الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص جوکہ ہالینڈیایوکے میں رہتاہے اس پرحج فرض ہے ،وہ خودحج کرنے سے عاجزہے اب وہ چاہتاہے کہ کسی سے اپناحج بدل کروائے توکیاوہ پاکستان سے کسی کوحج بدل کیلئے بھیج سکتاہے ؟واضح رہے کہ یوکے ،یورپ کی بنسبت پاکستان سے کسی کوبھیجنااسان اور اخراجات بھی کم ہوتے ہیں ۔ (سائل : حاجی عبدالحبیب عطاری،کراچی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں مذکورشخص فرض حج کی ادائیگی کیلئے پاکستان میں رہنے والے کسی فردکوحج بدل کیلئے بھیج سکتاہے اس پرلازم نہیں کہ وہ ہالینڈیایوکے سے ہی کسی شخص کوحج کیلئے بھیجے کیونکہ حج بدل کی دوقسمیں ہیں ایک یہ کہ زندہ شخص کہ جس پرحج فرض ہواوروہ حج کرنے سے عاجزہوکسی کوخرچہ دے کرحج بدل کے طورپربھیجے اوردوسراوہ کہ جس پرحج فرض ہوااوروہ کسی وجہ سے حج ادانہ کرسکااور مرنے سے قبل اس نے حج بدل کی وصیت کردی تواس کی طرف سے کسی شخص کو مرنے والے کے ترکہ سے خرچہ دے کرحج بدل کے طورپربھیجاجائے ۔فقہائے کرام نے جب حج بدل کے احکام اوراس کی شرطیں بیان کیں توان کی اکثریت نے مجموعی طورپراس کے احکام وشرائط کوذکرکیااوربعض نے دونوں قسموں کوعلیحدہ ذکرکیاجیساکہ ’’فتاویٰ ہندیہ‘‘( )اور’’البحرالعمیق‘‘( ) وغیرہما میں اسی طرح ہے اورمجموعی طورپرحج بدل کی جن شرائط کوذکرکیاگیاہے ان کی تعدادبیس ہے جیساکہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ نے ’’لباب المناسک‘‘( )میں بیس شرطیں ذکرکی ہیں ۔اورعلامہ علاءالدین حصکفی حنفی متوفی1088ھ نے ان الفاظ سے اس کا ذکرکیاکہ : واوصلها في ’’اللباب‘‘ الى عشرين شرطًا۔( ) یعنی،’’لباب المناسک‘‘میں حج بدل کی شرائط کوبیس تک پہنچایاہے ۔ اور’’درمختار‘‘کاحاشیہ لکھنے والوں میں سے علامہ سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ نے
’’ردالمحتار‘‘( )میں اور علامہ محمدطاہرسنبل مکی حنفی متوفی 1218ھ نے ’’حاشیہ ضیاءالابصارعلی منسک الدرالمختار‘‘( )میں ’’لباب المناسک‘‘ کے حوالے سے ان شرائط کونقل کیاہے ۔اوران بیس شرطوں میں سے کچھ کاتعلق حج بدل کی دونوں قسموں (یعنی زندہ شخص کی طرف سے کئے جانے والے حج بدل اورمیت کی طرف سے کئے جانے والے حج بدل)کے ساتھ ہے اورکچھ کاتعلق صرف میت کی طرف سے ادا کئے جانے والے حج بدل کے ساتھ ہے ۔اسی لئے مفتی وقاضئ مکہ علامہ ابوالبقاءمحمدبن احمدابن ضیاءمکی حنفی متوفی854ھ نے حج بدل کے عنوان کودوفصلوں میں تقسیم کیا۔چنانچہ لکھتے ہیں : الباب الثامن عشر : فی الحج عن الغیر وفیہ فصلان : الاول : فی الحج عن الحی العاجز، والثانی : فی الحج عن المیت الذی فاتہ الحج فی عمرہ۔( ) ملخصا یعنی،اٹھارواں باب حج بدل کے بارے میں ہے اوراس میں دوفصلیں ہیں پہلی فصل زندہ عاجزشخص کی طرف سے حج بدل کے بارے میں ہے اوردوسری فصل اس میت کی طرف سے حج بدل کے بارے میں ہے کہ جس کاحج کرنااس کی زندگی میں رہ گیاہو۔ اورانہوں نے وطن سے حج بدل کرنے والے مسئلہ کواس فصل میں ذکرکیاہے جومیت کی طرف سے حج بدل کرنے سے متعلق ہے اورمیت کی طرف سے اس کے وطن سے حج بدل بھی خاص صورتوں میں لازم ہے ورنہ اگرمرنے والااپنی طرف سے حج بدل کروانے کی جگہ کوبیان کرگیاتھاتواس کی بیان کردہ جگہ سے حج کروانالازم ہوگا۔چنانچہ علامہ محمدبن عبداللہ تمرتاشی حنفی متوفی 1004ھ اورعلامہ علاءالدین حصکفی حنفی 1088ھ لکھتے ہیں : (فان فسر المال) او المكان (فالامر عليه) اي على ما فسره۔( ) یعنی،اگرمیت نے مال یامکان کی وضاحت کردی توامراسی کے مطابق ہوگاجواس نے تفسیربیان کی تھی۔ اس کے تحت علامہ سیداحمدبن محمدطحطاوی حنفی متوفی1231ھ اوران کے حوالے سے علامہ سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ نقل کرتے ہیں : ان فسر المكان يحج عنه منه ۔( ) یعنی،اگرمیت نے جگہ بتائی تھی تواس کی طرف سے حج وہیں سے کیاجائے گا۔ اورامام حسین ابن محمدحنفی متوفی746ھ لکھتے ہیں : اما اذا بین فانہ یحج عنہ من الموضع الذین بین فیہ۔( ) یعنی،میت نے جگہ بتادی ہوتووہیں سے حج کیاجائے گاجہاں سے اس نے بتایاہے ۔ اورعلامہ نظام الدین حنفی متوفی1161ھ اورعلمائے ہندکی ایک جماعت نے لکھا ہے : وان اوصى ان يحج عنه من موضع، كذا من غير بلده؛ يحج عنه من ثلث ماله من ذلك الموضع الذي بين، قرب من مكة او بعد عنها۔۔ هكذا في البدائع۔( ) یعنی،اوراگراس نے کسی جگہ سے حج کرنے کی وصیت کی ہواسی طرح اپنے وطن کے علاوہ سے تواس کے تہائی مال میں سے وہیں سے حج کرایاجائے جہاں سے اس نے بیان کیا ہے خواہ وہ موضع مکہ سے قریب ہویابعید،اسی طرح’’بدائع الصنائع‘‘( ) میں ہے ۔ اوراگرمرنے والے نے جگہ نہیں بتائی تھی مطلق وصیت کی تھی توپھراس کے شہرسے حج کروانالازم ہوگا۔چنانچہ علامہ ابن ضیاءحنفی میت کی طرف سے حج بدل کے بارے میں لکھتے ہیں : ومنھا ان یحج من بلدہ الذی یسکنہ؛ لان الحج مفروض علیہ من بلدہ : فمطلق الوصیۃ تنصرف الیہ۔( ) یعنی،حج بدل کی شرائط میں سے ہے کہ اس کے شہرسے ہی حج کیاجائے کیونکہ حج اس پراپنے شہرسے کرنافرض تھالہٰذامطلق وصیت اسی کی طرف پھیری جائے گی۔ اورعلامہ تمرتاشی اورعلامہ حصکفی لکھتے ہیں : (والا فيحج) عنه (من بلده) قياسًا لا استحسانًا۔( ) یعنی،اگرمیت نے جگہ نہیں بتائی تھی بطورقیاس اس کے شہرسے حج کیاجائے گانہ کہ استحسانا۔ اورقیاس امام اعظم علیہ الرحمہ کاقول ہے اوراستحسان صاحبین کاقول ہے اورامام اعظم کاقول ہی مختارہے اسی کومتون میں ذکرکیاگیاہے ۔چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں : (قوله : قياسًا لا استحسانًا) الاول قول الامام، والثاني قولهما، واخر دليله في الهداية فيحتمل انه مختار له، لان الماخوذ به في عامة الصور الاستحسان عناية، وقواه في المعراج، لكن المتون على الاول، وذكر تصحيحه العلامة قاسم في كتاب الوصايا فهو مما قدم فيه القياس على الاستحسان۔