ذیل میں بخاری شریف کی ایک حدیث ”لا ومقلب القلوب“ کی تشریح پیش کی جا رہی ہے۔
باب کا نام:
بَابُ مُقَلِّبِ القُلُوبِ
حدیث مذکور کی باب کے عنوان کے ساتھ مطابقت:
اس باب میں امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے ”دلوں کو پھیر نے والی ذات“ کے متعلق بیان فرمایا ہے اور اس حدیث میں مذکور ہے کہ بہت مرتبہ رسول اللہ ﷺ اس طرح قسم کھاتے تھے ولوں کو پلٹنے والے کی قسم ۔
لغوی بحث:
- لفظ ”باب“ مضاف ہو سکتا ہے ” مُقَلبُ الْقُلُوبِ“ کی طرف۔ یعنی یہ وہ باب ہے جس میں دلوں کو پھیرنے والے کا ذکر ہے۔
- یہ بھی جائز ہے کہ یہ مبتداء مخذوف کی خبر ہو ۔ یعنی” اللہ تعالی دلوں کو پھیرنے والا ہے“ اور تقدیری عبارت یوں ہو گی :یہ وہ باب ہے جس میں ذکر کیا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو پھیرنے والا ہے۔
آیت :
وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ[1]
مذکورہ بالا آیت کی تفسیر:
اس آیت کی تفسیر میں علامہ غلام رسول سعیدی تبیان القرآن میں رقم طراز ہیں:
”یہ آیت بھی ان آیات میں سے ایک ہے جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ کفر اور ایمان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب کفار کے طلب کردہ معجزات پیش کر دیئے گئے اور کفار کو پتا چل گیا کہ یہ معجزات سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوی نبوت کے صدق پر دلالت کرتے ہیں ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور آنکھوں کو اس صحیح دلالت سے پھیر دیا ‘ تو وہ اپنے کفر پر قائم رہے اور ان معجزات کی دلالت سے فائدہ نہیں اٹھا سکے ۔
سوال:
اس جگہ یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہی ان کے دلوں اور آنکھوں کو سچائی ‘ ہدایت اور اسلام کی راہ سے پھیر دیا ‘ تو پھر ان کے ایمان نہ لانے میں ان کا کیا قصور ہے ؟
جواب:
(1) اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ پہلی بار جب ان کا فرمائشی معجزہ دکھایا گیا اور چاند کو شق کر دیا گیا اور وہ پھر بھی ایمان نہیں لائے تو دوسری بار اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ جب معجزہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق پر دلالت کرتا ‘ تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں اور آنکھوں کو پھیر دیتا اور وہ اپنے کفر پر برقرار رہتے۔
(2) دوسرا جواب یہ ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں اور آنکھوں کو دوزخ کے شعلوں اور انگاروں کی طرف پھیر دے گا ‘ تاکہ انکو عذاب ہو ‘ جس طرح دنیا میں یہ پہلی بار ایمان نہیں لائے تھے۔“[2]
حدیث کی تخریج:
حدیث کی سند:
حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ ابْنِ المُبَارَكِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ(ابن عمر)
حدیث کا عربی متن:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ (ابن عمر)، قَالَ: أَكْثَرُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْلِفُ: لاَ وَمُقَلِّبِ القُلُوبِ
ترجمہ:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قسم اس طرح کھاتے:
”قسم اس کی جو دلوں کا پھیر دینے والا ہے۔“
متن کے الفاظ میں اختلاف:
صحیح بخاری:
- كَانَتْ يَمِينُ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: لا ومُقَلِّبِ القُلُوبِ.[3]
- كَثِيرًا ممَّا كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَحْلِفُ: لا ومُقَلِّبِ القُلُوبِ.[4]
مجمع الزوائد:
- أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كان يُكثِرُ في دُعائِه أن يقول اللهمَّ مُقلِّبَ القلوبِ ثَبِّتْ قَلْبي على دِينِك[5]
تخریج:
کتاب کا نام الحدیث/ جلد، صفحہ حدیث کے الفاظ
- صحيح البخاري 6617 لا ومقلب القلوب
- صحيح البخاري 6628 لا ومقلب القلوب
- صحيح البخاري 7391 يحلف لا ومقلب القلوب
- جامع الترمذي 1540 لا ومقلب القلوب
- سنن أبي داود 3263 لا ومقلب القلوب
- سنن النسائى الصغرى 3793 لا ومصرف القلوب
- سنن النسائى الصغرى 3792 لا ومقلب القلوب
- سنن ابن ماجه 2092 لا ومصرف القلوب
- مسند احمد 2/25 لا ومقلب القلوب
- مسند احمد 2/68 لا ومقلب القلوب
- مسند احمد 2/127 لا ومقلب القلوب
- مؤطا امام مالک 2/480 لا ومقلب القلوب
- مسند الدارمی 2/187 لا ومقلب القلوب
- بلوغ المرام 1175 لا ومقلب القلوب
- سنن البیھقی 10/27 لا ومقلب القلوب
- مسند الطبرانی 13163 لا ومقلب القلوب
- مسند الطبرانی 13164 لا ومقلب القلوب
- مسند الطبرانی 13165 لا ومقلب القلوب
- مسند الطبرانی 13166 لا ومقلب القلوب
- حلیۃ لابی نعیم 8/ 172 لا ومقلب القلوب
- حلیۃ لابی نعیم 9/38 لا ومقلب القلوب
- تاریخ بغداد 4/ 325 لا ومقلب القلوب
حدیث کے راویوں پر بحث:
سعيد بن سليمان بن كنانہ:
اسم الراوي : سعيد بن سليمان بن كنانة
النوع رجل الكنية : أبو عثمان
اسم الشهرة : سعيد بن سليمان الضبي
النسب : الضبي، البغدادي، الواسطي
اللقب : سعدويه
النشاط : البزاز
الطبقة : 10
الإقامة : واسط، بغداد
بلد الوفاة : بغداد
الجرح والتعديل :
أحمد بن حنبل : كان صاحب تصحيف ما يثبت
ابن حجر العسقلاني : ثقة حافظ، مرة: تكلموا فيه بلا حجة، وقول الدارقطني يتكلمون فيه تليين مبهم لا يقبل
يحيى بن معين : أكيس من عمرو بن عون، وقال مرة: كان قبل أن يحدث أكيس
أبو حاتم الرازي : ثقة مأمون، ولعله أوثق من عفان
أحمد بن صالح الجيلي : ثقة
الدارقطني : يتكلمون فيه
محمد الواقدي : ثقة كثير الحديث
عبد الله بن المبارك بن واضح:
اسم الراوي : عبد الله بن المبارك بن واضح
النوع رجل الكنية : أبو عبد الرحمن
اسم الشهرة : عبد الله بن المبارك الحنظلي
النسب : الحنظلي، المروزي، التميمي
اللقب : ابن المبارك
الطبقة : 8
سنة الوفاة : 181
سنة الميلاد : 118
الجرح والتعديل :
أحمد بن حنبل :
من رواة العلم وأهل ذاك، ما أحد أقل سقطا منه، ورجل صاحب حديث حافظ، ومرة: لم يكن في زمان ابن المبارك أحد أطلب للعلم منه، رحل إلى اليمن، وإلى الشام، والبصرة، والكوفة، وكان من رواة العلم، وكان أهل ذلك، كتب عن الكبار والصغار: كتب عن عبد الرحمن بن مهدى، وأبي إس
ابن حجر العسقلاني : ثقة ثبت، فقيه عالم، جواد مجاهد، جمعت فيه خصال الخير
أبو زرعة الرازي : اجتمع فيه فقه وسخاء وشجاعة وغزو وأشياء
أبو يعلى الخليلي : الإمام المتفق عليه
أحمد بن صالح الجيلي : ثقة ثبت في الحديث رجل صالح وكان جامعا للعلم
أسود بن سالم العابد : إذا رأيت الرجل يغمز ابن المبارك فاتهمه علي الإسلام
إسماعيل بن عياش العنسي : ما على وجه الأرض مثله
ابن عبد البر الأندلسي : أجمع العلماء على قبوله، وجلالته، وإمامته
الأوزاعي : لو رأيت ابن المبارك لقرت عينيك
العباس بن مصعب المروزي : جمع الحديث والفقه والعربية وأيام الناس
الفضيل بن عياض : ما خلف بعده مثله
المزي : أحد الأئمة الأعلام وحفاظ الإسلام
شعبة بن الحجاج : ما قدم علينا من ناحيته مثله
مالك بن أنس : فقيه خراسان
موسى بن عقبہ بن ابو عياش:
اسم الراوي : موسى بن عقبة بن أبي عياش
النوع رجل الكنية : أبو محمد
اسم الشهرة : موسى بن عقبة القرشي
النسب : المدني، الأسدي، القرشي، المطرفي
اللقب : ابن أبي عياش
