شرعی سوالات

اگر پہلے عوض لینے کی شرط نہ لگائی ہو تو جو خرچ کیا جائے وہ تبرع و احسان ہے

سوال:

رشید احمد صاحب نے اپنی موجودگی میں سب بچوں کی شادی وغیرہ کر دی تھی صرف شیر علی خاں کی شادی نہ ہوئی تھی تو رشید احمد صاحب نے ایک مکان جس کی قیمت اس وقت مبلغ چار سورو پیہ تھی  سید اکبر کے نام اس شرط پر لکھ دیا کہ تم شیر علی خان کی شادی کر دینا مگر سید اکبر صاحب نے شیر علی خاں کی شادی نہ کی ۔ تو اس مکان میں شیر علی خاں کا کچھ حصہ یا حق ہے یا نہیں؟ اور آج وہ مکان کھلی ہوئی زمین ہے جس کی قیمت مبلغ چودہ سورو پے ہے اور ایک دکان ہے۔ تو رشید احمد کے اس مکان میں دونوں بھائیوں کا کتنا حق ہوتا ہے؟ اس وقت سید اکبر صاحب انتقال کر چکے ہیں ،ان کے تین بچے موجود ہیں ، دو لڑکیاں ہیں اور ایک لڑکا سید عثمان پاکستان میں ملازم ہے، مرحوم سید اکبر صاحب کے پاس جو کچھ رو پیہ تھا وہ پاکستان میں ہے، آں مرحوم نے چودہ پندرہ ہزار رکھ کر انتقال کیا۔

ان کا یہ کہنا تھا کہ میں نے جورو پیہ رکھا ہے اس میں سے تین بچے میرے ایک بھائی کے واسطے حج بیت اللہ کے واسطے رکھا گیا ہے۔ تو شیر علی صاحب کو اس میں سے کچھ مل سکتا ہے شرعی طور پر یا نہیں؟ اور مرحوم نے ہندوستان میں آ کر انتقال کیا۔

حالت بیماری میں مبلغ تین ہزار روپیہ خرچ ہو گیا، اب اگر باقی رو پیہ ہندوستان میں کسی وجہ سے منگوایا جائے تو کچھ کم لیں گے ۔ مرحوم نے اپنی دونوں لڑکیوں کو کفن و فن کا رو پیہ اس میں سے دینے کو کہا ہے اور مرحوم کے تینوں بچوں کی کفالت شیر علی خاں تقریباً بیس سال تک کرتے رہے کچھ دنوں سید اکبر صاحب مبلغ دس روپیہ ہر مہینے دیتے رہے۔ سید اکبر صاحب نے اپنے بچوں کا پورا حق پدری ادا نہیں کیا۔ بچوں کا تمام حق شیر علی خاں نے پورا کیا ہے۔

جواب:

صورت مسئولہ میں شیر علی کا اس گھر میں کوئی حق نہیں ہے۔ رشید احمد کا ہبہ سید اکبر کے حق میں صحیح ہے شادی کرنے کی شرط سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اور سید اکبر کی میراث ہے جو ان کے لڑکے اور لڑکیوں پر تقسیم ہوجائے گی۔ یہی حال سید اکبر صاحب کے مکان کا ہے اگر وہ ان کا ذاتی مکان ہے اور ان کی موت رشید احمد کے بعد ہے تو  اگر ان کا کوئی وارث قریب مثلاً لڑکا وغیرہ موجود ہے تو وہی ، ورنہ سید اکبر کے بھائی کا بھی حصہ ہو گا۔ اگر سید اکبر کا انتقال رشید احمد کی موجودگی میں ہو اور مکان سید اکبر کا ذاتی نہ ہو اور ذاتی بھی ہو تو وارث قریب نہ ہو تو اس کے ما لک رشید احمد ہوں گے ۔ اور ان کی موت کے بعد سید اکبر کے وارثوں اور عثمان اور شیر علی کو ملے گا۔ سید اکبر کے لڑکوں کے ساتھ شیر علی نے جو کچھ کیا ہے یہ سب بطور تبرع و احسان ہے اگر پہلے سے یہ طے نہ کر لیا ہو کہ میں اپنے اخراجات کا معاوضہ لوں گا تو اب اس کے بدلہ میں ان کو سید اکبر کے روپے سے کچھ نہیں ملے گا ۔سید اکبر نے اپنے روپے میں سے جس کو دینے کی وصیت کی ہے اگر وہ وارث نہیں ہے تو تمام وصیتیں صرف تہائی مال سے بقدر حصہ پوری کی جائیں گی ، چاہے حج کا روپیہ پورا ہو چاہے نہ ہو۔

  (فتاوی بحر العلوم، جلد5، صفحہ12، شبیر برادرز، لاہور)

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button