بہار شریعت

بدلہ لینے کے متعلق مختلف مسائل

بدلہ لینے کے متعلق مختلف مسائل

مسئلہ ۱ : اگر کسی شخص کو عمداً زخمی کیا گیا۔ اس نے دو آدمیوں کو گواہ بنا کر یہ کہا کہ فلاں شخص نے مجھے زخمی نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد وہ مرگیا تو اس میں اگر قاضی اور عام لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ اسی شخص نے زخمی کیا ہے تو ان گواہوں کی شہادت مقبول نہیں ہے اور اگر کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس شخص نے زخمی کیا ہے تو یہ شہادت صحیح ہے اور اگر اولیائے مقتول گواہوں سے اسی شخص کے زخمی کرنے کا ثبوت فراہم کر دیں تو یہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ (عالمگیری ص ۸۷ ج ۶)

مسئلہ ۲ : اگر کسی زخمی نے یہ اقرار کیا کہ فلاں شخص نے مجھے زخمی کیا ہے پھر وہ مرگیا اور اولیاء نے گواہوں سے کسی دوسرے کو زخمی کرنے والا ثابت کیا تو یہ گواہی مقبول نہیں ہوگی۔ (عالمگیری ص ۸۷ ج ۶)

مسئلہ ۳ : اگر کسی زخمی نے یہ اقرار کیا کہ فلاں شخص نے مجھے زخمی کیا ہے پھر مرگیا پھر مقتول کے ایک لڑکے نے اس بات پر گواہ پیش کئے کہ مقتول کے دوسرے لڑکے نے اس کو خطائً زخمی کیا تھا تو یہ شہادت مقبول ہوگی۔ (عالمگیری ص۸۷ ج ۶)

مسئلہ ۴ : اگر کوئی سوار کسی راہ گیر سے پیچھے کی طرف آکر ٹکرا اور سوار مرگیا تو راہ گیر پر اس کا ضمان نہیں ہے او راہ گیر مرگیا تو سوار پر اس کا ضمان ہے کشتیوں کی ٹکر کی صورت میں بھی یہی حکم ہے (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۴ ج ۳، عالمگیری ص ۸۸ ج ۶)

مسئلہ ۵ : اگر دو جانور آپس میں ٹکرا گئے اور ایک مرگیا اور دونوں کے ساتھ ان کے سائق تھے تو دوسرے پر ضمان واجب ہے۔ (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۴ ج ۳)

مسئلہ ۶ : اگر دو ایسے سوار آپس میں ٹکرا گئے کہ ایک ٹھہرا ہوا تھا اور دوسرا چل رہا تھا اور اسی طرح دو آدمی آپس میں ٹکرا گئے کہ ایک چل رہا تھا اور دوسرا کھڑا ہوا تھا اور ٹھہرے ہوئے کو کچھ صدمہ پہنچا تو اس کا تاوان چلنے والے پر واجب ہوگا۔ (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۴ ج ۳، عالمگیری ص ۸۸ ج ۶)

مسئلہ ۷ : کوئی شخص راستے میں سورہا تھا کہ ایک راہ گیر نے اس کو کچل دیا اور دونوں کی ایک ایک انگلی ٹوٹ گئی تو چلنے والے پر تاوان ہے سونے والے پر کچھ نہیں ہے اور اگر ان میں سے کوئی مر جائے درآں حالیکہ ایک دوسرے کے وارث ہوں تو سونے والا چلنے والے کا ترکہ پائے مگر چلنے والا سونے والے کا ترکہ نہیں پائے گا۔ (قاضی خاں علی الہندیہ ص ۴۴۴ ج ۳)

مسئلہ ۸ : دو شخص کسی درخت کو کھینچ رہے تھے کہ وہ ان پر گر پڑا جس سے وہ دونوں مرگئے ہر ایک کے عاقلہ پر دوسرے کی نصف دیت ہے اور اگر ان میں سے کوئی ایک مرگیا تو دوسرے کے عاقلہ پر نصف دیت ہے (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۴ ج ۳، عالمگیری ص ۹۰ ج ۶)

