ایمان و کفر کا بیان
ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین میں ہیں اور کسی ایک ضرورت دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں (شامی ج ۳ ص ۳۹۱) اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو۔ ضروریاتِ دین وہ مسائل ہیں کو ہر خاص و عام جائتے ہیں ۔ جیسے اللہ عزوجّل کی وحدانیت، انبیاء کی نبوت، ت و نار، حشر و نشر وغیرہا مثلاً یہ اعتقاد کہ حضور اقدس ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ حضور کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا۔ عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو طبقہ علماء میں شریک کئے جاتے ہوں۔ مگر علماء کی صحبت سے شرفیاب ہوں۔ اور مسائل علمیہ سے ذوق رکھتے ہوں نہ وہ کہ کوروہ اور گل اور پہاڑوں کے رہنے والے ہوں جو کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے نہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اس میں ضروری نہ کر دے گا۔ البتہ ان کے مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ضروریاتِ دین کے منکر نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے ۔ ان سب پر اجمالاً ایما ن لائے ہوں (شامی ج ۳ ص ۳۹۱ بحوالہ شرح مقاصد و شرح التحریر)۔
عقیدہ ۱ : اصل ایمان صرف تصدیق کا نام ہے ۔ اعمال بدن تو اصلاً جز و ایمان نہیں رہا اقرار اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر تصدیق کے بعد اس کو اظہار کا موقع نہ ملا تو عنداللہ مومن ہے اور اگر موقع ملا اور اس سے مطالبہ کیا گیا اور اقرار نہ کیا تو کافر ہے اور اگر مطالبہ نہ کیا گیا تو احکام دنیا میں کافر سجھا جائے گا نہ اس کے ازہ کی نماز پڑھیں گے نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں گے ۔ مگر عنداللہ مومن ہے ۔ اگر کوئی امر خلافِ اسلام ظاہر نہ کیا ہو (شامی ج ۳ ص ۳۹۲) ۔
عقیدہ ۲ : مسلمان ہونے کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ زبان سے کسی ایسی چیز کا انکار نہ کرے، جو ضروریاتِ دین سے ہے اگرچہ باقی باتوں کا اقرار کرتا ہو۔ اگرچہ ہو یہ کہے کہ صرف زبان سے انکار ہے۔ دل میں انکار نہیں (فتاویٰ عالمگیری ص ۳۶۲) کہ بلا اکراہ شرعی مسلمان کلمہ کفر صادر نہیں کر سکتا وہی شخص ایسی بات منہ پر لائے گا جس کے دل میں اتنی ہی وقعت ہے کہ جب چاہا انکار کر دیا اور ایمان تو ایسی تصدیق ہے جس کے خلاف کی اصلاً گنجائش نہیں۔
مسئلہ ۱ : اگر معاذاللہ کلمہ کفر جاری کرنے پر کوئی شخص مجبور کیا گیا یعنی اسے مار ڈالنے یا اس کا عضو کاٹ ڈالنے کی صحیح دھمکی کی گئی کہ یہ دھمکانے والے کو اس بات کے کرنے پر قادر سمجھے تو ایسی حالت میں اس کو رخصت دی گئی (شامی ج ۳ ص ۳۹۴) مگر یہ شرط یہ ہے دل میں وہی اطمنیان ایمانی ہو جو پیشتر تھا مگر افضل جب بھی یہی ہے کہ قتل ہو جائے اور کلمہ کفر نہ کہے۔
مسئلہ ۲ : عمل جوارح داخل ایمان نہیں البتہ بعض اعمال جو قطعاً منافی ایمان ہوں ان کے مرتکب کو کافر کہا جائے گا جیسے بُت یا چاند سورج کو سجدہ کرنا اور قتل نبی یا نبی کی توہین یا مصحف شریف یا کعبہ معظمہ می توہین اور کسی سنت کو ہلکا بتانا یہ باتیں یقینا کُفر ہیں (شامی ج ۳ ص ۳۹۲ بحوالہ شرح مقاصد) یونہی بعض کفر کی علامت ہیں جیسے زنّار باندھنا، سر پر چوٹیاں رکھنا، قشقہ لگانا ایسے افعال کے مرتکب کو فقہائے کرام کافر کہتے ہیں تو جب ان اعمال سے کفر لازم ہوتا ہے تو ان کے مرتکب کو ازسزِنو اسلام لانے اور اس کے بعد اپنی عورت سے تجدید نکاح کا حکم دیا ہے (فتاوٰی عالمگیریہ ص ۲۷۲)۔
عقیدہ ۳ : جس چیز کی حلّت نص قطعی سے ثابت ہو اس کو حرام کہنا اور جس ی حرمت یقینی ہو اسے حلال بتانا کفر ہے جب یہ حکم ضرویاتِ دین سے ہو یا منفر اس حکم قطعی سے آگا ہ ہو۔
مسئلہ ۴ : اصول عقائک میں تقلید جائز نہیں بلکہ جو بات ہو یقین قطعی کے ساتھ ہو خواہ وہ یقین کسی طرح بھی حاصل ہو اس کے اصول میں بالخصوص علم استدلالی کی حاجت نہیں ہاں بعض فورع عقئد میں تقلید ہو سکتی ہے اسی بنا پر خود اہلِ سنت میں دو گروہ ہیں ماقرید کہ کہ امام الہدیٰ حضرت ابو منصور ماتریدی رضہ اللہ تعالیٰ ونہ کے متبع ہوئے اور اشاعرہ کے حضرت امام شیخ ابوا الحسن اشعری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے تابع ہیں دونوں جماعتیں اہلِ سنت ہی کی ہیں اور دونوں حق پر ہیں آپس میں صرف بعض فروع کا اختلاف ہے ان کا اختلاف حنفی شافع کا سا ہے کہ دونوں اہلِ حق ہیں کوئی کسی کی تذلیل و تفسیق نہیں کر سکتا۔
مسئلہ ۴ : ایمان قابل زیادتی و بقصان نہیں اس لئے کہ کمی بیشی اس میں ہو تی ہے جو مقدار لمبائی چوڑائی موٹائی یا گنتی تکھتا ہو اور ایمان تصدیق ہے اور تصدیقِ کیف یعنی ایک حالت اذعانیہ بعض آیات میں ایمان کا زیادہ ہونا جو فرمایا ہے اس سے مراد مُومن بہ و مصدّق ہے یعنی جس پر ایمان لایا گیا اور جس کی تصدیق کی گئی کہ زمانہ نشول قرآن میں اس کی کوئی حد معین نہ تھی بلکہ احکام نازل ہوتے رہتے اور جو حکم نازل ہوتا اس پر ایمان لازم ہوتا کہ کہ خود جفس ایمان بڑھ گھٹ جاتا ہو البتہ ایمان قابل شدت و ضوف ہے کہ یہ کیف کے عارض سے ہیں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تنہا ایمان اس امت کے تمام افرد کیکے مجموع ایمانوں پر غالب ہے۔
عقیدہ ۴ : ایمان و کفر میں واسطہ نہیں یعنی آدمی یا مسلمان ہو گا یا کافر، تیسری صورت کوئی نہیں کہ نہ مسلمان ہو نہ کافر۔