( ) یعنی،پہلاقول امام اعظم علیہ الرحمہ کاہے جبکہ دوسراقول صاحبین کاہے ۔ اور ’’ہدایہ‘‘( )میں صاحبین کی دلیل کوبعدمیں ذکرکیاہے تویہ احتمال موجودہے کہ ان کے نزدیک صاحبین کاقول مختارہوکیونکہ اکثرصورتوں میں وہ جسے اپناتے ہیں وہ استحسان ہوتاہے ’’عنایہ‘‘( )اور’’المعراج‘‘( )میں اسے قوی قراردیا ہے لیکن متون اول قول پرہیں ۔علامہ قاسم نے ’’کتاب الوصایا‘‘( )میں اس کی تصحیح کاذکر کیاہے ۔پس یہ ان مسائل میں سے ہے جن میں قیاس استحسان پرمقدم ہوتاہے ۔ اورعلامہ قاسم کی عبارت یہ ہے : وعلی ھذا اذا مات الحاج عن غیرہ فی الطریق حج عن المیت من بلدہ عندہ، والصحیح قولہ، واختارہ المحبوبی والنسفی وصدر الشریعۃ وغیرھم۔( ) یعنی،جب دوسرے کی طرف سے حج بدل کرنے والاراستے میں فوت ہوجائے توابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک میت کی طرف سے حج بدل اس کے شہرسے کیاجائے گااورصحیح قول امام اعظم علیہ الرحمہ کاہے اوراسے امام نسفی( ) اورصدرالشریعہ( )وغیرہ نے اختیارکیا ہے ۔ اوریہ بھی اس صورت میں ہے کہ جب میت کاایک تہائی مال اس کے وطن سے حج کروانے کوکفایت کرے ۔چنانچہ علامہ ابن الضیاءحنفی لکھتے ہیں : ھذا اذا کان ثلث مالہ یکفی لذلک، اما اذا کان لا یکفی فمن حیث یبلغ۔( ) یعنی،یہ اس وقت ہے جبکہ اس کاتہائی مال اس کیلئے کافی ہولیکن جب کافی نہ ہوتوجہاں سے ہوسکتاہووہیں سے کیاجائے ۔ اوراگروطن سے حج کروانے کاخرچہ اس کے ایک تہائی مال سے زیادہ ہوتوپھروہاں سے حج کروایاجائے گاجہاں سے ایک تہائی مال سے حج ہوسکتاہو۔چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی اورملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں : (ان یحج عنہ من وطنہ ان اتسع الثلث) ای ثلث مال المیت )وان لم یتسع( ای الثلث (یحج عنہ من حیث یبلغ) ای استحسانا۔( ) یعنی،میت کی طرف سے حج اس کے وطن سے کیاجائے جبکہ اس کے ایک تہائی مال سے حج ہوسکتاہوورنہ جہاں سے حج ہوسکتاہووہیں سے کروایاجائے ۔ اورامام ظہیرالدین ابوبکرمحمدبن احمدحنفی متوفی619ھ لکھتے ہیں : لو اوصی بان یحج عنہ ان کان ثلث مالہ یبلغ الحج من وطنہ یحج عنہ وان کان لا یبلغ یحج عنہ من الموضع الذی یبلٖغ ولو کان ثلث مالہ یبلغٖ الحج ماشیا من وطنہ ومن موضعٍ اخر یبلغ راکبا فانہ یحج عنہ راکبا من حیث یبلغ ھکذا روی عن محمدٍ رحمہ اللہ۔( ) یعنی،اگرمیت نے اپنے حج بدل کی وصیت کی ہوتواگراس کاتہائی مال اتناہوکہ اس کے وطن سے حج ہوسکے تواس کی طرف سے حج کیا جائے اوراگراتنانہ ہوکہ جس سے حج ہوسکے تواس مقام سے حج کیاجائے جہاں سے ہوسکے اوراگراس کاتہائی مال اتناہوکہ اس کے وطن سے پیدل حج ہوسکے اوردوسرے مقام سے سوارہوکرتواس کی جانب سے سواری پرحج کیاجائے جوحج کرنے پہنچادے اسی طرح امام محمدعلیہ الرحمہ سے مروی ہے ۔ اورامام حسین ابن محمدحنفی متوفی746ھ لکھتے ہیں : ولو اوصی بان یحج عنہ وان کان ثلث مالہ یبلغ الحج من وطنہ یحج عنہ من وطنہ وان کان لا یبلغ یحجہ عنہ من الموضع الذی یبلغ ولو کان ثلث مالہ یبلغ الحج ماشیا من وطنہ ومن موضعٍ اخر یبلغ راکبا فانہ یحج عنہ راکبا من حیث یبلغ۔( ) یعنی،اگرکسی نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے حج کیاجائے تواگراس کاتہائی مال اتناہوکہ اس کے وطن سے حج ہوسکے تواس کے وطن ہی سے کیاجائے اوراگراتنانہ ہوکہ اس کے وطن سے پیدل چل کرحج کرنے پہنچاجائے لیکن دوسری جگہ سے وہ سوارہوکر پہنچ سکتاہوتووہیں سے سوارہوکراس کی طرف سے حج کیاجائے ۔ اورعلامہ نظام الدین حنفی متوفی1161ھ اور علمائے ہندکی ایک جماعت نے لکھا ہے : فان لم يبين مكانًا يحج عن من وطنه عند علمائنا، وهذا اذا كان ثلث ماله يكفي للحج من وطنه فاما اذا كان لا يكفي لذلك فانه يحج عنه من حيث يمكن الاحجاج عنه بثلث ماله، كذا في المحيط۔( ) یعنی،پس اگرحج بدل کاحکم دینے والے نے مکان معین نہ کیاہوتواس کی طرف سے حج بدل اس کے وطن سے کیاجائے اوریہ اس وقت ہے کہ جب اس کاتہائی مال اس کے وطن سے حج کیلئے کافی ہولیکن اگرکافی نہ ہوتواس کی جانب سے جہاں سے تہائی مال کے ذریعے حج کرناممکن ہووہاں سے حج کیاجائے اسی طرح’’محیط‘‘( )میں ہے ۔ اوراگراس کے چھوڑے ہوئے مال کی ایک تہائی سے مکہ مکرمہ کے علاوہ کہیں سے بھی حج نہ کروایاجاسکتاہوتو فقہائے کرام نے لکھاکہ پھروہیں سے حج کروایاجائے ۔ چنانچہ ملاعلی قاری لکھتے ہیں : والا فبادنی شیء یمکن ان یحج عنہ من مکۃ۔( ) یعنی،اوراگرکسی طرح ممکن نہ ہواس کی طرف سے حج بدل مکہ ہی سے کروایاجائے ۔ اورفقیہ حسین بن محمدسعیدمکی حنفی متوفی1366ھ لکھتے ہیں : قولہ : (من حیث یبلغ) : اقول : فیہ انہ لو کان ثلثہ لا یسع الا بان یحج من مکۃ فظاھرہ جواز ذلک۔( ) یعنی،جہاں سے حج ہوسکے میں کہتاہوں کہ اس میں ہے کہ یہ اس وقت ہے جبکہ میت کے مال کاتہائی حج کی وسعت رکھتاہوورنہ مکہ ہی سے حج کیاجائے پس اس کاظاہراس کاجوازہے ۔ اسی طرح مرنے والااگرمال کی ایک مخصوص مقداربیان کرجائے اوراس مال سے مرنے والے کے وطن سے حج ادانہ کیا جاسکے توحج بدل وہاں سے کروایا جائے گاجہاں سے حج اداہوسکے ۔چنانچہ ملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں : وکذا الحکم اذا اوصی ان یحج عنہ بمالہ، وسمی مبلغہ، فانہ ان کان یبلغ ان یحج عنہ من بلدہ حج عنہ منہ، والا فمن حیث یبلغ۔( ) یعنی،اسی طرح حکم ہے جب کوئی یہ وصیت کرے کہ میرے مال سے حج کیاجائے اور اس کی رقم بیان کردے تواگراس سے حج ہوسکتاہوتواس کی طرف سے اس کے شہرسے حج کیاجائے ورنہ جہاں سے ہوسکتاہو۔ لیکن افاقی کی طرف سے حج بدل میں حج کامیقات سے ہوناشرط قراردیاگیا ہے جیساکہ ائندہ سطورمیں مذکورہوگاتواس صورت میں مذکورشخص کاحج بدل مکہ مکرمہ سے کیسے درست ہوگاتواس کے جواب میں فقیہ حسین بن محمدسعیدمکی لکھتے ہیں : فلو احرم المامور من مکۃ لا یصح، واطلاق المتن ھنا یقتضی الجواز، ولم ار من تعرض لذلک۔ ویمکن ان یجاب عنہ بان ذلک عند الاطلاق، واما عند التعیین فلا، کما سیصرح بہ الشیخ رحمہ اللہ بقولہ : ولو اوصیٰ بان یحج عنہ من غیر بلدہ یحج عنہ کما اوصی، واما حالۃ الاطلاق فیشکل۔ قالہ الشیخ حنیف الدین المرشدی فی شرحہ۔ اقول : یمکن ان یجاب بان وجوب کونہ من میقات الامر عند اتساع الثلث، اما عند ضیقہ عنہ فلا یجب ذلک وان اطلق، واللہ اعلم۔ کذا افادہ العلامۃ یحی الحباب( ) ، واللہ اعلم اھ تعلیق الشیخ عبد الحق۔ اقول : وھذا بحث مھم ینبغی حفظہ،فانی رایت کثیرا من الجھلاء، یمنعون اخراج البدل من مکۃ مع قلۃ النفقۃ۔( ) یعنی،اگرمامورنے مکہ مکرمہ سے احرام باندھاتویہ درست نہیں جبکہ متن کااطلاق جواز کاتقاضہ کرتاہے اورمیں نے نہیں دیکھاکہ کسی نے اس وجہ سے اختلاف کیاہواورممکن ہے کہ اس کایہ جواب دیاجائے کہ یہ حکم مطلق حج بدل کی وصیت کی صورت میں ہے لیکن اگرمیت نے جگہ بتائی ہوتوپھرکوئی حرج نہیں جیساکہ شیخ رحمۃ اللہ علیہ عنقریب اس کی تصریح اپنے اس قول کے ذریعے کریں گے کہ اگرکسی نے اپنے شہرکے علاوہ سے حج بدل کی وصیت کی ہوتواس کی طرف سے وہیں سے حج کیاجائے جیسے اس نے وصیت کی ہو بہرحال مطلق ہونے کی صورت میں اشکال پیداہوتاہے ،اوراس کے بارے میں شیخ حنیف الدین مرشدی علیہ الرحمہ نے اپنی شرح میں کہاکہ میں کہتاہوں کہ امرکی میقات سے حج بدل کرنے کاوجوب ثلث مال کی وسعت کے وقت ہے اورتہائی سے کم مال ہونے کی صورت میں اس کے شہرسے حج بدل کرواناواجب نہیں اگرچہ اس نے مطلق وصیت کی ہو،واللہ اعلم۔اسی طرح اسے علامہ یحیٰ حباب نے بیان کیاہے ،واللہ اعلم۔اس پرشیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں اوریہ ایک اہم بحث ہے جس کویادرکھناچاہیے ۔ پس میں نے بہت سے جاہلوں کودیکھاہے کہ وہ خرچہ کی کمی کے باوجودبھی مکہ سے حج بدل کرنے کومنع کرتے ہیں ۔ کیونکہ مقصدمیت سے فرض کوساقط کرناہے ۔چنانچہ علامہ شامی نقل کرتے ہیں ( : سئل) فی رجلٍ اوصی بان یحج عنہ ولم یفسر مالا ولا مکانا ومات عن ورثۃٍ وترکۃ ثلثھا لا یفی بالحج عنہ من بلدہ والورثۃ لا یجیزون الزیادۃ علی الثلث فھل یحج عنہ من حیث یبلغ (الجواب) یحج عنہ من حیث یبلغ ثلث ترکتہ استحسانا، لان قصدہ اسقاط الفرض عنہ فاذا لم یکن علی الکمال فبقدر الامکان کما فی التنویر والبحر والمختار ووصایا الھدایۃ والملتقی وغیرھا۔