اقرار وارث بعد موت مورث
مسئلہ۱: ورثہ میں سے ایک نے یہ اقرار کیا کہ میت پر اتنا فلاں شخص کا دین ہے اور باقی ورثہ نے انکار کیا ظاہر الروایہ یہ ہے کہ کل دین اس مقر کے حصے سے اگر وصول کیا جاسکے وصول کیا جائے اور بعض علماء ی کہتے ہیں کہ دین کا جتنا جز اس کے حصہ میں آتا ہے اس کے متعلق اسکا اقرار صحیح ہے اور اگر اس مقر اور ایک دوسرے شخص نے شہادت دی کہ میت پر اتنا فلاں کا دین تھا اس کی گواہی مقبول ہے اور کل ترکہ سے یہ دین وصول کیا جائے گا (دررغرر ردالمحتار)
مسئلہ۲: ایک شخص مرگیا اور ایک ہزار روپے ہیں اور ایک بیٹا چھوڑا بیٹے نے یہ اقرار کیا کہ زیدکے میرے باپ کے ذمہ ایک ہزار روپے ہیں اور ایک ہزار عمر و کے ہیں اگر یہ دونوں باتیں متصلاً کہیں تو زید وعمرو دونوں ان ہزار روپے میں سے پانچ پانچ سو لے لیں اور اگر دونوں باتوں میں فصل ہو یعنی زیدکے لیے اقرار کرنے کے بعد خاموش رہا پھر عمرو کے لیے اقرار کیا تو زید مقدم ہے مگر زید کو اگرقاضی کے حکم سے ہزار روپے دئے تو عمرو کو کچھ نہیں ملے گا اور بطور خود دے دئے توعمر و کواپنے پاس سے پانچ سو دے اور اگر بیٹے نے یہ کہا کہ یہ ہزار روپے میرے باپ کے پاس زید کی امانت تھے اور عمرو کے اس کے ذمہ ایک ہزار دین ہیں اور دونوں باتوں میں فاصلہ نہ ہو تو امانت کو دین پر مقدم کیا جائے اور اگر پہلے دین کا اقرار کیا اور بعد میں متصلًا امانت کا تو دونوں برابر برابر بانٹ لیں (مبسوط)
مسئلہ۳: ایک شخص نے کہا یہ ہزار روپے جو تمھارے والد نے چھوڑے ہیں میں نے اس کے پاس بطور امانت رکھے تھے دوسرے شخص نے کہا تمھارے باپ پر میرے ہزار روپے دین ہیں بیٹے نے دونوں سے مخاطب ہوکر یہ کہا کہ تم دونوں سچ کہتے ہو تو دونوں برابر برابر بانٹ لیں (عالمگیری)
مسئلہ۴: ایک شخص مر گیا دو بیٹے وارث چھوڑے اور دو ہزار ترکہ ہے ایک ایک ہزار دونوں نے لے لئے پھردو شخصوں نے دعوی کیا ہر ایک کا یہ دعوی ہے کہ تمھارے باپ کے ذمہ میرے ایک ہزار دین ہیں ایک مدعی کی دونوں بیٹوں نے تصدیق کی اور دوسرے کی فقط ایک نے تصدیق کی مگر اس نے دونوں کے لئے ایک ساتھ اقرار کیا یعنی یہ کہا کہ تم دونوں سچ کہتے ہو جسکی دونوں نے صدیق کی ہے وہ دونوں سے پانچ پانچ سو لے گا اور دوسرا فقط اسی سے پانچ سو لے گا جس نے اسکی تصدیق کی ہے(عالمگیری)
مسئلہ۵: ایک شخص مرگیا اور اس کے ہزار روپے کسی کے ذمہ باقی ہیں اس نے دوبیٹے وارث چھوڑے ان کے سوا کوئی اور وارث نہیں مدیون یہ کہتا ہے کہ تمھارے باپ کو میں نے پانچ سو روپے دے دئے تھے میرے ذمہ صرف پانچ سو باقی ہیں ایک بیٹے نے اس کی تصدیق کی دوسرے نے تکذیب جس نے تکذیب کی ہے وہ مدیون سے پانچ سو روپے جو باقی ہیں وصول کریگا اور جس نے تصدیق کی ہے اسے کچھ نہیں ملے گا۔ اور اگر مدیون نے یہ کہا کہ مرنے والے کو میں نے پورے ہزار روپے دے دئے تھے اب میرے ذمہ کچھ باقی نہیں ایک نے اسکی تصدیق کی دوسرے نے تکذیب تو تکذیب کرنے والا مدیون سے پانچ سو وصول کرسکتا ہے اور تصدیق کرنے والا کچھ نہیں لے سکتا ہاں مدیون اس تکذیب کرنے والے کویہ حلف دے سکتا ہے کہ قسم کھائے کہ میرے علم میں یہ بات نہیں کہ میرے باپ نے پورے ہزار روپے تم سے وصول کر لئے اس نے قسم کھا کر مدیون سے پانچ سو روپے وصول کرلئے اور فرض کرو ان کے باپ نے ایک ہزار روپے اور چھوڑے ہیں جو دونوں بھائیوں پر برابر تقسیم ہو گئے تو مدیون اس تصدیق کرنے والے سے اس کے حصہ کے پانچ سو جو ملے ہیں وصول کر سکتا ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۶ : ایک شخص مرا اور ایک بیٹا وارث چھوڑا اور ایک ہزار روپے چھوڑے اس میت پر کسی نے ایک ہزار کا دعوی کیا بیٹے نے اس کا اقرار کر لیا اور وہ ہزار روپے اسے دے دیئے اس کے بعد دوسرے شخص نے میت پر ہزار روپے کا دعوی کیا بیٹے نے اس سے انکارکیا مگر پہلے مدعی نے اس کی تصدیق کی اور دسرے مدعی نے پہلے مدعی کے دین کا انکار کیا یہ انکار بیکار ہے دونوں مدعی اس ہزار کو برابر تقسیم کر لیں ۔ (عالمگیری)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