سوال:
ہم کسی گاہک کو مال تجارت ادھار اس شرط پر دیتے ہیں اگر اس کی ادائیگی 3 ماہ میں کی جائے گی تو 15 فیصد نفع لیں گے اور اگر اس کی ادائیگی کا ہک 6 ماہ میں کرے گا تو 18 فیصد نفع لیں گے، کیا یہ سود کے زمرے میں آئے گا ؟
جواب:
بیع کے صحیح ہونے کی شرط بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی اور ثمن ( قیمت ) کا معین ہونا ہے، کیونکہ یہاں ثمن متعین نہیں ہے بلکہ مدت کے عوض قیمت بڑھ جاتی ہے ، یہ سود ہے ۔ اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ ثمن اور مدت کا تعین کر لیں اور ادائیگی میں تاخیر کے سبب قیمت میں اضافہ نہ ہو۔
قسطوں پر سامان لینے پر جو اضافی رقم ادا کی جاتی ہے ،وہ سود میں شمار نہیں ہوتی ۔مفتی وقار الدین قادری علیہ الرحمۃ سے سوال کیا گیا کہ: (قسطوں پر سامان لینا کیسا ہے؟ مثلاً ایک چیز کی قیمت نقد =/17,000 روپے ہے اور قسطوں پر ہم اس چیز کو لیتے ہیں تو اس کی قیمت =/21,000 روپے ہو جاتی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ نقد رقم سے جو زیادہ روپے دینے پڑتے ہیں ، یہ سود ہے یا نہیں؟ ) ۔ مالک بتا دیتا ہے کہ آپ قسطوں پر لیں گے تو آپ کو اتنے روپے زیادہ دینے پڑیں گے‘‘؟ ) آپ نے جواب میں لکھا :” فقہاء نے لکھا ہے کہ نقد اور ادھار کی قیمتوں میں فرق کرنا جائز ہے اور اس طرح بیع کرنا کہ یہ چیز نقد دس روپے کی ہے اور ادھار پندرہ روپے کی ، یہ جائز ہے ۔لہذا صورت مسئولہ میں قسطوں پر سامان لینا جائز ہے اور قسطوں کی صورت میں جوز یادو پیہ دیا جاتا ہے ، یہ سود نہیں ہے ۔ اس میں ناجائز ہونے کی صورت مندرجہ ذیل ہو گی کہ اگر مالک سے قیمت متعین کر کے کوئی چیز خریدی گئی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اتنے روپے مالک کے خریدار کے ذمے واجب ہیں اور خریدار اس چیز کا مالک ہو گیا اب خریدار مالک کو یہ رو پیہ نقد نہ دے بلکہ یہ کہے کہ میں قسطوں میں اس سے زیادہ ادا کروں گا تو اس صورت میں یہ زیادتی سود ہے اور حرام ہے،( وقار الفتاوی ، جلد سوم:271)‘‘۔
البتہ علامہ مفتی وقار الدین رحمہ اللہ تعالی نے جو یہ لکھا ہے ‘” یہ چیز نقد دس روپے کی ہے اور ادھار پندرہ روپے کی ہے، یہ جائز ہے۔“ یہ درست نہیں کہ ثمن کو معلق رکھ کر بات کی جائے ، بلکہ کسی ایک قیمت کا بیع کے وقت متعین کرنا ضروری ہے ۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ کتابت کی غلطی ہو ۔ ثمن مؤجل (Deffered Payment )کی صورت میں عقد کے وقت ثمن کا تعین اور ادائیگی کی مدت کا تعین ضروری ہے۔
(تفہیم المسائل، جلد7،صفحہ 332،ضیا القرآن پبلی کیشنز، لاہور)
Leave a Reply