المعروف عرفا کالمشروط شرطا قاعدے کے دلائل:
کتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ علیہ وسلم میں کچھ ایسے نصوص وارد ہیں جو عرف کےمعتبر اور معمول بہ ہو نے پر دلالت کرتے ہیں ہم ذیل میں چند دلائل کا ذکر کرتے ہیں:
- اللہ تعالی کا فرمان ہے: لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّـٰهُ بِاللَّغْوِ فِىٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّـمُ الْاَيْمَانَ ۖ فَكَـفَّارَتُهٝٓ اِطْعَامُ عَشَـرَةِ مَسَاكِيْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِيْكُمْ اَوْ كِسْوَتُـهُـمْ اَوْ تَحْرِيْرُ رَقَـبَةٍ ۖ[1] یعنی: اللہ تعالى لغو قسم پر تمہارا مواخذہ نہیں کرتا ہے لیکن قسم منعقدہ پر تمہارا مواخذہ کرتا ہے چنانچہ قسم کا کفارہ یہ کہ تم اپنے گھر والوں جو کھانا کھلاتے ہو اس کا اوسط درجہ کھانا دس مسکینوں کو کھلانا یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام آزاد کرنا.
یہاں اللہ تعالى نے دس مسکینوں کو اوسط درجہ کا کھانا کھلانے کا حکم دیا مگر اس کی کوئی مقدار خاص مقرر نہیں کے بلکہ عرف وعادت کی طرف رجوع کرنے کی طرف إشارہ کیا کیونکہ ہر انسان اپنے گھر والوں ایک ہی قیمت کا کھانا نہیں کھلاتے ہیں بلکہ لوگوں کے حالات کے اور معاشرے کے اعتبار سے ان کے کھانے کی نوعیت بھی مختلف ہے.
- ارشاد الہی ہے : وَعَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْـرُوْفِ[2] یعنی: ان کیساتھ معروف بھلائی سے بود وباش رکھو۔
یعنی ملک اور زمانہ کے اعتبار سے جس معروف اور احسان کہتے ہیں اس کے ساتھ ان سے معاملہ کرو.
- قرآن پاک میں ارشاد ہے:خذالعفو وامربالمعروف واعرض عن الجھلین [3] یعنی اے نبیﷺ نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کریں،معروف کی تلقین کریں اور جاہلوں سے نہ الجھیں۔
آیت بالا میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو عرف یعنی امربالمعروف کا حکم دیا اور عرف اس چیز کو کہتے ہیں جس کو لوگ معروف اور اچھا سمجھیں اور ان کے دلوں اور نفوس کو وہ امور اچھا لگے؛ لہٰذا عرف پر عمل کرنا امر کا مقتضی ہے؛ لیکن بعض علماء نے نے لکھا ہے کہ اس آیت میں عرف اپنے لغوی معنی میں مستعمل ہوا ہے، یعنی وہ أمر مستحسن جوپسندیدہ ہو، نہ کہ فقہی اصطلاح کی رو سے جوعرف کا مفہوم ہے وہ اس آیت میں مراد ہے؛ مگریہ کہا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں اگرچہ اصطلاحی معنی والا عرف مراد نہیں ہے؛ مگرمصطلحہ عرف کے اسلام میں معتبر ہونے کے لزوم پر دلالت کرنے سے آیت خالی بھی نہیں ہے؛ کیونکہ اعمال اور معاملات میں لوگوں کا عرف وہی قابلِ اعتبار ہوتا ہے جو ان کے نزدیک مستحسن ہو اور جن سے ان کی عقل مانوس ہوچکی ہو۔[4]
- ہند بنت عتبہ دربار رسالت میں شکوہ کرتی ہیں اور کہتی ہیں اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم !میرا شوہر ابو سفیان بڑا بخیل آدمی ہے وہ میر ے اور میرے بچوں کے بقدر کفایت سامان مہیا نہیں کرتاہے سوائے اس کہ میں اس کے لا علمی میں اسے مال سے کچھ لے لیتی ہوں [ کیا یہ میرے لئے جائز ہے ] تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خذی ما یکفیک وولدک بالمعروف عرف کے مطابق اپنے اور اپنے بچوں کے بقدر کفایت لے سکتی ہو۔
- "عرف” کے دلیل شرعی ہونے پر عبداللہ بن مسعودؓ کی اس روایت کا بھی ذکر کیا جاتا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:
"مارآہ المسلمون حسناً فھوعند اللہ حسن"۔ [5]
ترجمہ:مسلمان جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے۔
لیکن محدثین کے نزدیک اس کا حدیث رسول اللہﷺ ہونا ثابت نہیں ہے؛ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اثراگرچہ عبداللہ بن مسعود پر موقوف ہے؛ لیکن اس طرح کی بات چونکہ محض ظن وتخمین یاقیاس سے نہیں کہی جاسکتی، اس لیے یوں سمجھا جائے گا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے یہ بات حضور اکرمﷺ سے سن کر ہی فرمائی ہوگی؛ بہرحال "عرف” کے دلیل شرعی اور حجت ہونے کی سب سے بڑی حجت یہی ہے کہ خود حضور اکرمﷺ نے بہت سے احکام عربوں کے "عرف” پر مبنی رکھے ہیں، جن میں خرید وفروخت کے طریقوں سے لیکر نکاح میں کفاءت تک کے لحاظ کا مسئلہ ہے۔
[1] : المائدة: ٨٩
[2] : النساء: ١٩
[3] : الاعراف،آیت199
[4] : شامی ، ابن عابدین، رسائل ابن عابدین ، بیروت، جلد 2، صفحہ 115
[5] : الزیلعی، نصب الرایہ، باب الاجارۃ الفاسدۃ:جلد4، صفحہ 133
Leave a Reply