سوال:
مالک مکان نے اپنا مکان کسی کو دولاکھ روپے لے کر رہائش کے لیے دیا، طے یہ پایا کہ کرایہ کچھ نہیں دیا جائے گا لیکن مکان کی ٹوٹ پھوٹ کے اخراجات ، یوٹیلیٹی بلز رہنے والے کے ذمے ہوں گے ۔ جب وہ مکان خالی کرنا چاہے گا ، اس کے دولاکھ روپے اسے واپس مل جائیں گے۔ کیا یہ شرعا جائز ہے؟
جواب:
بظاہر جو صورت آپ نے بیان کی ہے ، یہ رہن ( Pledge ) کی صورت ہے ۔ اور اس میں راہن ( Pledger ) نے مرتہن (Pledgee) یعنی قرض خواہ کو مال رہن یعنی مکان سے استفادے کی اجازت دی ہے اور مال رہن سے نفع اٹھانے کی یہ صورت ناجائز ہے۔ اس میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ قرض کی رقم دو لاکھ روپے ادا کیے جانے کے بعد مرتہن(Pledgee ) را ہن یعنی مقروض کو مکان خالی کر کے واپس دے دے گا ۔
اصطلاح شریعت میں رہن اس مال کو کہتے ہیں ، جو مدیون ( مقروض ) اپنے دائن ( قرض خواہ ) کے پاس بطور ضمانت جمع کراتا ہے تا کہ دائن کو قرض کی ادائیگی کا یقین ہو جائے۔
اگر عقد کے وقت مال رہن سے راہن نے استفادے کی شرط نہ لگائی ہو تو یہ عقد جائز ہے ۔ یوٹیلیٹی ( بجلی ، پانی اور گیس کے ) بلز تو اجارہ (Leasing/Hiring ) پر مکان لیے کی صورت میں بھی کرایہ دار ہی ادا کرتا ہے، یہاں اس کی ادائیگی کے لیے کوئی اور ضابطہ نہیں ہے کہ یہ چیزیں اسی کے استعمال میں ہیں ۔
اصولاً مرتہن کے لیے مال مرہون سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے ، بلکہ جب چیز کسی کے پاس گروی رکھی جائے تو صراحت کر دی جائے کہ مرتہن اس سے نفع نہیں اٹھائے گا محض سکوت کافی نہیں ہے ، خاص طور پر جب کہ اس علاقے میں رہن سے استفادے کا رواج بھی ہو اور یہ امر معروف ہو اور نہ ہی مرتہن نفع اٹھانے کا مطالبہ کرے ۔ہاں ! نفع نہ اٹھانے کی شرط کے ساتھ کوئی چیز کسی کے پاس رہن رکھی، بعد میں راہن نے خوش دلی سے مرتہن کو اجازت دے دی کہ آپ اس سے نفع اٹھاتے رہیں تو اس صورت میں مرتہن کے لیے نفع اٹھانا جائز ہے ۔لیکن اس پر لازم ہے کہ جس مرحلے پر بھی راہن نفع اٹھانے سے منع کرے فورا کسی تردد کے بغیر رک جائے ۔ مندرجہ بالا صورت کے مطابق اگر بعد میں راہن نے مرتہن کو مکان میں رہنے کی اجازت دی ہو تو یہ جائز ہے اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی صارف پر ہے ۔ اور اگر ابتداً ہی سے نفع اٹھانے کی شرط رکھی گئی تھی، جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے تو یہ ناجائز ہے ۔
(تفہیم المسائل، جلد8، صفحہ338،ضیا القران پبلی کیشنز، لاہور)