باب الشہادۃ علی القتل (قتل پر گواہی کے متعلق مسائل )
مسئلہ ۱۳۲ : مستور الحال دو آدمیوں نے کسی کے خلاف قتل کی گواہی دی تو اس کو قید کر لیا جائے۔ یہاں تک کہ گواہوں کے متعلق معلومات کی جائیں ۔ اسی طرح اگر ایک عادل آدمی نے کسی کے خلاف قتل کی شہادت دی تو اس کو چند دن قید میں رکھا جائے گا۔ اگر مدعی دوسرا گواہ پیش کرے تو مقدمہ چلے گا ورنہ رہا کر دیا جائے گا۔ (عالمگیری ص ۱۵ ج ۶، شامی ص ۵۰۰ ج ۵، قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۵۱ ج ۳)
مسئلہ ۱۳۳ : کسی نے دعوی کیا کہ فلاں شخص نے میرے باپ کو خطائً قتل کر دیا اور کہتا ہے کہ گواہ شہر میں ہیں اور قاضی سے مطالبہ کرتا ہے کہ مدعی علیہ سے ضمانت لے لی جائے تو قاضی مدعی علیہ سے تین دن کے لئے ضمانت طلب کرے گا اور اگر مدعی کہتا ہے کہ میرے گواہ غائب ہیں اور گواہوں کے حاضر ہونے کے وقت تک کے لئے ضمانت کا مطالبہ کرتا ہے تو قاضی مدعی کی بات نہیں مانے گا اور اگر دعوی کرتا ہے کہ میرے باپ کو عمداً قتل کیا گیا ہے اور ضمانت کا مطالبہ کرتا ہے تو قاضی ضمانت نہیں لے گا۔ (مبسوط ص ۱۰۶ ج ۲۶، قاضی خان ص ۳۹۶ ج ۴، عالمگیری ص ۱۶ ج ۶)
مسئلہ ۱۳۴ : مقتول کے ایک بیٹے نے دعوی کیا کہ میرے باپ کو عمداً زید نے قتل کر دیا اور اس پر گواہ بھی پیش کر دیئے۔ مگر مقتول کا دوسرا بیٹا غائب ہے تو قاضی شہادت کو قبول کر لے گا اور قاتل کو قید کر دے گا، لیکن ابھی قصاص نہیں لیا جائے گا۔ جب دوسرا بیٹا حاضر ہو کر دوبارہ شہادت پیش کرے گا تو قصاص لیا جائے گا۔ (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۰۰ ج ۵، فتح القدیر و عنایہ ص ۲۹۲ ج ۸، تبیین ص ۱۲۱ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۲۰ ج ۸)
مسئلہ ۱۳۵ : اور اگر مقتول کے ایک بیٹے نے دعوی کیا کہ میرے باپ کو زید نے خطائً قتل کر دیا اور گواہ بھی پیش کر دیئے اور دوسرا بیٹا غائب ہے تو قاضی زید کو قید کر دے گا اور جب دوسرا بیٹا حاضر ہوگا تو اس کو دوبارہ شہادت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی حاضری پر مقدمہ کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔ (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۰۰ ج ۵، تبیین الحقائق ص ۱۲۱ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۲۰ ج ۸)
مسئلہ ۱۳۶ : ورثا نے دو اشخاص پر اپنے باپ کے قتل عمد کا الزام لگایا اور گواہ پیش کئے مگر ایک قاتل غائب ہے تو حاضر کے مقابلہ میں یہ گواہی قبول کر لی جائے گی اور اس کو قصاص میں قتل کر دیا جائے گا۔ پھر جب دوسرا آئے اور قتل کا انکار کرے تو ورثاء کو دوبارہ گواہی پیش کرنا ہوگی۔ (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶)
مسئلہ ۱۳۷ : دو گواہوں نے کسی کے خلاف گواہی دی کہ اس نے فلاں شخص کو تلوار سے زخمی کر دیا تھا اور وہ زخمی صاحب فراش رہ کر مرگیا تو قاتل سے قصاص لیا جائے گا اور قاضی کو گواہوں سے یہ سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ ان زخموں کی وجہ سے مرا یا کسی اور وجہ سے۔ اور اگر گواہوں نے صرف یہ کہا کہ اس نے تلوار سے زخمی کیا۔ یہاں تک کہ مجروح مرگیا یہ بھی عمداً قتل مانا جائے گا۔ بہتر یہ ہے کہ قاضی گواہوں سے سوال کرے کہ اس نے قصداً ایسا کیا ہے یا نہیں ؟ (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶، شامی ص ۵۰۱ ج ۵، بحرالرائق ص ۳۲۳ ج ۸، مبسوط ص۱۶۷ ج ۲۶، قاضی خان ص ۳۹۸ ج ۴)
مسئلہ ۱۳۸ : دو آدمیوں نے گواہی دی کہ زید نے فلاں شخص کو تلوار سے خطائً قتل کر دیا تو یہ شہادت قبول کر لی جائے گی اور عاقلہ پر دیت واجب ہوگی اور اگر گواہوں نے یہ کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ قصدا ًقتل کیا ہے یا خطائً، تب بھی یہ گواہی مقبول ہوگی اور قاتل کے مال میں سے دیت دلائی جائے گی۔ (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶)
مسئلہ ۱۳۹ : ایک گواہ نے کسی کے خلاف گواہی دی کہ اس نے خطاً قتل کیا ہے اور دوسرے گواہ نے کہا کہ قاتل نے اس کا اقرار کیا ہے کہ اس سے یہ فعل خطاً سرزد ہوا ہے تو یہ گواہی باطل ہے۔ (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶، قاضی خان ص ۳۹۵ ج ۴، تبیین ص ۱۲۳ ج ۶، مبسوط ص ۱۰۴ ج ۲۶، مجمع الانہر ص ۶۳۵ ج ۲)
مسئلہ ۱۴۰ : اگر دونوں گواہ زمان و مکان میں اختلاف کرتے ہیں تو گواہی باطل ہے مگر جب دونوں جگہیں قریب قریب ہیں ۔ مثلاً ایک گواہ کسی چھوٹے مکان کے ایک حصہ میں وقوع قتل کی گواہی دیتا ہے اور دوسرا اسی مکان کے دوسرے حصے میں تو یہ گواہی مقبول ہوگی (بحرالرائق ص ۳۲۳ ج ۸، عالمگیری ص ۱۶ ج ۶، فتح القدیر و عنایہ ص ۲۹۵ ج ۸، درمختار و شامی ص ۵۰۱ ج ۵)
مسئلہ ۱۴۱ : اگر دو گواہوں میں موضع زخم میں اختلاف ہے تب بھی گواہی باطل ہے (عالمگیری ۱۶ ج ۶)
