ایلا کے متعلق مسائل
اللہ عزوجل فرماتا ہے ۔
للذین یؤلون من نسٓائھم تربص اربعۃ اشھرٍ ج فان فاؤ ا فان اللہ غفورٌرحیمٌ oوان عزمو االطلاق فان اللہ سمیعٌ علیمٌ o
( جولوگ اپنی عورتوں کے پاس جانے کی قسم کھالیتے ہیں ان کے لیئے چار مہینے کی مدت ہے پھر اگر اس مدت میں واپس ہوگئے ( قسم توڑدی ) تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے اور اگر طلاق کا پکا ارادہ کرلیا ( رجوع نہ کی) تو اللہ سننے والا جاننے والا ہے ( طلاق ہو جائیگی )
مسئلہ۱: ایلا کے معنی یہ ہیں کہ شوہر نے یہ قسم کھائی کہ عورت سے قربت نہ کریگا یا چار مہینے قربت نہ کریگا عورت باندی ہے تو اس کے ایلا کی مدت دو (۲) ماہ ہے ۔
مسئلہ۲: قسم کی دوصورت ہے ایک یہ کہ اللہ تعالی یا اس کے ان صفات کی قسم کھائی جن کی قسم کھائی جاتی ہے مثلاً اس کی عظمت و جلال کی قسم ۔ اس کی کبریائی کی قسم ۔ قرآن کی قسم ۔ کلام اللہ کی قسم ۔دوسری تعلیق مثلاً یہ کہاگر اس سے وطی کروں تو میرا غلام آزاد ہے یا میری عورت کو طلاق ہے یا مجھ پر اتنے دنوں کا روزہ ہے یا حج ہے ۔( عامہ کتب)
مسئلہ ۳: ایلا دو(۲) قسم ہے ایک موقت یعنی چار مہینے کا دوسرا مؤبد یعنی چار مہینے کی قید اس میں نہ ہو بہر حال اگر عورت سے چار مہینے کے اندر جماع کیا تو قسم ٹوٹ گئی اگر چہ مجنون ہواور کفارہ لازم جبکہ اللہ تعالی یا اس کے ان صفات کی قسم کھائی ہو۔اور جماع سے پہلے کفارہ دے چکا ہے تو اس کا اعتبار نہیں بلکہ پھر کفارہ دے۔ اور اگر تعلیق تھی تو جس بات پرتھی وہ ہوجائے گی مثلاً یہ کہا کہ اگر اس سے صحبت کروں تو غلام آزاد ہے اور چار مہینے کے اندر جماع کیا تو غلام آزاد ہو گیا اور قربت نہ کی یہاں تک کہ چار مہینے گزر گئے تو طلاق بائن ہوگئی۔ پھر اگر ایلا ئے موقت تھا یعنی چار ماہ کا تو یمین ساقط ہوگئی یعنی اگر اس عورت سے پھر نکاح کیا تو اسکا کچھ اثر نہیں ۔ اور اگر مؤبد تھا یعنی ہمیشہ کی اس میں قید تھی مثلاً خدا کی قسم تجھ سے کبھی قربت نہ کرونگایا اس میں کچھ قید نہ تھی مثلاًخدا کی قسم تجھ سے قربت نہ کرونگا تو ان صورتوں میں ایک بائن طلاق پڑگئی پھر بھی قسم بدستور باقی ہے یعنی اگر اس عورت سے پھر نکاح کیا تو پھر ایلا بدستور آگیا اگر وقت نکاح سے چارماہ کے اندر جماع کرلیا تو قسم کا کفارہ دے اور تعلیق بھی تو جزا واقع ہو جائیگی ۔اور اگر چار مہینے گزرلیے اور قربت نہ کی تو ایک طلاق بائن واقع ہوگئی مگر یمین بدستور باقی ہے سہ بارہ نکاح کیاتو پھر ایلاآگیا اب بھی جماع نہ کرے تو چار ماہ گزر نے پر تیسری طلاق پڑجائیگی اور اب بے حلالہ نکاح نہیں کر سکتا اگر حلالہ کے بعد پھر نکاح کیا تو اب ایلا نہیں یعنی چار مہینے بغیر قربت گزرنے پر طلاق نہ ہوگی مگر قسم باقی ہے اگر جماع کریگا کفارہ واجب ہوگا ۔اور اگر پہلی یا دوسری طلاق کے بعد عورت نے کسی اور سے نکاح کیا اس کے بعد پھر اس سے نکاح کیا تو مستقل طور پر اب سے تین طلاق کا مالک ہوگا مگر ایلا رہے گا یعنی قربت نہ کرنے پر طلاق ہوجائے گی پھر نکاح کیا پھر وہی حکم ہے پھر ایک یا دو طلاق کے بعد کسی سے نکاح کیا پھر اس سے نکاح کیا پھر وہی حکم ہے یعنی جب تک تین طلاق کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے ایلا بدستور باقی رہے گا۔( عالمگیری)
