اولاد پر یا اپنی ذات پر وقف کے متعلق مسائل
مسئلہ ۱: یوں کہا کہ ا س جائداد کو میں نے اپنے پر وقف کیا میرے بعد فلاں پر اسکے بعدفقرا پر یہ وقف جائز ہے ۔ یونہی اپنی اولاد یا نسل پر بھی وقف کرنا جائز ہے ۔( عالمگیری)
مسئلہ۲: اپنی اولاد پر وقف کیا انکے بعد مساکین و فقرا پر تو جو اولاد آمدنی کے وقت موجود ہے اگرچہ وقف کے وقت موجونہ تھی اسے حصہ ملے گا اور جو وقف کے وقت موجود تھی او را ب مرچکی ہے اسے حصہ نہیں ملے گا۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۳: اولاد نہیں ہے اور اولاد پر یوں وقف کیا کہ جو میری اولاد پیدا ہو وہ آمدنی کی مستحق ہے یہ وقف صحیح ہے اور ا س صورت میں جب تک اولاد پیدا نہ ہو وقف کی جو کچھ آمدنی ہوگی مساکین پر صرف ہوگی اور جب اولاد پیدا ہوگی تو اب جو کچھ آمدنی ہوگی اس کو ملے گی ۔( خانیہ )
مسئلہ۴: اولاد پر وقف کیا تو لڑکے اور لڑکیا ں اورخنثی سب اس میں داخل ہیں اور لڑکوں پر وقف کیا تو لڑکیا ں اور خنثی داخل نہیں اور لڑکیوں پر وقف کیا تو لڑکے اور خنثی داخل نہیں اور یوں کہا کہ لڑکے اور لڑکیوں پر وقف کیا تو خنثی داخل ہے کہ وہ حقیقتہً لڑکا ہے یا لڑکی اگرچہ ظاہر میں کوئی جانب متعین نہ ہو۔( عالمگیری)
مسئلہ۵: اپنی اس اولاد پر وقف کیا جو موجود ہے اور نسلاًبعد نسل اسکی اولاد پر تو واقف کی جو اولاد وقف کرنے کے بعد پیدا ہوگی یہ اور اسکی اولاد حقدار نہیں ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۶: اولاد پر وقف کیا تو اس اولاد کو حصہ ملے گا جو معروف النسب ہواور اگر اسکا نسب صرف واقف کے اقرار سے ثابت ہوتا ہو تو آمدنی کی مستحق نہیں اسکی صورت یہ ہے کہ ایک شخـص نے جائداد اولادپر وقف کی اور وقف کی آمدنی آنے کے بعد چھ مہینے سے کم میں اسکی کنیز سے بچہ پیدا ہوا اس نے کہا یہ میرا بچہ ہے تونسب ثابت ہو جائے گا۔مگر اس آمدنی سے اسکو کچھ نہیں ملے گا ۔ اوراگرمنکوحہ یا ام ولد سے چھ مہینہ سے کم میں بچہ پیدا ہوا تو اپنے حصہ کا مستحق ہے ۔اور آمدنی سے چھ مہینے یا زیادہ میں پیدا ہو تو اس آمدنی سے اس کو حصہ نہیں ( عالمگیری)
مسئلہ۷: اپنی نا بالغ اولاد پر وقف کیا تو وہ مرادہیں جو وقف کے وقت بچے ہوں اگرچہ آمدنی کے وقت جوان ہوں یا اندھی یا کانی اولاد پر وقف کیا تو وقف کے دن اندھے اور کانے ہیں وہ مراد ہیں اگر وقف کے دن اندھا نہ تھا آمدنی کے دن اندھا ہوگیا تو مستحق نہیں اور اگر یوں وقف کیا کہ اسکی آمدنی کی مستحق میری وہ اولاد ہے جو یہاں سکونت رکھے تو آمدنی کے وقت یہاں جس کی سکونت ہوگی وہ مستحق ہے وقف کے دن اگرچہ سکونت نہ تھی۔ ( عالمگیری‘ فتح القدیر )
مسئلہ ۸: اپنی اولاد پر وقف کیا اور شرط کردی کہ جو یہاں سے چلاجائے اسکا حصہ ساقط تو جانے کے بعد واپس آجائے تو بھی حصہ نہیں ملے گاہاں اگر واقف نے یہ بھی شرط کی ہوکہ واپس ہونے پر حصہ ملے گا۔ اب ملے گا۔ یونہی اگر یہ شرط کی ہے کہ میری اولاد میں جو لڑکی بیوہ ہوجائے اس کو دیا جائے تو جب تک بیوہ ہونے پر نکاح نہ کریگی ملے گا اور نکاح کرنے پر نہیں ملے گااگرچہ نکاح کے بعد اسکے شوہر نے طلاق دیدی ہو مگر جب کہ واقف نے یہ شرط کردی ہو کہ پھر بے شوہر والی ہوجائے تو دیا جائے تواب دیا جائے گا۔(فتح القدیر)