مسئلہ ۹ : اگر کسی نے کسی کا ہاتھ پکڑا اور اس نے اپنا ہاتھ کھینچا اور ہاتھ کھینچنے والا گر کر مرگیا تو اگر پکڑنے والا نے مصافحہ کرنے کے لئے پکڑا تھا تو کوئی ضمان نہیں ہے اور اگر اس کے موڑنے اور ایذا دینے کے لئے پکڑا تھا تو پکڑنے والا اس کی دیت کا ضامن ہے اور اگر پکڑنے والے کا ہاتھ ٹوٹ گیا تو ہاتھ کھینچنے والا ضامن نہیں ہے (عالمگیری ص ۸۸ ج ۶)

مسئلہ ۱۰ : ایک شخص نے دوسرے کو پکڑا اور تیسرے شخص نے پکڑے ہوئے آدمی کو قتل کر دیا تو قاتل سے قصاص لیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کی سزا دی جائے گی (عالمگیری ص ۸۸ ج ۶)

مسئلہ ۱۱ : کسی نے دوسرے کو پکڑا اور تیسرے نے آکر پکڑے ہوئے کا مال چھین لیا تو چھیننے والا ضامن ہے پکڑنے والا ضامن نہیں ہے۔ (عالمگیری ص ۸۸ ج ۶)

مسئلہ ۱۲ : کوئی شخص کسی کے کپڑے پر بیٹھ گیا۔ کپڑے والے کو علم نہ تھا وہ کھڑا ہوگیا جس کی وجہ سے کپڑا پھٹ گیا تو بیٹھنے والا کپڑے کی نصف قیمت کا ضامن ہوگا۔ (عالمگیری ص ۸۸ ج ۶)

مسئلہ ۱۳ : اگر کسی نے اپنے گھر میں لوگوں کو دعوت دی اور ان لوگوں کے چلنے یا بیٹھنے سے فرش یا تکیہ پھٹ گیا تو یہ ضامن نہیں ہیں ۔ اور اگر کسی برتن کو ان میں سے کسی نے کچل دیا یا ایسے کپڑے کو جو بچھایا نہیں جاتا ہے کچل کر خراب کر دیا تو ضامن ہوں گے اور اگر ان کے ہاتھ سے گر کر کوئی برتن ٹوٹ گیا تو ضامن نہیں ہیں اور اگر ان مہمانوں میں سے کسی کی تلوار لٹکی ہوئی تھی اور اس سے فرش پھٹ گیا تو ضامن نہیں ہے (عالمگیری از محیط ص ۸۸ ج ۶)

مسئلہ ۱۴ : اگر صاحب خانہ نے مہمانوں کو بستر پر بیٹھنے کی اجازت دی اور وہ بیٹھ گئے بستر کے نیچے صاحب خانہ کا چھوٹا بچہ لیٹا ہوا تھا ان کے بیٹھنے سے وہ کچل کر مرگیا تو مہمان اس کی دیت کا ضامن ہے۔ اسی طرح اگر بستر کے نیچے شیشے وغیرہ کے برتن تھے، وہ ٹوٹ گئے تو مہمان کو تاوان دینا ہوگا۔ (عالمگیری از ذخیرہ ص ۸۸ ج ۶)

مسئلہ ۱۵ : اگر کسی نے کسی سوئے ہوئے آدمی کی فصد کھول دی جس سے اتنا خون بہا کہ سونے والا مرگیا تو فصد کھولنے والے پر قصاص واجب ہے۔ (عالمگیری از قنیہ ص ۸۸ ج ۶)

مسئلہ ۱۶ : اگر کسی نے یہ کہا کہ میں نے فلاں شخص کو قتل کیا ہے لیکن عمداً یا خطائً کچھ نہیں کہا تو اس کے اپنے مال سے دیت ادا کی جائے گی۔ (عالمگیری از منتقی و ذخیرہ ص ۸۸ ج ۶)

مسئلہ ۷ ۱: اگر کسی نے کسی کو ہاتھ یا پیر سے مارا اور وہ مرگیا تو یہ شبہ عمد کہلائے گا اور اگر تنبیہہ کے لئے کسی ایسی چیز سے مارا تھا جس سے مرنے کا اندیشہ نہیں تھا مگر مرگیا تو قتل خطا کہلائے گا اور اگر مارنے میں مبالغہ کیا تھا تو یہ بھی شبہ عمد کہلائے گا (عالمگیری از محیط ص ۸۸ ج ۶)