مسئلہ ۱۴۲ : اگر دو گواہوں میں آلہ قتل میں اختلاف ہو ایک کہے کہ تلوار سے قتل کیا دوسرا کہے کہ پتھر سے قتل کیا۔ یا ایک کہے کہ تلوار سے قتل کیا اور دوسرا کہے کہ چھری سے قتل کیا یا ایک کہے کہ پتھر سے قتل کیا اور دوسرا کہے کہ لاٹھی سے قتل کیا تو یہ گواہی باطل ہے۔ (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶، درمختار و شامی ۵۰۱ ج ۵، تبیین ص ۱۲۳ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۲۳ ج ۸، مبسوط ص ۱۶۸ ج ۲۶، قاضی خان ص ۳۹۵ ج ۴، مجمع الانہر ص ۶۳۴ ج ۲)
مسئلہ ۱۴۳ : ایک گواہ نے گواہی دی کہ قاتل نے تلوار سے قتل کرنے کا اقرار کیا تھا اور دوسرے گواہ نے کہا کہ قاتل نے چھری سے قتل کرنے کا اقرار کیا تھا اور مدعی کہتا ہے کہ قاتل نے دونوں باتوں کا اقرار کیا تھا، لیکن اس نے قتل کیا ہے نیزہ مار کر، تو یہ گواہی قبول کی جائے گی۔ اور قاتل سے قصاص لیا جائے گا۔ (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶)
مسئلہ ۱۴۴ : ایک گواہ نے گواہی دی کہ اس نے تلوار یا لاٹھی سے قتل کیا ہے اور دوسرے گواہ نے کہا کہ اس نے قتل کیا ہے مگر میں یہ نہیں جانتا کہ کس چیز سے قتل کیا ہے۔ تو یہ گواہی قبول نہیں کی جائے گی (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶، قاضی خان ص ۳۹۵ ج ۴، درمختار و شامی ص ۵۰۱ ج ۵، تبیین ص ۱۲۳ ج ۶، فتح القدیر و عنایہ ۲۹۵ ج ۸، مجمع الانہر ص ۶۳۴ ج ۲)
مسئلہ ۱۴۵ : دو شخصوں نے گواہی دی کہ زید نے عمرو کو قتل کیا ہے اور ہم یہ نہیں جانتے کہ کس چیز سے قتل کیا ہے تو یہ گواہی قبول کر لی جائے گی۔ اور قاتل کے مال سے دیت دلائی جائے گی قصاص نہیں لیا جائے گا۔ (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶، قاضی خان ص ۳۹۵ ج ۴، درمختار و شامی ص ۵۰۲ ج ۵، فتح القدیر ص ۱۴۷ عنایہ ص ۲۹۵ ج ۸، تبیین ص ۱۲۳ ج ۶، بحرالرائق ص ۲۲۳ ج ۸، طحطاوی ص ۲۷۸ ج ۴، مجمع الانہر ص ۶۳۵ ج ۲، و ملتقی الابحر ص ۶۳۵ ج ۲)
مسئلہ ۱۴۶ : اگر دو آمی دو اشخاص کے متعلق گواہی دیں کہ انھوں نے زید کے ایک ہی ہاتھ کی ایک ایک انگلی کاٹی ہے اور یہ نہ بتائیں کہ کس نے کونسی انگلی کاٹی ہے تو یہ شہادت باطل ہے۔ (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶، مبسوط ص ۱۷۱ ج ۲۶)
مسئلہ ۱۴۷ : دو آدمی دو اشخاص کے متعلق گواہی دیتے ہیں کہ ان دونوں نے ایک شخص کو قتل کیا ہے۔ ایک نے تلوار سے اور ایک نے لاٹھی سے اور گواہ یہ نہیں بتائے کہ کس نے لاٹھی سے اور کس نے تلوار سے قتل کیا ہے تو یہ گواہی باطل ہے۔ (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶)
مسئلہ ۱۴۸ : دو آدمیوں نے گواہی دی کہ زید نے عمرو کا ہاتھ پہنچے سے قصداً کاٹا ہے اور ایک تیسرے گواہ نے کہا کہ زید نے عمرو کا پائوں ٹخنے سے کاٹا ہے۔ پھر تینوں نے یہ گواہی دی کہ مجروح صاحب فراش رہ کر مرگیا اور مقتول کا ولی یہ دعوی کرتا ہے کہ یہ دونوں فعل عمداً ہوئے ہیں تو قاتل کے مال سے نصف دیت دلائی جائے گی۔ (عالمگیری ص ۱۶ ج ۶، مبسوط ص ۱۶۸ ج ۲۶)
مسئلہ ۱۴۹ : دو آدمیوں نے کسی کے خلاف گواہی دی کہ اس نے فلاں شخص کا ہاتھ پہنچے سے قصداً کاٹا، پھر اس کو قصدا ًقتل کر دیا تو مقتول کے ورثاء کو یہ حق ہے کہ پہلے ہاتھ کاٹ کر قصاص لیں اور پھر قتل کریں ۔ ہاں قاضی کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ ان سے کہے کہ صرف قتل پر اکتفاء کرو۔ ہاتھ کا قصاص مت لو (عالمگیری ص ۱۷ ج ۶)
مسئلہ ۱۵۰ : دو آدمیوں نے زید کے خلاف گواہی دی کہ اس نے عمرو کو خطائً قتل کیا ہے اور قاضی نے اس پر دیت کا فیصلہ کر دیا۔ اس کے بعد عمرو جس کے قتل کی گواہی دی گئی تھی زندہ آگیا تو جن لوگوں نے دیت ادا کی تھی ان کو اختیا رہے کہ چاہیں تو عمرو کے ولی کو ضامن قرار دیں یا گواہوں کو، اگر گواہوں کو ضامن بنائیں اور وہ تاوان دے دیں تو پھر وہ گواہ ولی سے دیت واپس لے لیں ۔ (عالمگیری ص ۱۷ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۰۲ ج ۵، مجمع الانہر ص ۶۳۵ ج ۲)
مسئلہ ۱۵۱ : دو آدمیوں نے زید کے خلاف گواہی دی کہ اس نے عمرو کو قصدا قتل کیا ہے اور زید کو قصاص میں قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد عمرو زندہ واپس آگیا تو زید کے ورثا کو اختیار ہے کہ عمرو کے ولی سے دیت لیں یا گواہوں سے (عالمگیری ص ۱۷ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۰۳ ج ۵، مجمع الانہر ص ۶۳۵ ج ۲)
مسئلہ ۱۵۲ : دو آدمیوں نے ایک شخص کے خلاف گواہی دی کہ اس نے قتل خطایا عمد کا اقرار کیا ہے اور اس پر فیصلہ کر دیا گیا اس کے بعد وہ شخص زندہ پایا گیا تو گواہوں پر کوئی تاوان نہیں ۔ البتہ دونوں صورتوں میں ولی مقتول پر تاوان ڈالا جائے گا (ہندیہ ص ۱۷ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۰۳ ج ۵، مجمع الانہر ص ۶۳۶ ج۲)
