بہار شریعت

امامت کا بیان

بہار شریعت جلد اول کے باب امامت کے بیان کا تفصیلی مطالعہ

امامت کا بیان

 امامت دو قسم ہے:

 ۱) صغریٰ

متعلقہ مضامین

۲) کبریٰ

امامت صغریٰ امامت نمار ہے اس کا بیان انشاء اللہ تعالیٰ کتابُ الصلاۃ میں آئے گا۔ امامت کبریٰ نبی ﷺ کی نیابت سے مسلمانوں کے تمام امورِ دینی و دنیوی میں حسبِ شرع تصرف عام کا اختیار رکھے اور غیر معصیت میں اس کی اطاعت تمام جہان کے مسلمانوں پر فرض ہو اس امام کے لئے مسلمان ؔ، آزادؔ، عاقل،ؔ بالغؔ، قادرؔ، قرشیؔ ہونا شرط ہے۔ ہاشمیؔ، علویؔ، معصوم ہونا اس کی شرط نہیں۔ ان کا شرط کرنا وافض کا مذہب ہے جس سے ان کا یہ  مقصد ہے کہ برحق امرائے مومنین خلفائے ثلثٰہ ابوبکر صدیق و عمر فاروق و عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اجماع ہے مولیٰ ولی کرم اللہ وجہہ کریم و حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے خارج کر دیا مولیٰ علی علوی کیسے ہو سکتے ہیں۔ رہی عصمت یہ انبیاء و ملائکہ کا خاصہ ہے جس کو ہم پہلے بیان کر آئے امام کا معصوم ہونا روافض کا مذہب ہے۔

مسئلہ  ۱  :   محض مستحق امامت ہونا (شامی ج۳ ص ۴۲۸ ؟بحوالہ شرح مقاصد) امام ہونے کے لئے کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اہل حل و عقد نے اسے امام مقرر کیا ہو یا امامِ سابق نے (شامی ج ۳ ص ۴۲۸ بحوالہ شرح مقاصد) ۔

مسئلہ  ۲  :  امام کی اطاعت مطلقاً ہر مسلمان پر فرض ہے جب کہ اس کا حکم شریعت کے خلاف نہ ہو۔ خلاف شریعت میں کسی کی اطاعت نہیں۔

مسئلہ  ۳  :  امام ایسا شخص مقرر کیا جائے جو شجاع اور عالم ہو یا علماء کی مدد سے کام کرے۔

مسئلہ  ۴  :  عورت اور نابالغ کی امامت جائز نہیں اور اگر نابالغ کو امام سابق نے امام مقرر کر دیا ہو تو اس کے بلوغ تک کے لئے لوگ ایک والی مقرر کریں کہ وہ احکام جاری کرے اور یہ نابالغی صرف رسمی امام ہو گا اور حقیقۃً اس وقت تک وہ والی امام ہے۔

عقیدہ  ۱  :  نبی ﷺ کے بعد خلیفہ برحق و امام مطلق حضرت سیدنا ابو بکر صدیق پھر حضرت عمر فاروق پھر حضرت عثمان پھر حضرت مولیٰ علی پھر چھہ مہینے کے لئے حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہوئے ان حضرات کو خلفائے راشدین اور ان کی خلافت کو خلافتِ راشدہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حضور کی سچی نیابت کا پورا حق ادا فرمایا۔ (فتاویٰ عالمگیریہ ص ۲۶۴) پر ان خلفاء راشدین کی خلافت کے انکار پر کفر کا حکم لگایا گیا ہے۔

عقیدہ  ۲ :  بعد انبیاء و مرسلین تمام مخلوقاتِ الٰہی انس و  و ملک سے افضل صدیق اکبر ہیں پھر عمر فاروق اعظم پھر عثمان غنی پھر مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ جو شکص مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو صدیق یا فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے افضل بتائے گمراہ بدمذہب ہے۔ (فتاویٰ عالمگیریہ ص ۲۶۴)۔