مسئلہ۴: ذمی نے ذات وصفات کی قسم کے ساتھ ایلا کیا یا طلاق و عتاق پر تعلیق کی تو ایلا ہے اور حج و روزہ و دیگر عبادات پر تعلیق کی تو ایلا نہ ہوا اور جہاں ایلا صحیح ہے وہاں مسلمان کے حکم میں ہے مگر صحبت کرنے پر کفارہ واجب نہیں ( عالمگیری)
مسئلہ۵: یوں ایلا کیا کہ اگر میں قربت کروں تو میرا فلاں غلام آزاد ہے اسکے بعد غلام مر گیا تو ایلا ساقط ہو گیا یونہی اگر اس غلام کو بیچ ڈالا جب بھی ساقط ہے مگر وہ غلام اگر قربت سے پہلے پھر اس کی ملک میں آگیا تو ایلا کا حکم لوٹ آئیگا۔( ردالمحتار)
مسئلہ۶: ایلا صرف منکوحہ سے ہوتا ہے یا مطلقہ رجعی سے کہ وہ بھی منکوحہ ہی کے حکم میں ہے اجنبیہ سے اور جسے بائن طلاق دی ہے اس سے ابتدائً نہیں ہو سکتا یونہی اپنی لونڈی سے بھی نہیں ہو سکتا ہاں دوسرے کی کنیز اس کے نکاح میں ہے تو ایلا کر سکتا ہے یونہی اجنبیہ کا ایلا اگر نکاح پر معلق کیا تو ہو جائیگا مثلاً اگر میں تجھ سے نکاح کر وں تو خدا کی قسم تجھ سے قربت نہ کرونگا ۔ ( ردالمحتار)
مسئلہ۷: ایلا کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ شوہر اہل طلاق ہو یعنی وہ طلاق دے سکتا ہو لہذا مجنون و نابالغ کا ایلا صحیح نہیں کہ یہ اہل طلاق نہیں ۔ ( درمختار)
مسئلہ۸: غلام نے اگر قسم کیساتھ ایلا کیا مثلاًخدا کی قسم میں تجھ سے قربت نہ کروں گا یا ایسی چیز پر معلق کیا جسے مال سے تعلق نہیں مثلاً اگر میں تجھ سے قربت کروں تو مجھ پر اتنے دنوں کا روزہ ہے یا حج یا عمرہ ہے یا میری عورت کو طلاق ہے تو ایلا صحیح ہے ۔ اور اگر مال سے تعلق ہے تو صحیح نہیں مثلاً مجھ پر ایک غلام آزاد کرنا یا اتنا صدقہ دینا لازم ہے تو ایلا نہ ہوا کہ وہ مال کا مالک ہی نہیں ۔ ( ردالمحتار)
مسئلہ۹: یہ بھی شرط ہے کہ چار مہینے سے کم کی مدت نہ ہو اور زوجہ کنیز ہے تو دو ماہ سے کم کی نہ ہو اور زیادہ کی کوئی حد نہیں اور زوجہ کنیز تھی اس کے شوہر نے ایلا کیا تھا اور مدت پوری نہ ہوئی تھی کہ آزاد ہوگئی تو اب اس کی مدت آزاد عورتوں کی ہے۔ اور یہ بھی شرط ہے کہ جگہ معین نہ کرے اگر جگہ معین کی مثلاً واللہ فلاں جگہ تجھ سے قربت نہ کروں گا تو ایلا نہیں ۔اور یہ بھی شرط ہے کہ زوجہ کے ساتھ کسی باندی یا اجنبیہ کو نہ ملائے مثلاً تجھ سے اور فلاں عورت سے قربت نہ کرونگا۔ اور یہ بعض مدت کا استثنا نہ ہو مثلاً چار مہینے تجھ سے قربت نہ کرونگا مگر ایک دن۔ اور یہ کہ قربت کے ساتھ کسی اور چیز کو نہ ملائے مثلاً اگر میں تجھ سے قربت کروں یا تجھے اپنے بچھونے پر بلاؤں تو تجھ کو طلاق ہے تو یہ ایلا نہیں ۔( خانیہ ‘ درمختار‘ ردالمحتار)