مسئلہ ۱۸ : اگر کسی نے کسی کو تلوار مارنے کا ارادہ کیا جس کو مارنا چاہتا تھا اس نے تلوار ہاتھ سے پکڑ لی۔ تلوار والے نے تلوار کھینچی جس سے پکڑنے والے کی انگلیاں کٹ گئیں ، تو اگر جوڑ سے کٹ گئی ہیں تو قصاص لیا جائے گا۔ اگر جوڑ کے علاوہ کسی جگہ سے کٹی ہیں تو دیت لازم ہوگی (عالمگیری از ذخیرہ ص ۸۹ ج ۶)

مسئلہ ۱۹ : اگر کسی کے دانت میں درد ہو اور وہ دانت معین کر کے ڈاکٹر سے کہے کہ اس دانت کو اکھیڑ دو اور ڈاکٹر دوسرا دانت اکھیڑ دے پھر دونوں میں اختلاف ہو جائے تو مریض کا قول حلف کے ساتھ معتبر ہوگا اور ڈاکٹر کے مال میں دیت لازم ہوگی (عالمگیری از قنیہ ص ۸۹ ج ۶)

مسئلہ ۲۰ : اگر دو آدمی کسی تیسرے کا دانت خطائً توڑ دیں تو دونوں کے مال سے دیت ادا کی جائے گی۔ (عالمگیری از قنیہ ص ۸۹ ج ۶)

مسئلہ ۲۱ : اگر کسی نے حسب معمول اپنے گھر میں آگ جلائی۔ اتفاقاً اس سے اس کا اور اس کے پڑوسی کا گھر جل گیا تو یہ ضامن نہیں ہوگا۔ (عالمگیری از فصول عمادیہ ص ۸۹ ج ۶)

مسئلہ ۲۲ : اگر کسی نے اپنے گھر کے تنور میں گنجائش سے زیادہ لکڑیاں جلائیں جس سے اس کا اور اس کے پڑوسی کا گھر جل گیا تو یہ ضامن ہوگا۔ (عالمگیری از محیط ص ۸۹ ج ۶)

مسئلہ ۲۳ : اگر کسی نے اپنے لڑکے کو اپنی زمین میں آگ جلانے کا حکم دیا، لڑکے نے آگ جلائی جس سے چنگاریاں اڑ کر پڑوسی کی زمین میں گئیں جن سے اس کا کوئی نقصان ہوگیا تو باپ ضامن ہوگا۔ (عالمگیری از قینہ ص ۸۹ ج ۶)

مسئلہ ۲۴ : اگر کسی سمجھ دار بچے نے کسی کی بکری پر کتا دوڑایا جس سے بکری بھاگ گئی اور غائب ہوگئی تو یہ بچہ ضامن نہیں ہوگا۔ (عالمگیری از قنیہ ص ۹۰ ج ۶)

مسئلہ ۲۵ : کسی نے اپنے جانور کو دیکھا کہ دوسرے کا غلہ کھا رہا تھا اور اس کو غلہ کھانے سے نہیں روکا تو نقصان کا ضامن ہوگا (عالمگیری ص ۹۰ ج ۶)

مسئلہ ۲۶ : کسی کا جانور دوسرے کے کھیت میں گھس کر نقصان کر رہا ہو تو اگر جانور کے مالک کے کھیت میں جانور کو نکالنے کے لئے گھسنے سے بھی نقصان ہوتا ہے مگر جانور کو نہ نکالا جائے تو زیادہ نقصان کا خطرہ ہے تو گھس کر جانور کو نکالنا واجب ہے اور اس کے کھیت میں گھسنے سے جو نقصان ہوگا اس کا ضامن بھی یہی ہوگا اور اگر جانور کسی دوسرے کا ہو تو اس کا نکالنا واجب نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نکال رہا تھا کہ جانور ہلاک ہوگیا تو جانور کی قیمت کا یہ ضامن نہیں ہوگا۔ (عالمگیری ص ۹۰ ج ۶)

مسئلہ ۲۷ : اگر کسی کے خصیتین پر کسی نے چوٹ ماری جس سے ایک یا دونوں خصیتین زخمی ہوگئے تو حکومت عدل ہے۔ (عالمگیری از قنیہ ص ۹۰ ج ۶)

مسئلہ ۲۸ : اگر کسی نے کسی کا مویشی خانہ غصب کر کے اس میں اپنے جانور باندھے پھر اس کے مالک نے جانوروں کو نکال دیا تو اگر کوئی جانور گم ہوگیا تو مویشی خانے کا مالک ضامن ہوگا (عالمگیری از جامع اصغر ص ۹۰ ج ۶)

