احادیث قدسیہ

الله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی

اس مضمون میں الله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی کے متعلق حدیث قدسی بیان کا متن، آسان اردو میں حدیث کا ترجمہ اور قرآن پاک کی آیات کی روشنی میں باحوالہ مختصر تشریح کی گئی ہے۔

اس مضمون میں الله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی کے متعلق حدیث قدسی بیان کی جائے گی۔ آپ کی آسانی کے لئے اعراب کے ساتھ عربی میں حدیث شریف کا متن، آسان اردو میں حدیث کا ترجمہ اور قرآن پاک کی آیات کی روشنی میں باحوالہ مختصر تشریح کی گئی ہے۔

الله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی کے متعلق حدیث قدسی:.

عَنْ أبي ذَرٍّ رَضِيَ الله عَنْهُ عَنْ رَسُوْلِ الله صلى الله عليه وسلم : "قَالَ الله تَعَالَى يَا عِبَادِيالله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی إني حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ مُحَرَّمًا بَيْنَكُمْ فَلاَ تَظَالَمُوا. يَا عِبَادِي كُلكُمْ ضَالٌّ إلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ فَاسْتَهْدُوْني أَهْدِكُمْ، يَا عِبَادِي كُلكُمْ جَائِعٌ إلَّا مَنْ أطعَمْتُهُ فَاسْتَطْعِمُوْنِي أُطْعِمْكُمْ. يَا عِبَادِي كُلكُمْ عَارٍ إِلَّا مَنْ كَسَوْتُهُ فَاسْتَكْسُوْنِي أَكْسُكُمْ. يَا عِبَادِي إنَّكُمْ تُخْطِئُوْنَ بِالَّيلِ وَالنَّهَارِ وَأنَا أَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا فَاسْتَغْفِرُوْنِي أغفِرْ لَكُمْ. يَا عِبَادِي إِنَّكُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضُرِّي فَتَضُرُّوْنِي وَلَنْ تَبْلُغُوْا نَفْعِي فَتَنْفَعُوْنِي. يَا عِبَادِى لَوْ أنَّ أوَّلَكُمْ وَآخِرَكُم وإِنْسَكُم وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أتْقَى قَلْب رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْكُمْ مَا زَادَ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا. يَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا. يَا عِبَادِى لَوْ أنَّ أوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ وَإنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ قَامُوا في صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَألوْنِى فَأعطَيْتُ كُلَّ إنْسَانٍ مَسْئَلَتَهُ مَا نَقَصَ ذَلِكَ مِما عِنْدِي إلَّا كَمَا يُنْقِصُ المِخْيَطُ إذَا أُدْخِلَ البَحْرَ. يَا عِبَادِي إنَّمَا هِيَ أعْمَالُكُمْ أُحْصِيْهَا لَكُمْ ثُمَّ أُوَفِّيْكُمْ إيَّاهَا فَمَنْ عَمِلَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدِ الله وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِكَ فَلاَ يَلُوْمَنَّ إلَّا نَفْسَهُ

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی  نے ارشادفرمایا :

اے میرے بندوالله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی میری یہ شان نہیں ہے کہ میں ظلم کروں اور میں نے تمھارے لیے بھی ظلم کو  حرام بنایا ہے لہذا  تم بھی ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔

اے میرے بندوالله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی تم میں سے جسے میں نے ہدایت نہ دی وہ گمراہ ہی رہا  لہذ امجھ سے ہی ہدایت  طلب کرو میں تمہیں ہدایت عطا کروں گا۔

اے میرے بندوالله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی تم میں سے جسے میں نے کھانا نہ کھلایا وہ بھوکا ہی رہا لہذا مجھ سے کھانا طلب کرو میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا۔

اے میرے بندوالله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی تم میں سے جسے میں نے لباس نہ دیا وہ بے لباس ہی رہا۔ لہذا مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔

اے میرے بندےالله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی تم دن رات گناہ کرتے  رہتے ہو اور میں تمہارے سارے گناہ معاف کر دیتا ہوں لہذا مجھ سے معافی مانگا کرو میں تمہیں بخش دوں گا۔

اے میرے بندوالله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی تم نہ مجھے کوئی نقصان پہنچا سکتے ہو اور نہ ہی کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو۔

اے میرے بندوالله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی جو  تم سے پہلے چلے گئے  اورجو تمہارے بعد آئیں گے، سارے انسان اورسارے جن اگرچہ تم میں سے سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار انسان  کے دل کی طرح ہو جائیں پھر بھی میرے بادشاہت میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کر سکتے ۔