مسئلہ ۱۰: اس کے الفاظ بعض صریح ہیں بعض کنا یہ صریح وہ الفاظ ہیں جن سے ذہن معنی جماع کے طرف سبقت کرتا ہو اس معنی میں بکثرت استعمال کیا جاتا ہو اس میں نیت در کار نہیں بغیر نیت بھی ایلا ہے اور اگر صریح لفظ میں یہ کہے کہ میں نے معنی جماع کا ارادہ نہ کیا تھا تو قضائً اس کا قول معتبر نہیں دیانتہً معتبر ہے ۔ کنا یہ وہ جس سے معنی جماع متبادر نہ ہوں دوسرے معنی کا بھی احتمال ہواس میں بغیر نیت ایلا نہیں اور دوسرے معنی مراد ہونا بتا تا ہے تو قضائً بھی اس کا قول مان لیا جائیگا۔ ( ردالمحتار وغیرہ)
مسئلہ۱۱: صریح کے بعض الفاظ یہ ہیں واللہ میں تجھ سے جماع نہ کرونگا ۔ قربت نہ کرونگا۔ صحبت نہ کروں گا۔ وطی نہ کرونگا اور اردو میں بعض اور الفاظ بھی ہیں جو خاص جماع ہی کے لیئے بولے جاتے ہیں ان کے ذکر کی حاجت نہیں ہر شخص اردوں داں جانتا ہے علامہ شامی نے اس لفظ کو کہ میں تیرے ساتھ نہ سووًں گا صریح کہا ہے اور اصل یہ ہے کہ مدار عرف پر ہی عرفاً جس لفظ سے معنی جماع متبادر ہوں صریح ہے اگر چہ معنی مجازی ہوں ۔ کنا یہ کے بعض الفاظ یہ ہیں تیرے بچھونے کے قریب نہ جاؤنگا۔ تیرے ساتھ نہ لیٹونگا۔ تیرے بدن سے میرا بدن نہ ملے گا تیرے پاس نہ رہوں گا ۔ وغیرہا۔
مسئلہ۱۲: ایسی بات کی قسم کھائی کہ بغیر جماع کئے قسم ٹوٹ جائے تو ایلا نہیں مثلاً اگر میں تجھ کو چھوؤں تو ایسا ہے کہ محض بد ن پر ہاتھ رکھنے ہی سے قسم ٹوٹ جائیگی۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۳: اگر کہا میں نے تجھ سے ایلا کیا ہے اب کہتا ہے کہ میں نے ایک جھوٹی خبر دی تھی تو قضائً ایلا ہے اور دیانۃً اس کا قول مان لیا جائیگا ۔ اور اگر یہ کہے کہ اس لفظ سے ایلا کرنا مقصود تھا تو قضائً و دیانۃً ہر طرح ایلا ہے ۔(عالمگیری)
مسئلہ۱۴: یہ کہا کہ واللہ تجھ سے قربت نہ کرونگا جب تک تو یہ کام نہ کرلے اور وہ کام چار مہینے کے اندر کرسکتی ہے تو ایلا نہ ہوااگر چہ چار مہینے سے زیادہ میں کرے ۔ ( ردالمحتار)
مسئلہ۱۵: ایلا اگر تعلیق سے ہوتو ضرور ہے کہ جماع پر کسی ایسے فعل کو معلق کرے جس میں مشقت ہو لہذا اگر یہ کہا کہ اگر میں قربت کروں تو مجھ پر دورکعت نفل ہے تو ایلا نہ ہوااور اگر کہا کہ مجھ پر سو (۱۰۰) رکعتیں نفل کی ہیں تو ایلا ہو گیا ۔اور اگر وہ چیز ایسی ہے جس کی منت نہیں جب بھی ایلا نہ ہوامثلاً تلاوت قرآن ۔ نماز جنازہ ۔ تکفین میت ۔ سجدۂ تلاوت۔ بیت المقدس میں نماز ۔(درمختار ردالمحتار)
مسئلہ۱۶: اگر میں تجھ سے قربت کروں تو مجھ پر فلاں مہینے کا روزہ ہے اگر وہ مہینہ چار مہینے پورے ہونے سے پہلے پورا ہوجائے تو ایلا نہیں ورنہ ہے ۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۷: اگر میں تجھ سے قربت کروں تو مجھ پر ایک مسکین کا کھانا ہے یا ایک دن کا روزہ تو ایلا ہو گیا یا کہا خدا کی قسم تجھ سے قربت نہ کروں گا جب تک اپنے غلام کو آزاد نہ کروں یا اپنی فلاں عورت کو طلاق نہ دو یا ایک مہینے کا روزہ نہ رکھ لوں تو ان سب صورتوں میں ایلا ہے ۔( عالمگیری)