( ) یعنی،ایک ایسے شخص کے بارے میں سوال کیاجس نے یہ وصیت کی تھی کہ اس کی طرف سے حج کیاجائے اوراس نے مال اورجگہ کو نہیں بتایاتھااورفوت ہوگیااوراس کاترکہ تہائی مال ہے کہ جواس کے شہرسے حج بدل کیلئے کافی نہیں ہے اورورثاءایک تہائی سے زائد مال کے ذریعے حج بدل کروانے کی اجازت نہیں دے رہیں توکیااس کی طرف سے وہاں سے حج کرسکتے ہیں جہاں سے ایک تہائی مال کے ذریعے حج بدل ہوسکے تواس کاجواب یہ ہے کہ اس کی طرف سے وہیں سے حج کیاجائے جہاں سے اس کے تہائی مال کے ذریعے حج بدل ہوسکتاہواوریہ استحساناہے کیونکہ مقصدمیت سے فرض کوساقط کرناہے پس جب کامل طورپرنہیں ہوسکتاتوجس قدرممکن ہوحج بدل کیاجائے
جیساکہ’’تنویرالابصار‘‘( )،’’بحرالرائق‘‘( )،’’مختار‘‘(
)اور’’وصایاہدایہ‘‘( )اور’’ملتقی الابحر‘‘( )وغیرہ میں ہے ۔
اورہمارامسئلہ زندہ عاجزشخص کے بارے میں ہے جواپنے وطن کے بجائے دوسری جگہ سے حج بدل کرواناچاہتاہے اور مندرجہ بالاسطورمیں حج بدل کی وصیت کرکے فوت ہونے والے شخص کاحج بدل کرنے اورکروانے والے کے احکام ذکر کرنے کا مقصدصرف یہ تھاکہ وطن سے حج کی شرط مطلق نہیں ہے صرف اس حاجی کے لئے ہے کہ جس پرحج فرض تھااوروہ ادانہ کرسکااور مطلق وصیت کرکے فوت ہوگیااور اس نے جگہ کاتعین بھی نہیں کیااوراپ نے پڑھا کہ ایسے شخص کاحج بدل درست ہونے کے لئے وطن سے حج کروانے کی لازمی شرط نہیں کیونکہ اس کے لئے بھی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں وطن سے حج بدل نہ کروایاگیاتو بھی حج فرض اداہو جائے گا۔ باقی افاقی شخص کے حج بدل کے لئے حج کاافاق سے ہوناضروری ہے ۔ چنانچہ فقیہ حسین بن محمدسعیدمکی لکھتے ہیں : لکن من جملۃ الشروط علی ما ستقف علیہ ان میقات الامر شرط لجواز ذلک۔( ) یعنی،لیکن ان تمام حج بدل کی شرائط میں سے ہے جس پرتوواقف ہواکہ امرکی میقات اس کے جوازکیلئے شرط ہے ۔ اورعلامہ رحمت اللہ سندھی نے میقات سے احرام کوحج بدل کی دسویں شرط لکھاہے اورعلامہ شامی نے بارہویں شرط لکھاہے ۔ اورامام اہلسنت امام احمدرضاخان حنفی متوفی1340ھ لکھتے ہیں : محجوج عنہ جب اہل افاق سے ہو تو لازم ہے کہ اس کی طرف سے حج افاقی کیا جائے اگر اس نے حج کو بھیجا اس نے عمرہ کا احرام باندھا بعد عمرہ موسم میں مکہ معظمہ سے احرام حج باندھا اس کی طرف سے حج نہ ہوگا کہ یہ حج مکی ہوانہ افاقی ، ہاں اگر قریب حج میقات کی طرف نکل کر احرام حج میقات سے باندھے تو جائز ہے کہ حج افاقی ہوا نہ مکی۔( ) اوردوسری جگہ لکھتے ہیں : قولہ : فراجعہ : الذی استقر علیہ ثم کلامہ ان اللازم جعلہ حجتہ افاقیۃ، ففی الصورۃ المذکورۃ لا یجوز لکون حجتہ مکیۃ، اما اذا قصد مکانًا داخل المیقات فدخل’’مکۃ‘‘ بلا احرامٍ لصیرورتہ میقاتیا، واقام واعتمر، او لم یعتمر حتی اذا جاء الحج خرج الی المیقات فاحرم منہ جاز لکون الحج افاقیًا وان لم یقع السفر الاول للحج خالصا۔