احادیث قدسیہ

اللہ تعالی کے متعلق کیسی سوچ ہونی چاہیے؟

اللہ تعالی کے متعلق کیسی سوچ ہونی چاہیے؟ اس کے متعلق حدیث قدسی کا متن، آسان اردو میں حدیث کا ترجمہ اور قرآن پاک کی آیات کی روشنی میں باحوالہ مختصر تشریح

اس مضمون میں اللہ تعالی کے متعلق کیسی سوچ ہونی چاہیے؟ اس کے متعلق حدیث قدسی بیان کی جائے گی۔ آپ کی آسانی کے لئے اعراب کے ساتھ عربی میں حدیث شریف کا متن، آسان اردو میں حدیث کا ترجمہ اور قرآن پاک کی آیات کی روشنی میں باحوالہ مختصر تشریح کی گئی ہے۔

متعلقہ مضامین

اللہ تعالی کے متعلق کیسی سوچ ہونی چاہیے؟ حدیث قدسی:

.عَنْ وَاثِلَةَ رضي الله عَنْهُ أنْ رَسُوْلَ الله – صلى الله عليه وسلم – قَال: "قَال الله تَعَالَى أنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بيِ فَلْيَظُنَّ بيِ مَا شَاْءَ 

حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی  نے ارشادفرمایا :

میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں لہذا وہ جو چاہے میرے بارے میں گمان رکھے

حدیث قدسی کی تشریح:

ذیل میں اللہ تعالی کے متعلق کیسی سوچ ہونی چاہیے؟ کے متعلق حدیث قدسی کی آسان الفاظ میں پوائنٹس کی صورت میں تشریح اور مسائل بیان کئے جا رہے ہیں۔

  1. مسلم شریف میں مکمل حدیث یوں مذکور ہے:”أنا عند ظن عبدي بي، وأنا معه حين يذكرني، إن ذكرني في نفسه، ذكرته في نفسي، وإن ذكرني في ملإ، ذكرته في ملإ هم خير منهم، وإن تقرب مني شبرا، تقربت إليه ذراعا، وإن تقرب إلي ذراعا، تقربت منه باعا، وإن أتاني يمشي أتيته هرولة“ ترجمہ: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق معاملہ کرتاہوں اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تومیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔ پس اگر وہ مجھے جماعت میں یاد کرے تومیں اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے دل میں یاد کرے میں بھی اس کو اکیلا یاد کرتا ہوں، اگر وہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میری رحمت ایک ہاتھ اس کے قریب آجاتی ہے،اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میری رحمت دونوں بازوؤں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہوجاتی ہے۔ اگر وہ چل کرمیری طرف آتا ہے تو میری رحمت دوڑتی ہوئی اس کی طرف آتی ہے ۔
  2. اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی سےہمیشہ اچھے اور بہتری کی امید رکھنی چاہیے اور یہ بھی کہ اللہ تعالی کےعذاب کےخوف سے زیادہ اس کی رحمت کی امید ہونی چاہیے۔
  3. اللہ تعالی سے برا گمان رکھنا یا مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن پاک میں ہے:”قَالَ وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ“ ترجمہ: کہا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہو مگر وہی جو گمراہ ہوئے۔
  4. اللہ تعالی سے مایوسی کافروں کا وصف ہے۔ ارشاد ہے:” اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوۡنَ“ترجمہ: بیشک اللّٰہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے مگر کافر لوگ۔

کافروں کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے:”لَا یَسْــٴَـمُ الْاِنْسَانُ مِنْ دُعَآءِ الْخَیْرِ-وَ اِنْ مَّسَّهُ الشَّرُّ فَیَــٴُـوْسٌ قَنُوْطٌ“ ترجمہ:آدمی بھلائی مانگنے سے نہیں اُکتاتا  اور کوئی بُرائی پہنچے تو ناامید آس ٹوٹا۔

  1. ”گمان“ سے مراد ایسی پختہ سوچ جو یقینی نہ ہو،یعنی یہ رویہ بھی درست نہیں کہ فقط اللہ تعالی کی رحمت پر ”یقین“ کر کے نیک اعمال کرنا چھوڑ دئے جائیں۔

حدیث شریف کا حوالہ:

1: مسند احمد بن حنبل، حديث ابو ھریرہ رضي الله عنه ، جلد25، صفحہ398، حدیث نمبر 16016، موسسۃ الرسالۃ، بیروت

2:سنن الدارمی، کتاب الرقاق، باب في حسن الظن بالله ،جلد1، صفحہ 655، دار البشائر ، بیروت

حدیث شریف کا حکم:

اس حدیث شریف کی سند صحیح ہے۔

۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button