مسئلہ ۲۹ : اگر کسی نے جانور کا ہاتھ یا پیر کاٹ کر اسے ہلاک کر دیا یا ذبح کر دیا تو مالک کو اختیار ہے کہ چاہے تو یہ ہلاک شدہ جانور ہلاک کرنے والے کو دے دے اور اس سے قیمت وصول کر لے یا اس جانور کو اپنے پاس رکھ لے اور ضمان وصول کرے (عالمگیری ص ۹۰ ج ۶)

عاقلہ کے متعلق مسائل

مسئلہ ۱ : عاقلہ وہ لوگ کہلاتے ہیں جو قتل خطاء یا شبہ عمد میں ایسے قاتل کی طرف سے دیت ادا کرتے ہیں جو ان کے متعلقین میں سے ہیں اور یہ دیت اصالتہً واجب ہوئی ہو اور اگر وہ دیت اصالتہً واجب نہ ہوئی ہو مثلاً قتل عمد میں قاتل نے اولیائے مقتول سے مال پر صلح کر لی ہو تو قاتل کے مال سے ادا کی جائے گی اور اگر باپ نے اپنے بیٹے کو عمداً قتل کر دیا ہو تو گو اصالتہً قصاص واجب ہونا چاہئے تھا مگر شبہ کی وجہ سے قصاص کے بجائے دیت واجب ہوگی جو باپ کے مال سے ادا کی جائے گی۔ مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں عاقلہ پر دیت واجب نہ ہوگی۔ (درمختار و شامی ص ۵۶۱ ج ۵، عالمگیری ص ۸۳ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۹۹ ج ۸، فتح القدیر ص ۴۰۲ ج ۸، تبیین الحقائق ص ۱۷۶ ج ۶، بدائع صنائع ص ۲۵۶ ج ۷، قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۸ ج ۳)

مسئلہ ۲ : حکومت کے مختلف محکموں کے ملازمین اور ایسی جماعتیں جن کو حکومت بیت المال سے سالانہ یا ماہانہ وظیفہ دیتی ہے یا ہم پیشہ جماعتیں ایک شہر یا ایک قصبہ یا ایک گائوں یا ایک محلے کے لوگ یا ایک بازار کے تاجر جن میں یہ معاہدہ یا رواج ہو کہ اگر ان کے کسی فرد پر کوئی افتاد پڑے تو سب مل کر اس کی اعانت و مدد کرتے ہیں تو وہی فریق اس قاتل کا عاقلہ ہوگا جس کا یہ فرد ہے اور اگر ان میں اس قسم کا رواج نہیں ہے تو قاتل کے آبائی رشتہ دار اس کے عاقلہ کہلائیں گے جن میں الاقرب فالاقرب کا اصول جاری ہوگا اور دیت کی ادائیگی میں قاتل بھی عاقلہ کے ساتھ شریک ہوگا لیکن اس زمانہ میں چونکہ اس قسم کا رواج نہیں ہے اور بیت المال کا نظام بھی نہیں ہے لہذا آج کل عاقلہ صرف قاتل کے آبائی رشتہ دار ہوں گے اور اگر کسی شخص کے آبائی رشتہ دار بھی نہ ہوں تو قاتل کے مال سے تین سال میں دیت ادا کی جائے گی (درمختار و شامی ص ۵۶۶ ج ۵، عالمگیری ص ۸۳ ج ۶، بحرالرائق ص ۴۰۰ ج ۸، فتح القدیر ص ۴۰۵ ج ۸، تبیین الحقائق ص ۱۷۸ ج ۶، بدائع صنائع ص ۵۵۶ ج ۷، قاضی خاں علی الہندیہ ص ۴۴۸ ج ۳)

فائدہ :۔ آج کل کارخانوں اور مختلف اداروں میں ملازمین اور مزدوروں کی یونینیں بنی ہوئی ہیں جن کے مقاصد میں بھی یہ شامل ہے کہ کسی ممبر پر کوئی افتاد پڑے تو یونین اس کی مدد کرتی ہے لہذا کسی یونین کے ممبر کے عاقلہ کے قائم مقام اسی یونین کو مانا جائے گا جس کا یہ ممبر ہے۔

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button