مسئلہ ۱۵۳ : دو آدمیوں نے گواہی دی کہ فلاں دو اشخاص نے ہم کو گواہ بنایا ہے کہ زید نے عمرو کو خطاً قتل کر دیا ہے۔ ان کی گواہی پر دیت کا حکم دے دیا گیا۔ ا س کے بعد عمرو زندہ پایا گیا تو ولی پر دیت واپس کرنا واجب ہے اور ان شاہدین فرع پر کچھ تاوان نہیں ہے۔ اگرچہ اصل گواہ آکر ان کو گواہ بنانے سے انکار کریں ۔ اور اگر اصل گواہ آکر یہ اقرار کریں کہ ہم نے جان بوجھ کر غلط بات پر ان کو گواہ بنایا تھا تب بھی ان شاہدین فرع پر کچھ تاوان نہیں ہے۔ (ہندیہ ص ۱۷ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۰۳ ج ۵)
مسئلہ ۱۵۴ : کسی نے دعوی کیا کہ فلاں شخص نے میرے ولی کا سر پھاڑ دیا اور اسی سے اس کی موت واقع ہوگئی اور دو گواہوں نے زخم کی گواہی دی اور یہ کہا کہ وہ مرنے سے پہلے اچھا ہوگیا تھا۔ تو زخم کے بارے میں ان کی شہادت مان لی جائے گی۔ اور صرف زخم کے قصاص کا حکم دیا جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک گواہ نے کہا کہ وہی زخم موت کا سبب بنا تھا اور دوسرے نے کہا کہ وہ مرنے سے پہلے اچھا ہوگیا تھا تب بھی صرف زخم کے قصاص کا حکم دیا جائے گا۔ (ہندیہ ص ۱۷ ج ۶)
مسئلہ ۱۵۵ : کسی مقتول نے دو بیٹے چھوڑے ان میں سے ایک نے کسی شخص کے خلاف گواہ پیش کئے کہ اس نے میرے باپ کو عمداً قتل کیا ہے اور دوسرے بیٹے نے گواہ پیش ئے کہ اس نے اور دوسرے شخص نے مل کر میرے باپ کو قصداً قتل کیا ہے تو اس صورت میں قصاص نہیں ہے۔ (ہندیہ ص ۱۷ ج ۶)
مسئلہ ۱۵۶ : کسی مقتول کے دو بیٹے ہین ان میں سے ایک نے گواہ پیش کئے کہ فلاں شخص نے میرے باپ کو عمداً قتل کیا ہے اور دوسرے بیٹے نے گواہ پیش کئے کہ اس کے غیر فلاں شخص نے میرے باپ کو خطائً قتل کیا ہے تو کسی سے بھی قصاص نہیں لیا جائے گا۔ پہلے بیٹے کے لئے اس کے مدعی علیہ کے مال سے ۳ سال میں نصف دیت لی جائے گی۔ اور دوسرے بیٹے کے لئے مدعی علیہ کے عاقلہ سے بقیہ نصف دیت ۳ سال میں لی جائے گی۔ (ہندیہ از زیادات ص ۱۷ ج ۶)
مسئلہ ۱۵۷ : کسی مقتول نے دو بیٹے اور ایک موصی لہ (جس کے لئے وصیت کی گئی) چھوڑے۔ پھر ایک بیٹے نے دعوی کیا کہ فلاں شخص نے میرے باپ کو عمداً قتل کیا ہے اور اس پر گواہ پیش کئے اور دوسرے بیٹے نے اسی قاتل یا دوسرے شخص پر خطائً قتل کا الزام لگا کر گواہ پیش کئے اور موصی لہ قتل خطا کے مدعی کی تصدیق کرتا ہے تو اس بیٹے اور موصی لہ کے لئے قاتل کے عاقلہ پر ۳ سال میں ۳/۲ دیت ہے اور قتل عمد کے مدعی بیٹے کے لئے قاتل کے مال میں ۳ سال میں ۳ئ۱ دیت ہے اور اگر موصی لہ نے قتل عمد کے مدعی کی تصدیق کی تو قتل خطا کے مدعی کے لئے ایک تہائی دیت قاتل کے عاقلہ پر ۳ برس میں ہے۔ اور نصف دیت کا تہائی موصی لہ کے لئے اور نصف دیت کا دو تہائی قتل عمد کے مدعی کے لئے قاتل کے مال میں ہے اور اگر موصی لہ نے دونوں کی تصدیق یا تکذیب کی تو موصی لہ کو کچھ نہیں ملے گا اور اگر موصی لہ کہتا ہے کہ مجھ کو یہ معلوم نہیں کہ قتل خطائً ہوا ہے یا عمداً تو اس کا حق ابھی باطل نہیں ہوگا۔ جس وقت بھی موصی لہ کسی ایک بیٹے کی تصدیق کر دے گا تو مذکورہ بالاتفصیل کے مطابق موصی لہ کو حق مل جائے گا اور اگر بجائے موصی لہ کے مقتول کا تیسرا بیٹا ہو اور تصدیق و تکذیب میں مذکورہ بالا صورتیں اختیار کرے، تو ایک صورت کے سوا باقی تمام صورتوں میں وہی حکم ہے اور وہ ایک صورت یہ ہے کہ اگر تیسرے بیٹے نے مدعی قتل عمد کی تصدیق کی تو اس کو اور مدعی قتل عمد کو ایک تہائی دیت ملے گی۔ (ہندیہ ص ۱۷ ج ۶)
مسئلہ ۱۵۸ : مقتول کے دو بیٹوں میں سے بڑے نے چھوٹے کے خلاف گواہ پیش کئے کہ اس نے باپ کو قتل کیا ہے اور چھوٹے نے گواہ پیش کئے کہ فلاں اجنبی نے قتل کیا ہے تو بڑے کو چھوٹے سے نصف دیت دلائی جائے گی اور چھوٹے کو اس اجنبی سے نصف دیت دلائی جائے گی (ہندیہ ص ۱۸ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۲۳ ج ۸)
مسئلہ ۱۵۹ : مقتول کے تین بیٹوں میں سے بڑے نے منجھلے کے خلاف گواہ پیش کئے کہ اس نے باپ کو قتل کیا ہے اور منجھلے نے چھوٹے کے خلاف گواہ پیش کئے کہ اس نے باپ کو قتل کیا ہے اور چھوٹے نے بڑے کے خلاف قتل کے گواہ پیش کئے تو سب شہادتیں قبول کر لی جائیں گی، لیکن قصاص کسی سے بھی نہیں لیا جائے گا۔ بلکہ ہر مدعی اپنے مدعی علیہ سے ایک تہائی دیت لے گا (ہندیہ ۱۸ ج ۶)
مسئلہ ۱۶۰ : مقتول نے زید، عمرو اور بکر تین بیٹے چھوڑے زید نے گواہ پیش کئے کہ عمرو و بکر نے باپ کو قتل کیا ہے اور عمرو و بکر نے زید کے قاتل ہونے پر گواہ پیش کئے تو قول امام پر زید دونوں بھائیوں سے ان کے مال میں سے نصف دیت لے گا اگر قتل عمد کا دعوی تھا اور ان کے عاقلہ سے نصف دیت لے گا اگر قتل خطاء کا دعوی تھا اور عمرو و بکر زید کے مال سے نصف دیت لیں گے اگر قتل عمد کا دعوی تھا اور اگر قتل خطاء کا دعوی تھا تو زید کے عاقلہ سے نصف دیت لیں گے۔ (ہندیہ ص ۱۸ ج ۶)