مسئلہ ۵ : نفاق کہ زبان سے دعویٰ اسلام کرتا اور دل میں اسلام سے انکار یہ خالص کفر ہے بلکہ ایسے لوگوں کے لئے جہنم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے ۔ حضور اقدس ﷺ کے زمانہ اقدس میں کچھ لوگ اس صفت کے اس نام کے ساتھ مشہور جہوئے کہ ان کے کفر باطنی پر قرآن ناطق ہوا نیز نبی ﷺ نے اپنے وسیع علم سے ایک ایک کو پہچانا اور فرمادیا کہ یہ منافق ہے اب اس میں زمانہ میں کسی خاص شخص کی نسبت قطع کے ساتھ منافق نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے سامنے جو دعویٰ اسلام کرے ہم اس کو مسلمان ہی سمجھیں گے، جب تک اس سے وہ قول یا فعل جو منافی ایمان ہے نہ صادرہو۔ البتہ نفاق کی ایک شاخ اس زمانہ میں پائی جاتی ہے کو بہت سے بد مذہب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور دیکھا جاتا ہے تو دعویٰ اسلام کے ساتھ ضروریات دین کا انکار بھی ہے۔
عقیدہ ۵ : شرک کے معنی غیر خدا کو واجب الوجود یا مستحق عبادت جاننا یعنی الوُ ہیت میں دوسرے کو شریک کرنا۔(شرح عقائد ص ۵۶) اور یہ کفر کیس سب سب بد تر قسم ہے اس کے سوا کوئی بات اگرچہ کیسی یہ شدید کفر ہو حقیقتہً شرک نہیں و لہذٰا شرع مطہر نے اہلِ کتان کفّار کے احکام مشرکین کے احکام سے جدا فرمائے۔ کتابی کا ذبیحہ حلال، مشرک کا مُردار۔ کتابیہ سے نکاح ہو سکتا ہے۔ مشرکہ سے نہیں ہو سکتا۔( قرآن کریم مائدہ طُعام )
اَلَّذَیْنَ اُوْقُو الْکِتَاَب حَلٌ لَّکُمْ الآیہ (۵)
امام شافعی کے بزدیک کتابی سے جزیہ لیا جائے گا مشرک سے نہ لیا جائے گا وہ اس معنی پر ہے یعنی اصلا کسی کفر کی مغفرت نہ ہو گی۔ باقی سب گناہ اللہ عزّوجل کی مشیت پر ہے جسے چاہے بخش دے۔ (شرح عقائد ص ۷۷،۸۰)۔
عقیدہ ۶ : مرتکب کبیرہ مسلمان ہے اور ت میں جائے گا خواہ اللہ عزّوجل اپنے محض فضل سے اس کی مغفرت فرما دے یا حضور اقدس ﷺ کی شفاعت کے بعد یا اپنے کئے کی سزا پا کر اس کے بعد کبھی ت سے نہ نکلے گا
مسئلہ ۶ : جو کسی کافر کے لئے اس کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا کرے یا کسی مردہ مُرتد کو مرحوم یا مغفوریا کسی مُردہ ہندو کو بیکنٹھ باشی کہے وہ کافر ہے ۔
عقیدہ ۷ : مسلمان کو مسلمان کافر کو کافر جاننا ضروریاتِ دین سے ہے ۔ اگرچہ کسی خاص شخص کی نسبت یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا خاتمہ ایمان یا معاذاللہ کفر پر ہوا۔ تاوقتیکہ اس کے خاتمہ کا حال دلیلِ شرعی سے ثابت نہ ہو مگر اس سے یہ نہ ہو گا کہ جس شخص نے قطعاً کفر کیا ہو اس کے کُفر میںشک کیا جائے کو قطعی کافر کے کفر میں شک بھی آدمی کو کافر بنا دیتا ہے خاتمہ پر بنا روز قیامت اور ظاہر پر مدار حکمِ شرع ہے اس کی یوں سمجھو کہ کوئی کافر مثلاً یہودی یا نصرانی یا بت پرست مر گیا تو یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کفر پر مرا مگر ہم کو اللہ و رسول کا حکم یہی ہے کہ اسے کافر ہی جانیں اس کی زندگی میں اور موت کے بعد تمام وہی معاملات اس کے ساتھ کریں جو کافروں کے لئے ہیں مثلاً میل جول شادی بیاہ، نمازِ ازہ، کفن دفن جب اس نے کفر کیا تو فرض ہے کہ ہم اسے کافر ہی جانیں اور خاتمہ ایمان نہ ہو فرض ہے کہ ہم اسے مسلمان ہی مانیں اگرچہ ہمیں اس کے خاتمہ کا بھی حال معلوم نہیں اس زماناہ میں بعض لوگ یہ کہتے ہیں کو میاں جتنے دیر اسے کافر کہو گے اتنی دیر اللہ اللہ کرو یہ ثواب کی بات ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ کافر کافر کا وظیفہ کرلو مقصود ہی ہے کہ اسے کافر جانو اور پوچھا جائے تو قطعاً کافر کہو یہ نہ کہ اپنی صلح کل سے اس کے کُفر پر پردہ ڈالو۔
تنبیہ ضروری: حدیث میں ہے:
َسَتَفْتَرِقُ اُمَّتِیْ ثَلٰثًا وَ سَبْعِیْنَ فَرْقَۃً کُلُّھُمْ فَی النَّارِ الاَّ وَاحِدۃً
(ابو داؤد ج ۲ ص ۶۳۱)
یہ امُت تہتّر فرقے ہو جائے گی ایک فرقہ تی ہو گا باقی سب جہنمی ۔ صحابہ نے عرض کی:
مَنْ ھُمْ یَا رَسُوْلَ الّٰلہِ
(وہ ناجی فرقہ کون ہے یا رسول اللہ)
فرمایا:
مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابیِْ
(وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں)
یعنی سنّت کے پیر و دوسری روایت میں ہے۔ فرمایا:
ھُمُ الْجَمَاعَۃُ
(وہ جماعت ہے)
یعنی مسلمانوں کا بڑا گروہ ہے جسے سوادِ اعظم فرمایا اور فرمایا جو اس سے الگ ہوا جہنم میں الگ ہوا اسی وجہ سے اس ناجی فرقہ کا نام اہلِ سنت و جماعت ہوا ان گمراہ فرقوں میں بہت سے پیدا ہو کر ختم ہو گئے، بعض ہندوستان میں نہیں، ان فرقوں کے ذکر کی ہمیں کیا حاجت کہ نہ وہ ہیں نہ ان کا فتنہ پھر ان کے تذکرہ سے کیا مطلب جو ہندوستان اور پاکستان میں ہیں مختصراً ان کے عقائدکا ذکر کیا جاتا ہے کہ ہمارے عوام بھائی ان کے فرعب میں نہ آئیں کہ حدیث میں ارشا ہوتا ہے :
وَ اِیَّاھُمْ لاَ یَضِلُّوْنَ کُمْ وَلاَ یَفْتَنُوْنَکُمْ
(اپنے کو ان سے دور دکھو اور انہیں اپنے سے دور کرو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں کہیں وہ تمہیں فرقہ میں نہ ڈال دیں)
(۱) قادیانی کہ مرزا غلام احم قادیانی کے پیرو ہیں اس شخص نے اپنے نبوت کا دعوعٰ کیا اور انبیائے کرام علیہم السَّلام کی شان میں نہایت بیباکی کے ساتھ گستاخیاں کیں خصوصاً حضرت عیسیٰ روح اللہ وکلمتہ اللہ علیہ الصلاۃ والسّلام اور ان کی والدہ ماجدہ طیبہ طاہرہ صدیقہ مریم کی شانِ جلیل میں تو وہ بیہودہ کلمات استعمال کئے کے ذکر سے مسلمانوں کے دل ہل جائے ہیں مگر ضرورتِ زمانہ مجبور کر رہی ہے کہ لوگوں کے سامنے ان میں کے چند نمونہ ذکر کئے جائیں، خود مدعی نبوّت بننا کافر ہونے اور ابد الا باد جہنم میں رہنے کے لئے کافی تھا کہ قرآنِ مجید کا انکار اور حضورِ خاتم النبیین ﷺ کو خاتم النبیین نہ ماننا ہے کگر اس نے اتنی ہی بات پر اکتفا نہ کیا بلکہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسّلام کی تکذیب و توہین کا وبال بھی اپنے سر لیں اور یہ صدیا کُفر کا مجموعہ ہے کہ ہر نبی کی تکذیب مستقلاً کفر ہے اگرچہ باقی انبیاء و دیگر ضروریات کا قائل بنتا ہو بلکہ کسی ایک نبی کی تکذیب سب کی تکذیب ہے چنانچہ آیہ :
کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ ن الْمُرْسَلِیْنَ
وغیرہ اس کی شاہد ہیں اور اس نے تو صدہا کی تکذیب کی اور اپنے کو نبی سے بہتر بنایا ایسے شخص اور اس کے متّبِعین کے کافر ہونے میں مسلمانوں کو ہرگز شک نہیں ہو سکتا بلکہ ایسے کی تکفیر میں اس کے اقوال پر مطلع ہو کر جو شک کرے خود کافر
اس کے اقوال سینئے۔( ازالہ اوہام صفحہ ۵۳۳) ـخدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ میں اس کا عاجز کا نام اُمتی بھی رکھا اور نبی بھی ۔ (انجام آتھم صفحہ ۵۲ میں ہے) اے احمد تیرا نام پورا ہو جائے گا قبل اس کے جو میرا نام پورا ہو۔ (صفحہ ۵۵ میں ہے) تجھے خوشخبری ہو اے احمد تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس میں جو آئتیں تھیں انہیں اپنے اوپر جما لیا۔ (انجام صفحہ ۷۸ میں کہتا ہے)
وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اَلاَّ رَحْمَۃً الَلْعَالَمِیْنَ
(تجھ کو تمام جہان کے واسطے روانہ کیا)
نیز یہ آیہ کریمہ وَمُبَشِّراً بِرَسُوْلٍ یَاتی مَنْ بَعْدِ اِسْمُہُ اَحْمَدُ سے اپنی مراد لیتا ہے (دافع البلاء صفحہ ۶ میں ہے) مجھ کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اَنْتَ مَنِّی بِمَنْزِلَۃِ اَوْلاَدِیْ اَنْتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْکَ
(یعنی اے غلام احمد تو میری جگہ ہے تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں)
(ازالہ اوہام صفحہ ۶۸۸ میں ہے) حضرتِ رسُول ﷺ کے الہام و وحی غلط تھیں۔ (صفحہ ۸ میں ہے) حضرت مُوسیٰ کی پیش گوئیاں بھی اس صورت پر ظہور پذیر نہیں ہوئیں جس صورت پر حضرت مُوسیٰ نے اپنے دل میں امید باندھی تھی غٓیت مّانی الباب یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیش گوئیاں زیادہ غلط نکلیں۔ (ازالہ اوہام صفحہ ۷۷۵ میں ہے) سورہ بقر میں جو ایک قتل کا ذکر ہے کہ گائے کی بوٹیاں نعش پر مارنے سے وہ مقتول زندہ ہو گیا تھا اور اپنے قاتل کا پتہ دے دیا تھا یہ محض موسیٰ علیہ السلام کی دھمکی تھی اور علم مسمریزم تھا۔ (اسی کے صفحہ ۵۵۳ میںلکھتا ہے) حفرت ابراہیم علیہ السَّلام کا چار پرندے معجزے کا ذکر جو قرآن شریف میں ہے وہ بھی ان کا مسمریزم کا عمل تھا۔
(صفحہ ۲۶۹ میں ہے) ایک باشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اس کے فتح کے بارے میں پیشگوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے اوع باشاہ کی شکست ہوئی بلکہ وہ اسی میدان میںمر گیا۔ (اسی کے صفحہ ۲۸، ۲۶ میں لکھتا ہے) قرآن شریف میں گندی گالیاں بھی ہیں اوعر قرآن عظیم سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے۔ (اور اپنی براہین احمدیہ کی نسبت ازالہ اوہام صفحہ ۵۳۳ میں لکھتا ہے) براہین احمد یہ خدا کا کلام ہے۔
(اربعین نمبر ۲ صفحہ ۱۳ پر لکھا ) کامل مہدی نہ موسیٰ تھا نہ عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسّلام کی شان میں جو گستاخیاں کیں ان میں سے چند یہ ہیں (معیار کی صفحہ ۱۳) اے عیسائی مشنریو اب ربنا المسیح مت کہو اور دیکھو کہ آج تم میں ایک ہے جو اس مسیح سے بڑھ کر ہے (صفحہ ۱۳ ور ۱۴ میں ہے) خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس کے پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد دکھاتا یہ اشارہ ہو کہ عیسائیوں کا مسیح کیسا خدا ہے وہ احمد کے ادنیٰ غلام سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتا یعنی ہو کیسا مسیح ہے جو اپنے قرب اور شفاعت کے مرتبہ میں احمد کے غلام سے بھی کمتر ہے (کشتی صفحہ ۱۳ میں ہے) مثیل موسیٰ موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیل ابنِ مریم سے بڑھ کر ۔ (نیز صفحہ ۱۶ میں ہے) خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیح محمدی مسیح موسوی سے افضل ہے۔ (دافع البلا صفح ۲۰ میں ہے) اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو میں اس کا ثانی پیدا کروں گا جو اس سے بھی بہتر ہے جو غلام احمد ہے یعنی احمد کا غلام ؎
ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
یہ باتیں شاعرانہ نہیں بلکہ واقعی ہیں اور اگر تجربہ کی رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں۔ (دافع البلا ص ۱۵ ) خدا تو یہ پابندی اپنے وعدوں کے ہر چیز پر قادر ہے لیکن ایسے شخغ کو دوبارہ کسی طرح دنیا میں نہیں لا سکتا جس کے پہلے فتنہ نے ہی دینا کو تباہ کر دیا ہے۔ (انجام آتھم ص ۴۱ میں لکھتا ہے) مریم کا بیٹا کشلیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا۔ (کشتی ص ۵۶ میں ہے مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابنِ مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کلام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہر گز دکھلا نہ سکتا۔ (اعجاز احمدی ص ۱۳) یہود تو حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں اور ان کی پیشگوئیوں کے بارے میں ایسے قوی اعتراض رکھتے ہیں کہ ہم بھی جواب میں حیران ہیں بغیر اس کے کہ یہ کہہ دیں کہ ضرور عیسیٰ نبی ہیں کیونکہ قرآن نے اس کو نبی قرار دیا ہے اور کوئی دلیل ان کی نبوت پر قائم نہیں ہو سکتی بلکہ ابطالِ نبوت پر کئی دلائل قائم ہیں ۔ اس کلام میں یہودیوں کے اعتراض صحیح ہونا بتایا اور قرآن عظیم پر بھی ساتھ لگے یہ اعتراض جما دیا کہ قرآن ایسی بات کی تعلیم دے رہا ہے جس کے بطلان پر دلیلیں قائم ہیں ۔