مسئلہ ۱۸: تو مجھ پر ویسی ہے جیسے فلاں کی عورت اور اس نے ایلا کیا ہے اور اس نے بھی ایلا کی نیت کی تو ایلا ہے ورنہ نہیں ۔ یہ کہا کہ اگر میں تجھ سے قربت کروں تو تو مجھ پر حرام ہے اور نیت ایلا کی ہے تو ہو گیا۔(عالمگیری)
مسئلہ۱۹: ایک عورت سے ایلا کیا پھر دوسری سے کہا تجھے میں نے اس کے ساتھ شریک کردیا تو دوسری سے ایلا نہ ہوا ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۲۰: دوعورتوں سے کہا واللہ میں تم دونوں سے قربت نہ کرونگا تو دونوں سے ایلا ہو گیا اب اگر چار مہینے گزر گئے اور دونوں سے قربت نہ کی تو دونوں بائن ہوگئیں ۔اور اگر ایک سے چار مہینے کے اندر جماع کرلیا تو اس کا ایلا باطل ہو گیا اور دوسری کا باقی ہے مگر کفارہ واجب نہیں ۔ اور اگر مدت کے اندر ایک مر گئی تو دونوں کا ایلا باطل ہے اور کفارہ نہیں اور اگر ایک کو طلاق دی تو ایلا باطل نہیں ۔ اور اگر مدت میں دونوں سے جماع کیا تو دونوں کا ایلا باطل ہوگیا اور ایک کفارہ واجب ہے۔( عالمگیری)
مسئلہ۲۱: اپنی چار عورتوں سے کہا خداکی قسم میں تم سے قربت نہ کرونگا مگر فلانی یا فلانی تو ان دونوں سے ایلا نہ ہوا ۔( عالمگیری)
مسئلہ۲۲: اپنی دوعورتوں کو مخاطب کرکے کہا خدا کی قسم تم میں سے ایک سے قربت نہ کرونگا تو ایک سے ایلا ہوا۔ پھر اگر ایک سے وطی کرلی ایلا باطل ہوگیا اورکفارہ واجب ہے ۔اور اگر ایک مر گئی یا مرتد ہ ہوگئی یا اس کو تین طلاقیں دیدیں تو دوسری ایلا کے لئے معین ہے۔ اور اگر کسی سے وطی نہ کی یہاں تک کہ مدت گزر گئی تو ایک کو بائن طلاق پڑگئی اسے اختیار ہے جسے چاہے اس کے لیئے معین کرے ۔اور اگر چار مہینے کے اندر ایک کو معین کرنا چاہتا ہے تو اسکا اسے اختیار نہیں اگر معین کر بھی دے جب بھی معین نہ ہوئی مدت کے بعد معین کرنے کا اسے اختیار ہے ۔اگر ایک سے بھی جماع نہ کیا اور چارمہینے اور گزر گئے تو دونوں بائن ہوگئیں اس کے بعد اگر پھر دونوں سے نکاح کیا ایک ساتھ یا آگے پیچھے تو پھر ایک سے ایلا ہے مگر غیر معین اور دونوں مدتیں گزرنے پر دونوں بائن ہو جائیں گی ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۲۳: اگر کہا تم دونوں میں کسی سے قربت نہ کرونگا تو دونوں سے ایلا ہے چار مہینے گزر گئے اور کسی سے قربت نہ کی تو دونوں کو طلاق بائن ہوگئی اور ایک سے وطی کرلی تو ایلا باطل ہے اور کفارہ واجب ۔( عالمگیری)
مسئلہ۲۴: اپنی عورت اور باندی سے کہا تم میں ایک سے قربت نہ کرونگا تو ایلا نہیں ہاں اگر عورت مراد ہے تو ہے اور ان میں ایک سے وطی کی تو قسم ٹوٹ گئی کفارہ دے۔ پھر اگر لونڈی کو آزاد کرکے اس سے نکاح کیا جب بھی ایلا نہیں اور اگر دوزوجہ ہوں ایک حرہ دوسری باندی اور کہا تم دونوں سے قربت نہ کرونگا تو دونوں سے ایلا ہے دو (۲) مہینے گزر گئے اور کسی سے قربت نہ کی تو باندی کو بائن طلاق ہوگئی اسکے بعد دو(۲) مہینے اور گزر ے تو حرہ بھی بائن ۔( عالمگیری)