عقیدہ  ۳  : افضل کے یہ معنی ہیں کہ اللہ عزّوجل کے یہاں زیادہ عزت و منزلت والا ہو۔ اسی کو کثرتِ ثواب سے بھی تعبیر کرتے ہیں نہ کہ کثرت اجر کہ بار ہا مفضول کے لئے ہوتی ہے حدیث میں ہمراہیان سیدنا امام مہدی کی نسبت آیا کہ ان میں ایک کے لئے پچاس کا اجر ہے صحابہ نے عرض کی ان میں کے پچاس کا یا ہم میںکے فرمایا بلکہ تم میں کے تو اجر ان کا زائد ہوا کگر فضیلت میں وہ صھابہ کے ہمسر نہیں ہو سکتے زیادت درکنار۔ کہاں امام مہدی کی رفاقت اور کہاں حضور سیّد عالم ﷺ کی صحابیت اس کی نظیر بلا تشبیہ یوں سمجھیے کہ سلطان نے کسی مہم پر وزیر اور بعض دیگر افسروں کو بھیجا اس کی گتح پر  ہر افسر کو لاکھ لاکھ روپے انعام دیئے اور وزیر کو خالی پروانہ خوسشنودی مزاج دیا تہ انعام انہیں کو زیادہ ملا مگر کہاں وہ اور کہاں وزیر اعظم کا اعزاز۔

عقیدہ  ۴  : ان کی خلافت برترتیت افضل ہے یعنی جو عنداللہ افضل و اعلیٰ و اکرام تھا وہی پہلے خلافت پاتا گیا نہ کہ افضلیت برترتیب خلافت یعنی افضل یہ کہ ملک داری و ملک گیری میں زیادہ سلیقہ جیسا آج کل سُنّي بننے والے تفصیل کہتے ہیں ہوں ہوتا تو فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے افضل ہوتے کہ ان کی  خلافت کو فرمایا :

لَمْ اَرَعَقْبَرِیّا یَّفْرِیٰ کَفْرَ یْہِ حَتّٰی ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ

                         اور صدیق اکبر کی خلافت کو فرمایا:

فِیْ نَزْحِہِ ضَعْفٌ وَاللّٰہُ یَغْفَرْلَہُ    

عقیدہ  ۵  : خلفائے اربعہ راشدین کے بعد بقیہ عشرہ مبشرہ و حضرات حسنین و اصحابِ بدر و اصحاب بیعۃ الرضوان کے لئے افضلیت ہے اور یہ سب قطعی تی ہیں۔

عقیدہ  ۶  :  تمام صحابہ کرام رضی اللہ  تعالیٰ عنہم اہل خیر و صلاح ہیں اور عادل۔ ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔

عقیدہ  ۷  : کسی صحابی کے ساتھ سوئٍ عقیدت بدمذہبی و گمراہی و استحقاق جہنم ہے کہ وہ  حضورِ اقدس ﷺ کے ساتھ بغض ہے ایسا شخص رافضی ہے اگرچہ چاروں خلفاء کو مانے اور اپنے آپ کو سُنّي کہے مثلاً حضرت ایم معاویہ اور ان کے والد ماجد حضرت ابو سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہندہ اسی طرح حضرت سیدنا عمرو بن عاص و حضرت مغیرہ بن شعبہ و حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ حتی کہ حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں نے قبل اسلام حضرت سیدنا سیدالشہداء حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا اور بعد اسلام اخبث الناس خبیث مسلیمہ کذّاب ملعون کو واصل جہنم کیا وہ خود فریا کرتے تھے کہ میں نے خیر النّاس و شرالنّاس کو قتل کیا ان میں سے کسی کی شان میں گستاخی تبرّا ہے اور اس کا قائل رافضی اگرچہ حضرات شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی توہین کو مثل نہیں ہو سکتی کہ ان کی توہین بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہائے کرام کے نزدیک کُفر ہے۔

عقیدہ  ۸  : کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کے باہم جو واقعات ہوئے ان میں پڑنا حرام و سخت حرام ہے مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم ﷺ کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔

عقیدہ  ۹  :  تمام صحابہ کرام اعلعٰ و ادنیٰ (اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں) سب تی ہیں وہ جہنم کی بھیک نہ بنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیںگے ۔ محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا۔ یہ سب مضمون قرآنِ عظیم کا ارشاد ہے۔

عقیدہ  ۱۰ :            صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم، انبیاء نہ تھے فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں ان میں بعض کے لئے لغزشیں ہوئیں مگر ان کی کسی بات پر گرفت اللہ و  رسول کے خلاف ہے۔ اللہ عزّوجل نے سورہ حدید میں جہاں صحابہ کی دو قسمیں فرمائیں ۔ مومنین قبل فتح مکہ اور بعد فتح مکہ اور ان کو ان پت تفصیل دی اور فرما دیا :

وَکُلاَّ وَّعْدَاللّٰہِ الْحُسْنٰي

                  (سب سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا)

ساتھ ہی ارشاد فرما دیا :

وَاللّٰہُ بِمَا یَعْلَمُوْنَ خَبِیْرٌ

(اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرو گے)

 تو جب اس نے ان کے تمام اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ  ان سب سے ہم ت بے عذاب و کرامت و ثواب کا وعدہ فرماچکے تو دوسرے کو کیا حق رہا کہ ان کی کسی بات پر  طعن کرے کیا طعن کرنے والا اللہ سے جدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔

عقیدہ      ۱۱  :        امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث صحیح بخاری میں بیان فرمایا ہے مجتہد کی شان نہیں اور خطا دونوں صادر ہوتے ہیں۔ خطا دو قسم ہے:

                        ۱) خطا ء اجتہادی ہے جس سے سے دین میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہوتا ہو جیسے ہمارے نزدیک مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا ۔

                        ۲) دوسری خطاء منکر یہ ہے وہ خطاء اجتہادی ہے جس کے صاحب پر انکار کیا جائے گا کہ اس کی  خچاء کا باعث فتنہ ہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رحضرت سیدنا امیرالمومنین علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم سے خلاف اسی قسم کاکی خطاء کا تھا اور فیصلہ وہ جو خود رسول ﷺ نے فرمایا کہ مولیٰ علی کی ڈگری اور امیر معاویہ کی مغفرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اجمعین۔

مسئلہ  ۵  :  یہ جو بعض جاہل کہا کرتے ہیں کہ جب حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لیا جائے تو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ کہا جائے محض باطل و بے اصل ہے علمائے کرام نے صحابہ کے اسمائے طیبہ کے اسمائے ساتھ مطقاً رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے کا حکم دیا ہے یہ استشناء نئی شریعت گھڑنا ہے۔

عقیدہ  ۱۲  :            منہاج نبوت برخلافت حقہ راشدہ تیس سال رہی کہ سیّدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی خدافتِ راشدہ ہوئی اور آخر زمانہ میں حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گے۔ امیر معاویہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوّل ملوک اسلام ہیں اسی کع طرف تو راتِ مقدّس میں ارشاد ہے کہ

مَوْلِدُہ‘ بِمَکَّۃَ وَ مُھَاجَرُہ‘ وَ مُلْکُہ‘ بِالشَّامِ         

(وہ نبی آخر الزماں ﷺ مکہ میں پیدا ہو گا اور مدینہ کو ہجرۃ فرمائے گا اور اس کی سلطنت شام میں ہو گی)

                        تو امیر معاویہ کی بادشائی اگرچہ سلطنت ہے مگر کس کی محمد ﷺ کی سلطنت ہے۔ سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیک فوج جرار جان نثار کے ساتھ عین معدان میں بالقصد و بالاختیار ہتھیار رکھ دئے اور خلافت ایم معاویہ کے سپرد کر دی اور انکے ہاتھ بیعت فرمالی اور اس صُلح کو حضور ِاقدس ﷺ نے پسند فرمایا اور اس کی بشارت دی کہ امام حسن کی نسبت فرمایا :