اے میرے بندوالله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی (اسی طرح) جو  تم سے پہلے چلے گئے  اورجو تمہارے بعد آئیں گے، سارے انسان اورسارے جن اگرچہ تم میں سے سب سے زیادہ برے اور گناہ گار انسان کے دل کی طرح ہو جائیں پھر بھی میرے بادشاہت میں کسی قسم کی کمی نہیں کر سکتے۔

اے میرے بندوالله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی جو  تم سے پہلے چلے گئے  اورجو تمہارے بعد آئیں گے، سارے انسان اورسارے جن اگرکسی ایک چٹان پر کھڑے ہو ہر (ایک ہی وقت ) مجھ سے مانگیں اورجو جو وہ مانگیں  میں ہر ایک کو وہ عطا کر دوں تب بھی میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں آسکتی جتنی سمندر میں ایک سوئی ڈالنے سے ہوتی ہے۔

اے میرے بندوالله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جنہیں میں تمہارے لیے شمار کرتا ہوں پھر اس کا پورا پورا اجر (بدلہ) تمہیں عطا کرتا ہوں لہذا جو اجھے کام کرے تو  اللہ تعالی کا شکر ادا کرے اور جو اس کے علاوہ کچھ اور پائے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔

حدیث قدسی کی تشریح:

ذیل میں الله تعالی كی شان عظمت و بے نيازی کے متعلق حدیث قدسی کی آسان الفاظ میں پوائنٹس کی صورت میں تشریح اور مسائل بیان کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالی کسی پر ظلم نہیں کر سکتا کیونکہ ظلم کرنا عیب ہے اور اللہ تعالی ہر عیب سے پاک ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:”وَ مَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ“ترجمہ: اور تمہارا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ (فصلت: 36) ”وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا“ ترجمہ: اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (الکھف: 49) ”اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۚ“ترجمہ: اللہ ایک ذرّہ بھر ظلم نہیں فرماتا۔ (النساء: 40)
  2. حتی الامکان کسی پر بھی ظلم کرنے سے بچنا چاہیے کیونکہ ظالموں کو اللہ تعالی دنیا میں بھی عذاب دیتا

ہے ۔”وَ تِلْكَ الْقُرٰۤى اَهْلَكْنٰهُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَ جَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَّوْعِدًا۠“ ترجمہ:اور یہ بستیاں ہم نے تباہ کردیں جب انہوں نے ظلم کیا اور ہم نے ان کی بربادی کا ایک وعدہ رکھا تھا۔ (الکھف: 59)

”وَ كَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَاۤ اَخَذَ الْقُرٰى وَ هِیَ ظَالِمَةٌؕ-اِنَّ اَخْذَهٗۤ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ“ ترجمہ: اور ایسی ہی پکڑ ہے تیرے رب کی جب بستیوں کو پکڑتا ہے ان کے ظلم پر بےشک اس کی پکڑ دردناک  اور سخت ہے۔  (ھود: 102)

