استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص حج تمتع کی نیت سے پاکستان سے ایا، ہوائی جہاز میں جب اجتماعی طور پر نیت کروائی گئی تو اس نے زبانی الفاظ تو ادا کر لئے لیکن اس کا ارادہ یہ تھا کہ وہ نیت بعد میں میقات سے کچھ پہلے کر لے گا، مگر میقات سے گزرتے وقت وہ عمرہ کے احرام کی نیت سے تلبیہ کہنا بھول گیا، جدہ ائیر پورٹ پر پہنچنے کے بعد اسے یاد ایا کہ اس نے تو نیت نہیں کی ہے ، پھر کسی دیندار مسائل حج جاننے والے کو بتایا تو اس نے مشورہ دیا کہ تو اب نیت کر لے تو اس نے وہاں سے نیت کی اور تلبیہ کہہ لی اور وہ مکہ مکرمہ ایا اور عمرہ ادا کیا، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس کا عمرہ درست ہوا کہ نہیں اور وہ حج کرے گا تو اس کا حج ’’تمتع‘‘ ہو گا یا نہیں ، اور اس پر حج تمتع کی قربانی لازم ہو گی یا نہیں ، اور میقات سے احرام نہ باندھنے کی وجہ سے اس پر کیا کفارہ لازم ایا، تفصیل سے جواب عنایت فرما کر ممنوع ہوں ۔
(السائل : حافظ محمد عامر از لبیک حج و عمرہ سروسز، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : میقات سے باہر رہنے والا شخص جب حرم یا مکہ کے ارادے سے میقات سے گزرے گا تو اس پر لازم ہے کہ وہ حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر گزرے چنانچہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
’’لا یتجاوز احد المیقات الا و ہو محرم‘‘ اخرجہ ابن ابی شیبۃ فی ’’مصنفہ‘‘ (141)، و الطبرانی فی ’’المعجم الکبیر‘‘ (142) من حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعا، و اخرجہ الطحاوی فی ’’شرح معانی الاثار‘‘ ( 143) موقوفا، و من طریق الشافعی البیہقی فی ’’السنن الکبری‘‘ (144) و ’’معرفۃ السنن و الاثار‘‘ (145)
یعنی، ’’کوئی میقات سے نہ گزرے مگر یہ کہ وہ احرام والا ہو‘‘۔ اسی حدیث شریف کی بنا پر فقہاء کرام (146) نے لکھا افاقی مکہ مکرمہ کسی بھی غرض سے جائے تو وہ میقات سے بغیر احرام کے نہیں گزرے گا، چنانچہ علامہ حسن بن منصور بن ابی القاسم اوزجندی حنفی متوفی 592ھ لکھتے ہیں :
الافاقی و من کان خارج المیقات، اذا قصد مکۃ لحجۃٍ او عمرۃٍ او لحاجۃٍ اخری، لا یجاوز ا لمیقات الا محرما (147)
یعنی، افاقی اور وہ جو میقات سے باہر ہے جب حج یا عمرہ یا کسی کام کے لئے مکہ مکرمہ کا قصد کرے تو میقات سے نہ گزرے مگر احرام والا۔ اور اگر بغیر احرام کے گزرا تو اس پر حج یا عمرہ لازم ہوجائے گا چنانچہ علامہ ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :
قال : و اذا جاوز … و دخل مکۃ بغیر احرامٍ فعلیہ حجۃ او عمرۃ (148)
یعنی، فرمایا، جب گزر گیا اور مکہ بغیر احرام کے داخل ہو گیا تو اس پر حج یا عمرہ لازم ہو گیا۔ اسی طرح ’’مختصر اختلاف العلماء (149)، ’’مختلف الروایہ‘‘ (150)، ’’المبسوط للسرخسی‘‘ (151) اور ’’بدائع الصنائع‘‘ (152) میں ہے ۔ اور جب وہ میقات سے گزرنے کے بعد حج یا عمرہ کا احرام باندھے تو اس پر میقات کو احرام کے لئے لوٹنا لازم ہو گا اور اگر نہ لوٹا اور احرام باندھ لیا تو دم لازم ائے گا، چنانچہ امام کمال الدین محمد بن عبد الواحد ابن ہمام حنفی متوفی 861ھ نے نقل کیا کہ
عن ابن عباسٍ رضی اللہ عنہما قال : اذا جاوز الوقت فلم یحرم حتی دخل مکۃ رجع الی الوقت فاحرم، و ان خشی ان رجع الی الوقت، فانہ یحرم و یہریق لذلک دمًا (153)
یعنی، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اپ نے فرمایا جب میقات سے گزر گیا پس احرام نہ باندھا یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہو گیا تو میقات کو لوٹے پس احرام باندھے اور اگر میقات کو لوٹنے میں خوف ہو تو وہ احرام باندھے اور اس کے لئے بطور دم خون بہائے ۔ اور ایسے شخص کے لئے علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :
فعلیہ العود الی میقاتٍ منہا و ان لم یکن میقاتہ لیحرم منہ، و الا فعلیہ دم (154)