مسئلہ ۱۶۱ : مقتول نے ایک بیٹا اور ایک بھائی چھوڑا ان میں سے ہر ایک دوسرے پر قتل کا دعوی کر کے اس کے خلاف گواہ پیش کرتا ہے تو بھائی کے گواہ لغو قرار پائیں گے اور بیٹے کے گواہوں کی گواہی پر بھائی کے خلاف فیصلہ کر دیا جائے گا۔ (ہندیہ ص ۱۸ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۲۴ ج ۸)
مسئلہ ۱۶۲ : دو آدمیوں میں سے ہر ایک نے زید کے قتل کا اقرار کیا اور ولی زید کہتا ہے کہ تم دونوں نے قتل کیا ہے۔ تو قصاص میں دونوں کو قتل کر دیا جائے گا۔ (ہندیہ ص ۱۸ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۲۵ ج ۸، تبیین الحقائق ص ۱۲۴ ج ۶، مجمع الانہر ص۶۳۵ ج ۲، ملتقی الابحر ص ۶۳۵ ج ۲)
مسئلہ ۱۶۳ : اگر چند گواہوں نے گواہی دی کہ زید کو فلاں شخص نے قتل کیا ہے اور دوسرے چند گواہوں نے گواہی دی کہ زید کا قاتل دوسرا شخص ہے اور ولی نے کہا کہ دونوں نے قتل کیا ہے تو یہ دونوں شہادتیں باطل ہیں (ہندیہ ص ۱۹ ج ۶، فتح القدیر ص ۲۹۷ ج ۸، و عنایہ ، تبیین الحقائق ص ۱۲۴ ج ۶، مجمع الانہر ص ۶۳۶ ج ۲)
مسئلہ ۱۶۴ : کسی شخص نے اقرار کیا کہ میں نے فلاں شخص کو قصداً قتل کیا ہے اور مقتول کے ولی نے اس کی تصدیق کر کے قصاص میں اس کو قتل کر دیا، پھر ایک دوسرے شخص نے آکر اقرار کیا کہ میں نے اس کو قصداً قتل کیا ہے تو ولی اس کو بھی قتل کر سکتا ہے اور اگر پلے قاتل کے اقرار کے وقت ولی نے اس سے یہ کہا تھا کہ تو نے تنہا عمداً قتل کیا تھا اور اس کو قصاص میں قتل کر دیا پھر دوسرے نے آکر یہ اقرار کیا کہ میں نے تنہا عمدا قتل کیا ہے اور ولی نے اس کی تصدیق بھی کر دی تو ولی پر پہلے قاتل کے قتل کی دیت واجب ہوگی اور دوسرے قاتل پر ولی کے لئے دیت لازم ہوگی (ہندیہ از محیط ص ۱۹ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۲۵ ج ۸)
مسئلہ ۱۶۵ : کسی نے کسی کے قتل خطاء ًکا اقرار کیا اور ولی مقتول قتل عمد کا دعوی کرتا ہے تو قاتل کے مال سے ولی کو دیت دلوائی جائے گی۔ (ہندیہ ص ۱۹ ج ۶، مبسوط ص ۱۰۵ ج ۲۶)
مسئلہ ۱۶۶ : اگر قاتل قتل عمد کا اقرار کرے اور ولی مقتول قتل خطا کا مدعی ہو تو مقتول کے ورثاء کو کچھ نہیں ملے گا اور اگر ولی نے بعد میں قاتل کے قول کی تصدیق کر دی اور کہہ دیا کہ تو نے قصدا قتل کیا ہے تو قاتل پر دیت لازم ہے۔ (عالمگیری از محیط و قاضی خاں ص ۱۹ ج ۶)
مسئلہ ۱۶۷ : کسی شخص نے دو آدمیوں پر دعوی کیا کہ انھوں نے میرے باپ کو عمداً آلہ دھار دار سے قتل کر دیا ہے ان میں سے ایک شخص نے تنہا عمدا ًقتل کا اقرار کیا اور دو گواہوں نے گواہی دی کہ دوسرے مدعی علیہ نے تنہا قصدا ًقتل کیا ہے تو یہ شہادت قبول نہیں کی جائے گی اور اقرار کرنے والے سے قصاص لیا جائے گا۔ اور اگر خطاً قتل کا دعوی ہو تو اقرار کرنے والے سے نصف دیت لی جائے گی اور دوسرے مدعی علیہ پر کچھ لازم نہیں ہے۔ (عالمگیری ص ۱۹ ج ۶)
مسئلہ ۱۶۸ : اگر دو مدعی علیہ میں سے ایک نے تنہا عمداً قتل کرنے کا اقرار کیا اور دوسرے نے انکار۔ اور مدعی کے پاس گواہ نہیں ہیں تو اقرار کرنے والے سے قصاص لیا جائے گا اور اگر دونوں میں سے ایک نے خطاً قتل کا اور دوسرے نے عمداً قتل کا اقرار کیا تو دونوں پر دیت لازم ہوگی۔ (عالمگیری ص ۱۹ ج ۶)
مسئلہ ۱۶۹ : کسی نے دو آدمیوں پر دعوی کیا کہ انھوں نے میرے ولی کو دھار دار آلے سے قتل کیا ہے ان میں سے ایک نے مدعی کی تصدیق کی اور دوسرے نے کہا کہ میں نے خطا ًلاٹھی سے مارا تھا تو ان دونوں کے مال میں سے ولی کو تین (۳) سال میں دیت دلائی جائے گی۔ اور اگر ولی کا دعوی قتل خطا کا تھا اور ان دونوں نے قتل عمداً کا اقرار کیا تو مدعی علیہ بری کر دیئے جائیں گے اور اگر دعوی قتل خطا کا تھا اور مدعی علیہ نے مدعی کی تصدیق کی تو دیت واجب ہوگی اور اگر دعوی قتل خطا کا تھا اور ایک قاتل نے عمداً قتل کا اقرار کیا اور دوسرے نے قتل خطا کا تب بھی د ونوں پر دیت لازم ہوگی۔ (عالمگیری ص ۱۹ ج ۶ از محیط، بحرالرائق ص ۳۲۵ ج ۸)
مسئلہ ۷۰ ۱: کسی نے دو اشخاص پر دعوی کیا کہ انھوں نے میرے ولی کو عمدا ًقتل کیا ہے ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم نے عمداً قتل کیا ہے اور دوسرے نے قتل ہی کا انکار کر دیا تو اقرار کرنے والے سے قصاص لیا جائے گا اور اگر دعوی قتل خطا کا ہو اور ایک مدعی علیہ کہے کہ ہم نے عمداً قتل کیا ہے اور دوسرا قتل ہی کا انکار کرے تو ملزم بری کر دئے جائیں گے۔ (عالمگیری ص ۱۹ ج ۶)
مسئلہ ۱۷۱ : کسی نے زید سے کہا کہ میں نے اور فلاں شخص نے تیرے ولی کو عمداً قتل کیا ہے اور اس کے ساتھی نے کہا کہ ہم نے خطا ئً قتل کیا ہے اور زید نے اقرار کرنے والے سے کہا کہ تنہا تو نے عمداً قتل کیا ہے تو زید قتل عمد کا اقرار کرنے والے سے قصاص لے گا اور اگر زید نے قتل خطا کا دعوی کیا تو دونوں بری کر دئے جائیں گے۔ (ہندیہ ص ۱۹ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۲۵ ج ۸)
