المعروف عرفا کالمشروط شرطا قاعدے کی وضاحت:
اگر کسی معاملہ میں کسی خاص چیز کا التزام لوگوں کے عرف اور عادت میں مشہور اور معروف ہو تو یہ زبان سے شرط لگانے کا قائم مقام ہے یعنی اس کا التزام ضروری ہے لہذا زبان سے اس چیز کی شرط لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے اور یہ بھی نہیں کہا جائے گا کہ آپ نے اس کی شرط نہیں لگائی ہے بلکہ زبان سے تلفظ کئے بغیر بھی وہ چیز عقد میں مشروط ہی ہو گی۔ اس قاعدے پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے البتہ بعض شافعیہ عقود معاوضات میں اسے معتبر نہیں مانتے۔
قاعدے کی تفریعات:
اس قاعدے کی تفریعات درج ذیل ہیں:
- اگر کسی نے گاڑی یا گھر لیا تو اس کے توابع مثلا دروازے، تالے وغیرہ اس میں شامل ہوں گے اگرچہ زبان سے اس کی شرط نہ لگائی جائے۔
- موچی یا درزی کو کپڑے سینے کے لیے دئیے تو دھاگہ اس کے ذمہ لازم ہو گا اگرچہ زبان سے اس کی صراحت نہ کی جائے۔
- اجیر کے لیے وقفے کے اوقات کام سے مستثنی ہوں گے اور آجر اسے اس وقت میں کوئی کام کرنے کا پابند نہیں کر سکتا، اگرچہ بوقت عقد اس بات کو بیان نہ کیا جائے۔
- بعض جگہ یہ عرف ہے کہ اگر بھاری سامان ہو تو پہچانے کی ذمہ داری بیچنے والے پر ہے ۔ لہذا اگرچہ زبان سے یہ شرط نہ لگائی جائے پھر بھی اس سامان پہچانے کی ذمہ داری بیچنے والے پر ہو گی۔
- مزدورں کا کھانا اجرت لینے والے پر ہے، اگرچہ زبان سے بیان نہ کیا جائے۔
- مکان کی خریدی کے بعد ،اس کی چھت سے اوپر کا حصہ "حق علو” یعنی حق تعلّی کے بارے میں بائع اور مشتری کے درمیان نزاع کا فیصلہ بھی "عرف” ہی کی بنا پر کیا جائے گا؛ خواہ حقوق ومرافق کا ذکر عقد میں نہ کیا گیا ہو۔
- اگر کسی نے کسی کو مزدور لیا اور زبان سے اس کی مزدوری کا تعین نہ کیا ہو تو عرف اور عادت میں جتنی مزدوری بنتی ہے اس کو دی جائے گی۔
- دھوبی اور درزی وغیرہ کوجوکپڑے ڈرائی کلن یاسلائی کے لیے دیئے جاتے ہیں؛ ہمارے ہاں عرف یہ ہے کہ اگر وہ کپڑے بغیر تعدی کے بھی ہلاک ہوجائیں تو اس کا تاوان ہو گا، تو دھوبی و درزی ضائع شدہ مال کا تاوان اداکرے گا۔ اگرچہ زبان سے صراحت نہ کی ہو۔[1]
- سعودی عرب کی کسی دکان میں کسی نے کوئی سامان ایک ہزار میں خریدا ۔ پھر دونوں میں اختلاف ہو جائے ، خریدنے والے نے کہا ایک ہزار ریال اور بیچنے والا کہتا ہے ایک ہزار ڈالر تو فیصلہ ریال کا ہو گا۔
- کسی چھوٹے بچے کو پیسے دئیے تو حقیقتاً وہ اس کے والدین کے لئے ہوں گے اگرچہ بظاہر بچے کو دئیے جائیں۔
[1] : شامی ، ابن عابدین، رسائل ابن عابدین ، بیروت، جلد 2، صفحہ 126