ARTICLES

ایام منیٰ میں جمعہ کے روز نماز ظہر باجماعت نہ پڑھی جائے

استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دس ذوالحجہ کو جمعہ کا دن ہوتا ہے اس روز حاجی کو رمی بھی ہوتی ہے اور قربانی بھی اور حلق بھی اور نہا کر وہ لباس تبدیل کرنے کا بھی اہتمام کرتا ہے اس طرح جمعہ کی نماز وہ نہیں پڑھ پاتا اور اسے نماز ظہر ادا کرنی پڑتی ہے ۔ کیا وہ چند ایسے حاجیوں کے ساتھ مل کر نماز ظہر باجماعت ادا کر سکتا ہے کہ جنہوں نے نماز جمعہ نہیں پڑھی تھی؟

(السائل : محمد عرفان ضیائی، میٹھادر، کراچی)

متعلقہ مضامین

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں منیٰ میں نماز ظہر باجماعت ادا نہیں کریں گے کیونکہ منیٰ شہر کے حکم میں ہے چناچہ علامہ ابوالبرکات عبد اللہ بن احمد حنفی متوفی 710 ھ لکھتے ہیں :

شرط ادائھا المصر : و ھو کل موضع لہ امیر وقاض ینفذ الاحکام ویقیم الحدود او مصلاہ، و منیٰ مصر لا عرفات (78)

یعنی، جمعہ کی ادائیگی کی شرط مصر ہے اور مصر ہر وہ جگہ ہے جہاں امیر یا قاضی ہو جواحکام نافذ کرتا ہو اور حدود قائم کرتا ہو یا فنائے مصر ہو،منیٰ مصر ہے نہ کہ عرفات۔ مندرجہ بالا عبارت میں تصریح ہے کہ منیٰ مصر ہے ، اسی لئے فقہاء کرام نے منیٰ میں جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندی حنفی متوفی 993ھ اور ملا علی قاری حنفی متورفی 1014ھ لکھتے ہیں :

و یجمع ای یصلی الجمعۃ خلافا لمحمد بمنی ای ایام الموسم اذا کان فیہ امیر مکۃ او الحجاز او الخلیفۃ و اما امیر الموسم فلیس لہ ذلک ای التجمیع اتفاقا الا اذا استعمل علی مکۃ ای جعل عاملا و امیرا علیہا (79)

یعنی، ایام حج میں منیٰ میں جمعہ قائم کیا جائے گا یعنی جمعہ کی نماز پڑھی جائے گی برخلاف امام محمد کے جب کہ اس میں امیر مکہ یا امیر حجاز یا خلیفہ وقت ہو اور امیر حج کے لئے بالاتفاق جمعہ قائم کرنا جائز نہیں ، ہاں اگر اسے مکہ پر عامل اور امیر مقرر کر دیا گیا (تو جائز ہے )۔ اور علامہ شمس الدین ابن امیر الحاج محمد بن محمد حنفی متوفی 879ھ امام اسبیجابی کے حوالے سے لکھتے ہیں :

و ان کان امیر الموسم و ہو مقیم یجوز، و ان کان مسافر لا یجوز (80)

یعنی، اگر امیر حج ہے اور وہ مقیم ہے تو جائز ہے اور اگر مسافر ہے تو جائز نہیں ہے ۔ اور ایسی جگہ جو مصر کا حکم رکھتی ہو وہاں بروز جمعہ نماز ظہر باجماعت ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے چناچہ علامہ محمد بن عبد اللہ بن احمد حنفی متوفی 1004 ھ اور علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی 1088 ھ لکھتے ہیں :

و کرہ تحریما لمعذور و مسجون اداء الظھر بجماعۃ فی مصر و کذا اھل مصر فاتتھم الجمعۃ (81)

یعنی، معذور، قیدی کے لیے مصرمیں نماز ظہرباجماعت ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے اور اسی طرح ان اہل مصر کے لئے جن سے جمعہ فوت ہوگیا (یعنی جن کا جمعہ نکل گیا ہو)۔ اور وہ نماز ظہر باجماعت نماز جمعہ سے قبل پڑھیں یا نماز جمعہ کے بعد بہرحال دونوں حالتوں میں مکروہ تحریمی ہے ، چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی1088 ھ لکھتے ہیں :

قبل الجمعۃ وبعدھا (82)

یعنی،نماز جمعہ سے قبل اور اس کے بعد۔ لہٰذا معذور افرادجمعہ کے دن بغیر اذان واقامت اور بغیر جماعت کے نماز ظہر ادا کریں گے ۔ چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی لکھتے ہیں :

فانھم یصلون الظھر بغیر اذان و لا اقامۃ و لا جماعۃ (83)

یعنی، وہ نماز ظہر بغیر اذان واقامت اور بغیر جماعت ادا کریں گے ۔ اور مریض کے لیے تو مستحب ہے کہ وہ نماز ظہر کو جمعہ کے اختتام تک موخر کرے چناچہ علامہ علاء الدین حصکفی لکھتے ہیں :

و یستحب للمریض تاخیرھا الی فراغ الامام وکرہ ان لم یوخر ھو الصحیح (84)

یعنی، مریض کے لیے امام کے جمعہ سے فارغ ہونے تک نماز ظہر کو موخر کرنا مستحب ہے اور اگر موخرنہ کیا تو مکروہ ہے یہی صحیح ہے ۔ لہٰذا وہ اقامت پذیر جس کی نماز جمعہ نکل گئی یا کسی اور وجہ سے نہ پڑھ سکا اور مسافر اور معذور و مریض وغیرہم سب کے سب منیٰ میں جمعہ کے روز نماز ظہر باجماعت ادا نہیں کریں گے بلکہ تنہا پڑھیں گے ۔

واللٰہ تعالی اعلم بالصواب

ذو الحجۃ 1436ھـ، ستمبر 2015 م 980-F

حوالہ جات

78۔ کنزالدقائق، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، ص : 189

79۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب طواف الزیارۃ، مع قولہ : و یجمع، ص332

80۔ حلبۃ المجلی، فصل فی صفۃ الجمعۃ، تنبیہ، 2/536

81۔ تنویر الابصار و الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ص : 110

82۔ الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، تحت قولہ : اداء الظھر بجماعۃ… الخ، ص 110

83۔ الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ص110

84۔ الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ص 110

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button