اضحیہ یعنی قربانی کے متعلق مسائل
مخصوص جانور کو مخصوص دن میں بہ نیت تقرب ذبح کرنا قربانی ہے اور کبھی اس جانور کو بھی اضحیہ اور قربانی کہتے ہیں جو ذبح کیا جاتا ہے۔ قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے جو اس امت کے لئے باقی رکھی گئی اور نبی کریم ﷺ کو قربانی کرنے کا حکم دیا گیا ارشاد فرمایا فصل لربک والنحر اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ اس کے متعلق پہلے چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں پھر فقہی مسائل بیان ہوں گے۔
حدیث ۱ :۔ ابودائود و ترمذی و ابن ماجہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے راوی کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ اور بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے لہذا اس کو خوش دلی سے کرو۔
حدیث ۲ :۔ طبرانی حضرات امام حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ حضور نے فرمایا جس نے خوش دل سے طالب ثواب ہو کر قربانی کی وہ آتش جہنم سے حجاب (روک) ہو جائے گی۔
حدیث ۳ :۔ طبرانی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ حضور نے ارشاد فرمایا جو روپیہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا اس سے زیادہ کوئی روپیہ پیارا نہیں ۔
حدیث ۴ :۔ ابن ماجہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا جس میں وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔
حدیث ۵ :۔ ابن ماجہ نے زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں فرمایا کہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے لوگوں نے عرض کی یارسول اللہ ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے فرمایا ہر بال کے مقابل نیکی ہے عرض کی اون کا کیا حکم ہے فرمایا اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ہے۔
حدیث ۶ :۔ صحیح بخاری میں براء رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی نبی کریم ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے جو کام آج ہم کریں گے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں پھر اس کے بعد قربانی کریں گے جس نے ایسا کیا اس نے ہماری سنت (طریقہ) کو پالیا اور جس نے پہلے ذبح کر لیا وہ گوشت ہے جو اس نے پہلے سے اپنے گھر والوں کے لئے تیار کر لیا قربانی سے اسے کچھ تعلق نہیں ۔ ابوبردہ رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوئے اور یہ پہلے ہی ذبح کرچکے تھے (اس خیال سے کہ پڑوس کے لوگ غریب تھے انھوں نے چاہا کہ ان کو گوشت مل جائے) اور عرض کی یارسول اللہ میرے پاس بکری کا چھ ماہ ایک بچہ ہے فرمایا تم اسے ذبح کر لو اور تمہارے سوا کسی کے لئے چھ ماہ کا بچہ کفایت نہیں کرے گا۔
حدیث ۷ :۔ امام احمد وغیرہ براء رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ آج کے دن جو کام ہم کو پہلے کرنا ہے وہ نماز ہے اس کے بعد قربانی کرنا ہے جس نے ایسا کیا وہ ہماری سنت کو پہنچا اور جس نے پہلے ذبح کر ڈالا وہ گوشت ہے جو اس نے اپنے گھر والوں کے لئے پہلے ہی سے کر لیا ۔نسک یعنی قربانی سے اس کو کچھ تعلق نہیں ۔