  1. آخرت میں بھی عذاب دے گا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:”اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًاۙ-اَحَاطَ بِهِمْ سُرَادِقُهَاؕ-وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ كَالْمُهْلِ یَشْوِی الْوُجُوْهَؕ “ترجمہ: بےشک ہم نے ظالموں کے لیے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی اور اگر پانی کے لیے فریاد کریں تو ان کی فریاد رسی ہوگی اس پانی سے کہ چرخ دئیے(پگھلے) ہوئے دھات کی طرح ہے کہ ان کے منہ بھون (جلا)دے گا۔(الکھف: 29)
  2. انسان کا اللہ تعالی پر ایمان کامل ہونا چاہیے کیونکہ شرک کرنا سب سے بڑا ظلم ہے:”اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ“ترجمہ: بےشک شرک بڑا ظلم ہے۔ (لقمان:13)
  3. جسے اللہ تعالی ہدایت نہ دے شیطان اسے گمراہ کر دیتا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:”وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّهُمْ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا“ ترجمہ: اور ابلیس یہ چاہتا ہے کہ انہیں دور بہکادے ۔ (النساء: 60) بلکہ شیطان نے خود کہا تھا” وَ لَاُضِلَّنَّهُمْ وَ لَاُمَنِّیَنَّهُمْ“ ترجمہ: قسم ہے میں ضرورانہیں بہکادوں گا اور ضرور انہیں آرزوئیں دلاؤں گا ۔ (النساء: 119)
  4. حقیقی ہدایت دینے والا اللہ تعالی ہے انسان جتنی بھی کوشش کر لے ہدایت وہی پائے گا جسے اللہ تعالی نوازے:”یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْاؕ-قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْۚ-بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ“ ترجمہ: اے محبوب وہ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے تم فرماؤ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اُس نے تمہیں اسلام کی ہدایت کی اگر تم سچے ہو۔ (الحجرات: 17)” وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِیَ لَوْ لَاۤ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُۚ “ ترجمہ: اور ہم راہ نہ پاتے اگر اللہ نہ دکھاتا ۔  (الاعراف: 43)
  5. اگر کسی وسیلے یا سبب سے ہدایت ملے تو وہ بھی حقیقتاً اللہ کی طرف سے ہی ہے کہ اس کا انتظام اللہ تعالی نے ہی فرمایا ہے۔”هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ“ ترجمہ: وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے ۔ (التوبہ: 33)”سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّؕ“ ترجمہ: ابھی ہم اُنہیں دکھائیں گے اپنی آیتیں دنیا بھر میں اور خود اُن میں یہاں تک کہ ان پر کُھل جائے کہ بےشک وہ حق ہے ۔ (فصلت: 53)
  6. ہر انسان بلکہ ہر مخلوق کا رزاق اللہ تعالی ہے”اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ“ ترجمہ: بےشک اللہ ہی بڑا رزق دینے والا قوت والا قدرت والا ہے۔ ( الذاریات:58) ”وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا“ترجمہ: اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو۔ (ھود: 11)
  7. اللہ تعالی سے مایوسی کی بجائے مغفرت طلب کرنی چاہیے، چاہے گناہ کیسا بھی ہو۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ”قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ“ ترجمہ:تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بےشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے بےشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔ (الزمر: 53) ”وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ“ ترجمہ: اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو! سب کے سب اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔(النور: 31) ”فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا“ترجمہ:تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو  بے شک وہ بڑا معاف فرمانے والا ہے (نوح: 10)
  8.  اس حدیث قدسی سے معلوم ہوا کہ بندہ عبادت کرے یا نہ کرے اللہ تعالی کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ ”یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِۚ-وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ“ترجمہ: اے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج اور اللہ ہی بے نیاز ہے سب خوبیوں سراہا۔ (فاطر: 15)
  9. اگر انسان عبادت کرے گا تو اس کا اپنا ہی فائدہ ہے۔
  10. اچھائی اور برائی کا منبع دل ہے اس لیے حدیث میں دل کا ذکر کیا گیا۔قرآن پاک میں بھی اچھائی اور برائی کو دل کی طرف منسوب کیا گیا:”هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِكُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍۚ“ترجمہ: یہ ہے وہ جس کا تم وعدہ دئیے جاتے ہو ہر رجوع لانے والے نگہداشت والے کے لیے۔ (ق:37)
  11. اچھے کام کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کرنی چاہیے کہ اسی نے ہی توفیق بخشی جبکہ برے کام کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کرنا جائز نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے اس سے رکنے کا اختیار دیا تھا۔جیسے قیامت والے دن مومنین اپنے ایمان کی سلامتی پر کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کریں گے”وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَؕ-اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُ الَّذِیْۤ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖۚ“ترجمہ: اور کہیں گے سب خوبیاں اللہ کو جس نے ہمارا غم دُور کیا  بےشک ہمارا رب بخشنے والا قدر فرمانے والا ہے  وہ جس نے ہمیں آرام کی جگہ اُتارا اپنے فضل سے ۔ (فاطر: 34-35)

جبکہ کافروں کے کفر کی نسبت انہی کی طرف کی جائے گی۔”اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللّٰهِ اَكْبَرُ مِنْ مَّقْتِكُمْ اَنْفُسَكُمْ اِذْ تُدْعَوْنَ اِلَى الْاِیْمَانِ فَتَكْفُرُوْنَ“ترجمہ: بےشک جنہوں نے کفر کیا اُن کو ندا کی جائے گی کہ ضرور تم سے اللہ کی بیزاری اس سے بہت زیادہ ہے جیسے تم آج اپنی جان سے بیزار ہو جب کہ تم ایمان کی طرف بلائے جاتے تو تم کفر کرتے۔ (غافر: 10)

  1. انسان کے اعمال سے زیادہ اسے عذاب نہیں دیا جائے گا جبکہ نعمتیں اس کے اعمال سے زیادہ دی جائیں گی۔

حدیث شریف کا حوالہ:

صحیح مسلم، كتاب البر والصلة والآداب ، باب تحریم الظلم ، جلد4، صفحہ1974، حدیث نمبر2577، دار إحياء التراث العربي ، بيروت

حدیث شریف کا حکم:

اس حدیث شریف کی سند صحیح ہے۔ امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ اس حدیث شریف کے متعلق فرماتے ہیں:”ھذا اشرف حدیث لاھل الشام“

۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button