ARTICLESشرعی سوالات

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی مُحرم کے احرام میں نجاست لگی ہوئی ہو اور اُسے معلوم نہ ہو تو دیکھنے والے پر لازم ہے کہ اُسے بتائے یا لازم نہیں ہے ، اسی طرح کسی مُحرم کو ممنوعاتِ احرام میں سے کسی ممنوع کے ارتکاب کرتا ہوا پائے تو دیکھنے والا کیا کرے اُسے بتائے یا نہ بتائے ؟

(السائل : ابو طالب قادری)

متعلقہ مضامین

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : مُحرم کے احرام کی چادروں پر نجاست درہم کی مقدار سے زائد ہو اور دیکھنے والا یہ سمجھتا ہو کہ اگر میں اسے بتا دوں گا تو یہ دھو لے گا تو اُس پر لازم ہے کہ اُسے بتا دے اور اگر یہ جانتا ہو کہ یہ شخص میری بات نہیں سُنے گا تو اُسے اختیار ہے کہ بتائے یا نہ بتائے ، چنانچہ امام افتخار الدین طاہر بن احمد بن عبد الرشید بخاری حنفی متوفی 542ھ لکھتے ہیں :

رأَی علی ثوبِ إنسانٍ نجاسۃً أکثرَ مِن قدرِ الدّرہمِ، و إنْ وَقَعَ فی قلبِہ أنَّہ لو أخبَرَہ یشتَغِلُ بغَسلِہ لم یسعہُ أنْ لا یُخبِرَہُ، و إنْ عَلِمَ أنّہ لا یلتفتُ إلی کلامہِ کان فی سعۃٍ أن لا یُخبِرَہُ (52)

یعنی، کسی انسان کے کپڑوں پر درہم کی مقدار سے زیادہ نجاست لگی ہوئی دیکھی، اگر دیکھنے والے کے دل میں آئے کہ اگر میں اُسے بتاؤں گا تو یہ اُسے دھونے میں مشغول ہو جائے گا تو اُسے اِس بات کی گنجائش نہیں کہ وہ اُسے خبر نہ دے ، اور اگر وہ جانتا ہے کہ وہ شخص اِس کی بات کی طرف توجہ نہیں کرے گا تو اُسے گنجائش ہے کہ اُسے خبر نہ دے (یعنی چاہے تو خبر دے اور چاہے تو نہ دے )۔ اور سوال میں ذکر کردہ دیگر اُمور کو بھی اِسی پر قیاس کرنا چاہئے ، دراصل یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے باب سے ہیں چنانچہ امام افتخار الدین بخاری حنفی لکھتے ہیں :

الأمرُ بالمعروفِ علی ہذا، إن عَلِم أنَّہم یَسمعونَ یجبُ علیہ إلاَّ لا (53)

یعنی، امر بالمعروف اِسی پر ہے اگر جانتا ہے کہ وہ اُس کی بات سُنیں گے تو اُس پر (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) واجب ہے ورنہ نہیں ۔ اور بعض فقہاء کرام نے مطلقاً امر بالمعروف کو واجب قرار دیا ہے ، چنانچہ امام افتخار الدین بخاری حنفی لکھتے ہیں :

قال الإمام السّرخسی : الأمرُ بالمعروفِ واجبٌ مطلقاً من غیرِ ہذا التَّفصِیلِ (54)

یعنی، (شمس الائمہ) امام سرخسی (حنفی) نے فرمایا امر بالمعروف اِس تفصیل کے بغیر مطلقاً واجب ہے ۔ احقر یہ کہتا ہے کہ فی زمانہ صرف سامنے والے کے سُننے یا نہ سُننے ، ناصح کی بات کی طرف توجہ کرنے یا نہ کرنے ، خیرخواہ کی خیر خواہی قبول کرنے یا نہ کرنے کی بات نہیں بلکہ خوف اس بات کا رہتا ہے کہ وہ اس کا انکار ہی نہ کر دے او رجس کام کے کرنے کا اُسے حکم دیا گیا ہے وہ فرض قطعی یا واجب بھی ہو سکتا ہے یا جس کام سے اُسے روکا گیا، وہ حرام قطعی یا حرام ظنّی (یعنی مکروہ تحریمی) بھی ہو سکتا ہے تو اس کے انکار کے خوف کا مطلب ہے کہ اس کے مرتد یا گمراہ ہونے کا خوف، پھر لوگوں کے حالات ایسے ہو گئے کہ خیر خواہی کرنے والے کی عزت یا جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے اور فی زمانہ لوگوں کی یہ حالت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اس لئے اِن حالات میں اُسی پر عمل کرنا بہتر ہے جو امام افتخار الدین بخاری علیہ الرحمہ نے لکھا ہے ۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الإثنین، 16 ذوالقعدہ 1431ھ، 25اکتوبر 2010 م676-F

حوالہ جات

52۔ خلاصۃ الفتاویٰ، کتاب الطّہارات، الفصل الثّامن فی النّجاسۃ، 1/46

53۔ خلاصۃ الفتاویٰ، کتاب الطّہارات، الفصل الثّامن فی النّجاسۃ، 1/46

54۔ خلاصۃ الفتاویٰ، کتاب الطّہارات، الفصل الثّامن فی النّجاسۃ، 1/46

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button