حدیث ۸ :۔ امام مسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ سینگ والا مینڈھا لایا جائے جو سیاہی میں چلتا ہو اور سیاہی میں بیٹھتا ہو اور سیاہی میں نظر کرتا ہو یعنی اس کے پائوں سیاہ ہو اور پیٹ سیاہ ہو اور آنکھیں سیاہ ہوں وہ قربانی کے لئے حاضر کیا گیا حضور نے فرمایا عائشہ چھری لائو پھر فرمایا اسے پتھر پر تیز کر لو پھر حضور نے چھری لی اور مینڈے کو لٹایا اور اسے ذبح کیا پھر فرمایا بسم اللہ اللھم تقبل من محمدٍ و ال محمدٍ ومن امۃ محمدٍ الہی تو اس کو محمد ﷺ کی طرف سے اور ان کی آل اور امت کی طرف سے قبول فرما۔
حدیث ۹ :۔ امام احمد و ابودائود و ابن ماجہ و دارمی جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ذبح کے دن دو مینڈھے سینگ والے چت کبرے خصی کئے ہوئے ذبح کئے جب ان کا منہ قبلہ کو کیا یہ پڑھا انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض علی ملۃ ابراھیم حنیفًا وما انا من المشرکین ان صلاتی و نسکی و محیای ومماتی للہ رب العلمین لاشریک لہ‘ وبذلک امرت وانا من المسلمین اللھم منک لک عن محمدٍ وامتہ بسم اللہ واللہ اکبر اس کو پڑھ کر ذبح فرمایا اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نے یہ فرمایا کہ الہی یہ میری طرف سے ہے اور میری امت میں اس کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔
حدیث ۱۰ :۔ امام بخاری و مسلم نے انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے دو مینڈھے چت کبرے سینگ والوں کی قربانی کی انھیں اپنے دست مبارک سے ذبح کیا اور بسم اللہ واللہ اکبر کہا کہتے ہیں میں نے حضور کو دیکھا کہ اپنا پائوں ان کے پہلوئوں پر رکھا اور بسم اللہ واللہ اکبر کہا۔
حدیث ۱۱ :۔ ترمذی میں حنش سے مروی وہ کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا کہ دو مینڈھے کی قربانی کرتے ہیں میں نے کہا یہ کیا انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں حضور کی طرف سے قربانی کروں لہذا میں حضور کی طرف سے قربانی کرتا ہوں ۔
حدیث ۱۲ :۔ ابودائود و نسائی عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے یوم الاضحی کا حکم دیا گیا اس دن کو خدا نے اس امت کے لئے عید بنایا ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ یہ بتایئے اگر میرے پاس منیحہ (٭منیحہ اس جانور کو کہتے ہیں جو دوسرے نے اسے اس لئے دیا ہے کہ یہ کچھ دنوں اس کے دودھ وغیرہ سے فائدہ اٹھائے پھر مالک کو واپس کر دے ۱۲ منہ) کے سوا کوئی جانور نہ ہو تو کیا اسی کی قربانی کر دوں فرمایا نہیں ۔ ہاں تم اپنے بال اور ناخن ترشوائو اور مونچھیں ترشوائو اور موئے زیر ناف کو مونڈو اسی میں تمہاری قربانی خدا کے نزدیک پوری ہو جائے گی یعنی جس کو قربانی کی توفیق نہ ہو اسے ان چیزوں کے کرنے سے قربانی کا ثواب حاصل ہو جائے گا۔
حدیث ۱۳ :۔ مسلم و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے راوی کہ حضور نے فرمایا جس نے ذی الحجہ کا چند دیکھ لیا اور اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے تو جب تک قربانی نہ کر لے بال اور ناخنوں سے نہ لے یعنی نہ ترشوائے۔
حدیث ۱۴ :۔ طبرانی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور نے فرمایا قربانی میں گائے سات کی طرف سے اور اونٹ سات کی طرف سے ہے۔
حدیث ۱۵ :۔ ابودائود و نسائی و ابن ماجہ مجاشع بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور نے فرمایا بھیڑ کا جذع (چھ مہینے کا بچہ) سال بھر والی بکری کے قائم مقام ہے۔