اِنَّ ابْنِی ھٰذَاسَیِّدٌ لَعَلَّ اللّٰہَ اَنْ یُّصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظْیْمَتَیْنِ مِنَ الْمَُسْلِمِیْنَ                    

(میرا بیٹا سیّد ہے میں امید فرماتا ہوں کہ اللہ عزّوجل اس کے باعث دو بڑے گروہ اسلام میں صلح کرداے)

  تو امیر معاویہ پر معاذ اللہ فِسق وغیرہ کا طعن کرنے والا حقیقۃً حضرت امام حسن مجتبیٰ بلکہ حضور سید عالم ﷺ بلکہ حضرت عزّوجل وعلاء پر طعن کرتا ہے۔

عقیدہ  ۱۳  :            ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما قطعی تی اور یقینا آخرت میں بھی محمد رسول اللہﷺ کی محبوبہ عُروس ہیں جو انہیں ایذا دیتا ہے رسول اللہ ﷺ کو ایذا دیتا ہے اور حضرت طلحہ و حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما تو عشرہ مبشرہ سے ہیں ان صاحبوں سے بھی بمقابلہ امیر المومنین مولی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکرم خطاء اجتہادی واقع ہوئی مگر ان سب نے بالآخر رجوع فرمائی۔ عرف شرع میں بغاوت مطلقاً بمقابلہ امام برحق کو کہتے ہیں عناداً ہو خواہ اجتہاداً ان حضرات پر بوجہ رجوع اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا گر وہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حسب اصطلاح شرع اطلاق فئہ باغیہ آیا ہے مگر اب کہ باغی بمعني مفسسد و معاند و سرکش ہو گیا اور دشمنام سمجھا جاتا ہے اب کسی صحابی پر اس کا اطلاق جائز نہیں۔

عقیدہ  ۱۴  :            ام المومنین حضرت صدیقہ بنت الصدیق محبوبہء محبوب رب العالمین جلّ و علا و ﷺ پر معاذاللہ تہمتِ ملعونہ افک سے اپنی ناپاک زبان آلودہ کرنے والا قطعاً یقینا کافر مرتد ہے۔ (فتاویٰ عالمگیریہ ص ۲۶۴) اور اس کے سوا اور طعن کرنے والا رافضی تبّرائی بک دین جہنمی ۔

عقیدہ  ۱۵  :            حضرت حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما یقینا اعلیٰ درجہ شہدائے کرام سے ہیں ان میں کسی کی شہادت کا منکر گمراہ بد دین خاسر ہے۔

عقیدہ  ۱۶  :            یزید پلید فاشق فاجر مرتکبِ کبائر تھا معاذاللہ اس سے اور ریحانہء رسول ﷺ سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا نسبت آج کل جو بعض گمراہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کے مقابلہ میں کیا دخل ہے ہمارے وہ بھی شہزادے وہ بھی شہزادے ایسا بکنے والا مردود خارجی ناصبی مستحق جہنم ہے ہاں یزید کو کافر کہنے اور اس پر لعنت کرنے میں علمائے اہلِ سنت کے تین قول ہیں اور ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسلک سکوت یعنی ہم اسے فاسق فاجر کہنے کے سوا نہ کافر کہیں نہ مسلمان۔

عقیدہ  ۱۷  :            اہلِ بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم مقتدایان اہلِ سنت ہیں جو ام سے محبت نہ رکھے مردود ملعون خارجی ہے۔

عقیدہ  ۱۸  :            ام المومنین خدیجۃ الکبریٰ و ام المومنین عائشہ صدیقہ و حضرت سیّدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہن قطعی تی ہیں اور انہیں اور بقیہ بنات مکرمات و ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو تما صحابیات پر فضیلت ہے۔

عقیدہ  ۱۹  : ان کی طہارت کو گواھی قرآن عظیم نے دی۔ سورۃ الاحزاب :

       لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیراہ

( پ ۲۲  آیہ ۳۳  س الاحزاب)

ماخوذ از:
بہار شریعت، جلد1مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button