مسئلہ ۷۲ ۱ : کسی نے زید سے کہا کہ میں نے تیرے ولی کا ہاتھ قصداً کاٹا تھا اور فلاں شخص نے اس کا پیر قصداً کاٹا تھا اور اسی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی تھی اور زید کہتا ہے کہ تو نے تنہا اس کے ہاتھ پیر عمداً کاٹے ہیں اور دوسرا شخص اس جرم میں شرکت کا انکار کرتا ہے۔ تو اقرار کرنے والے سے قصاص لیا جائے گا اور اگر زید نے کہا کہ تو نے عمداً اس کا ہاتھ کاٹا تھا اور پیر کاٹنے والے کا مجھ کو علم نہیں تو ابھی قصاص نہیں لیا جائے گا۔ ہاں اگر کسی وقت زید اس ابہام کو دور کر دے اور یہ کہے کہ مجھے یاد آگیا کہ تیرے ساتھی نے قصداًپیر کاٹا تھا تو اقرار کرنے والا قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ لیکن اگر قاضی اس کے ابہام کو دور کرنے سے پہلے بطلان حق کا فیصلہ کرچکا ہے تو اس کا ابہام دور کرنے سے حق واپس نہیں ملے گا (ہندیہ ص ۲۰ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۲۵ ج ۸)
مسئلہ ۱۷۳ : کوئی شخص مقتول پایا گیا کہ اس کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور ولی نے دعوی کیا کہ فلاں شخص نے اس کا داہنا ہاتھ قصداً کاٹا تھا اور فلاں شخص نے اس کا بایاں ہاتھ قصداً کاٹا تھا اور ان دونوں ہاتھوں کے کاٹنے سے اس کی موت واقع ہوئی تھی۔ بایاں ہاتھ کاٹنے والے نے قصدا ہاتھ کاٹنے اور صرف اسی سبب سے موت واقع ہونے کا اقرار کیا اور دایاں ہاتھ کاٹنے والے نے قطع ید کا انکار کیا تو اقرار کرنے والے سے قصاص لیا جائے گا۔ اور اگر ولی نے کہا کہ فلاں شخص نے بایاں ہاتھ قصدا ًکاٹا تھا اور داہنا ہاتھ بھی قصداً کاٹا گیا ہے مگر اس کے کاٹنے والے کا مجھے علم نہیں ہے اور موت دونوں ہاتھوں کے کٹنے سے واقع ہوئی ہے بایاں ہاتھ کاٹنے والا اقرار کرتا ہے کہ میں نے عمداً بایاں ہاتھ کاٹا ہے اور صرف اسی وجہ سے موت واقع ہوئی ہے، تو اقرار کرنے والا بھی بری ہو جائے گا۔ اور اگر ولی نے کہا کہ فلاں نے داہنا ہاتھ قصداً کاٹا اور فلاں نے بایاں قصداً کاٹا اور بائیں ہاتھ کا کاٹنے والا کہتا ہے کہ میں نے بایاں ہاتھ قصداً کاٹا ہے اور داہنا ہاتھ کاٹنے والے کا مجھ علم نہیں ہے لیکن یہ جانتا ہوں کہ داہنا ہاتھ قصداً کاٹا گیا اور موت اسی سے واقع ہوئی ہے، تو قصاص نہیں لیا جائے گا۔ اقرار کرنے والے پر نصف دیت لازم ہوگی (عالمگیری از محیط ص ۲۰ ج ۲۰، بحرالرائق ص ۳۲۵ ج ۸)
مسئلہ ۱۷۴ : کسی مقتول کے دو بیٹوں میں سے ایک حاضر اور دوسرا غائب ہے۔ حاضر نے کسی شخص پر اپنے باپ کے قتل عمد کا دعوی کیا اور گواہ پیش کر دیئے لیکن قاتل نے اس بات کے گواہ پیش کئے کہ غائب بیٹے نے مجھے معاف کر دیا ہے تو قصاص ساقط ہو جائے گا اور مدعی کو نصف دیت دلائی جائے گی۔ (درمختار و شامی ص ۵۰۰ ج ۵، بحرالرائق ص ۳۲۰ ج ۸، تبیین ص ۱۲۲ ج ۶، فتح القدیر و عنایہ ص ۲۹۳ ج ۸)
مسئلہ ۱۷۵ : قتل خطا اور ہر ایسے قتل میں جس میں قصاص واجب نہ ہو ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت قبول کر لی جائے گی۔ (خانیہ ص ۳۹۵ ج ۴، طحطاوی علی الدر ص ۶۷۶ ج ۴)
مسئلہ ۱۷۶ : کسی بچے نے یہ اقرار کیا کہ میں نے اپنے باپ کو عمداً قتل کر دیا ہے تو اس پر قصاص واجب نہیں ہوگا اور مقتول کی دیت بچہ کے عاقلہ پر واجب ہوگی اور بچہ وارث بھی ہوگا۔ مجنون کا حکم بھی یہی ہے (خانیہ ص ۳۹۵ ج ۴)
مسئلہ ۱۷۷ : اگر نابالغ بچے کے کسی ایسے قریبی رشتے دار کو قتل کر دیا گیا یا اعضاء کاٹ دیئے گئے جس کے قصاص کا حق بچے کو تھا، تو اس بچے کے باپ کو قصاص لینے اور دیت کے مساوی یا اس سے زیادہ مال پر صلح کرنے کا حق ہے اور اگر مقدار دیت سے کم پر صلح کر لے گا تب بھی صلح صحیح ہو جائے گی لیکن پوری دیت لازم ہوگی مگر معاف کرنے کا حق نہیں ہے اور وصی کو نفس کے قصاص و عفو کا حق نہیں ہے۔ صرف دیت کے مساوی یا اس سے زیادہ مال پر صلح کا حق ہے اور مادون النفس میں قصاص و صلح کا حق ہے، عفو کا حق نہیں ہے۔ (شامی ص ۴۷۵ ج ۵، قاضی خاں ۴۴۲ ج ۳، دررغرر ص ۹۴ ج ۲، طحطاوی ص ۲۶۳ ج ۴)
مسئلہ ۱۷۸ : قاتل اور اولیائے مقتول اگر مال پر صلح کر لیں تو قصاص ساقط ہو جائے گا اور جس مال پر صلح کی ہے وہ لازم ہوگا اور اگر نقد و ادھار کا ذکر نہیں کیا تو فوراً ادا کرنا واجب ہوگا۔ (عالمگیری ص ۶۰ ج ۲، فتح القدیر و عنایہ ص ۲۷۵ ج ۸)
مسئلہ ۱۷۹ : اگر قتل خطاء ًتھا اور مال معین پر صلح کی اور اس کا کوئی وقت معین نہیں کیا تو اگر قاضی کی قضا اور دیت کی کسی خاص قسم پر فریقین کی رضامندی سے پہلے یہ صلح ہے تو یہ مال موجل ہوگا۔ (ہندیہ ص ۲۰ ج ۶)
مسئلہ ۱۸۰ : اگر ایک حر اور ایک غلام نے مل کر کسی کو قتل کیا پھر حر نے اور غلام کے مالک نے کسی شخص کو مصالحت کے لئے وکیل بنایا۔ اس نے جس رقم پر مصالحت کی وہ حر اور غلام کے مالک پر نصف نصف واجب ہوگی (عالمگیری ص ۲۰ ج ۶، ہدایہ ص ۵۷۱ ج ۴)
