شرعی سوالات

بروکر معہود اجرت کاٹ سکتاہے

سوال:

 مبارکپور کے آڑھت دار جب ان کے وہاں کوئی باہر کے خریدار آتے ہیں تو ان کی موجودگی میں بنکروں سے ساڑھیاں خریدتے ہیں آڑھت داروں اور خریداروں کے درمیان ایک مقررہ کمیشن ملتا رہتا ہے اور آڑھت دار جس قیمت پر ساڑھیاں خریدتا ہے اسی حساب سے خریدار ساڑھیوں کی قیمت آڑھت داروں کومع کمیشن کے دیدیتا ہے مگر خریداروں سے قیمت پانے کے بعد بنکروں کو جب وہ قیمت دیتا ہے تو وہ پوری قیمت نہیں دیتا بلکہ دو روپیہ سے لے کر پانچ روپے دس روپے تک کم دیتا ہے جس کو وہ کٹوتی کہتا ہے بنکروں (ساڑیاں بیچنے والوں) کا کہنا ہے کہ اس طرح سے جو رقم کاٹی جاتی ہے وہ بالکل ناجائز و حرام ہے مگر آڑھت دار کہتا ہے کہ  یہ کٹوتی حرام نہیں ہے کیونکہ ہمارے یہاں جو شخص بھی ساڑی فروخت کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ ہم کٹوتی کاٹتے ہیں سوال یہ ہے کہ کہ کیا خریداروں سے اصل قیمت پانے کے بعد آڑھت داروں کا کٹوتی کاٹنا جائز ہے یا حرام؟

جواب:

آڑھت داروں کی قیمتوں میں سے ایک معینہ رقم کٹوتی کے نام پر جو لیتا ہے اگر اس علاقہ میں یہ بات مشہور و معروف ہو اور اور ہر ساڑی بیچنے والا اس بات سے واقف ہوں تو جائز ہیں ہے اور اگر یہ صورت نہ ہو تو جائز نہیں۔

                                                                                                                                                (فتاوی فیض الرسول،کتاب الربا،جلد2،صفحہ 417،شبیر برادرز لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button