(ص ۱۴ میں ہے) عیسائی تو ان کی خدائی کو روتے ہیں مگر یہاں نبوت بھی ان کی ثابت نہیں۔ (اسی کتاب کے ص ۲۴ میں لکھا) کبھی آپ کو شیطانی الہام بھی ہوتے تھے مسلمانو، تمہیں معلوم ہے کہ شیطانی الہام کس کو ہوتا ہے ۔ قرآن فرماتا ہے:
تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِّ افَاَّکٍ اٰثِیْمٍ
(بڑے بہتان والے سخت گناہ گار پر شیطان اترتے ہیں )
(اسی صفحہ میں لکھا) ان کی اکثر پیش گوئیاں غلطی سے پُر ہیں ( صفحہ ۱۳ میں ہے ) افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کی پیش گوئیوں پر یہودیوں کے سخت اعتراض ہیں جو ہم کسی طرح ان کو دفع نہیں کر سکتے ( صفحہ ۱۴ ) ہائے کس کے آگے یہ ماتم لے جائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی تین پیش گوئیاں صاف طور پر جھوٹی نکلیں۔ اس سے ان کی نبوت کا انکار ہے (چنانچہ اپنی کتاب کشتی نوح ص ۵ میں لکھتا ہے ) ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیش گوئیاں ٹل جائیں۔ (دافع الوساوس ص ۳ و ضمیمہ انجام آتھم ص ۲۷ پر اس کو سب رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی اور ذلت کہا ہے۔ (دافع البلا ٹائیٹل پیج صفحہ ۳ پر لکھتا ہے) ہم مسیح کو بیشک ایک راست باز آدمی جانتے ہیں کہ اپنے زمانہ کے اکثر لوگوں کا بھی فیصلہ کر دیا کہتا ہے۔ یہ ہمارا بیان نیک ظنی کے طور پر ہے ممکن ہے کہ عیسیٰ کے وقت میں بعض راست باز اپنی راست بازی میں عیسیٰ سے بھی اعلیٰ ہوں۔ (اسی کے صفحہ ۴ میں لکھا) مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر نہیں ثابت ہوتی بلکہ یحییٰ ٰ کو اس پر فضیلت ہے کیونکہ وہ( یحییٰ) شراب نہ پیتا تھا اور کبھی نہ سنا کہ کسی فاحشہ عورت نے اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر ملا تھا یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چّھوا تھا یا کوئی بے تعلق جان عورت اس کی خدمت کرتی تھی اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام حضور رکھا مگر مسیح کا نہ رکھا کیونکہ ایسے قصّے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔
(ضمیمہ انجام آتھم ص ۷ میں لکھا) آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شائد اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو کہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگا دے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے سمجھنے والے یہ سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے ۔ نیز اس رسالہ میں اس مقدس و برگزیدہ رسول پر اور نہایت سخت سخت حملے کئے مثلاً شریر، مکاّر، بدعقل، فحش گوِ بدزبان، جھوٹا، چور، خلل دماغ والا، بدقسمت نرا فریبی، پیرو شیطان، حدیہ کہ صفحہ ۷ پر لکھا آپ کا خاندان بھی نہایت پاک ومطہر ہے تین وادیاں اور نافرمانیاں آپ کی زناکاری اورکیسی عورتیں تھیں کے خون سے آپ کا وجود ہوا۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دادی باپ کی ماں کو کہتے ہیں تو اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے لئے باپ کا ہونا بیان کیا جو قرآن کے خلاف ہے اور دوسری جگہ یعنی کشتی صفحہ ۱۶ میں تصریح کر دی۔ یسعع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں یعنی یوسف اور مریم کی اولاد تھے۔ حفرت مسیح علیہ الصلاۃ والسّلام کے معجزات سے ایک دم صاف انکار کر بیٹھا ۔ انجام آتھم صفحہ ۶ میں لکھتا ہے حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہ ہوا۔
صفحہ ۷ پر لکھا ۔ اس زمانہ میں ایک تالاب سے بڑے بڑے جشان ظاہر ہوتے تھے آب سے کوئی معجزہ ہوا بھی تو وہ آپ کا نہیں اس تالاب کا ہے آپ کے ہاتھ میں سوا مکروفریب کا کچھ نہ تھا۔ ازالہ ادہام کے صفحہ ۴ میں ہے ماسوائے اس کے اگر مسیح کے اصلی کاموں کو ان حواشی سے الگ کرکے دیکھا نائے جو محض افتراء یا غلط فہمی سے گھڑے ہیں تو کوئی عجوبہ نظر نہیں آتا بلکہ مسیح کے معجزات پر جس قدر اعتراض ہیں میں نہیں سمجھ سکتا کہ کسی اور نبی کے خوارق پر شہادت ہوں کیا تالاب کا قصّہ مسیح معجزات کی رونق نہیں دور کرتا۔ کہیں ان کے معجزہ کو کل کا کھلونا بناتا ہے کہیں مسمریزم بتا کر کہتا ہے۔ اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو ان عجوبہ نمائیوں میں ابنِ مریم سے کم نہ رہتا۔ اور مسمریزم کا خاصہ یہ بتایا کہ جو اپنے تئیں اس مشغولی میں ڈالے وہ رُوحانی، تاثیروں میں جو روحانی بیماریوں کو دور کرتی ہیں بہت ضعیف اور نکمّا ہو جات ہے یہی وجہ ہے کہ گو مسیح جسمانی بیماریوں کو اس عمل کے ذریعہ سے اچھا کرتے رہے مگر ہدایت و توحید اور دینی استقامتوں کے دلوں میں قائم کرنے میں اُن کا نمبر ایسا کم رہا کہ قریب قریب ناکام رہے۔ غرض اس دجّال قادیانی کے مزخرفات کہاں تک گنائے جائیں اس کے لئے دفتر چاہیے مسلمان ان چند خرافات سے اس کے حالات بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اس نبی اوالوالعزم کے فضائل جو قرآن میں مذکور ہیں ان پر یہ کیسے گندے حملے کر رہا ہے تعجب ہے ان سادہ لوحوں پر کہ ایسے دجّال کے متبع ہو رہے ہیں یا کم از کم مسلمان جانتے ہیں اور سب سے زیادہ تعجب ان پڑھے لکھے کٹ بگڑوں سے کہ جان بوجھ کر اس کے ساتھ جہنم کے گڑھوں میں گر رہیہ ہیں کیا ایسے شخص کے کافر مرتد بے دین ہونے میں کسی مسلمان کو شک ہو دکتا ہے۔