مسئلہ۹: اولاد ذکور اور ذکور کی اولاد پر وقف کیا تو اسی کے موافق تقسیم ہوگی اور اگر اولاد ذکور کی اولاد ذکورپر نسلاً بعد نسل وقف کیا تو لڑکیوں کو اس میں سے کچھ نہ ملے گا بلکہ اس نسل میں جتنے لڑکے ہونگے وہی حقدار ہونگے۔ اورذکور کا سلسلہ ختم ہونے پر فقرأ پر صرف ہوگا۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۰: اولاد جو حاجت مند ہوں ان پر وقف کیا تو آمدنی کے وقت جو ایسے ہوں وہ مستحق ہونگے اگرچہ وہ پہلے مالدار تھے اور جو پہلے حاجت مند تھے اور اب مالدار ہوگئے تو مستحق نہیں ۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۱: محتاج اولاد پر وقف کیا تھااور آمدنی چند سال تک تقسیم نہیں ہوئی یہاں تک کہ مالدار محتاج ہوگئے اور محتاج مالدار تو تقسیم کے وقت جو محتاج ہوں ان کو دیا جائے ۔(فتح القدیر)
مسئلہ۱۲: اپنی اولاد میں جو عالم ہواس پر وقف کیا تو غیر عالم کو نہیں ملے گا اور فرض کرو چھوٹا بچہ چھوڑکر مرگیاجو بعد میں عالم ہوگیا تو جب تک عالم نہیں ہواہے اسے نہیں ملے گا ۔ اور نہ اس زمانہ کی آمدنی کاحصہ اسکے لئے جمع رکھا جائے گابلکہ اب سے حصہ پانے کا مستحق ہوگا۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۳: اگر اولاد پر وقف کیا مگر نسلاًبعد نسل نہ کہا تو صرف صلبی کو ملے گا۔اورصلبی اولاد ختم ہونے پر انکی اولاد مستحق نہیں ہوگی بلکہ حق مساکین ہے اور اس صورت میں اگر وقف کے وقت اس شخص کی صلبی اولاد ہی نہ ہو اور پوتا موجود ہے تو پوتا ہی صلبی اولاد کی جگہ ہے کہ جب تک یہ زندہ ہے حقدار ہے اور نواسہ صلبی اولاد کی جگہ نہیں اور وقف کے بعد صلبی اولاد پیدا ہوگئی تو اب پوتا نہیں پائے گا بلکہ صلبی اولاد مستحق ہے اور فرض کرو پوتا بھی نہ ہو مگر پرپوتااورپر پوتے کا لڑکا ہو تو یہ دونوں حقدار ہیں ۔( خانیہ وغیرہ)
مسئلہ ۱۴: اولاد اور اولاد کی اولاد پر وقف کیا تو صرف دوہی پشت تک کی اولاد حقدار ہے پوتے کی اولاد مستحق نہیں اور ا س میں بھی بیٹی کی اولاد یعنی نواسے نواسیوں کا حق نہیں اور اگریوں کہا کہ اولاد پھر اولاد کی اولاد پھر انکی اولاد یعنی تین پشتیں ذکر کردیں تو یہ ایساہی ہے جیسے نسلاً بعد نسل اور بطنًا بعد بطن کہتا کہ جب تک سلسلہ اولاد میں کوئی باقی رہے گا حقدار ہے اورنسل منقطع ہوجائے تو فقرا کو ملے گا۔( خانیہ وغیرہا)