حدیث ۱۶ :۔ امام احمد نے روایت کی کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ افصل قربانی وہ ہے جو باعتبار قیمت اعلی ہو اور خوب فربہ ہو۔
حدیث ۱۷ :۔ طبرانی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ حضور نے رات میں قربانی کرنے سے منع فرمایا۔
حدیث ۱۸ :۔ امام احمد وغیرہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا چار قسم کے جانور قربانی کے لئے درست نہیں (۱) کانا جس کا کانا پن ظاہر ہے اور (۲) بیمار جس کی بیماری ظاہر ہو اور (۳) لنگڑا جس کا لنگ ظاہر ہے اور (۴) ایسا لاغر جس کی ہڈیوں میں مغز نہ ہو اسی کی مثل امام مالک و احمد و ترمذی و ابودائود و نسائی و ابن ماجہ و دارمی براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی۔
حدیث ۱۹ :۔ امام احمد و ابن ماجہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کان کٹے ہوئے اور سینگ ٹوٹے ہوئے کی قربانی سے منع فرمایا۔
حدیث ۲۰ :۔ ترمذی و ابودائود و نسائی و دارمی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم جانوروں کے کان اور آنکھیں غور سے دیکھ لیں اور اس کی قربانی نہ کریں جس کے کان کا اگلا حصہ کٹا ہو اور نہ اس کی جس کے کان کا پچھلا حصہ کٹا ہو نہ اس کی جس کا کان پھٹا ہو یا کان میں سوراخ ہو۔
حدیث ۲۱ :۔ امام بخاری ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ عیدگاہ میں نحر و ذبح فرماتے تھے۔
مسائل فقہیہ :۔ قربانی کئی قسم کی ہے (۱) غنی اور فقیر دونوں پر واجب (۲) فقیر پر واجب ہو غنی پر واجب نہ ہو۔ (۳) غنی پر واجب ہو فقیر پر واجب نہ ہو۔ دونوں پر واجب ہو اس کی صورت یہ ہے کہ قربانی کی منت مانی یہ کہا کہ اللہ کے لئے مجھ پر بکری یا گائے کی قربانی کرنا ہے یا اس بکری یا اس گائے کو قربانی کرنا ہے۔ فقیر پر واجب ہو غنی پر نہ ہو اس کی صورت یہ ہے کہ فقیر نے قربانی کے لئے جانور خریدا اس پر اس جانور کی قربانی واجب ہے او غنی اگر خریدتا تو اس خریدنے سے قربانی اس پر واجب نہ ہوتی۔ غنی پر واجب ہو فقیر پر واجب نہ ہو اس کی صورت یہ ہے کہ قربانی کا وجوب نہ خریدنے سے ہو نہ منت ماننے سے بلکہ خدا نے جو اسے زندہ رکھا ہے اس کے شکریہ میں اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت کے احیا میں جو قربانی واجب ہے وہ صرف غنی پر ہے (عالمگیری)
مسئلہ ۱ :۔ مسافر پر قربانی واجب نہیں اگر مسافر نے قربانی کی یہ تطوع (نفل) ہے اور فقیر نے اگر نہ منت مانی ہو نہ قربانی کی نیت سے جانور خریدا ہو اس کا قربانی کرنا بھی تطوع ہے (عالمگیری)
مسئلہ ۲ :۔ بکری کا مالک تھا اور اس کی قربانی کی نیت کر لی یا خریدنے کے وقت قربانی کی نیت نہ تھی بعد میں نیت کر لی تو اس نیت سے قربانی واجب نہیں ہوگی۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۳ :۔ قربانی واجب ہونے کے شرائط یہ ہیں (۱) اسلام یعنی غیر مسلم پر قربانی واجب نہیں (۲) اقامت یعنی مقیم ہونا۔ مسافر پر واجب نہیں ۔ (۳) تونگری یعنی مالک نصاب ہونا یہاں مالداری سے مراد وہی ہے جس سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے وہ مراد نہیں جس سے زکوۃ واجب ہوتی ہے۔ (۴) حریت یعنی آزاد ہونا جو آزاد نہ ہو اس پر قربانی واجب نہیں کہ غلام کے پاس مال ہی نہیں لہذا عبادت مالیہ اس پر واجب نہیں ۔ مرد ہونا اس کے لئے شرط نہیں ۔ عورتوں پر واجب ہوتی ہے جس طرح مردوں پر واجب ہوتی ہے اس کے لئے بلوغ شرط ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے اور نابالغ پر واجب ہے تو آیا خود اس کے مال سے قربانی کی جائے گی یا اس کا باپ اپنے مال سے قربانی کرے گا۔ ظاہر الراویہ یہ ہے کہ نہ خود نابالغ پر واجب ہے اور نہ اس کی طرف سے اس کے باپ پر واجب ہے اور اسی پر فتوی ہے (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۴ :۔ مسافر پر اگرچہ واجب نہیں مگر نعل کے طور پر کرے تو کرسکتا ہے ثواب پائے گا۔ حج کرنے والے جو مسافر ہوں ان پر قربانی واجب نہیں اور مقیم ہوں تو واجب ہے جیسے کہ مکہ کے رہنے والے حج کریں تو چونکہ یہ مسافر نہیں ان پر واجب ہوگی (درمختار ،ردالمحتار)
مسئلہ ۵ :۔ شرائط کا پورے وقت میں پایا جانا ضروری نہیں بلکہ قربانی کے لئے جو وقت مقرر ہے اس کے کسی حصہ میں شرائط کا پایا جانا وجوب کے لئے کافی ہے مثلاً ایک شخص ابتدائے وقت قربانی میں کافر تھا پھر مسلمان ہوگیا اور ابھی قربانی کا وقت باقی ہے اس پر قربانی واجب ہے جب کہ دوسرے شرائط بھی پائے جائیں اسی طرح اگر غلام تھا اور آزاد ہوگیا اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ یونہی اول وقت میں مسافر تھا اور اثنائے وقت میں مقیم ہوگیا اس پر بھی قربانی واجب ہوگئی یا فقیر تھا اور وقت کے اندر مالدار ہوگیا اس پر بھی قربانی واجب ہے (عالمگیری)
مسئلہ ۶ :۔ قربانی واجب ہونے کا سبب وقت ہے جب وہ وقت آیا اور شرائط وجوب پائے گئے قربانی واجب ہوگئی اور اس کا رکن ان مخصوص جانوروں میں کسی کو قربانی کی نیت سے ذبح کرنا ہے۔ قربانی کی نیت سے دوسرے جانور مثلاً مرغ کو ذبح کرنا ناجائز ہے (درمختار)
مسئلہ ۷ :۔ جو شخص دو سو درہم یا بیس دینار کا مالک ہو یا حاجت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو وہ غنی ہے اس پر قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے ان کے سوا جو چیزیں ہوں وہ حاجت سے زائد ہیں (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ ۸ :۔ اس شخص پر دین ہے اور اس کے اموال سے دین کی مقدار مجرا کی جائے تو نصاب نہیں باقی رہتی اس پر قربانی واجب نہیں اور اگر اس کا مال یہاں موجود نہیں ہے اور ایام قربانی گزرنے کے بعد وہ مال اسے وصول ہوگا تو قربانی واجب نہیں (عالمگیری)
مسئلہ ۹ :۔ ایک شخص کے پاس دو سو درہم تھے سال پورا ہوا اور ان میں سے پانچ درہم زکوۃ میں دیئے ایک سو پچانوے باقی رہے اب قربانی کا دن آیا تو قربانی واجب ہے اور اگر اپنے ضروریات میں پانچ درہم خرچ کرتا تو قربانی واجب نہ ہوتی (عالمگیری)
مسئلہ ۱۰ :۔ مالک نصاب نے قربانی کے لئے بکری خریدی تھی وہ گم ہوگئی اور اس شخص کا مال نصاب سے کم ہوگیا اب قربانی کا دن آیا تو اس پر یہ ضروری نہیں کہ دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے اور اگر وہ بکری قربانی ہی کے دنوں میں مل گئی اور یہ شخص اب بھی مالک نصاب نہیں ہے تو اس پر اس بکری کی قربانی واجب نہیں (عالمگیری)
مسئلہ ۱۱ :۔ عورت کا مہر شوہر کے ذمہ باقی ہے اور شوہر مالدار ہے تو اس مہر کی وجہ سے عورت کو مالک نصاب نہیں مانا جائے گا اگرچہ مہر معجل ہو اور اگر عورت کے پاس اس کے سوا بقدر نصاب مال نہیں ہے تو عورت پر قربانی واجب نہیں ہوگی (عالمگیری)
