استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اِس مسئلہ میں کہ ایک شخص پاکستان سے عمرہ کرنے کے ارادہ سے مکہ مکرمہ آیا اُس نے وہیں سے عمرہ کا احرام باندھا تھا مکہ مکرمہ آ کر عمرہ ادا کیا پھر مدینہ منوّرہ چلا گیا وہاں سے واپس مکہ بغیر احرام کے آیا، یہاں اُس نے کوئی عمرہ بھی ادا نہ کیا اِس طرح وہ جدہ وہاں سے کراچی پاکستان چلا گیا، اِس صورت میں اُس پر کوئی دم وغیرہ لازم ہو گا یا نہیں ؟
(السائل : قدوائی ، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : آفاقی جب بھی مکہ مکرمہ یا حرم میں داخل ہونے کے ارادے سے میقات سے گزرے گا تو اُس پر واجب ہو گا کہ وہ حج یا عمرہ کا احرام باندھے ، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ بغیر احرام کے مکہ آ جاتا ہے تو اُس پر لازم ہے کہ وہ میقات کو لوٹے اور حج یا عمرہ کا احرام باندھے اور مکہ آ کر اُسے ادا کرے ، اگر وہ ایسا بھی نہیں کرتا تو وہ دو حال سے خالی نہیں ہو گا یا تو اُس نے حِل سے احرام باندھ کر عمرہ کیا ہو گا یا عمرہ ہی نہ کیا ہو گا اور وطن واپس لوٹ گیا جیسا کہ صورت مسؤلہ میں ہے تو اُس پر دم متعین ہو جائے گا اور دم حُدودِ حرم میں دینا ضروری ہے لہٰذا وہ خود آئے یا کسی کو اپنا وکیل بنا دے کہ وہ حرم کی حُدود میں اس کی طرف سے دم دے دے ۔چنانچہ ملا رحمت اللہ سندھی حنفی ’’لباب المناسک‘‘ (279) میں اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ اس کی شرح (280)میں لکھتے ہیں :
’’ومن دخل‘‘ أی من أہل الآفاق ’’مکۃ‘‘ أو الحرم ’’بغیر إحرام فعلیہ أحد النسکین‘‘ أی من الحج أو العمرۃ، و کذا علیہ دم المجاوزۃ أو العود ’’فإن عاد إلی میقات من عامہ فأحرم‘‘ بحج فرض ’’أی أداء‘‘ ، أو قضاء أو نذر أو عمرۃ نذر ’’أو قضاء‘‘ ،و کذا عمرۃ سنۃ و مستحبۃ ’’سقط بہ‘‘ أی بتلبیتہ للإحرام من الوقت ’’ما لزمہ بالدخول من النسک‘‘ أی الغیر المتعین، ’’و دم المجاوزۃ و إن لم ینو‘‘ أی بالإحرام ’’عما لزمہ‘‘ أی بالخصوص لأن المقصود تحصیل تعظیم البقعۃ، و ہو حاصل فی ضمن کل ما ذکر، و ہذا استحسان، و القیاس أن لا یسقط و لا یجوز إلا أن ینوی ما وجب علیہ للدخول، وہو قول زفر : کما لو تحوّلت السنّۃ، فإنہ لا یجزیہ إلا بالاتفاق عما لزمہ إلا بتعیین النیۃ، و لعل الفرق بین الصورتین عند الأئمۃ الثلاثۃأن السنۃ الأولٰی کا لمعیار لما التزمہ، فیندرج فی ضمن مطلق النیۃ و مقیدھا بخلاف السنۃ القابلۃ لأنھا لیست لما ذکرناہ قابلۃ.