مسئلہ۱۵: بیٹوں ( صیغۂ جمع ) پر وقف کیا اور دو یا زیادہ ہوں تو سب برابربرابر تقسیم کرلیں اور ایک ہی بیٹا ہو تو آمدنی میں نصف اسے دیں گے اور نصف فقرا کو اور اگر بیٹے اور بیٹے کی اولاد اوراسکی اولاد کی اولاد پر نسلاًبعد نسل وقف کیا تو بیٹے کی تمام اولاد ذکوروانا ث پر برابراتقسیم ہوگا اور اگر وقف میں مرد کو عورت سے دونا کہاہو تو برابر نہیں دیں گے بلکہ اس کے موافق دیں جیسا وقف میں مذکور ہے ۔ پوتے اور پر پوتے دونوں کو برابر دیا جائے گا ہاں اگر واقف نے وقف میں یہ ذکر کر دیا ہو کہ بطن اعلی کو دیا جائے وہ نہ ہوں تواسفل کو تو پوتے کے ہوتے ہوئے پر پوتے کو نہیں دیں گے بلکہ اگر ایک ہی پوتا ہو تو کل کا یہی حقدار ہے اسکے مرنے کے بعد تمام پوتے کی اولاد کو ملے گااس پوتے کی اولاد کو بھی اور جو پوتے اس سے پہلے مرچکے ہیں ان کو اولاد وں کو بھی اور اگریہ کہہ دیا ہوکہ بطن اعلی میں جو مرجائے اسکا حصہ اسکی اولاد کو دیا جائے تو جو پوتا موجود ہے اسے ملے گا اور جو مرگیا ہے اسکا حصہ اس کی اولاد کو ملے گا۔(عالمگیری)
مسئلہ ۱۶: آمدنی آگئی ہے مگر ابھی تقسیم نہیں ہوئے کہ ایک حقدار مرگیا تو اسکا حصہ ساقط نہیں ہوگا بلکہ اسکے ورثہ کو ملے گا۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۷: ایک شخص نے کہا میرے مرنے کے بعد میری یہ زمین مساکین پر صدقہ ہے اور یہ زمین ایک تہائی کے اندر ہے تو مرنے کے بعدا سکی آمدنی اس کی اولاد کو نہیں دی جاسکتی اگرچہ فقیر و محتاج ہو۔ اور اگر صحت میں وقف کرے اور ما بعد موت کی طرف مضاف نہ کرے پھر مرجائے اور اسکی اولاد میں ایک یا چند مسکین ہوں توان کو دینا بہ نسبت دوسرے مساکین کے زیادہ بہتر ہے مگر ہر ایک کو نصاب سے کم دیا جائے ۔( فتاوی قاضی خاں )
مسئلہ۱۸: صحت میں فقرا پر وقف کیا اور واقف کے ورثہ فقیر ہوں تو ان کو دینا زیادہ بہتر ہے مگراس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ کل مال انہیں کو نہ دیا جائے بلکہ کچھ ان کو دیا جائے اور کچھ غیروں کو اور اگر کل دیا جائے تو ہمیشہ نہ دیا کہ کہیں کو گ یہ نہ سمجھ نے لگیں کہ انہیں پر وقف ہے ۔( خانیہ )
مسئلہ۱۹: صحت میں جو وقف فقرا پر کیا گیا اس کامصرف اولاد کے بعدسب سے بہتر واقف کی قرابت والے ہیں پھراسکے آزاد کردہ غلام پھر اسکے پڑوس والے پھر اسکے شہر کے وہ لوگ جو واقف کے پاس اٹھنے بیٹھنے والے اسکے دوست احباب تھے ۔( خانیہ )
مسئلہ۲۰: اپنی اولاد پر وقف کیا اور انکے بعد فقرا پر اور اسکی چند اولاد یں ہیں ان میں سے کوئی مرجائے تو وقف کی کل آمدنی باقی اولاد پر تقسیم ہوگی اور جب سب مرجائیں گے اس وقت فقرا کو ملے گی۔ اور اگر وقف میں اولاد کانام ذکر کر دیا ہو کہ میں نے اپنی اولاد فلاں و فلاں پر وقف کیا اور انکے بعد فقرا پر تو اس صورت میں جو مرے گا اس کا حصہ فقرأ کو دیا جائے گا۔اب باقیوں پر کل تقسیم نہیں ہوگا۔( خانیہ )
مسئلہ ۲۱: اپنی اولاد پر مکان وقف کیا ہے کہ یہ لوگ ا س میں سکونت رکھیں تو اس میں سکونت ہی کرسکتے ہیں کرایہ پر نہیں دے سکتے ۔ اگرچہ اولاد میں صرف ایک ہی شخص ہے اور مکان اسکی ضرورت سے زیادہ ہے ۔اور اگر اسکی اولاد میں بہت سے اشخاص ہوں کہ سب اس میں سکونت نہیں کرسکتے جب بھی کرایہ پر نہیں دے سکتا بلکہ باہمی رضامندی سے نمبر وار ہرایک اس میں سکونت کرسکتا ہے ۔اور اگر مکان موقوف بہت بڑا ہے جس میں بہت سے کمرے اور حجرے ہیں تو مردوں کی عورتیں اور عورتوں کے شوہر بھی رہ سکتے ہیں کہ مرد اپنی عورت اور نوکر چاکر کے ساتھ علیحدہ کمرہ میں رہے اور دوسرے لوگ دوسرے کمروں میں اور اگر اتنے کمرے اور حجرے نہ ہوں کہ ہر ایک علیحدہ سکونت کرے تو صرف وہی لوگ رہ سکتے ہیں جن پر وقف ہے یعنی اولاد ذکورکی بی بیاں اور اولاد اناث کے خاوند نہیں رہ سکتے ۔( فتح القدیر ‘ ردالمحتار)