مسئلہ ۱۸۱ : قتل خطاء میں دیت کی کسی خاص قسم پر قضائے قاضی ہوچکی یا فریقین راضی ہوچکے تو اس کے بعد اسی نوع کی زیادہ مقدار پر صلح کرنا جائز نہیں ہے اور کم پر جائز ہے صلح نقد اور ادھار دونوں طرح جائز ہے اور اگر کسی دوسری قسم کے مال پر صلح کرنا چاہیں تو زیادہ پر بھی صلح جائز ہے لیکن اگر قاضی نے دراہم پر فیصلہ کیا اور انھوں نے اس سے زیادہ قیمت کے دنانیر پر صلح کی تو نقد جائز ہے اور ادھار ناجائز ہے اور اگر کسی غیر معین جانور پر صلح کی تو ناجائز ہے اور معین پر جائز ہے۔ اگرچہ مجلس میں قبضہ نہ کیا جائے۔ اور اگر ان دراہم سے کم مالیت کے دنانیر پر صلح کی تو ادھار ناجائز ہے اور نقد جائز ہے۔ اسی طرح اگر قاضی کا فیصلہ دراہم پر تھا اور انھوں نے غیر معین سامان پر صلح کی تو ناجائز ہے اور معین پر جائز ہے، مجلس میں قبضہ کریں یا نہ کریں (عالمگیری ص ۲۰ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۱۸ ج ۸)
مسئلہ ۱۸۲ : قضاء قاضی اور فریقین کی دیت معین پر رضامندی سے پہلے اگر فریقین ان اموال پر صلح کرنا چاہیں جو دیت میں لازم ہوتے ہیں تو دیت کی مقدار سے زائد پر صلح ناجائز ہے اگرچہ نقد پر ہو اور کم پر نقد و ادھار دونوں طرح جائز ہے اور اگر دیت کے مقررہ اموال کے علاوہ کسی دوسری چیز پر صلح کرنا چاہیں تو ادھار ناجائز ہے اور نقد جائز ہے۔ (عالمگیری از محیط ص ۲۰ ج ۶)
مسئلہ ۱۸۳ : کسی شخص نے عمداً قتل کیا اور مقتول کے دو ولی ہیں ۔ ایک ولی نے کل خون کے بدلے میں پچاس ہزار (۰۰۰،۵۰) پر صلح کر لی تو اس کو پچیس ہزار (۰۰۰،۲۵) ملیں گے اور دوسرے کو نصف دیت ملے گی (عالمگیری ص ۲۰ ج ۶)
مسئلہ ۱۸۴ : مقتول کے ورثاء میں سے مرد ،عورت ،ماں ، دادی وغیرہ کسی ایک نے قصاص معاف کر دیا یا بیوی کا قصاص شوہر نے معاف کر دیا تو قاتل سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ (عالمگیری ص ۲۰ ج ۶)
مسئلہ ۱۸۵ : اگر ورثاء میں سے کسی نے قصاص کے اپنے حق کے بدلے میں مال پر صلح کر لی یا معاف کر دیا تو باقی ورثاء کا قصاص کا حق ساقط ہو جائے گااور دیت سے اپنا حصہ پائیں گے اور معاف کرنے والے کو کچھ نہیں ملے گا (عالمگیری ص ۲۱ ج ۶)
مسئلہ ۱۸۶ : قصاص کے دو مستحق اشخاص میں سے ایک نے معاف کر دیا تو دوسرے کو نصف دیت تین سال میں قاتل کے مال سے ملے گی۔ (عالمگیری ص ۲۱ ج ۶، از کافی)
مسئلہ ۱۸۷ : دو اولیاء میں سے ایک نے قصاص معاف کر دیا دوسرے نے یہ جانتے ہوئے کہ اب قاتل کو قتل کرنا حرام ہے، قتل کر دیا تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ اور اس کو اصل قاتل کے مال سے نصف دیت ملے گی اور اگر حرمت قتل کا علم نہ تھا، تو اس پر اپنے مال میں اصل قاتل کے لئے دیت ہے۔ دوسرے ولی کے معاف کرنے کو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ (ہندیہ ص ۲۱ ج ۶ از محیط)
مسئلہ ۱۸۸ : کسی نے دو اشخاص کو قتل کر دیا اور ان دونوں کا ولی ایک شخص ہے اس نے ایک مقتول کا قصاص معاف کر دیا تو اسے دوسرے مقتول کے قصاص میں قتل کرنے کا حق نہیں ہے (عالمگیری ص ۲۱ ج ۶، از جوہرہ نیرہ)
مسئلہ ۱۸۹ : دو قاتلوں میں سے ولی نے ایک کو معاف کر دیا تو دوسرے سے قصاص لیا جائے گا (عالمگیری ص ۲۱ ج ۶، از محیط، قاضی خان ص ۳۹۰ ج ۴)
مسئلہ ۱۹۰ : کسی نے دو اشخاص کو قتل کر دیا ایک مقتول کے ولی نے قاتل کو معاف کر دیا تو دوسرے مقتول کا ولی اس کو قصاص میں قتل کرسکتا ہے (عالمگیری ص ۲۱ ج ۶، از سراج الوہاج قاضی خان ص ۳۹۰ ج ۴)
مسئلہ ۱۹۱ : مجروح کی موت سے قبل ولی نے معاف کر دیا تو استحسانا ًجائز ہے (عالمگیری ص ۲۱ ج ۶، از محیط)
مسئلہ ۱۹۲ : کسی نے کسی کو قصداً قتل کر دیا اور ولی مقتول کے لئے قاضی نے قصاص کا فیصلہ کر دیا اور ولی نے کسی شخص کو اس کے قتل کا حکم دیا۔ پھر کسی شخص نے ولی سے معافی کی درخواست کی اور ولی نے قاتل کو معاف کر دیا مامور کو اس معافی کا علم نہیں ہوا اور اس نے قتل کر دیا تو مامور پر دیت لازم ہے اور وہ ولی سے یہ دیت وصول کر لے گا۔ (عالمگیری ص ۲۱ ج ۶، از ظہیریہ)
مسئلہ ۱۹۳ : ولی یا وصی کو نابالغ مقتول کے خون کو معاف کرنے کا حق نہیں ۔ (عالمگیری ص ۲۱ ج ۶، از محیط سرخسی قاضی خاں ص ۳۰ ج ۴)
مسئلہ ۱۹۴ : کسی نے کسی کے بھائی کو عمداً قتل کر دیا اور مقتول کے بھائی نے گواہ پیش کئے کہ اس کے سوا مقتول کا کوئی اور وارث نہیں ہے اور قاتل نے گواہ پیش کئے کہ مقتول کا بیٹا زندہ ہے تو ابھی فیصلہ ملتوی رہے گا۔ اگر قاتل نے گواہ پیش کئے کہ مقتول کے بیٹے نے دیت پر صلح کر کے قبضہ بھی کر لیا ہے یا اس نے معاف کر دیا ہے تو قاتل کے گواہوں کی شہادت قبول ہوگی۔ اس کے بعد بیٹا اگر اس کا انکار کرے تو قاتل کو بیٹے کے مقابلے میں دوبارہ گواہ پیش کرنے ہوں گے اور بھائی کے مقابلے میں جو شہادتیں پیش کی تھی کافی نہیں ہوگی۔ (قاضی خان ص ۳۹۷ ج ۴، عالمگیری ص ۲۱ ج ۶)