مسئلہ ۱۲ :۔ کسی کے پاس دو سو درہم کی قیمت کا مصحف شریف (قرآن مجید) ہے اگر وہ اسے دیکھ کر اچھی طرح تلاوت کرسکتا ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں چاہے اس میں تلاوت کرتا ہو یا نہ کرتا ہو اور اگر اچھی طرح اسے دیکھ کر تلاوت نہ کرسکتا ہو تو واجب ہے۔ کتابوں کا بھی یہی حکم ہے کہ اس کے کام کی ہیں تو قربانی واجب نہیں ورنہ ہے (عالمگیری)
مسئلہ ۱۳ :۔ ایک مکان جاڑے کے لئے اور ایک گرمی کے لئے یہ حاجت میں داخل ہے ان کے علاوہ اس کے پاس تیسرا مکان ہو جو حاجت سے زائد ہے اگر یہ دو سو درہم کا ہے تو قربانی واجب ہے اسی طرح گرمی جاڑے کے بچھونے حاجت میں داخل ہیں اور تیسرا بچھونا جو حاجت سے زائد ہے اس کا اعتبار ہوگا۔ غازی کے لئے دو گھوڑے حاجت میں ہیں تیسرا حاجت سے زائد ہے۔ اسلحہ غازی کی حاجت میں داخل ہیں ہاں اگر ہر قسم کے دو ہتھیار ہوں تو دوسرے کو حاجت سے زائد قرار دیا جائے گا۔ گائوں کے زمیندار کے پاس ایک گھوڑا حاجت میں داخل ہے اور دو ہوں تو دوسرے کو زائد مانا جائے گا۔ گھر میں پہننے کے کپڑے اور کام کاج کے وقت پہننے کے کپڑے اور جمعہ و عید اور دوسرے موقعوں پر پہن کر جانے کے کپڑے یہ سب حاجت میں داخل ہیں اور ان تین کے سوا چوتھا جوڑا اگر دو سو درہم کا ہے تو قربانی واجب ہے (عالمگیری ،ردالمحتار)
مسئلہ ۱۴ :۔ بالغ لڑکوں یا بی بی کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے تو ان سے اجازت حاصل کرے بغیر ان کے کہے اگر کر دی تو ان کی طرف سے واجب الاد نہ ہو اور نابالغ کی طرف سے اگرچہ واجب نہیں ہے مگر کر دینا بہتر ہے (عالمگیری)
مسئلہ ۱۵ :۔ قربانی کا حکم یہ ہے کہ اس کے ذمہ جو قربانی واجب ہے کر لینے سے بری الذمہ ہوگیا اور اچھی نیت سے کی ہے ریا وغیرہ کی مداخلت نہیں تو اللہ کے فضل سے امید ہے کہ آخرت میں اس کا ثواب ملے (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۱۶ :۔ یہ ضروری نہیں کہ دسویں ہی کو قربانی کر ڈالے اس کے لئے گنجائش ہے کہ پورے وقت میں جب چاہے کرے لہذا اگر ابتدائے وقت میں اس کا اہل نہ تھا وجوب کے شرائط نہیں پائے جاتے تھے اور آخر وقت میں اہل ہوگیا یعنی وجوب کے شرائط پائے گئے تو اس پر واجب ہوگئی اور اگر ابتدائے وقت میں واجب تھی اور ابھی کی نہیں اور آخر وقت میں شرائط جاتے رہے تو واجب نہ رہی (عالمگیری)
مسئلہ ۱۷ :۔ ایک شخص فقیر تھا مگر اس نے قربانی کر ڈالی اس کے بعد ابھی وقت قربانی کا باقی تھا کہ غنی ہوگیا تو اس کو پھر قربانی کرنی چاہئے کہ پہلے جو کی تھی وہ واجب نہ تھی اور اب واجب ہے بعض علماء نے فرمایا کہ وہ پہلی قربانی کافی ہے اور اگر باوجود مالک نصاب ہونے کے اس نے قربانی نہ کی اور وقت ختم ہونے کے بعد فقیر ہوگیا تو اس پر بکری کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے یعنی وقت گزرنے کے بعد قربانی ساقط نہیں ہوگی۔ اور اگر مالک نصاب بغیر قربانی کئے ہوئے انھیں دنوں میں مرگیا تو اس کی قربانی ساقط ہوگئی (عالمگیری، درمختار)
مسئلہ ۱۸ :۔ قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی مثلاً بجائے قربانی اس نے بکری یا اس کی قیمت صدقہ کر دی یہ ناکافی ہے اس میں نیابت ہوسکتی ہے یعنی خود کرنا ضروری نہیں بلکہ دوسرے کو اجازت دے دی اس نے کر دی یہ ہوسکتا ہے (عالمگیری)