مسئلہ ۲۲: اگر مکان موقوف تمام اولاد کے لئے نا کافی ہے بعض اس میں رہتے ہیں اور بعض نہیں تو نہ رہنے والے ساکنان سے کرایہ نہیں لے سکتے نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اتنے دن تم رہ چکے ہو اور اب ہم رہیں گے ۔بلکہ اگر چاہیں تو انہیں کے ساتھ رہ لیں ۔( درمختار ‘ردالمحتار)
مسئلہ۲۳: اولاد کی سکونت کے لئے مکان وقف کیا ہے ان میں سے ایک نے سارے مکان پر قبضہ کررکھا ہے دوسرے کو گھسنے نہیں دیتا تو اس صورت میں ساکن پر کرایہ دینا لازم ہے کہ یہ غاصب ہے اور غاصب کو ضمان دینا پڑتا ہے۔( درمختار)
مسئلہ۲۴: قرابت والوں پر وقف کیا تو وقف صحیح ہے اور مرد عورت دونوں برابر کے حقدار ہیں مرد کوعورت سے زیادہ حصہ نہیں دیا جائے گا اور قرابت والوں میں واقف کی اولاد بیٹے پوتے وغیرہ یا اسکے اصول باپ دادا وغیرہ کا شمار نہ ہوگا یعنی ان کو حصہ نہیں ملے گا۔( خانیہ)
مسئلہ۲۵: قرابت والوں پر وقف کیا اور واقف کے چچا بھی ہیں اور ماموں بھی تو چچاؤں کو ملے گا ماموؤں کونہیں ۔ اور ایک چچا اور دو ماموں ہوں تو آدھا چچا کو اورآدھے میں دونوں ماموؤں کو یہ جبکہ لفظ جمع ( قرابت والوں )ذکر کیا ہواور اگر لفظ واحد قرابت والا کہا تو فقط چچا کو ملے گا۔( عالمگیری)
مسئلہ۲۶: اپنی قرابت کے محتاجین و فقرا پر وقف کیا تو وقف صحیح اور قرابت والوں میں انہیں کو ملے گا جو محتاج و فقیر ہوں ۔( خانیہ )
مسئلہ۲۷: مکان وقف کیا اور شرط یہ کردی کہ میری فلاں بیوہ جب تک نکاح نہ کرے اس میں سکونت کرے ۔ واقف کے مرنے کے بعد ا سکی بیوہ نے نکاح کرلیا تو سکونت کا حق جاتا رہا اور نکاح کے بعد پھر بیوہ ہوگئی یا شوہر نے طلاق دیدی جب بھی حق سکونت عود نہ کرے گا۔( درمختار)
مسئلہ ۲۸: متولی کو وقف نامہ ملا جس میں یہ لکھا ہے کہ اس محلہ کے محتاجوں اور دیگر فقراء مسلمین پر صرف کیا جائے تو اس محلہ کے ہر مسکین کو ایک ایک حصہ دیا جائے اور دوسرے مسکینوں کا ایک حصہ اور محلہ والا کوئی مسکین مرجائے تو اسکا حصہ ساقط۔ اور وہ حصہ باقیوں پر تقسیم ہو جائے گا۔یہ اسی وقت تک ہے کہ وقف نامہ جب لکھا گیا اس وقت محلہ میں جو مساکین تھے وہ جب تک زندہ رہیں اور وہ سب کے سب نہ رہے تو جیسے اس محلہ کے مسکین ہیں ویسے ہی دوسرے مساکین یعنی اب جو محلہ میں دوسرے مساکین ہونگے وہ ایک ایک حصہ کے حقدار نہیں ہیں بلکہ جتنا دیگر مساکین کو ملے گا اتنا ہی ان کو بھی ملے گا۔( خانیہ )