یعنی، اہلِ آفاق میں سے جو مکہ یا حرم بغیر احرام کے داخل ہوا تو اُس پر دو نُسُک یعنی حج و عمرہ میں سے ایک لازم ہے ، اور اِسی طرح بغیر احرام کے میقات سے گزرنے کا دم یا میقات کو احرام کے لئے لوٹنا لازم ہے ، پس اگر وہ اُسی سال میقات کو لوٹا پھر وہاں سے حج فرض اداء ، یا قضاء یا نذر یا عمرہ نذر یا قضاء کا احرام باندھا، اِسی طرح عمرہ سنّت یا عمرہ مستحبہ کا احرام باندھا تو میقات سے احرام کی تلبیہ کہنے سے اس پر جو غیر متعین نُسُک(حج یا عمرہ) داخل ہونے کے سبب لازم ہوا تھا وہ ساقط ہو گیا اور بغیر احرام کے میقات سے گزرنے کا دم (بھی) ساقط ہو گیا اگرچہ اُس نے اسی احرام میں خصوصاً اُسی کی نیت نہ کی ہو جو اُسے لازم ہوا، کیونکہ مقصد تو (اِس) خطہ کی تعظیم کا حصول ہے اور وہ سب (یعنی حج و عمرہ ، اداء و قضاء ، نذر و سنّت) کے ضمن میں حاصل ہو جاتا ہے او ریہ استحسان ہے اور قیاس یہ ہے کہ ساقط نہ ہو اور اُس کی نیت کئے بغیر جائز نہ ہو جو حرم میں بغیر احرام کے داخل ہونے کے سبب واجب ہوا، اور یہ امام زفر کا قول ہے ، جیسا کہ سال بدل جائے پس اُس وقت اُس کے ذمہ جو (عبادت حج یا عمرہ) لازم ہوا تھا وہ نیت کو متعین کے بغیر بالاتفاق جائز نہ ہو گا۔ دونوں صورتوں (یعنی بلا احرام میقات سے گزرنے کے بعد اُسی سال واپس میقات سے احرام باندھنے اور دوسری صورت یہ کہ دوسرے سال میقات سے احرام باندھنے ) میں ائمہ ثلاثہ کے نزدیک فرق شاید یہ ہے کہ جس کا اُس شخص نے التزام کیا ہے پہلا سال اُس کے لئے مثل معیار کے ہے تو وہ مطلق اور مقیّد نیت (دونوں ) کے تحت داخل ہو گا بخلاف آئندہ سال کے کہ یہ سال اُسے قبول کرنے والا نہیں جسے ہم نے ذکر کیا۔ اور اگر وہ میقات کو نہ لوٹا بلکہ (بغیر احرام کے میقات سے )گزرنے کے بعد احرام باندھ لیا تو دم ساقط نہ ہو گا اور اگر حج یا عمرہ کے لئے اُسی سال احرام نہ باندھا تو اُسے جو لازم ہوا (یعنی حج یا عمرہ) وہ ساقط نہ ہو گا مگر یہ کہ خصوصاً اُسی کی نیت کرے جو اُسے بغیر احرام کے داخل ہونے کے سبب لازم ہوا۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
چوں آفاقی تجاوز کرد میقات را بغیر احرام و عود کر درہموں سال بسوی میقاتے از مواقیت متقدمہ و احرام بست از انجابہ نیتِ حج فرض اداء یا قضاء، یا بہ نیتِ حج نذر یا حج نفل یا بہ نیتِ عمرہ نذر یا عمرہ قضاء، یا عمرہ سنّت، یا عمرہ مستحب در جمیع این صُوَر ساقط گردد از وی آنچہ لازم شدہ بود بروے از ادائے احد النُسُکَین، و نیز ساقط گشت از وی دم مجاوزۃ ہر چند کہ نیت نکردہ است احرام را از آنچہ واجب شدہ بود بروے بسبب دخول بغیر احرام زیر انکہ مقصود تعظیم بقعہ ست، و آن حاصل می آید در ضمن جمیع صُوَر مذکورہ، و تقیید نمودیم بہموں سال بواسطہ آنکہ اگر عودنکرد درسال مجاوزۃ بلک در سال دیگر ساقط نگردد از وے نُسُک و نہ دم مگر آن گاہ کی تعین کندنیت احرام را ازانچہ لازم شدہ بود بروے بسبب دخول بغیر احرام، و تقیید کردیم بہ عود برائی آنکہ اگر عود نکرد بسوئی مواقیت آفاقیہ بلک احرام بست از حِل یا از حرم ساقط نگردد ازوے نہ نُسک و نہ دم(288)
