الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ محرم عمرہ کرچکا پھر میقات سے باہر گیا اور واپسی پرحج یا عمرہ کے ارادے کے بغیر بلا احرام حرم میں ایا یعنی اس نے نہ عمرہ کا احرام باندھااور نہ ہی عمرہ کیا اس وجہ سے کہ اس کی طبیعت صحیح نہ تھی اس کے لیے چلنا مشکل تھا ،پھر اپنے وطن چلا گیا، اب اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟کیا دم لازم ہوگا اور عمرہ بھی کرنا ہوگا؟
(السائل : ڈاکٹر محمد ساحل شکروی، انڈیا)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجوا ب : ۔صورت مسؤلہ میں مذکور محرم چونکہ بغیر احرام کے میقات سے تجاوز کرکے مکہ مکرمہ ایا اور اس کے بعد بغیر عمرہ اداکئے اپنے وطن لوٹ گیا تو اس پرعمرہ کی قضاء کے ساتھ ساتھ دم بھی لازم ہوگا۔کیونکہ حرم کو جانے والا جب میقات سے گزرتا ہے تو اس پر حج یا عمرہ میں سے ایک نسک لازم اجاتی ہے ۔ چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی متوفی1161ھ اور علمائے ہند کی جماعت نے لکھاہے :
اذا دخل الافاقی مکۃ بغیر احرامٍ وہو لا یرید الحج والعمرۃ فعلیہ لدخول مکۃ اما حجۃ او عمرۃ۔(37)
یعنی،جب افاقی مکہ میں بغیر احرام کے اس حال میں داخل ہو کہ وہ حج اور عمرہ کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اس پر مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کی وجہ سے حج یا عمرہ لازم ہوگا۔ پس جب کوئی شخص بلا احرام مکہ مکرمہ اگیا اور اس نے حج یا عمرہ بھی ادا نہ کیا اور چلا گیا تو اس نے حج یا عمرہ کو چھوڑ دیا جس کی وجہ سے اس پر اس کی قضاء لازم ائی اور وہ احرام باندھے بغیر میقات سے گزر کر مکہ مکرمہ ایا تو اس نے میقات کے حق کو بھی چھوڑا جس کی وجہ سے اس پر ایک دم لازم ایا کیونکہ مکہ مکرمہ جانے والے کو میقات سے بلااحرام گزرناجائز نہیں اگر گزر جائے گا تواس پر حج یا عمرہ لازم ہوجائے گا۔ چنانچہ علامہ ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی597ھ لکھتے ہیں :
لما حرمت علیہ المجاوزۃ بغیر احرام لزمہ ما یلزمہ بالاحرام ، وذلک حجۃ او عمرۃ۔(38)
یعنی،جب کسی پر بغیر احرام کے میقات سے گزرنا حرام کیا گیا ہے تو اسے وہ لازم ہوگا جو اسے احرام باندھنے کے سبب سے لازم ہوتا ہے اور یہ حج یا عمرہ ہے ۔ ہاں اگر ایسا شخص کسی بھی میقات کی جانب حالت احرام کے بغیر لوٹ جاتا پھر وہیں عمرہ کا احرام باندھ لیتا تو اس پر لازم انے والا دم بالاجماع ساقط ہوجاتا۔اور اگر ایسا شخص حل یا حرم سے احرام باندھ کر لوٹتا ہے تو امام اعظم کے نزدیک میقات پر جاکر تلبیہ کہنے سے جبکہ صاحبین کے نزدیک صرف میقات کو لوٹ جانے سے لازم انے دم ساقط ہوجائے گا۔ چنانچہ علامہ ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی لکھتے ہیں :
فاذا فات یجب علیہ القضاء ویجب الدم لترک حق الوقت وھو التلبیۃ لما مر.(39)
یعنی،جب (میقات کاحق) فوت ہوگیا تواس پر قضا واجب ہے اور میقات کا حق کرنے کی وجہ سے دم(لازم ائے گا)اور (میقات کاحق)تلبیہ ہے جیساکہ پہلے گزرا۔ چنانچہ علامہ ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی لکھتے ہیں :
فان عاد الی المیقات واحرم ولبی سقط عنہ الدم خلافا لھما علی ما یاتی ، سواء اتی ذلک المیقات بعینہ او میقاتا اخر ،کیف ما کان فی ظاھر الروایۃ ، لانہ ترک میقاتہ الی مثلہ ، فیجوز لکن الافضل ان یحرم من میقاتہ ذلک لیکون مستدرک العین بالعین ، لا العین بالمثل ، فکان افضل۔(40)
پس اگر وہ میقات کی طرف لوٹ گیا اور احرام باندھ لیا اورتلبیہ کہہ لیاتو اس سے دم ساقط ہوگیا بر خلاف صاحبین کے اس پر کہ جو ائے گا (اور)برابر ہے کہ یہ( لوٹنے والا)اسی میقات کو ائے (جس سے تجاوز کیا ہے ) یا دوسری میقات کواور ظاہر الروایہ کے مطابق جیسے بھی ہو (یعنی اپنی میقات کو ائے یا دوسری کو) کیونکہ اس نے اپنی میقات کواس کی مثل کی طرف چھوڑا ہے لہٰذاجائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ وہ اسی میقات سے احرام باندھے تاکہ عین کا پانا عین کے ساتھ ہوجائے نہ کہ عین کا پانا مثل کے ساتھ ہوپس یہ افضل ہے ۔ یعنی ،پس جب یہ(حج یا عمرہ)فوت ہوجائے تو اس پر قضاء لازم اتی ہے اور میقات کے حق کو چھوڑنے کی وجہ سے دم لازم اتا ہے اور وہ(میقات کا حق میقات سے حج یا عمرہ کے احرام کی نیت سے )تلبیہ (کہنا)ہے جیسا کہ (پہلے )گزرا۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
یوم الثلاثاء،24،ذوالحجۃ1439ھ۔4سبتمبر2018م FU-46
حوالہ جات
(37)الفتاوی الھندیۃ،کتاب المناسک ،الباب العاشر : فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام ،1/253
(38)المسالک فی المناسک ، القسم الثانی : فی بیان نسک الحج من فرائضہ وسننہ وادابہ وغیر ذلک ، فصل فی احکام مجاوزۃ المیقات بغیر احرام ،1/310۔311
(39)المسالک فی المناسک ، القسم الثانی : فی بیان نسک الحج من فرائضہ وسننہ وادابہ وغیر ذلک ،فصل فی احکام مجاوزۃ المیقات بغیر احرام ،1/310۔311
(40)المسالک فی المناسک ، القسم الثانی : فی بیان نسک الحج من فرائضہ وسننہ وادابہ وغیر ذلک ،فصل فی احکام مجاوزۃ المیقات بغیر احرام ،1/310۔311