مسئلہ۲۵: اپنی دو عورتوں سے کہا کہ اگر تم میں ایک سے قربت کروں تو دوسری کو طلاق ہے اور چار مہینے گزر گئے مگرکسی سے وطی نہ کی تو ایک بائن ہوگئی اور شوہر کو اختیار ہے جس کو چاہے طلاق کیلئے معین کرے اور اب دوسری سے ایلا ہے اگر پھر چار مہینے گزر گئے اور ہنوز پہلی عدت میں ہے تو دوسری بھی بائن ہوگئی ورنہ نہیں ۔ اور اگر معین نہ کیا یہاں تک کہ اور چار مہینے گزر گئے تو دونوں بائن ہوگئیں ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۲۶: جس عورت کو طلاق بائن دی ہے اس سے ایلا نہیں ہوسکتا اور رجعی دی ہے تو عدت میں ہوسکتا ہے مگر وقت ایلا سے چار مہینے پورے نہ ہوئے تھے کہ عدت ختم ہوگئی تو ایلا ساقط ہوگیا اور اگر ایلا کرنے کے بعد طلاق بائن دی تو طلاق ہوگئی اور وقت ایلا سے چار مہینے گزرے اور ہنوز طلاق کی عدت پوری نہ ہوئی تو دوسری طلاق پھر پڑگئی ۔اور اگر عدت پوری ہونے پر ایلا کی مدت پوری ہوئی تو اب ایلا کی وجہ سے طلاق نہ پڑے گی ۔اور اگر ایلا کے بعد طلاق دی اور عدت کے اندر اس سے پھر نکاح کرلیا تو ایلا بدستور باقی ہے یعنی وقت ایلا سے چار مہینے گزرنے پر طلاق واقع ہوجائے گی اور عدت پوری ہونے کے بعد نکاح کیا جب بھی ایلا ہے مگر وقت نکاح ثانی سے چار ماہ گزرنے پر طلاق ہوگی۔( خانیہ)
مسئلہ۲۷: یہ کہا کہ خدا کی قسم تجھ سے قربت نہ کرونگا دومہینے اور دو مہینے تو ایلا ہو گیا ۔اور اگر یہ کہا کہ واللہ دو مہینے تجھ سے قربت نہ کروں گا پھر ایک دن بعد بلکہ تھوڑی دیر بعد کہا واللہ ان دومہینوں کے بعد دومہینے قربت نہ کرونگا تو ایلا نہ ہوا مگر اس مدت میں جماع کریگا تو قسم کا کفارہ لازم ہے ۔اگر کہا قسم خدا کی تجھ سے چار مہینے قربت نہ کرونگا مگر ایک دن پھر فوراًکہا واللہ اس دن بھی قربت نہ کرونگا تو ایلا ہو گیا۔( عالمگیری ‘درمختار)
مسئلہ۲۸: اپنی عورت سے کہا تجھ کو طلاق ہے قبل اس کے تجھ سے قربت کروں تو ایلا ہوگیا اگر قربت کی تو فوراً طلاق ہوگئی اور چار مہینے تک نہ کی تو ایلا کی وجہ سے بائن ہوگئی ۔( عالمگیری)
مسئلہ۲۹: یہ کہا کہ اگر میں تجھ سے قربت کروں تو مجھ پر اپنے لڑکے کو قربانی کر دینا ہے تو ایلا ہو گیا ۔( عالمگیری)
مسئلہ۳۰: یہ کہا کہ اگر میں تجھ سے قربت کروں تو میرا یہ غلام آزاد ہے چار مہینے گزر گئے اب عورت نے قاضی کے یہاں دعوی کیا قاضی نے تفریق کردی پھر اس غلام نے دعوی کیا کہ میں غلام نہیں آزاد ہوں اور گواہ بھی پیش کردیئے قاضی فیصلہ کریگا کہ وہ آزاد ہے اور ایلا باطل ہو جائیگا اور عورت واپس ملے گی کہ ایلا تھا ہی نہیں (عالمگیری)
مسئلہ۳۱: اپنی عورت سے کہا خدا کی قسم تجھ سے قربت نہ کروں گا ایک دن بعد پھر یہی کہا ایک دن اور گزرا پھر یہی کہا تو یہ تین ایلا ہوئے اور تین قسمیں ۔چار مہینے گزرنے پر ایک بائن طلاق پڑی پھر ایک دن اور گزرا تو ایک اور پڑی اور تیسرے دن پھر ایک اور پڑی اب بغیر حلالہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی حلالہ کے بعد اگر نکاح اور قربت کی تو تین کفارے ادا کرے ۔اور اگر ایک ہی مجلس میں یہ لفظ تین بار کہے اور نیت تاکید کی ہے تو ایک ہی ایلا ہے اور ایک ہی قسم ۔اور اگر کچھ نیت نہ ہو بار بار قسم کھانا تشدد کی نیت سے ہوتو ایلا ایک ہے مگر قسم تین لہذا اگر قربت کریگا تو تین کفارے دے اور قربت نہ کرے تو مدت گزرنے پر ایک طلاق واقع ہوگی۔( درمختار)