حَاشَ لَلّٰہِ مَنْ شَکَّ فِیْ عَذَابِہِ وَکُفْرِہِ فَقَدْ کَفَرَ
( جو ان خباثتوں سے مطلع ہو کر اس کے عذاب و کفر میں شک کرے خود کافر ہے)
(۲) رافضی ان کے مذہب کی کچھ تفصیل اگر کوئی دیکھنا چاہے تو تحفہ اثنا عشریہ دیکھے چند مختصر باتیں یہاں گزارش کرتا ہوں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی شان میں یہ فرقہ نہایت گستاخ ہے یہاں تک کہ ان پر سبّ و شتم ان کا عام شیوہ ہے بلکہ باستشنائے چند سب کو معاذ اللہ کافر و منافق قرار دیتا ہے حضرات خلفائے ثلثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو ان حضرات کی خلافتیں تسلیم کیں اور ان کے مدائح و فضائل بیان کئے اس کو تقیہ و بُزدلی پر محمول کرتا ہے کیا معاذاللہ منافقین و کافرین کے ہاتھ پر بیعت کرنا اور عمر بھی ان کی مدح و ستائش سے رطبُ و اللسان رہنا شیرِ خدا کی شان ہو سکتی ہیہ سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن مجید ان کو ایسے جلیل و مقدّس خطابات سے یاد فرماتا ہے وُہ تو وہ ان کے اتباع کرنے والوں کی نسبت فرماتا ہے کہ اللہ ان سے راضی وہ اللہ سے راضی کیا کافروں منافقوں سے اللہ عزّ وجّل کے ایسے ارشادات ہو سکتے ہیں پھر نہایت شرم کی بات ہے کہ مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم تو اپنی صاحبزادی فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں دیں اور یہ فرقہ کہے تقیتہً ایسا کیا۔ کیا جان بوجھ کر کوئی مسلمان اپنی بیٹي کافر کو دے سکتے ہیں نہ کہ مقدس حضرات ہوں نے اسلام کے لئے اپنی جانیں وقف کر دیں اور حق گوئی اور اتباع حق میں لاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لاَئَمٍ کے سچے مصداق تھے پھر خود سید المرسلین ﷺ کی دو شاہزادیاں یکے بعد دیگرے حضرت عثمان ذی النورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں آئیں اور صدیق و فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی صاحب زادیاں شرف زوجیت سے مشرف ہوئیں کیا حضور کے ایسے تعلقات سے ہوں ان کی نسبت وہ ملعون الفاظ کوئی ادنیٰ عقل والا ایک لمحہ کے لئے جاہز رکھ سکتا ہے۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں اس فرقہ کا ایک عقیدہ یہ ہے کہ اللہ عزّوجّل پر صلح واجب ہے یعنی جو کام بندے کے حق میں نافع ہو اللہ عزّوجّل پر واجب ہے کہ وہی کرے اسے کرنا پڑے گا۔ ایک عقیدہ یہ ہے کہ ائمہ اطہار رضی اللہ تعالیٰ عنہم ، انبیاء علیہم السّلام سے افضل ہیں اور یہ بالاجماع کفر ہے کہ غیر نبی کو نبی سے افضل کہنا ہے۔ ایک عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید محفوظ نہیں بلکہ اس میں سے کچھ پارے یا سورتیں یا آئیتیں یا الفاظ امیر الموئمنین عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا دیگر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے نکال دئیے مگر تعجب ہے کہ مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے بھی اسے جاقص ہی چھوڑا۔ اور یہ عقیدہ بھی بالاجماع کُفر ہے کہ قرآن مجید کا انکار ہے ۔ ایک عقیدہ یہ ہے کہ اللہ عزّوجّل کوئی حکم دیتا ہے پھر یہ معلوم کر کے کہ مصلحت اس کے غیر میں ہے پچتاتا ہے اور یہ بھی کفر ہے کہ خدا کو جاہل بتانا ہے۔ ایک عقیدہ یہ ہے کہ نیکیوں کا خالق اللہ ہے اور برائیوں کے خالق یہ خود ہیں مجوس نے دو ہی خالق مانے تھے ، یزدان خالق، اہرمن خالقِ شر۔ ان کے خالقوں کی گنتی ہی نہ رہی اربوں سنکھوں خالق ہیں۔
(۳) وہابی ایک نیا فرقہ ہے جو ۱۲۰۹ھ میں پیدا ہوا اس مذہب کا بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی تھا جس نے تمام عرب خصوصاً حرمین شریفین میں بہت شدیک فتنے پھیلائے علماء کو قتل کیا صحابہ کرام و ائمہ علماء و شہداء کی قبریں کھود ڈالیں ۔ روضہ انور کا نام معاذاللہ صنمِ اکبر رکھا تھا یعنی بڑا بت اور طرح طرح کے ظلم کئے (شامی ج ۳ ص ۴۲۷) جیسا کہ صحیح حدیث میں حضور اقدس ﷺ نے خبر دی تھی کہ نجد سے فتنے اٹھیں گے اور شیطان کا گروہ نکلے گا وہ گروہ بارہ سو برس بعد یہ ظاہر ہوا ۔ علامّہ شامی رحمتہ اللہ تعالیٰ نے اسے خارجی بتایا اس عبدالوہاب کے بیٹے نے ایک کتاب لکھی جس کا نام کتاب التوحید رکھا اس کا ترجمہ ہندوستان میں اسماعیل دہلوی نے کیا جس کا نام تقویۃ الایمان رکھا اور ہندوستان میں اسی نے وہابیت پھیلائی ان کا وہابیہ کا ایک بہت بڑا عقیدہ یہ ہے کہ جو ان کے مذہب پر نہ ہو وہ کافر مشرک ہے یہی وجہ ہے کہ بات بات پر محض بلاوجہ مسلمان پر حکم شرک و کفرلگایا کرتے اور تمام دینا کو مشرک بتاتے ہیں۔ چنانچہ تقویۃ الایمان صفحہ ۴۵ میں وہ حدیث لکھ کر آخر زمانہ میں اللہ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جو ساری دینا سے مسلمانوں کو اٹھا لے گی اس کے بعد صاف لکھ دیا سو پیغمبرِ خدا کے فرمانے کے موافق ہوا یعنی وہ ہوا چل تھی اور کوئی مسلمان روئے زمین پر نہ رہا۔ مگر یہ نہ سمجھا کہ اس صورت میں خود بھی تو کافر ہو گیا اس مذہب کا رکن اعظم اللہ کی توہین اور محبوبانِ خدا کی تذلیل ہے۔ ہر امر میں وہی پہلو اختیار کریں گے جس سے منفعت نکلتی ہو اس مذہب کے سرگروہوں کے بعض اقوال نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے عوام بھائی ان کی قلبی خباثتوں پر مطلع ہوں اور ان کے دامِ تزویر سے بچیں اور ان کے جبّہ و دستار پر نہ جائیں ۔ برادرانِ اسلام بغور سُنیں اور میزان ایمان میں تولیںکہ ایمان سے زیادہ عزیز مسلمان کے نزدیک کوئی چیز نہیں اور ایمان اللہ و رسول کی محبت و تعظیم ہی کا نام ہے۔ ایمان کے ساتھ جس میں جتنے فضائل پائے جائیں وہ اسی قدر زیادہ فضیلت رکھتا ہے اور ایمان نہیں۔ تو مسلمانوں کے نزدیک وہ کچھ وقعت نہیں رکھتا اگرچہ کتنا ہی بڑا عالم و زاہد و تارک الدنیا وغیرہ بنتا ہو مقصود یہ ہے کہ ان کے مولوی اور عالم فاضل ہونے کی وجہ سے انہیں ہم اپنا پیشوا نہ سمجھو جب کہ وہ اللہ و رسول کے دشمن ہیں تو کیا تم ان کو اپنا پیشوا تسلیم کرسکتے ہو ہرگز نہیں اسی طرح یہ لامذہب ہ بد مذہب تمہارے کسی طرح مقتدا نہیں ہو سکتے ۔ ایضاح الحق صفحہ ۳۵،۳۶ مطبع فاروقی میں ہے تنزیہ او تعالیٰ اززمان ومکان وجہت و اثبات رویت بلاجہت و محاذات ہمہ از قبیل بدعات حقیقتہً است اگر صاحبِ آں اعتقاداتِ مذکورہ را از سِ عقائد دینیہ مے شمار داس میں صاف تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ کو زمان ہ مکان و جہت سے پاک جاننا اور اس کا دیدار بلا کیف ماننا بدعت و گمراہی ہے حالانکہ یہ تمام اہلِ سنت کا عقیدہ ہے تو اس قائل نے تمام پیشوایان، اہلسنت کو گمراہ و بدعتی بتایا بحرالرائق درمختار عالمگیری میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے جو مکان ثابت کرے کافر ہے۔ تقویۃ الایمان صفحہ ۲۰ میں یہ حدیث :
اَرَائَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِیْ اُکُنْتَ تَسْجُدْ لَہ‘
نقل کر کے ترجمہ کیا کہ
بھلا خیال تو کر جو تو گزرے میری قبر پر کیا سجدہ کرے تو اس کو اس کے بعد (ف) لکھ کر یہ فائدہ جڑ دیا یعنی میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے والا ہوں ۔ حالانکہ نبی ﷺ فرماتے ہیں:۔
اِنَ الّٰلہَ حَرَّمَ عَلَی الْارْضِ اِنْ تَاْکُلَ اَجْسَارَ اَلانْبِیَائِ
(اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السّلام لے اجسام کھانا زمین پر حرام کر دیا ہے )
فَنَسْبِیُّ اللّٰہِ حَیٌّ یُّرْزَقُ
(نبی زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں )
اسی تقویۃ الایمان صفحہ ۱۹ میں ہے ہمارا جب خالق اللہ ہے اور اس نے ہم کو پیدا کیا تو ہم کو بھی چاہئے کو اپنے ہر کاموں پر اسی کو پکاریں اور کسی سے ہم کو کیا کام جیسے جو کوئی ایک باسشاہ کا غلام ہو چکا تو وہ اپنے ہر کام کا علاقہ اسی سے رکھتا ہے دوسرے بادسشاہ سے بھی نہیں رکھتا اور جسی چوہڑے چمار کا تو کیا ذکر۔ انبیائے کرام و اولیائے عظام کی شان میں ایسے ملعون الفاظ استعمال کرنا کیا مسلمان کی شان ہو سکتی ہے صراطِ مسعقیم صفحہ ۹۵ بمقضائے ظُلُمٰتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضِ ازوسوسہ زنا خیال مجامعت زوجہ خود بہتراست و صفر ہمت بسوئے شیخ و امثال آں از معظمین گو ابِ رسالت مآب باشند بچندیں مرتبہ تر از استغراق و رصورت گاؤ خر خودست مسلمانو ! یہ ہیں امام الو ہابیہ کے کلمات خبیثات او ر کس کی شان میں حضور اقدس ﷺ کی شان میں جس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہے وہ ضروریہ کہے گا کہ اس قول میں گستاخی ضروف ہے تقویۃ الایمان صفحہ ۱۰ روزی کی کشائش اور تنگی کرنی اور تندرست و بیمار کر دینا اقبال وادبار کر دینا حاجتیں بر لانی بلائیں ٹالنی مشکل میں دست گیری کرنی یہ سب اللہ ہی کی شان ہے اور کسی انبیاء اولیاء بھوت بری کی یہ شان نہیں کو جو کسی کو ایسا تصرف ثابت کرے اور اس سے مانگیں اور مصیبت کے وقت اس کو پکارے سو وہ مشرک ہو جاتا ہے پھر خواہ ہوں سمجھے کہ ان کاموں کی طاقت ان کو خودبخود ہے خواہ ہوں سمجھے کہ اللہ نے ان کو قدرت بخشی ہے ہر طرح شرک ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
اَغْنَاھُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلَہ‘مَنْ فَضْلِہِ
(ان کو اللہ و رسول نے غنی کر دیا اپنے فضل سے)
قرآن تو کہتا ہے کہ نبی ﷺ نے دولت مند کر دیا اور یہ کہتا ہے جو کسی کو ایسا تصرف ثابت کرے مشرک ہے تو اس کے ضور پر قرآن مجیید شرک کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن عظیم میں ارشاد ہے:
وَتُبْرِیُ الاَکْمَہَ وَالْابْرَصَ بِاِذْنِیْ
(ای عیسیٰ تو میرے حکم سے مادرزاد اندھے اور سفید داغ والے کو اچھا کر دیتا ہے)
اور دوسری جگہ ہے :
اُبْریئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحِیْ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ الّٰلہِ
عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسّلام فرماتے ہیں میں اچھا کرتا ہوں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو اور مردوں کو جلا دیتا ہوں اللہ کے حکم سے اب قرآن کا تو یہ حکم ہے اور وہابیہ کہتے ہیں کہ تندرست کرنا اللہ ہی کی شان ہے جو کسی کو ایسا تصّرف ثابت کرے مشرک ہے ادب وہابی بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف حضرت عیسیٰ علیہ الصالۃ والسّلام کے لئے ثابت کیا تو اس پر حکم لگاتے ہو اور لُطف یہ ہے کو اللہ عزّوجل نے اگر ان کو قدرت بخشی ہے جب بھی شرک ہے تو معلوم نہیں کہ ان کے یہاں اسلام کس چیز کا نام ہے ۔ (تقویۃ الایمان صفحہ ۱۱) گردوپیش کے گل کا ادب کرنا یعنی وہاں شکار نہ کرنا۔ درخت نہ کاٹنا یہ کام اللہ نے اپنی عبادت کے لئے بنائے ہیں پھر جو کوئی کسی پیغمبر یا بھوت کے مکاروں کے گردوپیش کے گل کا ادب کرے اس پر شرک ثابت ہے خواہ یوں سمجھے کہ یہ آپ ہی اس تعظیم کے لائق ہیں یا یوں کہ ان کی اس تعظیم سے اللہ خو ش ہوتا ہے ہر طرح شرک ہے۔ متعدد صحیح حدیثوں میں ارشاد فرمایا کہ ابراہیم نے مکّہ کو حرم بنایا اور میں نے مدینے کو حرم کیا اس کے ببول کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کا شکار نہ کیا جائے مسلمانو : ایمان سے دیکھنا کہ اس شرک فروش کا شرک کہاں تک پہنچتا ہے تم نے یہ دیکھا اس گُستگاخ نے نبی ﷺ پر کیا حکم جڑا۔ (تقویۃ الایمان صفحہ ۸) پیغمبر خدا کے وقت میں کافر بھی اپنے بتوں کو اللہ کے برابر نہیں جانتے تھے مگر یہی پکارنا اور منتیں ماننی اور نذر و نیاز کرنی اور ان کو اپنا وکیل و سفارشی سمجھنا یہی ان کا کفر و شرک تھا سو جو کوئی کسی سے یہ معاملہ کرے گو اس کو اللہ کا بندہ مخلوق ہی سمجھے سوا ابو جہل کے برابرمشرک ہے یعنی جو نبی ﷺ کی شفاعت مانے کہ حضور اللہ عزّوجل کے دربار میں ہماری سفارش فرمائیں گے تو معاذاللہ اس کے رزدیک وہ ابہ جہل کے برابر مشرک ہے مسئلہ شفاعت کا صرف انکار ہی نہیں بلکہ اس کہ شرک ثابت کیا اور تمام مسلمانوں صحابی و تابعین و ائمہ دین و الیاء و صالحین سب کو مشرک و ابو جہل بنا دیا۔ (تقویۃ الایمان صفحہ ۵۸) کوئی شخص کہے فلانے درخت میں کتنے پتے ہیں تو اس کے جواب میں یہ نہ کہے کہ اللہ و رسول جانے کیونکہ غیب کی بات اللہ ہی جانتا ہے رسول کو کیا خبر۔ سبحان اللہ : خدائی اسی کا نام رہ گیا کہ کسی پیڑ کے پتوں کی تعداد جان لی جائے۔ (تقویۃ الایمان صفحہ۷) اللہ صاحب نے کسی کو عالم میں تصرف کرنے کی قدرت نہیں دی اس میں انبیائے کرام کے معجزات اور اولیاء عظا م کی کرامت کا صاف انکار ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَالْمَدَبَّرَاتِ اَمْراً
(قسم فرشتوں کی جو کاموں میں تدبیر کرتے ہیں)
یہ قرآن کریم کی صاف رد کر رہا ہے ۔ (صفحہ ۲۲ )جس کا نام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں تعجب ہے کہ وہابی صاحب تو اپنے گھر کی تمام چیزوں کا اختیار رکھیں اورمالک ہر دوسرا ﷺ کسی چیز کے مختار نہیں اس گروہ کا ایک مشہور عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے بلکہ ان کے ایک سرغنہ نے تو اپنے ایک فتویٰ میں لکھ دیا کہ وقوع کذب کے معنی درست ہو گئے جو یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول چکا ۔ ایسے کو تضلیل و تفسیق سے مامون کرنا چاہئے؟ سبحان اللہ: خدا کو جھوٹ مانا پھر بھی اسلام و سنیت و صلاح کسی بات میں فرپ نہ آیا معلوم نہیں ان لوگوں نے کس چیز کو خدا ٹھہرایا لیا ہے۔ ایک عقیدہ ان کا یہ ہے کہ نبی ﷺ کو خاتم انبیین بمعني آخر الانبیاء نہیں مانتے ااور یہ صریح کفر ہے۔ چنانچہ (تحذیر الناس ص ۲ میں ہے) عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم (ہم کہتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم) کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیںمگر اہلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدّم یا تاخّر بالذاتاً ؔ(پہلے تو بالذات کا پردہ رکھا تھا پھر کھیل کھیلا کہ اسے مقامِ مدح میں ذکر کرنا کسی طرح صحیح نہیں تو ثابت ہوا کہ وہ اصلاً کوئی فضیلت نہیں)۔ کچھ فضیلت نہیں پھر مقامِ مدح میںوَلٰکَنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِیِنَ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ہاں اگر اس وصف اوصافِ مدح نہ کہیے اور اس مقام کو مقامِ مدح نہ قرار دیجیے تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخر زمانی صحیح ہو سکتی ہے۔ پہلے تو اس قائل نے خاتم النبیین کے معنی تمام انبیاء سے زماناً متاخرّ ہونے کو خیال عوام کہا اور یہ کیا کہ اہلِ فہم پر روشن ہے کہ اس میں بالذات کچھ فضیلت نہیں حالانکہ حضور اقدس ﷺ نے خاتم النبیین کے یہی معنی بکثرت فہم سے خارج کیا۔ پھر اس نے ختم زمانی کو مطلقاً فضیلت سے خارج کیا حالانکہ اسی تاخّر زمانی کو حضور نے مقامِ مدح میں ذکر فرمایا۔
پھر ( صفحہ ۴ پر لکھا) آپ موصوف بوصفِ نبوّت بالذّات ہیں اور سوا آپ کے اور نبی موصوف وصفِ نبوت بالعرض۔ (صفحہ ۱۶ پر لکھا) بلکہ بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کہیں نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔ (صفحہ ۳۳) بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا چہ جائے کہ آپ کے معاصر کسی اور زمیں میں یا فرض کیجئے اسی زمانہ میں کوئی اور نبی تجویز کیا جائے۔ لطف یہ اس قائل نے ان تمام خرافات کا ایجاد بندہ ہونا خود تسلیم کر لیا (صفحہ ۳۴ پر ہے) اگر بوجہ التفاتی بڑوں کا فہم کسی مضمون تک نہ پہنچا تو ان کی شان میں کیا نقصان آگیا اور کسی طفلِ نادان نے کوئی ٹھکانے کی بات کہ دی کیا اتنی بات سے وہ عظیم الشان ہو گیا ؎
گاہ باشد کہ دکِ نادان
بغلط بر ہدف زند تیرے
ہاں بعد وضوح اگر فقط اس وجہ سے کہ یہ بات میں نے کہی اور وہ اگلے کہ گئے تھے میری نہ مائیں اور وہ پرانی بات گائے جائیں تو قطع نظر اس کے قانونِ محبت نبوی ﷺ سے یہ بات بہت بعید ہے ویسے بھی اپنی عقل و فہم کی خوبی پر گواہی دینی ہے یہی سے ظاہر ہو گیا جو معنی اس نے تراشے ہیں سلف میں کہیں اس کاپتہ نہیں اور نبی ْﷺ کے زمانہ سے آج تک جو سب سمجھے ہوئے تھے اس کو خیالِ عوام بتا کر رد کر دیا کہ اس میں کچھ فضیلت نہیں اس قائل پر علمائے حرمین طیبین نے جو فتویٰ دیا وہ حسام الحرمین کے مطالعہ سے ظاہر اور اس نے خود بھی اس کتاب کے صفحہ ۴۶ میں اپنے اسلام برائے نام تسلیم کیا۔ ع
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
