خصوصا نقلی آئٹمز کو اور یجنل کہہ کر فروخت کرنا بہت بڑی بددیانتی اور دھوکہ ہے۔ اس لیے سائل کی بیان کرد ہ صورتوں میں سے کوئی بھی صورت شرعاً جائز نہیں ہے۔مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنی تجارت کو ہرقسم کے جھوٹ ،دھو کہ اور بددیانتی سے پاک رکھیں اور اپنی توانائی کو دیانت داری کے ساتھ حلال رزق کے حصول میں صرف کریں ۔

(انوار الفتاوی، صفحہ438،فرید بک سٹال لاہور)

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button