مسئلہ ۳۲: خدا کی قسم میں تجھ سے ایک سال تک قربت نہ کرونگا مگر ایک دن یا ایک گھنٹہ تو فی الحال ایلا نہیں مگر جبکہ سال میں کسی دن جماع کرلیا اور ابھی سال پورا ہونے میں چار ماہ یا زیادہ باقی ہیں تو اب ایلا ہوگیا ۔ اور اگر جماع کرنے کے بعد سال میں چار مہینے سے کم باقی ہے یا اس سال قربت ہی نہ کی تو اب بھی ایلا نہ ہوا۔ اوراگر صورت مذکورہ میں ایک دن کی جگہ ایک بار کہا جب بھی یہی حکم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اگر ایک دن کہا ہے تو جس دن جماع کیا ہے اس دن آفتاب ڈوبنے کے بعد سے اگر چار مہینے باقی ہیں تو ایلا ہے ورنہ نہیں اگر چہ وقت جماع سے چارمہینے ہوں اور اگر ایک بار کا لفظ کہا تو جماع سے فارغ ہونے سے چار ماہ باقی ہیں تو ایلا ہوگیا ۔اور اگر یوں کہا کہ میں ایک سال تک جماع نہ کرونگا مگر جس دن جماع کروں تو ایلاکسی طرح نہ ہو اور اگر یہ کہا کہ تجھ سے قربت نہ کرونگا مگر ایک دن یعنی سال کا لفظ نہ کہا تو جب کبھی جماع کریگا اسوقت سے ایلا ہے ۔(درمختار وغیرہ)
مسئلہ۳۳: عورت دوسرے شہر یا دوسرے گاؤں میں ہے شوہر نے قسم کھائی کہ میں وہاں نہیں جاؤنگا تو ایلا نہ ہوا اگر چہ وہاں تک چار مہینے یا زیادہ کی راہ ہو ۔( درمختار ردالمحتار)
مسئلہ۳۴: جماع کرنے کو کسی ایسی چیز پر موقوف کیا جسکی نسبت یہ امید نہیں ہے کہ چار مہینے کے اندر ہوجائے تو ایلا ہو گیا مثلاً رجب کے مہینے میں کہے واللہ میں تجھ سے قربت نہ کرونگا جب تک محرم کا روزہ نہ رکھ لوں یا میں تجھ سے جماع نہ کرونگا مگر فلاں جگہ اور وہاں تک چار مہینے سے کم میں نہیں پہنچ سکتا یا جب تک بچہ کے دودھ چھڑانے کا وقت نہ آئے اور ابھی دو(۲) برس پورے ہونے میں چار ماہ یا زیادہ باقی ہے تو ان سب صورتوں میں ایلا ہے یونہی اگر وہ کام مدت کے اندر تو ہوسکتا ہے مگر یوں کہ نکاح نہ رہیگا جب بھی ایلا ہے مثلاً قربت نہ کرونگا یہاں تک کہ تو مرجائے یا میں مرجاؤں یا تو قتل کی جائے یا میں مار ڈالا جاؤں یا مجھے مار ڈالے یامیں تجھے مار ڈالوں یا میں تجھے تین طلاقیں دیدوں ۔( جوہرہ وغیرہا)
مسئلہ ۳۵: یہ کہا کہ تجھ سے قیامت تک قربت نہ کرونگا یا یہاں تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع کرے یا دجال لعین کا خروج ہو یا دابۃ الا رض ظاہر ہو یا اونٹ سوئی کے ناکے میں چلا جائے یہ سب ایلا ئے مؤبد ہے ۔(جوہرہ‘ نیرہ)
مسئلہ۳۶: عورت نا بالغہ ہے اس سے قسم کھا کر کہا کہ تجھ سے قربت نہ کرونگا جب تک تجھے حیض نہ آجائے اگر معلوم ہے کہ چار مہینے تک نہ آئیگا تو ایلا ہے یوہیں اگر عورت آئسہ ہے اس سے کہا جب بھی ایلا ہے ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۳۷: قسم کھا کر کہا کہ تجھ سے قربت نہ کرونگا جب تک تو میری عورت ہے پھر اسے بائن طلا ق دیکر نکاح کیا تو ایلا نہیں اور اب قربت کریگا تو کفارہ بھی نہیں ۔( عالمگیری)
