سوال:
پندرہ سولہ سال کا عرصہ ہوا کہ زید کے والد نے ایک حلف نامہ کا اقرار نامہ نوٹری ٹکٹ لگا کر ایک پنچ نامہ بھی لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ ہم نے اپنے آٹھ لڑکوں کو مکان، کاروبار، گھر ستی کا مالک بنایا ۔آج سے برابر کے حق دار ہیں۔ ایک لڑکا (آٹھویں میں سے) 1970ء میں علیحدہ ہونے لگا اس وقت تقریبا دو سو کر گھہ تھے۔ علیحدہ ہونے والے سے والد اور بڑے بھائی نے کہا کہ آپ صرف دو کر گھہ لے لیں اس لیے کہ آپ کو کوئی تجربہ نہیں ہے اور جو کچھ تمہارا شرعی حصہ ہے دے دیا جائے گا تو تم محفوظ نہیں رکھ سکتے لیکن تمہارا حصہ کچھ مہینے بعد ہم دے دیں گے ۔ علیحدہ ہونے والے کے اصرار پر بڑے بھائی نے چند پنچان کو جمع کیا جن کی موجودگی میں والد صاحب اور بڑے بھائی نے کہا کہ یہ دو کرگھہ لے کر علیحدہ ہوجائے ہم 4۔ 5۔ ماہ کے بعد ان کا شرعی حق و حصہ دیدیں گے۔ دو کر گھہ کے سامان کی قیمت اور عید الفطر کے مصارف اور کھانے پکانے کے سامان کی قیمت مجموعی دو ہزار چھ سو پچیس روپے علیحدہ ہونے والے کو ملے۔ دریافت طلب یہ ہے کہ علیحدگی کے وقت 1970ء میں جو اثاثہ (جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ )تھی اسی حساب سے شرعی حصہ ملے گا یا 1980ء میں جو پوزیشن ہے اس کے اعتبار سے؟
( نوٹ) اگر زید کے اقرار نامہ کے بعد والد نے دوبارہ زید کی عدم موجودگی میں دوسرا اقرارنامہ صرف سات لڑکوں کو لکھ دیا تو کیا یہ اقرار نامہ صحیح ہے؟ اور زید اپنے حق و حصہ سے محروم ہو جائے گا؟
جواب:
باپ کا مرض الموت سے پہلے لڑکوں کو جائیداد کا مالک بنا دینا ہبہ ہے مگر روپیہ پیسہ مکان کر گھا وغیرہ جو چیزیں کہ قابل تقسیم تھیں باپ نے ان کو تقسیم کرکے سب کو نہ دیا اور سب بالغ تھے یا کچھ بالغ اور کچھ نا بالغ تو صرف اقرار نامہ لکھ دینے سے ہبہ صحیح نہ ہوا۔ باپ اپنی جائیداد کا حسب سابق مالک ہے اگرچہ سب لڑکوں نے ان پر قبضہ بھی کر لیا ہو اور بعد میں ایک لڑکے کو جتنا مال دے کر علیحدہ کیا وہ اتنے کا تنہا مالک ہو گیا اور جو چیزیں کہ قابل تقسیم نہ تھیں اگر بعدہبہ لڑکوں نے ان پر قبضہ کر لیا تو ان چیزوں کے سب مالک ہو گئے اور جتنا مال علیحدہ ہونے والا تنہا پا چکا ہے اسے وضع کرنے کے بعد اب تقسیم کے دن کی پوزیشن کے اعتبار سے اس لڑکے کا مابقی حصہ دینا باپ پر لازم ہے اور قابل تقسیم چیزوں کے بارے میں پھر دوسرا اقرارنامہ بھی بغیر تقسیم عند الشرع لغو ہوگا۔ ہاں اگر مرض الموت سے پہلے صرف سات لڑکوں کو دے کر تقسیم کردے تو بشرط قبضہ وہ لوگ اپنے اپنے حصہ کے ضرور مالک ہو جائیں گے اور زید اپنے شرعی حصہ سے محروم ہو جائے گا مگر باپ گنہگار ہوگا اور اگر باپ نے اپنی ساری جائیداد زندگی میں سب لڑکوں کو تقسیم کرکے نہ دے دیا تو اس کی موت کے بعد سب لڑکوں کے برابر زید پھر باپ کی میراث کا شرعا حق دار ہوگا اس لئے کہ باپ کی زندگی میں جو کچھ اسے ملا وہ ہبہ ہے۔
(فتاوی فیض الرسول،کتاب الربا،جلد2،صفحہ 410، 411،شبیر برادرز لاہور)