اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور دار ارقم کا واقعہ
مکہ معظمہ میں اسلام کا پہلا تعلیمی اور تبلیغی مرکز کوہ صفا کے دامن میں واقع دار ارقم تھا۔ اس میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس فرماتے۔ ابھی مسلمانوں کی تعداد ۳۹ تک پہنچی تھی کہ اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ کفار کے سامنے دعوت اسلام ‘ اعلانیہ پیش کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منع فرمانے کے باوجود اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اجازت پر اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت مرحمت فرما دی۔
قام ابوبکر فی الناس خطیباً و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جالس و کان اول خطیب دعا الی اللہ عز و جل والی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے خطبہ دینا شروع کیا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے سب سے پہلی یہی اعلانیہ دعوت تھی اور یہ اول خطیب ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اول خطیب الاسلام کہلائے۔ نتیجتًا کفار نے آپ (اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) پر حملہ کر دیا اور آپ رضی اللہ عنہ کو اس قدر زود و کوب کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ خون میں لت پت ہو گئے۔ کوئی آپ رضی اللہ عنہ کو پہچان نہ سکتا تھا۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ آپ (اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) کی روح پرواز کر چکی ہے تو اسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان کے لوگوں کو پتہ چلا تو وہ آپ رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر گھر لے گئے۔ اور مشورہ کیا کہ اگر آپ (اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) فوت ہو گئے۔ تو ہم اس کا ضرور بدلہ لیں گے۔
اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے والد گرامی ابو قحافہ’ والدہ اور آپ رضی اللہ عنہ کا خاندان اس انتظار میں تھا کہ کب ہوش آتا ہے ،سارا دن پروانہ عشق مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) بے ہوش رہا۔ دن کے آخری حصہ میں جب ہوش آیا تو آنکھ کھولی تو پہلا جملہ جو اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زبان اقدس پر جاری ہوا ،وہ یہ تھا
مافعل برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس حال میں ہیں
تمام خاندان ناراض ہو کر چلا گیا کہ ہم تو اس کی فکر میں ہیں اور اسے کسی اور کی فکر لگی ہوئی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ آپ کو کوئی نہ کوئی شے کھانے یا پینے کا کہتیں ، لیکن اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر مرتبہ یہی جواب تھاکہ اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا اور نہ ہی کچھ پیوں گا جب تک مجھے اپنے محبوب ﷺ کی خبر نہیں مل جاتی۔ کہ وہ کس حال میں ہیں۔ لخت جگر کی یہ حالت زار دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ کہنے لگیں
واللہ مالی علم بصاحبک
خدا کی قسم مجھے آپ کے دوست کی خبر نہیں کہ وہ کیسا ہے؟
آپ نے فرمایا حضرت ام جمیل بنت الخطاب کے پاس جاؤ اور ان سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں پوچھ کر آؤ۔ آپ (اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) کی والدہ ام جمیل کے پاس گئیں اور اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ماجرا بیان کیا ۔ چونکہ انہیں ابھی اپنا اسلام خفیہ رکھنے کا حکم تھا۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ میں ابوبکر ؓ اور ان کے دوست محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں جانتی۔ ہاں اگر تو چاہتی ہے تو میں تیرے ساتھ تیرے بیٹے کے پاس چلتی ہوں۔
حضرت ام جمیل ؓ آپ (اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) کی والدہ کے ہمراہ جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں تو ان کی حالت دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور کہنے لگیں۔
انی لا رجو ان ینتقم اللہ لک
اللہ تعالی ان سے تمہارا ضرور بدلہ لے گا۔
اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ان باتوں کو چھوڑو یہ بتاؤ ؟
ما فعل برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس حال میں ہیں؟
انہوں نے اشارہ کیا کہ آپ کی والدہ سن رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا فکر نہ کرو بلکہ بیان کرو۔ انہوں نے عرض کیا۔
ھو سالم صالح ۔
آپ محفوظ وبا خیریت ہیں۔
پوچھا؟
این ھو؟
آپ اس وقت کہاں ہیں؟
انہوں نے عرض کیا آپ دارارقم میں ہی تشریف فرما ہیں۔
آپ نے یہ سن کر فرمایا
فان للہ تبارک و تعالی علی الیۃ ان لا اذوق طعاماً او شراباً اواتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
خدائے بزرگ و برتر کی قسم میں اس وقت تک نہ کچھ کھاؤں گا اور نہ ہی پیوں گا جب تک میں اپنے محبوب کو آنکھوں سے باخیریت دیکھ نہ لوں
شمع مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پروانے (اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) کو سہارا دے کر دار ارقم لایا گیا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عاشق زار (اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا تو آگے بڑھ کر تھام لیا۔
فاکب علیہ فقبلہ و اکب علیہ المسلمون ورق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رقۃ شدیدۃ
(تاریخ الخمیس – ۱،۲۹۴)
اور اپنے عاشق زار (اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) پر جھک کر اس کے بوسے لینا شروع کر دیئے تمام مسلمان بھی آپ کی طرف لپکے۔ آپ (اول خطیب الاسلام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) کو زخمی حالت میں دیکھ کرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عجیب رقت طاری ہو گئی۔
آپ نے عرض کیا کہ میری والدہ حاضر خدمت ہیں ان کے لئے دعا فرمائیں۔ اللہ تعالی انہیں دولت ایمان سے نوازے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور وہ وہیں دولت ایمان سے شرف یاب ہو گئیں۔
صحابہ کرام کس طرح چہرہ نبوت کی دیدار فرحت آثار سے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کیا کرتے تھے۔ اور ان کے نزدیک پسند ودل بستگی کا کیا معیار تھا۔ اس کا اندازہ اس روایت سے بخوبی ہو جاتا ہے۔
ماخوذ از کتاب: مشتاقان جمال نبوی کی کیفیات جذب و مستی
مصنف : بدر المصنفین شیخ الحدیث محقق العصر حضرت مولانا مفتی محمد خان قادری(بانی ، جامعہ اسلامیہ لاہور)۔
2 تبصرے