مسئلہ۳۸: قربت کرنا ایسی چیز پر معلق کیا جو کر نہیں سکتا مثلاً یہ کہا جب تک آسمان کو نہ چھولوں توایلا ہوگیا اور اگر کہا کہ جماع نہ کرونگا جب تک یہ نہر جاری ہے اور وہ نہر بارہ مہینے جاری رہتی ہے تو ایلا ہے۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۳۹: صحت کی حالت میں ایلا کیا تھا اور مدت کے اندر وطی کی مگر اس وقت مجنون ہے تو قسم ٹوٹ گئی اور ایلا ساقط۔(فتح)
مسئلہ۴۰: ایلا کیا اور مدت کے اندر قسم توڑنا چاہتا ہے مگر وطی کرنے سے عاجز ہے کہ وہ خود بیمار ہے یا عورت بیمار ہے یا عورت صغیر سن ہے یا عورت کا مقام بند ہے کہ وطی ہونہیں سکتی یا یہی نا مرد ہے یا اسکا عضو کاٹ ڈالا گیا ہے یا عورت اتنے فاصلہ پر ہے کہ چار مہینے میں وہاں نہیں پہنچ سکتا یا خودقید ہے اور قید خانہ میں وطی نہیں کر سکتا اور قید بھی ظلماً ہو یا عورت جما ع نہیں کرنے دیتی یا کہیں ایسی جگہ ہے کہ اسکو اسکا پتا نہیں تو ایسی صورتوں میں زبان سے رجوع کے الفاظ کہہ لے مثلاً کہے میں نے تجھے رجوع کرلیا یا ایلا کو باطل کر دیا یا میں نے اپنے قول سے رجوع کیا یا واپس لیا تو ایلا جاتا رہیگا یعنی مدت پوری ہونے پر طلاق واقع نہ ہوگی اور احتیاط یہ ہے کہ گواہوں کے سامنے کہے مگر قسم اگر مطلق ہے یا مؤبد تو وہ بحالہ باقی ہے جب وطی کریگاکفارہ لازم آئیگا۔ اور اگر چار مہینے کی تھی اور چار مہینے کے بعد وطی کی تو کفارہ نہیں مگر زبان سے رجوع کرنے کے لیئے یہ شرط ہے کہ مدت کے اندر یہ عجز قائم رہے اور اگر مدت کے اندر زبانی رجوع کے بعد وطی پر قادر ہوگیا تو زبانی رجوع نا کافی ہے وطی ضرورہے ۔( درمختار‘ جوہرہ وغیرہما)
مسئلہ۴۱: اگر کسی عذر شرعی کی وجہ سے وطی نہیں کرسکتا مثلاً خود یا عورت نے حج کا احرام باندھا ہے اور ابھی حج پورے ہونے میں چار مہینے کا عرصہ ہے تو زبان سے رجوع نہیں کر سکتا یونہی اگر کسی کے حق کی وجہ سے قید ہے تو زبانی رجوع کافی نہیں کہ یہ عاجز نہیں کہ حق ادا کرکے قید سے رہائی پا سکتا ہے اور اگر جہاں عورت ہے وہاں تک چار مہینے سے کم میں پہنچے گا مگر دشمن یا با دشاہ جانے نہیں دیتا تو یہ عذر نہیں ۔ ( درمختار ردالمحتار)
مسئلہ۴۲: وطی سے عاجز نے دل سے رجوع کرلیا مگر زبان سے کچھ نہ کہا تو رجوع نہیں ۔(ردالمحتار)
مسئلہ۴۳: جس وقت ایلا کیا اس وقت عاجز نہ تھا پھر عاجز ہوگیا تو زبانی رجوع کافی نہیں مثلاً تندرست نے ایلا کیا پھر بیمار ہو گیا تو اب رجوع کے لئے وطی ضرور ہے مگر جبکہ ایلا کرتے ہی بیمار ہو گیا اتنا وقت نہ ملا کہ وطی کرتا تو زبان سے کہہ لینا کافی ہے ۔اور اگر مریض نے ایلا کیا تھا اور ابھی اچھا نہ ہوا تھا کہ عورت بیمار ہوگئی اب یہ اچھا ہوگیا تو زبانی رجوع ناکافی ہے ۔( درمختار ردالمحتار)
مسئلہ۴۴: زبان سے رجوع کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وقت رجوع نکاح باقی ہواور اگر بائن طلاق دیدی تو رجوع نہیں کر سکتا یہاں تک کہ اگر مدت کے اندر نکاح کرلیا پھر مدت پوری ہوئی تو طلاق بائن واقع ہوگئی ۔( درمختار ردالمحتار)