مسئلہ ۱۹ :۔ جب قربانی کے شرائط مذکورہ پائے جائیں تو بکری کا ذبح کرنا یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ واجب ہے۔ ساتویں حصہ سے کم نہیں ہوسکتا بلکہ اونٹ یا گائے کے شرکاء میں اگر کسی شریک کا ساتویں حصہ سے کم ہے تو کسی کی قربانی نہیں ہوئی یعنی جس کا ساتواں حصہ یا اس سے زیادہ ہے اس کی بھی قربانی نہیں ہوئی۔ گائے یا اونٹ میں ساتویں حصہ سے زیادہ کی قربانی ہوسکتی ہے۔ مثلا گائے کو چھ یا پانچ یا چار شخصوں کی طرف سے قربانی کریں ہوسکتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ سب شرکاء کے حصے برابر ہوں بلکہ کم و بیش بھی ہوسکتے ہیں ہاں یہ ضروری ہے کہ جس کا حصہ کم ہے تو ساتویں حصہ سے کم نہ ہو (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۰ :۔ سات شخصوں نے پانچ گایوں کی قربانی کی یہ جائز ہے کہ ہر گائے میں ہر شخص کا ساتواں حصہ ہوا اور آٹھ شخصوں نے پانچ یا چھ گایوں میں بحصہ مساوی شرکت کی یہ ناجائز ہے کہ ہر گائے میں ہر ایک کا ساتویں حصہ سے کم ہے۔ سات بکریوں کی سات شخصوں نے شریک ہو کر قربانی کی یعنی ہر ایک کا ہر بکری میں ساتواں حصہ ہے استحساناً قربانی ہو جائے گی یعنی ہر ایک کی ایک ایک بکری پوری قرار دی جائے گی یونہی دو شخصوں نے دو بکریوں میں شرکت کر کے قربانی کی تو بطور استحسان ہر ایک کی قربانی ہو جائے گی۔
مسئلہ ۲۱ :۔ شرکت میں گائے کی قربانی ہوئی تو ضروری ہے کہ گوشت وزن کر کے تقسیم کیا جائے اندازہ سے تقسیم نہ ہو کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ کسی کو زاید یا کم ملے اور یہ ناجائز ہے یہاں یہ خیال نہ کیا جائے کہ کم و بیش ہوگا تو ہر ایک اس کو دوسرے کے لئے جائز کر دے گا کہہ دے گا کہ اگر کسی کو زائد پہنچا گیا ہے تو معاف کیا کہ یہاں عدم جواز حق شرع ہے اور ان کو اس کے معاف کرنے کا حق نہیں ۔ (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۲ :۔ قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن دو راتیں اور ان دنوں کو ایام نحر کہتے ہیں اور گیارہ سے تیرہ تک تین دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں لہذا بیچ کے دو دن ایام نحر و ایام تشریق دونوں ہیں اور پہلا دن یعنی دسویں ذی الحجہ صرف یوم النحر ہے اور پچھلا دن یعنی تیرہویں ذی الحجہ صرف یوم التشریق ہے (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۲۳ :۔ دسویں کے بعد کی دونوں راتیں ایام نحر میں داخل ہیں ان میں بھی قربانی ہوسکتی ہے مگر رات میں ذبح کرنا مکروہ ہے (عالمگیری)
مسئلہ ۲۴ :۔ پہلا دن یعنی دسویں تاریخ سب سے افضل ہے پھر گیارہویں اور پچھلا دن یعنی بارہویں سب میں کم درجہ ہے اور اگر تاریخوں میں شک ہو یعنی تیس کا چاند مانا گیا ہے اور انتیس کے ہونے کا بھی شبہہ ہے مثلاً گمان تھا کہ انتیس کا چاند ہوگا مگر ابر وغیرہ کی وجہ سے نہ دکھایا شہادتیں گزریں مگر کسی وجہ سے قبول نہ ہوئیں ایسی حالت میں دسویں کے متعلق یہ شبہہ ہے کہ شاید آج گیارہویں ہو تو بہتر یہ ہے کہ قربانی کو بارہویں تک موخر نہ کرے یعنی بارہویں سے پہلے کر ڈالے کیوں کہ بارہویں کے متعلق تیرہویں تاریخ ہونے کا شبہہ ہوگا تو یہ شبہہ ہوگا کہ وقت سے بعد میں ہوئی اور اس صورت میں اگر بارہویں کو قربانی کی جس کے متعلق تیرہویں ہونے کا شبہہ ہے تو بہتر یہ ہے کہ سارا گوشت صدقہ کر ڈالے بلکہ ذبح کی ہوئی بکری اور زندہ بکری میں قیمت کا تفاوت ہو کہ زندہ کی قیمت کچھ زائد ہو تو اس زیادتی کو بھی صدقہ کر دے (عالمگیری)