( ) یعنی،جس مقام پروہ رہتاہوپھران کاکلام کہ یہ لازم ہے اس کی طرف سے حج افاقی کیاجائے لہٰذاصورت مذکورہ میں حج بدل ادانہیں ہوگاکیونکہ اس کاحج مکی ہوگابہرحال جب وہ میقات کے اندرداخل ہونے کاقصدکرے پھروہ مکہ میں خودکے میقاتی ہونے کی وجہ سے بلااحرام داخل ہواوروہاں ٹھہرے اورخواہ عمرہ کرے یانہ کرے یہاں تک کہ جب حج کاوقت ائے تومیقات سے باہرنکل کراحرام حج باندھے تویہ جائزہے کیونکہ اس کاحج افاقی ہوگیااوراگرچہ پہلاسفرخالص حج کے واسطے نہ ہو۔ اورمیقات سے احرام اگرچہ واجبات حج میں سے ہے نہ کہ شرائط حج سے مگراس صورت میں ماموربالحج امرکے حکم کی مخالفت کرنے والا قرارپاتا ہے ۔ چنانچہ فقیہ حسین بن محمدسعیدمکی حنفی نقل کرتے ہیں : فان المستفاد من کلام ’’الفتح‘‘ فی بیان المخالفۃ ان الامر بالحج تضمن السفر لہ ووقوع احرامہ من میقات اھل الافاق، فاحرامہ للحج من مکۃ مخالف لامر الامر اھ داملا اخون جان۔( ) یعنی،پس صاحب فتح القدیرکے کلام کاحاصل یہ ہے کہ یہ حکم دینے والے کی مخالفت کے سبب ہے کیونکہ حج کاحکم دے کراس نے اپنی طرف سے سفرکااسے ضامن بنایاہے اوراس کااحرام افاقیوں کی میقات سے واقع ہوگالہٰذاحج بدل کرنے والاجب مکہ سے احرام باندھے گاتووہ امرکے حکم کی مخالفت کرنے والاہوگا’’داملااخون جان‘‘۔ اس لئے فقہائے کرام نے لکھاکہ اس صورت میں بھیجنے والے کی طرف سے حج ادانہ ہوگا۔چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی اورملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں : (العاشر : ان یحرم من المیقات فلو اعتمر وقد امرہ بالحج ثم حج من عامہ من مکۃ لا یجوز ویضمن( ای قولھم جمیعا، ولا یجوز ذلک عن حجۃ الاسلام، لانہ مامور بحجۃ میقاتیۃٍ، کذا فی ’’الکبیر‘‘۔( ) یعنی،دسویں شرط یہ ہے کہ حج بدل کرنے والامیقات سے احرام باندھے پس اگراس نے عمرہ کیاجبکہ اسے حج کاحکم دیاگیاہے اورپھر اسی مکہ سے حج کیاتوحج بدل ادانہیں ہوگااوروہ تمام فقہائے کرام کے نزدیک ضامن ہوگااورنہ ہی اس سے فرض حج اداہوگا کیونکہ اسے میقاتی حج کرنے کاحکم دیاگیاتھا،اسی طرح’’منسک کبیر‘‘( )میں ہے ۔ یہاں بھی حج کروانے والے کے حکم کی مخالفت پائی گئی۔چنانچہ ملاعلی قاری لکھتے ہیں : حیث یکون مخالفا اذ صرف سفرہ المامور بہ للحج الفرض الی العمرۃ۔( ) یعنی،کیونکہ مامورفرض حج کے سفرکوعمرے کی طرف پھیرنے کی وجہ سے امرکے حکم کی خلاف ورزی کرنے والاہوگا۔ اوریہ سب اس صورت میں ہے جب حج بدل کروانے والازندہ ہویافوت ہوجانے والے کی وصیت مطلق ہواوراس کے ترکہ کاایک تہائی یااس کے مال کی متعین کردہ مقداروطن سے حج کوکفایت کرتی ہوورنہ سقوط فرض کومدنظررکھاجائے گاجیساکہ ذکرکردہ عبارات فقہاءسے ظاہرہے اوریہ بات علم المناسک میں مہارت رکھنے والے پرمخفی نہیں ہے ۔اورفقیرنے اس مسئلہ کوحل کرنے کی سعی کی ہے اگرحق ہے تومن جانب اللہ ہے اوراگرخطاہے تواس حقیرکی طرف سے ہے ۔ ھذا ما ظھر لی فی ھذا الباب واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب یوم الاحد،26/ذو القعدۃ،1443ھ۔26/جون،2022م