مسئلہ۴۵: شہوت کے ساتھ بوسہ لینا یا چھونا یا اس کی شرمگاہ کی طرف نظر کرنا یا آگے کے مقام کے علاوہ کسی اور جگہ وطی کرنا رجوع نہیں ۔( عالمگیری)
مسئلہ۴۶: اگر حیض میں جماع کرلیا تو اگر چہ یہ بہت سخت حرام ہے مگر ایلا جاتا رہا ۔( عالمگیری)
مسئلہ۴۷: اگر ایلا کسی شرط پر معلق تھا اور جس وقت شرط پائی گئی اس وقت عاجز ہے تو زبانی رجوع کافی ہے ورنہ نہیں ۔ تعلیق کے وقت کا لحاظ نہیں ۔( عالمگیری)
مسئلہ۴۸: مریض نے ایلا کیا پھر دس دن کے بعد دوبارہ ایلا کے الفاظ کہے تو دوایلا ہیں اور دو قسمیں اور دونوں کی دو مدتیں اگر دونوں مدتیں پوری ہونے سے پہلے زبانی رجوع کرلیا اور دونوں مدتیں پوری ہونے تک بیمار رہا تو زبانی رجوع صحیح ہے دونوں ایلا جاتے رہے ۔اور اگر پہلی مدت پوری ہونے سے پہلے اچھا ہو گیا تو وہ رجوع کرنا بیکار گیا ۔اور اگر زبانی رجوع نہ کیا تھاتو دونوں مدتیں پوری ہونے پر دو (۲)طلاقیں واقع ہونگی۔ اور اگر جماع کرلے گا تو دونوں قسمیں ٹوٹ جائیگی اور دو کفارے لازم ۔اور اگر پہلی مدت پوری ہونے سے پہلے زبانی رجوع کیا اور مدت پوری ہونے پر اچھا ہو گیا تو اب دوسرے کے لئے وہ کافی نہیں بلکہ جماع ضرور ہے ۔(عالمگیری)
مسئلہ۴۹: مدت میں اگر زوج و زوجہ کا اختلاف ہو تو شوہر کا قول معتبر ہے مگر عورت کو جب اس کا جھوٹا ہونا معلوم ہو تو اسے اجازت نہیں کہ اس کے ساتھ رہے جس طرح ہوسکے مال وغیرہ دیکر اس سے علیحدہ ہو جائے ۔اور اگر مدت کے اندر جماع کرنا بتاتی ہے تو شوہر کا قول معتبر ہے اور پوری ہونے کے بعد کہتا ہے کہ اثنائے مدت میں جماع کیا ہے تو جب تک عورت اس کی تصدیق نہ کرے اس کا قول نہ مانیں ۔( عالمگیری ‘ جوہرہ)
مسئلہ۵۰: عورت سے کہا اگر تو چاہے تو خدا کی قسم تجھ سے قربت نہ کرونگا اسی مجلس میں عورت نے کہامیں نے چاہا تو ایلا ہو گیا یونہی اگر اور کسی کے چاہنے پر ایلا معلق کیا تو مجلس میں اس کے چاہنے سے ایلا ہو جائیگا ۔( عالمگیری)
مسئلہ۵۱: عورت سے کہا تو مجھ پر حرام ہے اس لفظ سے ایلا کی نیت کی تو ایلا ہے اور ظہار کی تو ظہار ورنہ طلاق بائن اور تین کی نیت کی تو تین ۔اور اگر عورت نے کہا کہ میں تجھ پر حرام ہوں تو یمین ہے شوہر نے زبر دستی یا اس کی خوشی سے جماع کیا تو عورت پرکفارہ لازم ہے ۔( درمختار ردالمحتار)
مسئلہ۵۲: اگر شوہر نے کہا تو مجھ پر مثل مردار یا گوشت خنزیر یا خون یا شراب کے ہے اگر اس سے جھوٹ مقصود ہے تو جھوٹ ہے اور حرام کرنا مقصود ہے تو ایلا ہے اور طلاق کی نیت ہے تو طلاق۔( جوہرہ)
مسئلہ۵۳: عورت کو کہا تو میری ماں ہے اور نیت تحریم کی ہے تو حرام نہ ہوگی بلکہ یہ جھوٹ ہے ۔( جوہرہ)
مسئلہ۵۴: اپنی دوعورتوں سے کہا تم دونوں مجھ پر حرام ہو اور ایک میں طلاق کی نیت ہے دوسری میں ایلا کی یا ایک میں ایک طلاق کی نیت کی دوسری میں تین کی تو جیسی نیت کی اس کے موافق حکم دیا جائے گا۔ ( درمختار ‘عالمگیری)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