مسئلہ ۲۵ :۔ ایام نحر میں قربانی کرنا اتنی قیمت کے صدقہ کرنے سے افضل ہے کیوں کہ قربانی واجب ہے یا سنت اور صدقہ کرنا تطوع محض ہے لہذا قربانی افضل ہوئی (عالمگیری) اور وجوب کی صورت میں بغیر قربانی کئے عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔
مسئلہ ۲۶ :۔ شہر میں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز ہوچکے لہذا نماز عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہوسکتی اور دیہات میں چونکہ نماز عید نہیں ہے یہاں طلوع فجر کے بعد سے ہی قربانی ہوسکتی ہے اور دیہات میں بہتر یہ ہے کہ بعد طلوع آفتاب قربانی کی جائے اور شہر میں بہتر یہ ہے کہ عید کا خطبہ ہوچکنے کے بعد قربانی کی جائے (عالمگیری) یعنی نماز ہوچکی ہے اور ابھی خطبہ نہیں ہوا ہے اس صورت میں قربانی ہو جائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے۔
مسئلہ ۲۷ :۔ یہ جو شہر و دیہات کا فرق بتایا گیا یہ مقام قربانی کے لحاظ سے ہے قربانی کرنے والے کے اعتبار سے نہیں یعنی دیہات میں قربانی ہو تو وہ وقت ہے اگرچہ قربانی کرنے والا شہر میں ہو اور شہر میں ہو تو نماز کے بعد ہو اگرچہ جس کی طرف سے قربانی ہے وہ دیہات میں ہو لہذا شہری آدمی اگر یہ چاہتا ہے کہ صبح ہی نماز سے پہلے قربانی ہو جائے تو جانور دیہات میں بھیج دے۔ (درمختار)
مسئلہ ۲۸ :۔ اگر شہر میں متعدد جگہ عید کی نماز ہوتی ہو تو پہلی جگہ نماز ہوچکنے کے بعد قربانی جائز ہے یعنی یہ ضروری نہیں کہ عیدگاہ میں نماز ہو جائے جب ہی قربانی کی جائے بلکہ کسی مسجد میں ہوگئی اور عیدگاہ میں نہ ہوئی جب بھی ہوسکتی ہے (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۹ :۔ دسویں کو اگر عید کی نماز نہیں ہوئی تو قربانی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وقت نماز جاتا رہے یعنی زوال کا وقت آجائے اب قربانی ہوسکتی ہے اور دوسرے یا تیسرے دن نماز عید سے قبل ہوسکتی ہے (درمختار)
مسئلہ ۳۰ :۔ منی میں چونکہ عید کی نماز نہیں ہوتی لہذا وہاں جو قربانی کرنا چاہے طلوع فجر کے بعد سے کرسکتا ہے اس کے لئے وہی حکم ہے جو دیہات کا ہے کسی شہر میں اگر فتنہ کی وجہ سے نماز عید نہ ہو تو وہاں دسویں کی طلوع فجر کے بعد قربانی ہوسکتی ہے (درمختار، ردالمحتار)
مسئلہ ۳۱ :۔ امام ابھی نماز ہی میں ہے اور کسی نے جانور ذبح کر لیا اگرچہ امام قعدہ میں ہو اور بقدر تشہد بیٹھ چکا ہو مگر ابھی سلام نہ پھیرا ہو تو قربانی نہیں ہوئی اور اگر امام نے ایک طرف سلام پھیر لیا دوسری طرف باقی تھا کہ اس نے ذبح کر دیا قربانی ہوگئی اور بہتر یہ ہے کہ خطبہ سے جب امام فارغ ہو جائے اس وقت قربانی کی جائے (عالمگیری)
مسئلہ ۳۲ :۔ امام نے نماز پڑھ لی اس کے بعد قربانی ہوئی پھر معلوم ہوا کہ امام نے بغیر وضو نماز پڑھا دی تو نماز کا اعادہ کیا جائے قربانی کے اعادہ کی ضرورت نہیں (درمختار)