الطبقة : 5
سنة الوفاة : 141
الجرح والتعديل :
أحمد بن شعيب النسائي : ثقة
أحمد بن حنبل : ثقة، ومرة في رواية ابن إبراهيم: صالح الحديث، ومرة: عليكم بمغازي ابن عقبة فإنه ثقة
ابن حجر العسقلاني : ثقة فقيه إمام في المغازي، وقد اعتمده الأئمة كلهم
الذهبي : ثقة مفت
يحيى بن معين : وثقه مطلقا، ومرة: ثقة كانوا يقولون في روايته عن نافع فيها شيء
أبو بكر الإسماعيلي : كان يدلس
أبو حاتم الرازي : ثقة
أبو حاتم بن حبان البستي : ذكره في الثقات
أحمد بن صالح الجيلي : ثقة
إبراهيم بن طهمان : من الثقات
ابن عبد البر الأندلسي : ليس هو في ابن شهاب بحجة إذا خالفه غيره
خير الدين الزركلي : عالم بالسيرة النبوية، من ثقات رجال الحديث
علي بن المديني : ثقة ثبت
محمد بن سعد كاتب الواقدي : ثقة، قليل الحديث، ومرة: ثقة، ثبت، كثير الحديث
سالم بن عبد الله بن عمر بن الخطاب:
اسم الراوي : سالم بن عبد الله بن عمر بن الخطاب
النوع رجل الكنية : أبو عبيد الله، أبو عبد الله، أبو عمر
اسم الشهرة : سالم بن عبد الله العدوي
النسب : المدني، القرشي، العدوي
النشاط : الفقيه
الرتبة : ثقة ثبت
الطبقة : 3
الجرح والتعديل :
أحمد بن حنبل : ثبت
ابن حجر العسقلاني : أحد الفقهاء السبعة وكان ثبتا عابدا فاضلا
الذهبي : أحد فقهاء التابعين
أحمد بن صالح الجيلي : ثقة
جلال الدين السيوطي : أحد الأئمة الفقهاء السبعة بالمدينة
مالك بن أنس : لم يكن أحد في زمان سالم أشبه بمن مضى في الصالحين في الزهد والفضل والعيش منه
محمد الواقدي : ثقة كثير الحديث، عال من الرجال ورع
حدیث کی تشریح:
قلب:
قلب کا معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ مفردات القرآن میں علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته ۔ قال تعالیٰ : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [6]
ترجمہ: قلب الشئی کے معنی: کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ [7]
قلب کو قلب کہنے کی وجہ:
قلب کو قلب اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ بہ کثرت ایک حال سے دوسرے حال کی طرف پلٹتا رہتا ہے۔[8]
مقلب القلوب کا معنی اور دلوں کو پھیرنے کی توجیہ:
اس کا معنی یہ ہے کہ دلوں میں جو خیالات آتے ہیں ان کو پھیر نے والا ہے اور انسان جن کاموں کا عزم کرتا ہے ان کو توڑنے والا ہے، کیونکہ بندوں کے دل اللہ تعالی کی قدرت کے تحت ہیں ، وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو الٹتا پلٹتا رہتا ہے، اور یہ اللہ تعالی کی صفات فعلیہ سے ہے اور اس کا رجوع قدرت کی طرف ہوتا ہے۔[9]
عمدۃ القاری میں علامہ عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
مقلب القلوب کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی لوگوں کی اغراض کو پلٹ دیتا ہے اور ان کے ارادہ کے احوال کو پلٹ دیتا ہے، کیونکہ حقیقت میں دل کو نہیں پلٹا جا تا بلکہ دل میں آئے ہوئے ارادوں کو پلٹ دیا جاتا ہے۔ [10]
علامہ کرمانی نے کہا: اگر یہ کہا جائے کہ اس کو حقیقت پر محمول نہ کیا جائے گا کیونکہ اس کا معنی ہے "يَا جَاعِلَ الْقَلْبِ قَلْبًا؟ “ علامہ عینی رحمہ اللہ تعالیٰ نے کہا : ” لِأَنَّ مَظَانَ اِسْتِعْمَالُهُ تَنْبُوعَنْهُ ” اور اس میں ہے: اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے ساتھ دلوں کے اغراض ارادہ وغیرہ کی طرح ہیں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی صفات فعلیہ ہیں اور اس کا مرجع اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے ۔
حدیث میں لفظ ”واو“ کا معنی:
اس حدیث میں مذکور ہے "لا و مقلب القلوب ” : اس میں واؤ قسم کے لیے ہے اور لا کے بعد یہ عبارت مقدر ہے: میں نہیں کروں گا یا میں نہیں کہوں گا اور مقلب القلوب کی قسم۔[11]
تقلیب کا معنی:
حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ۸۵۲ ھ ، اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
تقلیب کا معنی علامہ الراغب اصفہانی نے کہا ہے کسی چیز کی تقلیب یعنی اس کے پھیرنے کا معنی ہے کسی چیز کو ایک حال سے دوسرے حال کی طرف پھیرنا یا تغیر کرنا، اور تقلیب کا معنی ہے تعریف ، اور اللہ تعالی کے دلوں کو پھیرنے کا اور آنکھوں کے پھیرنے کا معنی یہ ہے کہ وہ دلوں کو ایک رائے سے دوسری رائے کی طرف پھیر دیتا ہے، اور اس سے یہ معلوم ہوا کہ دل کے عوارض ارادہ کی طرح ہیں ، اللہ تعالی ان کو پیدا فرما تا ہے اور یہ صفات فعلیہ میں سے ہیں اور اس کا مرجع قدرت کی طرف ہے۔“[12]
آیت اور حدیث کا تعلق:
اس تعلیق میں مذکور ہے: وَنُقَلِبُ أَبِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ (الانعام: ) ، (ترجمہ: ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پھیر رہے ہیں)۔ اس کا معنی ہے کہ ہم دلوں اور آنکھوں میں جس طرح چاہیں تصرف کر رہے ہیں۔
”تقلیب قلوب“ سے انسان کے افعال کے خالق ہونے کی نفی:
” دلوں کے پھیر نے “ کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان اپنے افعال کا خالق نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے افعال کا خالق و مالک ہے۔ معتزلہ اس کے خلاف عقیدہ رکھتے ہیں۔ ا س آیت کی تفسیر میں معتزلی کہتے ہیں: اس کا معنی ہے: ہم دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پس وہ ایمان نہیں لائیں گے، اور انہوں نے کہا : مہر لگانے کا معنی ہے: ہم ان کو اس چیز کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو وہ اپنے لیے اختیار کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر عسقلانی اس کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”لغت عرب میں تقلیب کا یہ معنی نہیں ہے اور اس لیے کہ اللہ تعالی نے اس پر اپنی مدح فرمائی ہے کہ وہ اس وصف کے ساتھ منفرد ہے اور اس وصف میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے، پس طبع کی تفسیر ترک کے ساتھ کرنا صحیح نہیں ہے، اہل سنت کے نزدیک طبع کا معنی ہے: کافر کے دل میں کفر کو پیدا فرمانا اور اس کو اسی کفر پر اس کی موت تک قائم رکھنا، پس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں میں جو چاہے تصرف فرماتا ہے اور اس کے لیے کوئی چیز منع نہیں ہے۔
قاضی بیضاوی نے کہا : دلوں کے پھیر نے کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت میں یہ خبر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں کا مالک اور متولی ہے اور وہ کسی اور کی طرف اس کو سپرد نہیں کرتا ۔ “[13]
عمدۃ القاری میں علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
” اس میں یہ دلیل ہے کہ دل کے جو اعمال ہیں اس میں جو ارادے ہوتے ہیں اور کسی کام کے لیے جو محرکات ہوتے ہیں اور باقی اغراض جو ہوتی ہیں یہ سب اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے ہیں جیسا کہ ظاہری اعضاء کے افعال اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے ہیں ۔ “[14]
کیا انبیا اس حدیث سے مستثنی ہیں:
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انبیا علیہم السلام اس حکم سے مستغنی ہیں جبکہ احادیث میں ملتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے دل کے متعلق بھی ثابت قدمی کی دعا مانگا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہے ، انبیا اس سے مستثنی نہیں ہیں۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس عقیدے پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
”رسول اللہ ﷺ یہ دعا کرتے تھے: ”اے دلوں کے پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔“ اس میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دلوں کو پھیرنا سب دلوں کو شامل ہے حتی کہ انبیا علیہم السلام کے دلوں کو بھی شامل ہے۔ اور اس میں ان لوگوں کے وہم کو زائل فرمایا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ انبیا علیہم السلام اس سے مستغنی ہیں، اور رسول اللہ ﷺ نے دعا میں اپنا خصوصیت سے ذکر فرمایا تا کہ اس میں یہ تنبیہ ہو کہ جب نبی ﷺ کا پاکیزہ نفس اللہ تعالیٰ کی پناہ لینے کا محتاج ہے تو باقی لوگ تو بہ طریق اولی محتاج ہوں گے کہ وہ اللہ کی پناہ حاصل کریں۔“[15]
دلوں کو پھیرنے کے متعلق صحابہ و تابعین کے اقوال:
(1) حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا :
”اللہ تعالی کافر کے درمیان حائل ہو جاتا ہے کہ وہ ایمان لائے اور مومن کے درمیان حائل ہو جاتا ہے کہ وہ کفر کرے۔“
(2) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا:
” اللہ تعالیٰ کافر اور اس کی اطاعت کے درمیان اور مومن اور اس کی معصیت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔“
(3) اسی طرح کی ایک روایت امام ضحاک اور امام مجاہد سے مروی ہے، فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے پس وہ نہیں سمجھتا اور وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا عمل کرے ۔“
کیا اللہ تعالی کا دلوں کو پھیرنا عدل کے منافی ہے؟
اس حدیث کا معنی ہے اللہ تعالی بندہ کے دل کو پلٹ دیتا ہے اور وہ کفر کے اوپر ایمان کو ترجیح دیتا ہے اور کبھی اس کے برعکس کرتا ہے اور یہ اللہ تعالی کا اصل عدل ہے، اس کا کوئی فعل غلط یا ظلم نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اللہ تعالی کے افعال کی حکمتوں پر مطلع نہ ہوں۔
اللہ تعالی کی صفات علیا سے قسم کھانا:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات علیا سے بھی قسم کھانی جائز ہے‘ خواہ اس صفت کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہو جیسے علم اور قدرت‘ خواہ صفت فعلی سے ہو جیسا کہ قہر اور غلبہ وغیرہ۔[16]
ہر حال میں اللہ تعالی کی پناہ میں رہنا:
علامہ غلام رسول سعیدی نعمۃ الباری میں اس حدیث کی شرح میں رقم طراز ہیں: نبی ﷺ کی اس دعا میں یہ اشارہ ہے کہ ہر بندہ کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہے۔[17]
حوالہ جات:
[1] : الأنعام: 110
[2] : تبیان القرآن، تحت الایۃ، الانعام: 110
[3] : صحیح بخاری، رقم الحدیث: 6628
[4] : صحیح البخاری، رقم الحدیث: 6617
[5] : مجمع الزوائد، جلد6، صفحہ 328
[6] : العنکبوت: 21
[7] : مفردات القرآن، سورت الانعام: 110
[8] : عمدہ القاری، جلد 25، صفحہ141، دار الکتب العلمیہ، بیروت
[9] : المصدر السابق
[10] : عمدۃ القاری، جلد 23، صفحہ249، دار الکتب العلمیہ، بیروت
[11] : فتح الباری، تحت شرح الحدیث
[12] : المصدر السابق
[13] : فتح الباری ج 8 ،ص 516-517، دار المعرفه، بیروت
[14] : عمدۃ القاری ج 23 ص228، دار الکتب العلمیہ، بیروت
[15] : فتح الباری ج 8 ،ص 516-517، دار المعرفه، بیروت
[16] : فیوض الباری، جلد12، صفحہ411، شبیر برادرز، لاہور
[17] : نعم الباری، جلد16، صفحہ609، فرید بک سٹال، لاہور