ان نام کے مسلمانوں سے اللہ بچائے اسی کتاب کے صفحہ ۵ پر ہے انبیاء اپنی امّت سے ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی ممتاز ہوتے ہیں باقی رہا عمل اس میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں بلکہ بڑگ جاتے ہیں اور سنئے ان قائل صاحب نے حضور کی نبوت کو قدیم اور دیگر انبیاء کی نبوت کو حادث بتایا۔ (صفحہ ۷ میں ہے کیونکہ فرق قدم نبوّت اور حدوث نبوّت باوجود اتحاد نوعی خوب جب ہی چسپاں ہو سکتا ہے کیا ذاب و صفاتِ الٰہی کے سوا مسلمانوں کے بزدیک کوئی اور چیز بھی قدیم ہے۔ نبوّت صفت ہے اور صفت کا وجود بے موصوف محال جب حضورِ اقدس ﷺ کی نبوت قدیم غیر حادث ہوئی تو ضرور نبی ﷺ بھی حادث نہ ہوئے بلکہ ازلی ٹھہرے اور جو اللہ و صفاتِ الہٰیہ کو سوا کسی کو قدیم مانے باجماع مسلمین کافر ہے اس ؔ گروہ کا یہ عام شیوہ ہے کو جس امر میں محبوبانِ خدا کی فضیلت ظاہر ہو طرح طرح کو جھوٹی تاویلات سے اسے باطل کرنا چاہیں گے اور وہ امر ثابت کریں گے جس میں تنقیص ہو مثلاً براہین قاطعہ صفحہ ۵۱ میں لکھ دیا کہ نبی ﷺ کو دیوار پیچھے کا بھی علم نہیں اور اس کو شیخ محدّث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کی طرف منسوب کر دیا بلکہ اُسی صفحہ پر وسعت علم نبی ﷺ کی بابت یہاں تک لکھ دیا کہ الحاصل غور کرنا چاہیے کہ شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علمِ محیطزمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلادلیل محج قیاس باسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے کہ شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کر کے ایک شرک ثابت کر تا ہے ۔ شرک نہیں تو کون سا حصہ ایمان کا ہے؟ جس وسعت علم کو شیطان کے لئے ثابت کرتا اور اس پر جص بونا بیان کرتا ہے اسی کو نبی ﷺ لے لئے شرک بتانا تو شیطان کے بندے شیطان کو مستقل خدا نہیں تو خدا کا شریک کہنے سے بھی گئے گزرے ہر مسلمان اپنے ایمان کی آنکھوں سے دیکھے کہ اس قائل نے ابلیس لعین کے علم کو نبی ﷺ سے زائد بتایا نہیں ضرور زائد بتایا یا نہیں ضرور زائد بتایا اور شیطان کو خدا کا شریک مانا یا نہیں ضرور مانا اور پھر اس شرک کو نص سے ثابت کیا یہ تینوں امر صریح کفر اور قائل یقینی کافر ہے کون مسلمان اس کے کافر ہونے میں شک کرے گا ۔ حفظ الایمان صفحہ ۷ میں حضور کے علم کی نسبت یہ تقریر کی۔ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تا دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے ، یا کل غیب اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی کیا تخصیص ہے ایسا علم غیب تو زید و ومر بلکہ ہر صبی و موں بلکہ جمیع حیوانات و بہام کے لئے حاصل ہے۔ مسلمانو: غور کور کہ اس شخص نے نبی ﷺ کی شان میں کیسی گستاخی کی کہ حضور جیسا علم زید و عمر و ہر بچے اور پاگل بلکہ تمام جانوروں اور چوپایوں کے لئے حاصل ہونا کہا ۔ کیا ایمان قلب ایسے شخص کے کافر ہونے میں شک کر سکتے ہیں ہر گز نہیں اس قوم کا یہ عام طریقہ ہے کہ جس چیز کو اللہ و رسول نے منع نہیں کیا بلکہ قرآن و حدیث سے اس کا فواز ثابت اس کی ممنوع کہنا تو درکنار اس پر شرک و بدعت کا حکم لگا دیتے ہیں مثلاً مجلس میلاد شریف اور قیام و ایصال و زیارتِ قبور و حاضری باگاہ بیکس پناہ سرکارِ مدینہ طیبہ و عُرسِ بزرگانِ دین و فاتحہ سوم و چہلم و استمداد و بارحِ انبیاء و اولیاء اور مصیبت کے وقت انبیاء و اولیاء کو پکارنا وغیرہا بلکہ میدال شریف کی نسبت تو براہین قاطعہ صفحہ ۴۸ میں یہ ناپاک لفظ لکھے پس یہ ہر روز اعادہ ولادت کا تو مثل ہنود کے کو سانگ کنہیا کی ولادت کا ہر سال کرتے ہیں یا مثل روافض کے کہ نقلِ شہادت اہلبیت ہر سال بناتے ہیں معاذ اللہ سانگ آپ کی ولادت کا ٹھہر اور خود حرکتِ قبیحہ قابل لوم و حرام و فسق ہے بلکہ یہ لوگ اس قوم سے بڑھ کر ہوئے۔ وہ تاریخ معین پر کرتے ہیں ان کے یہاں کوئی قید ہی نہیں جب چاہیں یہ خرافات فرضی مناتے ہیں۔
(۴) غیر مقلدین یہ بھی وہابیت ہی کی ایک شاخ ہے وہ چند باتیں جو حال میں وہابیہ نے اللہ عزّوجل اور نبی ﷺ کی شان میں بکی ہیں غیر مقلدین سے ثابت نہیں باقی تمام عقائد میں دونوں شریک ہیں اور ان حال کے اشدد دیو بندی کفروں میں بھی وہ یوں شریک ہیں کہ ان پر ان قائلوں کو کافر نہیں جانتے اور ان کی نسبت حکم ہے کہ جو ان کے کفر میں سک کرے وہ بھی کافر ہیہ ایک نمبر ان کا زائد یہ ہے کہ چاروں مذہبوں سے جدا تمام مسلمانوں سے الگ انہوں نے ایک راہ نکالی کہ تقلید کو حرام و بدعت کہتے اور ائمہ دین کو سبّ و شتم سے یاد کرتے ہیں مگر حقیقہً تقلید سے خالی نہیں ائمہ دین کی تقللید تو نہیں کرتے مگر شیطان لعین کے ضرور مقلد میں یہ لوگ قیاس کے منکر ہیں اور قیاس کا مطلقاً انکار کفر۔
مسئلہ ۱ : مطلق تقلید فرض ہے اور تقلید شخص واجب۔
ٖضروری تنبیہ: وہابیوں کے یہاں بدعت کا بہت خرچ ہے جس چیز کو دیکھئے بدعت ہے لہٰذا بدعت کسے کہتے ہیں اسے بیان کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے ۔بدعت مذمعمہ و قبیحہ وہ ہے جو کسی سنت کے مخالف و مزاحم ہو اور یہ مکروہ یا حرام ہے اور مطلق بدعت تو مستحب بلکہ سنت بلکہ واجب تک ہوتی ہے۔ حضرت امیر المومنیین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تراویح کی نسبت فرماتے ہیں :
نَعْمَۃِ الْبِدْعَۃِ ھٰذَہِ
یہ اچھی بدعت ہے)
حالانکہ تراویح سنتِ موکدہ ہے جس امر کی اصل شرع شریف سے ثابت ہو وہ ہرگز بدعتِ قبیحہ نہیں ہو سکتا ورنہ خود ہابیہ کے مدارس اور ان کے وعظ کے جلسے اس ہیات خاصہ کے ساتھ ضرور بدعت ہوں گے پھر انہیں کیوں نہیں موقوف کرتے مگر ان کے یہاں تو یہ ٹھہری ہے کہ محبوبانَ خدا کی عظمت کے جتنے امور میں سب سے بدعت اور جس میں ان کا مطلب ہو ہو حلال و سنت۔
وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اَلاَّ بَاللّٰہِ