یعنی، جب کوئی آفاقی بغیر احرام کے میقات سے گزر آیا پھر اُسی سال وہ مواقیت متقدمہ میں سے کسی میقات پر گیا اور وہاں اُس نے حج فرض اداء یا قضاء یا حج نفل یا حج نذر، یا عمرہ نذر یا عمرہ قضاء یا عمرہ سنّت، یا عمرہ مسحتب کی نیّت سے احرام باندھا تو اِن تمام صورتوں میں اُس کے ذمے دو عبادتوں میں سے ایک عبادت اور جو دم حرم میں بغیر احرام کے داخل ہونے کی وجہ سے واجب ہو گیا تھا وہ ساقط ہو گیا، چاہے اُس نے بوقت احرام اُس کی نیت نہ کی ہو۔ اِس لئے کہ اصل مقصد تو اس مبارک خطہ کی تعظیم ہے وہ اِن مذکورہ صورتوں کے ضمن میں حاصل ہو جاتی ہے ۔ اور ہم نے جو اُسی سال کی قید لگائی ہے وہ اِس لئے کہ جس سال گزرا تھا اُسی سال میقات پر واپس نہ جائے گا بلکہ دوسرے سال جائے گا تو وہ سزا ساقط نہ ہو گی یعنی دم بھی اور کسی ایک عبادت کی ادائیگی اُس کے ذمے باقی رہے گی، ہاں جب احرام میں اُن کی نیت کر لے گا تو ساقط ہو جائے گی اور میقات پر لوٹنے کی شرط اِس لئے لگائی ہے کہ میقات آفاقیہ پر لوٹ کر نہ جائے بلکہ حِل یا حرم سے ہی احرام باندھ لے تو اُس کے ذمے سے نہ عبادت ساقط ہو گی نہ دم اور صحیح یہ ہے کہ عبادت ساقط ہو جائے گی دم ساقط نہ ہو گا چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی کے پوتے مخدوم محمد ابراہیم ٹھٹھوی ’’حیاۃ القلوب‘‘ کی عبارت ’’ساقط نہ گردد از وے نہ نُسُک و نہ دم‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :
صواب آن ست کہ گفتہ شود ساقط نہ گردد از دے دم فقط زیر انکہ باحرام احد النّسکین اگرچہ بغیر عود بسوی میقات ساقط می شود آنچہ لازم شُدہ است بروی از احد النسکین اما حجۃ او عمرہ و باقی نماندہ است مگر مجردمحاوزہ بغیر عود مع احرام باحد النسکین و آن موجب اثم و دم است کما لا یخفی تدبر (281)
یعنی، صحیح یہ ہے کہ یہاں پر کہنا چاہئے تھا کہ اس کے ذمے سے دم ساقط نہ ہو گا کیونکہ بغیر میقات تک لوٹے ، اگر حج یا عمرہ کا احرام باندھ لے تو اس پر دو واجب شدہ عبادتوں میں سے ایک ساقط ہو جاتی ہے چاہے وہ حج ہو یا عمرہ اور اب سوائے نسکین (حج و عمرہ) میں سے کسی ایک کے لئے میقات پر نہ لوٹنے کے اور کوئی بات نہ رہی اور یہ گناہ باعثِ دَم ہے ۔ اور میقات پر لوٹنے کے لئے ضروری نہیں کہ اُسی میقات پر جائے جہاں سے آیا تھا احرام باندھنے کے لئے وہ کسی قریبی میقات بھی جاسکتا ہے مثلاً پاکستان سے گیا بغیر احرام مکہ میں داخل ہو گیا، اب مدینہ طیبہ یا طائف یا کسی اور میقات سے باہر جا کراحرام باندھ کر آئے اور بغیر احرام کے مکہ آنے کی صورت میں اس پر دَم لازم آیا تھا وہ تو کسی میقات پر جا کر احرام باندھ کر آنے سے ساقط ہو جائے گا مگر بلا احرام آنے سے جو گناہ لازم آیا اُس کے لئے سچی توبہ کرنی ہو گی۔ لہٰذا صورت مسؤلہ میں اُس شخص پر لازم ہے وہ مکہ کو حج یا عمرہ کے احرام کے ساتھ آئے ، اگر اسی سال آتا ہے تو تعیّن ضروری نہیں ، اُس سے حج یا عمرہ کا احرام اور دَم دونوں ساقط ہو جائیں گے اور اگر اس سال نہیں آتا تو سقوطِ نُسُک و دَم کے لئے تعیّنِ نیت ضروری ہو گا اور ہر صورت میں توبہ لازم ہو گی۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الثلاثاء، 28ذی القعدۃ1427ھ، 19دیسمبر 2006م (301-F)
حوالہ جات
279۔ لباب المناسک، باب المواقیت، فصل : فی مجاوزۃ المیقات بغیر إحرام، ص82
280۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب المواقیت، فصل فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام، مع قولہ : ومن دخل إلخ،ص123۔124
281۔ حاشیہ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، مقدمۃ الرسالہ، فصل دویم در بیان مواقیت احرام، زیر قول مصنف : نہ نسک ونہ دم، ص59