یعنی، پس اس پر مواقیت میں سے کسی میقات کو لوٹنا لازم ہے تاکہ وہاں سے وہ احرام باندھے اگرچہ وہ میقات نہ ہو (کہ جس سے بغیر احرام کے گزر کر ایا تھا) ورنہ اس پر دم لازم ہو گا۔ اور مذکورہ شخص نے جب اس حال میں عمرہ ہی ادا کر لیا ہے تو اب اس پر دم متعین ہو گیا اور اگر وہ حج کرتا ہے تو اس کا حج ’’تمتع‘‘ ہو گا کیونکہ فقہائ احناف نے حج تمتع کی گیارہ شرطیں ذکر کی ہیں اور ان میں سے گیارھویں شرط حاجی کا افاقی ہونا ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبد اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
الحادی عشر : ان یکون من اہل الافاق و العبرۃ للتوطن (155)
یعنی، ان میں سے گیارھویں شرط حاجی کا اہل افاق سے ہونا ہے اور اعتبار وطن کا ہے ۔ اور اسے علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ نے ’’رد المحتار‘‘ (156) میں اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی 1367ھ نے ’’بہار شریعت‘‘ (157) میں نقل کیا ہے ۔ اور علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی لکھتے ہیں :
و لا یشترط لصحۃ التمتع احرام العمرۃ من المیقات و لا احرام الحج من الحرم، فلو احرم داخل المیقات، ولو من مکۃ یکون متمتعا و علیہ دم لترک المیقات، ملخصا (158)
یعنی،تمتع کے صحیح ہونے کے لئے عمرہ کا احرام میقات سے اور حج کا احرام حرم سے شرط نہیں ہے پس اگر میقات کے اندر سے (عمرہ کا) احرام باندھا اگرچہ مکہ سے تو متمتع ہو جائے گا اور میقات سے احرام ترک کرنے کی وجہ سے اس پر دم ہو گا۔ اور یہ شخص علی وجہ المسنون متمتع قرار پائے گا چنانچہ ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
یکون متمتعا ای : علی وجہ المسنون (159)
یعنی، مسنون طور پر متمتع ہو جائے گا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس شخص کا حج ’’تمتع‘‘ قرار پائے گا اور اس پر ایک دم حج تمتع کا جو کہ دم شکر ہے اور ایک دم میقات سے بغیر احرام کے گزرنے کا جو کہ دم جبر ہے لازم ہو گا۔ اور ساتھ توبہ بھی لازم ہو گی کہ اس نے بلا عذر شرعی میقات سے بغیر احرام کے گزرنے کے گناہ کا ارتکاب کیا ہے جو کہ گناہ ہے ۔
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
یوم الاثنین، 2 ذوالحجۃ 1431ھ، 8 نوفمبر 2010 م 680-F
حوالہ جات
141۔ المصنف لابن ابی شیبۃ، کتاب الحج، باب لا یجاوز احد الوقت الا محرم، برقم : 15701، 8/702، (4/2/51
142۔ المعجم الکبیر، برقم : 12236، 11/345، بلفظٍ : ’’لا تجوز الوقت الا باحرامٍ
143۔ شرح معانی الاثار، کتاب الحج، باب دخول الحرم الخ، برقم : 4172، 2/263، و کتاب الحجۃ، باب فی فتح رسول اللہ ﷺ مکۃ عنوۃ، برقم : 5473، 3/329، بلفظٍ : ’’لا یدخل احد مکۃ الا محرمًا‘‘
144۔ السنن الکبریٰ، کتاب الحج، باب دخول مکۃ بغیر ارادۃ حج و لا عمرۃ، برقم : 9839، 5/289
145۔ معرفۃ السنن و الاثار، کتاب المناسک، باب دخول مکۃ بغیر ارادۃ حج و عمرۃ، برقم : 3130، 4/169، بلفظٍ : ما یدخل مکۃ احد من اھلھا و لا من غیر اھلھا الا باحرامٍ‘‘
146۔ فقہاء کرام سے مراد فقہاء احناف ہیں ۔
147۔ فتاویٰ قاضیخان، کتاب الحج، 1/284، دار المعرفۃ
148۔ المسالک فی المناسک، فصل : فی احکام مجاوزۃ المیقات بغیر احرامٍ، 1/310
149۔ مختصر اختلاف العلماء، کتاب المناسک، الاحرام لدخول مکۃ، برقم : 553، 2/65، و فیہ : قال اصحابنا : لا یدخل احد ممن ھو خارج المیقات الا باحرام، فان دخلھا بغیر احرام : فعلیہ حجۃ او عمرۃ
150۔ مختلف الروایۃ، کتاب المناسک، باب قول الشافعی خلاف قول اصحابنا، برقم : 610، 2/763
151۔ المبسوط للسرخسی، کتاب المناسک، باب المواقیت، 2/4/159
152۔ بدائع الصنائع، کتاب الحج، فصل : اما بیان مکان الاحرام، 3/164
153۔ فتح القدیر، کتاب الحج، فصل و المواقیت التی الخ، 2/335
154۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، مطلب : فی المواقیت، تحت قولہ : حرم تاخیر الخ، 3/551،552
155۔ لباب المناسک ، باب التمتع، فصل فی شرائطہ، ص301
156۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب التمتع، تحت قولہ : و شرعا ان یفعل الخ، 3/640، 641
157۔ بہار شریعت، حج کا بیان، تمتع کا بیان، تمتع کے شرائط، 1/1159
158۔ لباب المناسک ، باب التمتع، فصل : لا یشترط لصحۃ الخ، ص182
159۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب التمتع، فصل : فی ما لا یشترط لصحۃ الخ، ص404