الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگرکوئی افاقی بلااحرام حدود حرم میں داخل ہوجائے تواس پر کیا لازم ہوگا،نیز اگر وہ اسی سال میقات کی جانب لوٹ کرکسی بھی حج یاکسی بھی عمرے کاحرام باندھ کراسے اداکرلے تواس پرکیا حکم عائد ہوگا؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : ۔صورت مسؤلہ میں ایسے شخص پر حج یا عمرہ کرنا اور میقات کی جانب لوٹ کر احرام باندھنا یادم لازم ہوگا۔ چنانچہ امام برہان الدین ابو المعالی محمود بن صدرالشریعہ بن مازہ بخاری متوفی616ھ لکھتے ہیں : اذا دخل الافاقی مکۃ بغیر احرامٍ، وہو لا یرید الحج والعمرۃ، فعلیہ لدخول مکۃ اما حجۃ او عمرۃ ؛ لانہ لزمہ الاحرام اذا بلغ المیقات علی قصد دخول مکۃ ، والاحرام انما یکون بحجۃ او عمرۃ، فلزمہ الاحرام باحدہما، وما وجب علی الانسان لا یسقط الا بادائہ ، فان احرم بالحج او العمرۃ من غیر ان یرجع الی المیقات، فعلیہ دم لترک حق المیقات۔(53) یعنی،جب افاقی مکہ میں بلا احرام اس حال میں داخل ہواکہ وہ حج اور عمرہ کا ارادہ نہ رکھتا تھا تو اس پر دخول مکہ کے سبب حج یا عمرہ کرنا لازم ہوگا،کیونکہ جب وہ دخول مکہ کے ارادے پر میقات پہنچاتو اسے احرام باندھنا لازم ہوگیا،اور احرام حج یا عمرے کا ہوتاہے ،اسی لئے اس پران دونوں میں سے ایک لازم ہوگااور جو انسان پر واجب ہوجائے تووہ نہیں ساقط ہوتا مگراس کی ادائیگی سے ،پس اگر اس نے میقات کی طرف لوٹے بغیر حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیاتو اس پرمیقات کے حق کو چھوڑنے کے سبب دم لازم ہوگا۔ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ اورملاعلی بن سلطان قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں : (ومن دخل )ای من اھل الافاق (مکۃ)او الحرم (بغیر احرام فعلیہ احد النسکین)ای من الحج او العمرۃ ، وکذا علیہ دم المجاوزۃ او العود۔(54) یعنی، اگرافاقی مکہ یا حدود حرم میں بلا احرام داخل ہوا تو اس پر دومناسک یعنی حج یا عمرہ میں سے ایک لازم ہوگااور اسی طرح اس پر بلااحرام میقات تجاوز کرنے کے سبب دم یا لوٹنا لازم ہوگا۔ صدرالشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں : میقات کے باہر سے جو شخص ایا اور بغیر احرام مکہ معظمہ کو گیا تو اگرچہ نہ حج کا ارادہ ہو، نہ عمرہ کا مگر حج یا عمرہ واجب ہو گیا پھر اگر میقات کو واپس نہ گیا، یہیں احرام باندھ لیا تو دم واجب ہے ۔(55) اور اگروہ اسی سال میقات کی جانب لوٹ گیااور کسی بھی حج (یعنی،فرض یا نفل حج وغیرہ)یا کسی بھی عمرے (یعنی،قضاء یا منت کا عمرہ وغیرہ)کااحرام باندھ کر اسے اداکرلیا تواس سے نہ صرف دم ساقط ہوجائے گا بلکہ دخول مکہ کے سبب لازم انے والا حج یا عمرہ بھی ساقط ہوجائے گا۔ چنانچہ علامہ ابو الحسن علاء الدین علی بن بلبان حنفی متوفی739ھ لکھتے ہیں : کوفیدخل مکۃ بلا احرامٍ لحاجۃ : یجب علیہ عمرۃ او حجۃ ، کالتزام الاحرام بالنذر۔فان رجع الی المیقات ، فاھل بحجۃ الاسلام : جاز عن حجۃ الاسلام وعما لزمہ بدخول مکۃ استحسانًا۔وفی القیاس : لا یجوز ، کما اذا تحولت السنۃ ، وھو قول زفر۔(56) یعنی،کوفی اگرکسی حاجت کے لئے بلااحرام مکہ معظمہ میں داخل ہواتو اس پرحج یا عمرہ کرنا واجب ہوجائے گا،جیسے کوئی شخص منت کے سبب احرام لازم کرے ،پس اگر اس نے میقات کی طرف لوٹ کر فرض حج کا احرام باندھاتو اس سے فرض حج اداہوجائے گانیزدخول مکہ کے سبب لازم انے والا حج یا عمرہ بھی خلاف قیاس اداہوجائے گااور قیاس کے مطابق ادانہیں ہوناچاہیے جیسے کہ جب سال تبدیل ہوجائے اور یہی امام زفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے ۔ امام ابو البقاء محمد بن احمد بن محمد بن الضیاء مکی حنفی متوفی54 8ھ لکھتے ہیں : ولو جاوز المیقات ولم یحرم حتی عاد واحرم منہ سقط عنہ الدم بالاجماع۔(57) یعنی، اگر کوئی بلا احرام میقات تجاوز کرگیا اور پھر اس نے میقات کی طرف لوٹ کر احرام باندھ لیا تواس سے بالاجماع دم ساقط ہوگیا۔ علامہ رحمت اللہ سندھی اورملاعلی قاری لکھتے ہیں : (فان عاد الی میقاتٍ من عامہ فاحرم بحج فرضٍ) ای ادائٍ (او قضائٍ او نذرٍ ،او عمرۃ نذرٍ او قضائٍ) وکذا عمرۃ سنۃ او مستحبۃ (سقط بہ)ای بتلبسہ بالاحرام من الوقت (ما لزمہ بالدخول من النسک)ای الغیر المتعین (ودم المجاوزۃ ، وان لم ینو)ای بالاحرام (عما لزمہ)ای بالخصوص، لان المقصود تحصیل تعظیم البقعۃ وھو حاصل فی ضمن کل ما ذکر ، وھذا استحسان والقیاس ان لا یسقط ، ولا یجوز الا ان ینوی ما وجب علیہ للدخول ، وھو قول زفر ، کما لو تحولت السنۃ فانہ لا یجزیہ بالاتفاق عما لزمہ الا بتعیین النیۃ۔(58) یعنی،پس اگر اس نے اسی سال میقات کی طرف لوٹ کر فرض حج یعنی ادا ،یاقضاء یامنت کے حج کا احرام باندھا یا منت کے عمرے یاعمرے کی قضاء کا احرام باندھا اوراسی طرح سنت یا مستحب عمرے کا تو میقات سے احرام پہننے کے سبب وہ حج یا عمرہ بھی ساقط ہوجائے گا کہ جو دخول مکہ کی وجہ سے لازم ہواتھایعنی بغیر تعیین کے اور نہ صرف یہی بلکہ میقات تجاوز کرنے کے سبب لازم انے والا دم بھی ساقط ہوجائے گااگر چہ اس احرام کی نیت نہ کی ہوکہ جو اسے خصوصیت کے ساتھ لازم ہوا تھاکیونکہ مقصود جگہ کی تعظیم کا حصول ہے اور وہ ہر مذکور کے ضمن میں حاصل ہے ،اور یہ خلاف قیاس حکم ہے اور قیاس کے مطابق دخول مکہ کے سبب لازم انے والا حج یا عمرہ ساقط نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی یہ اداہوگامگر یہ کہ وہ اس کی نیت کرے کہ جو اسے دخول کے سبب لازم ہواہے ، اور یہی امام زفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے جیساکہ اگر سال تبدیل ہوجائے تو دخول مکہ کے سبب لازم انے والا حج یا عمرہ بالاتفاق ادا نہیں ہوگامگر نیت کی تعیین کے سبب۔ علامہ نظام الدین حنفی متوفی1161ھ اور علماء ہندکی جماعت نے لکھا ہے : وان عاد الی المیقات واحرم فہذا علی وجہین فان احرم بحجۃٍ او عمرۃٍ عما لزمہ خرج عن العہدۃ وان احرم بحجۃ الاسلام او عمرۃٍ کانت علیہ ان کان ذلک فی عامہ اجزاہ عما لزمہ لدخول مکۃ بغیر احرامٍ استحسانًا، کذا فی المحیط وکذا اذا حج من عامہ ذلک حجۃً نذرہا ہکذا فی النہایۃ۔(59) یعنی،اگر وہ میقات کی طرف لوٹے اور وہاں سے احرام باندھے تواس کی دوصورتیں ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اگر اس نے اس حج یا عمرہ کا احرام باندھا کہ جو اسے (دخول مکہ کے سبب)لازم ہواتھاتووہ اس سے بر ی الذمہ ہوگیااور اگر اس نے اسی سال فرض حج یا ایسے عمرہ کا احرام باندھا کہ جو اس پرلازم تھاتو بحکم استحسان دخول مکہ کے سبب لازم انے والا حج یا عمرہ بھی اداہوجائے گااسی طرح ’’محیط‘‘(60)میں ہے ،اور اسی طرح اگر اس نے وہ حج کیا کہ جس کی منت کی تھی تو بھی یہی حکم ہے یعنی دخول مکہ کے سبب لازم انے والا حج یا عمرہ بھی اداہوجائے گااسی طرح ’’نہایہ‘‘ میں ہے ۔ اور صدرالشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں : میقات کو واپس جاکر احرام باندھ کر ایا تو دم ساقط اور مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے جو اس پر حج یا عمرہ واجب ہوا تھا اس کا احرام باندھا اور ادا کیا تو بری الذمہ ہوگیا۔ یوہیں اگر حجۃ الاسلام یا نفل یا منت کا عمرہ یا حج جو اس پر تھا، اس کا احرام باندھا اور اسی سال ادا کیا جب بھی بری الذمہ ہوگیا اور اگر اس سال ادانہ کیا تو اس سے بری الذمہ نہ ہوا، جو مکہ میں جانے سے واجب ہوا تھا۔(61) خلاصہ کلام یہ کہ اگر افاقی بلااحرام حدود حرم میں داخل ہوا تو اس پر حج یا عمرہ کرنا اور دم دینایا میقات کی جانب لوٹ کر احرام باندھنالازم ہوگا،لیکن اگر اس نے اسی سال میقات کی جانب لوٹ کر کسی بھی حج یاکسی بھی عمرے کا احرام باندھا اور اسے اداکرلیاتو نہ صرف اس سے دم ساقط ہوجائے گا بلکہ دخول مکہ کے سبب لازم انے والا حج یا عمرہ بھی ساقط ہوجائے گا،اور اگر سال تبدیل ہوگیاتو دخول مکہ کے سبب لازم انے والا حج یا عمرہ اس طرح بالاتفاق ادانہیں ہوگا مگر نیت کی تعیین کے ساتھ۔ جیساکہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ نے اس کی صراحت کی ہے جوکہ اسی فتویٰ میں مذکور ہے ۔ اب اگر اسی سال وہ حج یا عمرہ کااحرام باندھتا ہے تو بلاتعین نیت ا س کے ذمے سے لازم کرنے والا حج یاعمرہ ساقط ہوجائے گا جبکہ سال بدل جائے تو تعیین نیت ضروری ہے اس میں فرق بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری حنفی متوفی لکھتے ہیں : لعل الفرق بین الصورتین عند الائمۃ الثلاثۃ ان السنۃ الاولی کالمعیار لما التزمہ فیندرج فی ضمن مطلق النیۃ ومقیدھا، بخلاف السنۃ القابلۃ لانھا لیست لما ذکرناہ قابلۃ.(62) یعنی، شاید ائمہ ثلاثہ کے نزدیک دونوں صورتوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے سال (یعنی سال وہ میقات سے بلااحرام گزرا ) جس کا اس نے التزام کیا اس کے لئے مثل معیار کے ہے ، پس وہ مطلق اور مقیدنیت کے ضمن میں مندرج ہے برخلاف ائندہ سال کے کیونکہ وہ اسے قبول کرنے والا نہیں ہے جسے ہم نے درج کیا۔ واﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب یوم
الجمعۃ،25رمضان1440ھ۔31مئی2019م FU-88
حوالہ جات
(53) المحیط البرھانی،کتاب المناسک،الفصل الرابع فی بیان مواقیت الاحرام وما یلزمہ بمجاوزتھا من غیر احرام،3/413۔414
(54) لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط،باب المواقیت،النوع الثانی : المیقات المکانی۔۔۔۔۔الخ،فصل : فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام،ص123
(55) بہارشریعت،حج کابیان،جرم اور ان کے کفارے ،1/1191
(56) عمدۃ السالک فی المناسک،الباب الخامس عشر : فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام، ص 581۔ 582
(57) البحر العمیق،الباب السادس : فی المواقیت،فصل فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام ،1/620
(58) لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط،باب المواقیت،النوع الثانی : المیقات المکانی۔۔۔۔۔الخ،فصل : فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام،ص123
(59) الفتاوی الھندیۃ،کتاب المناسک،الباب العاشر فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام ،1/253
(60) المحیط البرھانی،کتاب المناسک،الفصل الرابع فی بیان مواقیت الاحرام وما یلزمہ بمجاوزتھا من غیر احرام،3/414
(61) بہارشریعت،حج کابیان،جرم اور ان کے کفارے ،1/1191
(62) لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط،باب المواقیت،النوع الثانی : المیقات المکانی۔۔۔۔۔الخ،فصل : فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام،ص123۔124