مسئلہ ۲۹: اپنے پڑوس کے فقراپر وقف کیا تو پڑوسی سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس محلہ کی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں اگر چہ ان کامکان واقف کے مکان سے متصل نہ ہوا ور ایک شخص اس محلہ میں رہتا ہے مگر جس مکان میں رہتا ہے ا س کا مالک دوسرا شخص ہے جویہاں نہیں رہتا تو مالک مکان پڑوسیوں میں شمار نہ ہوگا بلکہ وہ جس کی یہاں سکونت ہے ۔وقف کے وقت جو لوگ محلہ میں تھے وہ مکان بیچ کر چلے گئے تو وہ پڑوسی نہ رہے بلکہ یہ ہیں جو اب یہاں رہتے ہیں ۔( خانیہ )
مسئلہ ۳۰: پڑوسیوں پر وقف کیا تھا اور خود واقف دوسرے شہر کو چلا گیا اگر وہاں مکان بنا کر مقیم ہوگیا تو وہاں کے پڑوس والے مستحق ہیں پہلی جگہ جہاں تھا وہاں کے لوگ اب مستحق نہ رہے ۔ اور اگر وہاں مکان نہیں بنایا ہے تو پہلی جگہ والے بدستور مستحق ہیں ۔( خانیہ )
مسئلہ۳۱: ایک شخص نے اپنے شہر کے سادات کے لئے جائداد وقف کی ایک سید صاحب وہاں سے دوسرے شہر کو چلے گئے اگر یہاں کامکان بیچا نہیں اور دوسرے شہر میں مکان نہیں بنایا تو یہیں کے ساکن ہیں اور وظیفہ کے مستحق ہیں ۔( خانیہ )
مسئلہ۳۲: جن لوگوں پر جائدا د وقف کی ان سب نے انکار کر دیا تو وقف جائز اور آمدنی فقرا پر تقسیم ہوگی اور اگر بعض نے انکار کیا اور واقف نے موقوف علیہ کو جس لفظ سے ذکر کیا ہے وہ لفظ باقیوں پر بولا جاتا ہے تو کل آمدنی ان باقی لوگوں کو دی جائے گی ۔اور اگر وہ لفظ نہیں بولا جاتا تو جس نے انکار کردیا ہے اس کاحصہ فقیر کو دیا جائے مثلاً یہ کہا کہ فلاں کی اولاد پر وقف کیا اور بعض نے انکار کردیا توسب آمدنی باقیوں کو ملے گی اور اگر کہا زید وعمر و پر وقف کیا اور زیدنے انکار کیا تو اس کا حصہ عمرو کونہیں ملے گا بلکہ فقیر کو دیا جائے اور اگر کسی شخص کی اولاد پر وقف کیا تھا اور سب نے انکار کر دیا اور آمدنی فقیروں کو دیدی گئی پھر نئی آمدنی ہوئی تو اس کو قبول نہیں کرسکتے یا ان موجود ین نے انکار کردیا تھا مگر اس شخص کے کوئی اور لڑکا پیدا ہوا اسنے قبول کرلیا تو ساری آمدنی اسی کو ملے گی۔ (فتح القدیر)
مسئلہ۳۳: ایک شخص پر اپنی جائدادنسلاً بعد نسل وقف کی اس شخص نے کہا نہ میں اپنے لئے قبول کرتا ہوں نہ اپنی نسل کیلئے تو اپنے حق میں انکار صحیح ہے ۔ اور اولاد کے حق میں صحیح نہیں ۔( عالمگیری)
مسئلہ۳۴: موقوف علیہ نے پہلے رد کر دیا تو اب قبول کرکے وقف کو واپس نہیں لے سکتا اور جب ایک سال اس نے قبول کرلیا تو پھر ردنہیں کرسکتا اور اگر یہ کہا کہ ایک سال کا قبول نہیں کرتا ہوں اور اسکے بعد کا قبول کرتا ہوں تو اس سال کی آمدنی دیگر مستحقین کو ملے گی پھر اس کو ملے گی۔( فتح القدیر)
مسئلہ۳۵: واقف ہی متولی بھی ہے وہ آمدنی کو اپنے ہاتھ سے اپنی قرابت والوں پر صرف کرتا ہے کسی کو کم کسی کو زیادہ جو اسکے خیال میں آتا ہے اسکے موافق دیتا ہے ۔اب وہ فوت ہوا اس نے دوسرے کو متولی مقرر کیا اور یہ بیان نہیں کہ کس کو زیادہ دیتا تھا تو یہ متولی دو م انہیں لوگوں کو دے اور زیادتی کی رقم کا مصرف معلوم نہیں لہذا اسے فقرأ پر صرف کرے ۔( خانیہ)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