مسئلہ ۳۳ :۔ یہ گمان تھا کہ آج عرفہ کا دن ہے اور کسی نے زوال آفتاب کے بعد قربانی کر لی پھر معلوم ہوا کہ عرفہ کا دن نہ تھا بلکہ دسویں تاریخ تھی تو قربانی جائز ہوگئی۔ یونہی اگر دسویں کو نماز عید سے پہلے قربانی کر لی پھر معلوم ہوا کہ وہ دسویں نہ تھی بلکہ گیارہویں تھی تو اس کی بھی قربانی جائز ہوگئی (عالمگیری)
مسئلہ ۳۴ :۔ نویں کے متعلق کچھ لوگوں نے گواہی دی کہ دسویں ہے اس بناء پر اسی روز نماز پڑھ کر قربانی کی پھر معلوم ہوا کہ گواہی غلط تھی وہ نویں تاریخ تھی تو نماز بھی ہوگئی اور قربانی بھی (درمختار)
مسئلہ ۳۵ :۔ ایام نحر گزر گئے اور جس پر قربانی واجب تھی اس نے نہیں کی ہے تو قربانی فوت ہوگئی اب نہیں ہوسکتی پھر اگر اس نے قربانی کا جانور معین کر رکھا ہے مثلاً معین جانور کے قربانی کی منت مان لی ہے وہ شخص غنی ہو یا فقیر بہرصورت اسی معین جانور کو زندہ صدقہ کرے اور اگر ذبح کر ڈالا تو سارا گوشت صدقہ کرے اس میں سے کچھ نہ کھائے اور اگر کچھ کھا لیا ہے تو جتنا کھایا ہے اس کی قیمت صدقہ کرے اور اگر ذبح کئے ہوئے جانور کی قیمت زندہ جانور سے کچھ کم ہے تو جتنی کم ہے اسے بھی صدقہ کرے اور فقیر نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا ہے اور قربانی کے دن نکل گئے چونکہ اس پر بھی اسی معین جانور کی قربانی واجب ہے لہذا اس جانور کو زندہ صدقہ کر دے اور اگر ذبح کر ڈالا تو وہی حکم ہے جو منت میں مذکور ہوا۔ یہ حکم اسی صورت میں ہے کہ قربانی ہی کے لئے خریدا ہو اور اگر اس کے پاس پہلے سے کوئی جانور تھا اور اس نے اس کے قربانی کرنے کی نیت کر لی یا خریدنے کے بعد قربانی کی نیت کی تو اس پر قربانی واجب نہ ہوئی ۔ اور غنی نے قربانی کے لئے جانور خرید لیا ہے تو وہی جانور صدقہ کر دے اور ذبح کر ڈالا تو وہی حکم ہے جو مذکور ہوا اور خریدا نہ ہو تو بکری کی قیمت صدقہ کرے (درمختار، ردالمحتار، عالمگیری)
مسئلہ ۳۶ :۔ قربانی کے دن گزر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی اور جانور یا اس کی قیمت کو صدقہ بھی نہیں کیا یہاں تک کہ دوسری بقر عید آگئی اب یہ چاہتا ہے کہ سال گزشتہ کی قربانی کی قضا اس سال کر لے یہ نہیں ہوسکتا بلکہ اب بھی وہی حکم ہے کہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرے (عالمگیری)
مسئلہ ۳۷ :۔ جس جانور کی قربانی واجب تھی ایام نحر گزرنے کے بعد اسے بیچ ڈالا تو ثمن کا صدقہ کرنا واجب ہے (عالمگیری)
مسئلہ ۳۸ :۔ کسی شخص نے یہ وصیت کی کہ اس کی طرف سے قربانی کر دی جائے اور یہ نہیں بتایا کہ گائے یا بکری کس جانور کی قربانی کی جائے اور نہ قیمت بیان کی کہ اتنے کا جانور خرید کر قربانی کی جائے یہ وصیت جائز ہے اور بکری قربان کر دینے سے وصیت پوری ہوگئی اور اگر کسی کو وکیل کیا کہ میری طرف سے قربانی کر دینا اور گائے یا بکری کا تعین نہ کیا اور قیمت بھی بیان نہیں کی تو یہ توکیل صحیح نہیں (عالمگیری)
مسئلہ ۳۹ :۔ قربانی کی منت مانی اور یہ معین نہیں کیا کہ گائے کی قربانی کرے گا یا بکری کی تو منت صحیح ہے بکری کی قربانی کر دینا کافی ہے اور اگر بکری کی قربانی کی منت مانی تو اونٹ یا گائے قربانی کر دینے سے بھی منت پوری ہو جائے گی منت کی قربانی میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ سارا گوشت وغیرہ صدقہ کر دے اور کچھ کھا لیا تو جتنا کھایا اس کی قیمت صدقہ کرے (عالمگیری)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