ARTICLES

بغیر احرام میقات سے گزرنے والے کا حج تمتع کرنا

استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص افاقی بلا احرام مکہ مکرمہ ا جاتا ہے ، مسجد عائشہ سے ا کر عمرہ کا احرام باندھتا ہے اور بغیر احرام کے میقات سے گزرنے کا دم بھی دیتا ہے ، اسی سال اگر وہ حج کر لے تو کیا وہ متمتع ہو جائے گا یا نہیں ؟ حالانکہ اس نے میقات سے عمرہ کا احرام نہیں باندھا، اس نے عمرہ مسجد عائشہ سے کیا ہے ؟

(السائل : سید عبد اللہ بن علامہ سید اعجاز نعیمی)

متعلقہ مضامین

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں اس شخص کا حج متمتع ہی ہو گا کیونکہ صحت تمتع کے لئے میقات سے احرام باندھنا شرط نہیں ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ کے حوالے سے ملا حسین حنفی نقل کرتے ہیں کہ

ولا یشترط لصحۃ التمتع : احرام العمرۃ من المیقات، و لا احرام الحج من الحرم، فلو احرم للعمرۃ داخل المیقات و لو من مکۃ، او للحج و لو من عرفۃ و لم یلم بینہما الماما صحیحا لرجوعہ الی وطنہ حلالا یکون متمتعا و علیہ دم لترک المیقات کما فی ’’لباب المناسک‘‘ و ’’شرحہ‘‘ (10)

یعنی، صحت تمتع کے لئے میقات سے عمرہ کا احرام باندھنا شرط نہیں ہے اور نہ حج کا احرام حرم سے باندھنا (شرط ہے )، پس اگر عمرہ کا احرام میقات کے اندر سے اگرچہ مکہ مکرمہ سے یا حج کا احرام اگرچہ عرفات سے باندھا اور ان دونوں کے مابین حلال ہو کر اپنے وطن کو لوٹ کر المام صحیح نہ کیا تو وہ متمتع ہو گا اور اس پر میقات سے احرام ترک کرنے کا دم لازم ہو گا جیسا کہ ’’لباب المناسک‘‘ اور اس کی ’’شرح‘‘ میں ہے ۔ اور علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی اور ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

(و لا یشترط لصحۃ التمتع احرام العمرۃ من المیقات) ای کما یوہمہ بعض الروایات (و لا احرام الحج من الحرم) ای لکون الاحرام من المیقات من جملۃ الواجبات، (فلو احرم داخل المیقات و لو من مکۃ او للحج من الحل) ای و لو من عرفۃ (و لم یلم بینہما الماما صحیحا) ای رجوعہ الی وطنہ حلالا (یکون متمتعا) ای علی وجہ المسنون (11)

یعنی، صحت تمتع کے لئے میقات سے احرام باندھنا شرط نہیں ہے جیسا کہ بعض روایات سے اس کا وہم پیدا ہوا اور نہ حج کا احرام حرم سے باندھنا (صحت تمتع کے لئے شرط ہے ) یعنی اس لئے کہ احرام کا میقات سے ہونا من جملہ واجبات سے ہے ، پس اگر (متمتع نے ) عمرہ کا احرام میقات کے اندر سے اگرچہ مکہ مکرمہ سے یا حج کا احرام حل سے باندھا، اگرچہ عرفات سے اور ان دونوں (یعنی عمرہ اور حج) کے درمیان المام صحیح نہ کیا یعنی احرام سے فارغ ہو کر اپنے وطن کو نہ لوٹا تو وہ متمتع ہو گا یعنی علی وجہ المسنون (متمتع ہو گا)۔ اور اس پر میقات سے احرام نہ باندھنے کی وجہ سے دم لازم ائے گا کیونکہ ترک واجب کا مرتکب ہوا اس لئے کہ میقات سے احرام باندھنا واجب ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی اور ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

(و علیہ دم لترک المیقات) ای من الحرم او الحل فی الصورتین (12)

یعنی، اور اس پر میقات پر احرام کو ترک کرنے کی وجہ سے دونوں صورتوں میں دم لازم ہے ، یعنی (عمرہ میں ) حرم سے یا حل سے (احرام باندھنے کی وجہ سے )۔ اور اس پر حج تمتع کا دم شکر بھی لازم ہوگا۔

واللٰہ تعالی اعلم بالصواب

یوم السبت، 3 ذوالحجۃ 1435ھـ، 27 سبتمبر 2014 م 936-F

حوالہ جات

10۔ منسک الحج علی مذہب الامام الاعظم ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ، مسائل شتی، ص22

11۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب التمتع ، فصل : و لا یشترط لصحۃ التمتع الخ، ص404

12۔ لباب المناسک و شرحہ للقاری، باب التمتع، فصل : و لا یشترط لصحۃ التمتع الخ، ص404

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button