مسئلہ ۱۹۵ : مقتول کے دو بھائی ہیں اور قاتل نے گواہ پیش کئے کہ ایک غائب بھائی نے مال پر مجھ سے صلح کر لی ہے تو یہ شہادت قبول کر لی جائے گی پھر اگر اس غائب بھائی نے آکر صلح کا انکار کیا تو دوبارہ گواہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس صورت میں حاضر بھائی کو نصف دیت مل جائے گی۔ اور غائب کو کچھ نہیں ملے گا۔ (قاضی خان ص ۳۹۸ ج ۴، ہندیہ ص ۲۱ ج ۶)
مسئلہ ۱۹۶ : مقتول کے دو اولیاء میں سے ایک غائب ہے اور قاتل نے گواہ پیش کئے کہ غائب نے معاف کر دیا ہے تو یہ شہادت قبول کر لی جائے گی اور غائب کے حق میں معافی مان لی جائے گی اور اس عفو کے فیصلے کے بعد غائب کے آنے پر دوبارہ شہادت کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر قاتل غائب کی معافی کا دعوی کرتا ہے اور اس کے پاس گواہ نہیں ہیں لیکن چاہتا ہے کہ حاضر کو قسم دی جائے تو یہ فیصلہ غائب کے آنے تک ملتوی رکھا جائے گا۔ پھر اگر غائب نے آکر معافی کا انکار کیا اور قسم کھائی تو قاتل سے قصاص لیا جائے گا۔ (عالمگیری ص ۲۱ ج ۶، مبسوط ص ۱۶۲ ج ۲۶)
مسئلہ ۱۹۷ : قاتل کہتا ہے کہ ولی غائب کے معاف کرنے کے گواہ میرے پاس ہیں تو قاضی گواہوں کو پیش کرنے کے لئے اپنی صوابدید کے مطابق مہلت دے دے اور ابھی فیصلہ نہ کرے۔ مقررہ مدت گزرنے کے بعد یا ابتداء مقدمہ ہی میں قاتل نے گواہوں کے غائب ہونے کی بات کہی تو استحساناً اب بھی فیصلہ ملتوی رکھے۔ ہاں اگر قاضی کا گمان غالب یہ ہو کہ قاتل جھوٹا ہے اس کے پاس گواہ نہیں ہیں تو قصاص کا حکم دے سکتا ہے۔ (ہندیہ ص ۲۱ ج ۶، مبسوط ص ۱۶۲ ج ۲۶)
مسئلہ ۱۹۸ : دو اولیاء میں سے ایک نے دوسرے کے عفو کی شہادت پیش کی تو اس کی پانچ صورتیں ہوں گی۔
(۱) قاتل اور دوسرا ولی اس کی تصدیق کریں ۔
(۲) دونوں اس کی تکذیب کریں ۔
(۳) ولی تکذیب کرے اور قاتل تصدیق کرے۔
(۴) ولی تصدیق کرے اور قاتل تکذیب کرے۔
(۵) دونوں سکوت اختیار کریں ۔
تو قصاص ہر صورت میں معاف ہو جائے گا۔ لیکن دیت میں سے عفو کی گواہی دینے والے کو نصف دیت ملے گی۔ اگر عفو پر تینوں متفق تھے اور اگر قاتل اور ولی آخر نے اس کی تکذیب کی تھی تو اس کو کچھ نہیں ملے گا اور سکوت کرنے کی صورت میں ولی آخر کو نصف دیت ملے گی اور اگر ولی آخر نے اس کی تکذیب کی تھی اور قاتل نے تصدیق کی تھی تو ہر ایک ولی کو نصف نصف دیت ملے گی۔ اور اگر قاتل نے شہات دینے والے ولی کی تکذیب کی اور ولی آخر نے تصدیق کی تو ولی اول کو نصف دیت ملے گی اور ولی آخر کو کچھ نہیں ملے گا۔ (مبسوط ص ۱۵۵ ج ۲۶، عالمگیری ص ۲۱ ج ۶)
مسئلہ ۱۹۹ : اگر دو اولیاء میں سے ہر ایک دوسرے کے معاف کرنے کی گواہی دیتا ہے تو دونوں کی گواہی بیک وقت ہے یا اوقات مختلفہ میں اگر دونوں نے بیک وقت گواہی دی تو دونوں کا حق باطل ہو جائے گا۔ قاتل ان کی تکذیب کرے یا بیک وقت تصدیق کرے۔ اور اگر قاتل نے مختلف اوقات میں دونوں کی تصدیق کی تو دونوں کو نصف نصف دیت ملے گی۔ اور اگر قاتل نے ایک کی تصدیق کی اور ایک کی تکذیب کی تو جس کی تصدیق ہے اس کو نصف دیت ملے گی۔ اور اگر دونوں نے مختلف اوقات میں شہادت دی تھی اور قاتل نے دونوں کی تکذیب کی تو بعد کے شہادت دینے والے کے لئے نصف دیت ہے اور پہلے شہادت دینے والے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح اگر قاتل نے دونوں کی بیک وقت تصدیق کی تب بھی پہلے گواہی دینے والے کو کچھ نہیں ملے گا۔ اور بعد میں گواہی دینے والے کو نصف دیت ملے گی۔ اور اگر قاتل نے مختلف اوقات میں دونوں کی تصدیق کی تو دونوں کو نصف نصف دیت ملے گی اور اگر قاتل نے پہلے گواہی دینے والے کی تصدیق کی اور دوسرے کی تکذیب، جب بھی دونوں کے لئے پوری دیت کا ضامن ہوگا، اور اگر بعد کے شہادت دینے والے کی تصدیق کی ا ور پہلے والے کی تکذیب تو بعد والے کو نصف دیت ملے گی اور پہلے کو کچھ نہیں ملے گا۔ (عالمگیری ص ۶۲ ج ۶ از محیط)
مسئلہ ۲۰۰ : مقتول کے تین ولی ہیں ۔ ان میں سے دو نے گواہی دی کہ تیسرے نے معاف کر دیا ہے تو اس کی چار صورتیں ہیں ۔
(۱) قاتل اور تیسرا ولی ان دونوں کی تصدیق کریں تو تیسرے کا حق باطل ہو جائے گا اور دونوں گواہی دینے والوں کا حق قصاص سے مال کی طرف منتقل ہو جائے گا۔
(۲) اور اگر قاتل اور تیسرا ولی دونوں گواہی دینے والوں کی تکذیب کریں تو گواہی دینے والوں کا حق باطل ہو جائے گا اور تیسرے کا حق قصاص سے مال کی طرف منتقل ہو جائے گا۔
(۳) اور اگر صرف تیسرے ولی نے دونوں گواہی دینے والوں کی تصدیق کی تو قاتل دونوں گواہی دینے والوں کے لئے ایک تہائی دیت کا ضامن ہوگا ۔
(۴) اور اگر صرف قاتل نے دونوں گواہی دینے والوں کی تصدیق کی تو تینوں اولیاء کو ایک ایک تہائی دیت ملے گی (عالمگیری ص ۲۲ ج ۶ از محیط، تبیین الحقائق ص ۱۲۲ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۲۱ ج ۸)
مسئلہ ۲۰۱ : مقتول خطا ئً کے وارثوں میں سے دو نے گواہی دی کہ بعض وارثوں نے اپنا حصہ دیت معاف کر دیا ہے اگر یہ گواہی دینے سے پہلے اپنے حصہ پر انھوں نے قبضہ نہیں کیا ہے تو یہ گواہی قبول کر لی جائے گی۔ (عالمگیری ص ۲۲ ج ۶)
مسئلہ ۲۰۲ : بہت سے لوگ جمع ہو کر ایک بائولے کتے کو تیر مار رہے تھے کہ ایک تیر غلطی سے کسی بچے کے لگ گیا اور وہ مرگیا، لوگوں نے گواہی دی کہ یہ تیر فلاں شخص کا ہے لیکن یہ گواہی نہیں دیتے کہ فلاں شخص نے یہ تیر مارا ہے بچہ کے باپ نے اس تیر والے سے صلح کر لی تو اگر یہ جانتے ہوئے صلح کی ہے کہ اسی کا پھینکا ہوا تیر بچے کو لگ کر اس کی موت کا سبب بنا ہے تو یہ صلح جائز ہے اور اگر تیر کی شناخت کے سوا اور کوئی دلیل نہ ہو تو صلح باطل ہے اگر تیر انداز کا علم تو ہے مگر تیر لگنے کے بعد باپ نے بڑھ کر بچہ کو طمانچہ مارا اور بچہ گر کر مرگیا۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ موت کا سبب تیر ہوا یا طمانچہ، تو اس صورت میں اگر دوسرے ورثا مقتول کی اجازت سے باپ نے صلح کی تو یہ صلح جائز ہے اور صلح کا مال سب ورثاء میں تقسیم ہوگا اور باپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ اور اگر ورثاء کی اجازت کے بغیر صلح کی ہے تو یہ صلح باطل ہے۔ (عالمگیری ص ۲۲ ج ۶، بحرالرائق ص ۲۱۸ ج ۸)
مسئلہ ۲۰۳ : کسی نے کسی کے سر پر خطاء ًدو گہرے زخم لگائے۔ زخمی نے ایک زخم اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات کو معاف کر دیا اس کے بعد زخمی مرگیا تو اگر جرم کا ثبوت اقرار مجرم سے ہوا تھا تو یہ عفو باطل ہے اور مجرم کے مال میں دیت لازم ہوگی۔ اور اگر جرم کا ثبوت گواہی سے ہوا تھا تو یہ عفو عاقلہ کے حق میں وصیت مانا جائے گا اور نصف دیت عاقلہ پر معاف ہو جائے گی اگر مقتول کے کل ترکہ کے تہائی سے زیادہ نہ ہو اور اگر یہ دونوں زخم قصداً لگائے ہوں اور صورت یہی ہو تو مجرم پر کچھ لازم نہیں ہوگا نہ قصاص نہ دیت۔ (عالمگیری ص ۲۳ ج ۶)
مسئلہ ۲۰۴ : اگر کسی نے کسی کا سر قصداً پھاڑ دیا ۔مجروح نے مجرم کو زخم اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات سے معاف کر دیا۔ اس کے بعد مجرم نے عمداً ایک اور زخم لگا دیا۔ زخمی نے اس کو معاف نہیں کیا اور مرگیا تو قصاص نہیں لیا جائے گا۔ لیکن پوری دیت ۳ سال میں لی جائے گی۔ (عالمگیری ص ۲۳ ج ۶)
مسئلہ ۲۰۵ : کسی نے کسی کو قصداً گہرا زخم لگایا۔ پھر مجروح سے زخم اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات سے معین مال پر صلح کر لی اور مجروح نے مال پر قبضہ بھی کر لیا۔ اس کے بعد کسی دوسرے شخص نے اس مجروح کو گہرا زخم قصداً لگایا۔ مجروح دونوں زخموں کی وجہ سے مرگیا تو دوسرے جارح سے قصاص لیا جائے گا اور پہلے پر کچھ لازم نہیں ہے اور اگر مجروح نے دونوں زخم کھانے کے بعد مجرم اول سے صلح کی تب بھی یہی حکم ہے۔ (عالمگیری ص ۲۳ ج ۶)
مسئلہ ۲۰۶ : کسی نے کسی کو قصداً گہرا زخم لگایا پھر زخم اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات کے بدلہ میں دس ہزار درہم پر صلح کر کے مجروح کو ادا بھی کر دئے۔ پھر کسی دوسرے شخص نے اسی مجروح کو خطائً زخمی کر دیا اور مجروح دونوں زخموں سے مرگیا تو دوسرے جارح کے عاقلہ پر نصف دیت لازم ہوگی۔ اور پہلا جارح مقتول کے مال میں سے پانچ ہزار درہم واپس لے لے گا۔ (عالمگیری ص ۲۳ ج ۶)
مسئلہ ۲۰۷ : کسی نے بچے کا دانت اکھیڑ دیا یا کسی عورت کا سر مونڈ دیا اس کے بعد مجرم نے بچہ کے باپ سے یا اس عورت سے مال پر صلح کر لی۔ اس کے بعد عورت کے سر پر بال نکل آئے یا بچہ کا دانت نکل آیا تو اس مال کا واپس کر دینا لازمی ہے اور یہی صورت اس صورت میں بھی ہے۔ جب کسی کا ہاتھ توڑ دیا ہو اور اس سے مال پر صلح کر لی ہو اور اس کے بعد پلاسٹر کر دیا گیا ہو اور ہڈی جڑ گئی ہو۔ پھر اگر ہاتھ ٹوٹنے والا یہ کہے کہ میرا ہاتھ پہلے سے کمزور ہوگیا ہے اور جیسا تھا ویسا نہیں ہوا تو کسی ماہر فن سے تحقیقات کرائی جائے گی۔ (بحرالرائق ص ۳۱۸ ج ۸)
مسئلہ ۲۰۸ : قصاص کا حق ہر اس وارث کو ہے جس کا حصہ میراث قرآن میں معین کر دیا گیا ہے۔ اور دیت کا بھی یہی حکم ہے (قاضی خان ص ۳۹۰ ج ۴)
مسئلہ ۲۰۹ : اگر سب ورثاء بالغ ہوں تو سب کی موجودگی میں قصاص لیا جائے گا۔ صرف بعض کو قصاص لینے کا حق نہیں ہے۔ اور اگر بعض ورثاء بالغ ہیں اور بعض نابالغ ہیں تو بالغ ورثاء ابھی قصاص لے لیں گے اور نابالغوں کے بلوغ کا انتظار نہیں کریں گے۔ (قاضی خان ص ۳۹۰ ج ۴)
مسئلہ ۲۱۰ : مقتول فی العمد کے بعض ورثاء نے قاتل کو معاف کر دیا پھر باقی ورثاء نے یہ جانتے ہوئے قاتل کو قتل کر دیا کہ بعض کے معاف کر دینے سے قصاص ساقط ہو جاتا ہے تو ان سے قصاص لیا جائے گا اور اگر یہ حکم ان کو معلوم نہیں اور قاتل کو قتل کر دیا اگرچہ بعض کے معاف کر دینے کو جانتے ہوں تو ان سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ (قاضی خان ص ۳۸۹ ج ۴)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